جب تک بائع اور مشتری (سودا کرنے کے بعد ) جدا نہ ہوں انہیں اس مجلس میں (بیع فسخ کرنے کا ) اختیار ہے
➊ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
البيعان بالخيار ما لم يتفرقا
”دو بیع کرنے والوں کو اختیار ہے جب تک کہ وہ جدا نہ ہوں۔“
[بخاري: 2079 ، كتاب البيوع: باب إذا بين البيعان ولم يكتما ونصحا ، مسلم: 1533 ، ابو داود: 3500 ، نسائي: 4474 ، موطا: 685/2]
➋ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
المتبايعان كل واحد منهما بالخيار على صاحبه ما لم يتفرقا إلا بيع الخيار
”دو خرید و فروخت کرنے والوں میں سے ہر ایک کو اپنے ساتھی پر اختیار ہے جب تک کہ وہ جدا نہ ہو جائیں اِلا کہ سودا اختیار والا ہو ۔“
[بخاري: 2107 ، كتاب البيوع: باب كم يجوز الخيار ، مسلم: 1531 ، مؤطا: 671/2 ، ابو داود: 3454 ، ترمذي: 1245 ، شرح معاني الآثار: 12/4]
بیع خیار کا معنی یہ ہے کہ بائع نے مشتری کو اختیار دیا ہو یا مشتری نے اختیار کی شرط لگائی ہو۔ ایسی صورت میں جدائی کے بعد بھی اختیار باقی رہے گا جب تک مقررہ مدت پوری نہ ہو جائے۔
◈ حدیث میں موجود تفرق (جدائی) سے مراد تفرق بالا بدان ہے یا تفرق بالا قوال یعنی دونوں کا جسمانی طور پر جدا ہونا مراد ہے یا محض بات ختم ہونے پر ہی اختیار ختم ہو جائے گا اس میں اختلاف ہے۔
تفرق بالابدان کے قائل حضرات یہ ہیں:
حضرت ابو برزہ اسلمی ، حضرت ابن عمر ، حضرت ابن عباس ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم ، امام شریح ، امام شعبی ، امام طاؤس ، امام عطا ، سعید بن مسیّب ، امام زہری ، امام اوزاعی اور حسن بصری رحمہم اللہ اجمعین وغیرہ۔
امام ابن حزمؒ نے مبالغہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ تابعین میں اکیلے امام نخعیؒ کے سوا کوئی اس کا مخالف نہیں ہے۔
امام شافعی ، امام احمد ، امام اسحاق اور امام ابو ثور رحمہم اللہ بھی اسی کے قائل ہیں ۔ (ان کا کہنا ہے کہ بائع اور مشتری بیع کا معاملہ طے کرنے کے بعد جب تک ایک مجلس میں رہیں انہیں فسخ کا اختیار ہے )۔
تفرق بالا قوال کے قائل حضرات یہ ہیں:
احناف ، مالکیہ (سوائے ابن حبیب کے ) اور ابراہیم نخعیؒ (یہ کہتے ہیں کہ بائع اور مشتری کے درمیان بات مکمل ہوتے ہی اختیار ختم ہو جائے گا اگرچہ وہ ابھی ایک ہی مجلس میں ہوں ) ۔
[بخاري: كتاب البيوع: باب البيعان بالخيار ما لم يتفرقا ، ترمذي كتاب البيوع: باب ما جآء البيعان بالخيار مالم يتفرقا ، ابن أبى شيبة: 22574 ، فتح البارى: 57/5 ، تحفة الأحوذى: 513/4 ، المغنى: 10/6 ، بداية المجتهد: 140/2 ، الأم: 4/3 – 5 ، الحاوى: 22/5 ، المبسوط: 17/13]
(راجح) بلا تامل پہلا موقف راجح ہے کیونکہ واضح نص کا مفہوم یہی ہے۔
(ابن حجرؒ ) صحابہ میں ان دونوں (ابن عمر رضی اللہ عنہما اور ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ ) کا کوئی بھی مخالف معروف نہیں ہے ۔ احناف میں سے صاحب التعليق الممجد نے بھی اسی کا اعتراف کرتے ہوئے احناف کے تمام دلائل کا رد کیا ہے۔
[فتح البارى: 57/5 ، تحفة الأحوذى: 514/4 ، نيل الأوطار: 561/3]