تالیف: ڈاکٹر رضا عبداللہ پاشا حفظ اللہ
231۔ کیا یہ سچ ہے کہ تمام انبیاء پر جنوں اور جادو کی تہمت لگائی گئی تھی ؟
جواب :
جی ہاں یہ سچ ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
كَذَٰلِكَ مَا أَتَى الَّذِينَ مِن قَبْلِهِم مِّن رَّسُولٍ إِلَّا قَالُوا سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ ﴿٥٢﴾
”اسی طرح ان لوگوں کے پاس جو ان سے پہلے تھے کوئی رسول نہیں آیا مگر انھوں نے کہا یہ جادوگر ہے، یا دیوانہ۔“ [الذاریات: 52]
اللہ تعالی اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جیسے یہ مشرک کہہ رہے ہیں، اسی طرح ان سے پہلے اپنے رسولوں کو جھٹلانے والے لوگوں نے بھی کہا تھا : كَذَٰلِكَ مَا أَتَى الَّذِينَ مِن قَبْلِهِم مِّن رَّسُولٍ إِلَّا قَالُوا سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ ﴿٥٢﴾
——————
232۔ کیا چاند کا پھٹنا جادو سے تھا ؟
جواب :
ارشاد الہٰی ہے:
وَإِن يَرَوْا آيَةً يُعْرِضُوا وَيَقُولُوا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ ﴿٢﴾
اور اگر وہ کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ (یہ) ایک جادو ہے جو گزر جانے والا ہے۔“ [القمر:2 ]
ہجرت سے قبل چاند دو ٹکڑے ہو گیا۔ مشرکین کہنے لگے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند پر جادو کیا ہے۔ وہی جادو جو وہ تم پر کرتا ہے۔
وَإِن يَرَوْا آيَةً یعنی اگر وہ کوئی دلیل، جمت اور برہان دیکھ لیں۔
يُعْرِضُوا یعنی وہ اس کے سامنے سر نہ جھکائیں گے، بلکہ اس سے اعراض کریں گے اور اسے اپنی پشتوں کے پیچھے ڈالیں گے۔
وَيَقُولُوا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ یعنی وہ کہتے ہیں، یہ چیز جس کا ہم نے مشاہد ہ کیا، اس جادو کا حصہ ہے، جو اس نے ہم پر کیا ہے اور مُّسْتَمِرٌّ کا معنی ذاهب، یعنی باطل ہے، جسے کوئی دوام نہیں ہوتا۔
——————
233۔ مجھے ایک جادوگر نے بتایا ہے کہ اس کا جادو سمندر میں ہے۔ پھر میں اسے کیسے زائل کروں ؟
جواب :
جادو کے دو کنارے ہوتے ہیں :
پہلا کنارہ : مسحور کے جسم میں ہوتا ہے۔ خواہ اس نے اس جادو شدہ چیز کو کھایا ہو یا پیا ہو یا اس پر چلا ہو یا کسی جن کے ذریعے ہو۔
دوسرا کنارہ: سمندر میں، فضا میں خشکی میں، زمین میں کسی درخت میں مدفون یا مچھلی میں ہوتا ہے، پس یہ ساری چیزیں مجھے پریشان نہیں کر سکتیں۔
پہلا کنارہ زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اگر اس کا علاج ہو جائے تو سبھی مشکلیں آسان ہو جاتی ہیں، لیکن دوسرا کنارہ مجھے غمزدہ نہیں کرتا اور نہ میں اس کے ساتھ مشغول ہوتا ہوں، اس لیے کہ یہ جادوگروں کے راستے ہیں، تاکہ وہ باطل کے ساتھ لوگوں کے مال حاصل کر سکیں۔
——————
234۔ کیا یہ بات درست ہے کہ سب سے افضل دم سورۃ الفاتحہ ہے ؟
جواب :
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ ﴿١﴾ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٢﴾ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ ﴿٣﴾ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ﴿٤﴾ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ﴿٥﴾ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿٦﴾ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾
سب تعریف اللہ کے لیے ہے، جو سارے جہانوں کا پالنے والا ہے۔ بےحد رحم والا، نہایت مہربان ہے۔ بدلے کے دن کا مالک ہے۔ ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ سے مدد مانگتے ہیں۔ ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔ ان لوگوں کے راستے پر جن پر تو نے انعام کیا، جن پر نہ غصہ کیا گیا اور نہ وہ گمراہ ہیں۔“ [ الفاتحة: 1-7]
صحیحین میں ہے، سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی کچھ نفری ایک سفر میں نکلی، یہاں تک کہ وہ عرب کے قبائل میں سے ایک قبیلے کے ہاں ٹھہرے، پھر ان سے حق مہمانی کا مطالبہ کیا، لیکن انھوں نے انکار کر دیا۔ خدا کا کرنا کہ قبیلے کے سردار کو سانپ نے ڈس دیا۔ قبیلے والوں نے لاکھ جتن کیے، مگر سردار کو آرام نہ آیا۔ پھر ان میں سے کسی نے کہا: اگر تم ان لوگوں کے پاس جاؤ، جو یہاں اترے ہیں، شاید ان میں سے کسی کے پاس کوئی چیز ہو؟ پھر وہ ان کے پاس آئے اور کہنے لگے: قافلے والو! ہمارے سردار کو کسی چیز نے ڈس لیا ہے، ہم نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ اس کو آرام آ جائے، لیکن بے سود، کیا تم میں سے کسی کے پاس کوئی چیز ہے؟ (جو اس پر موثر ہو) ان میں سے ایک نے کہا: ہاں، اللہ کی قسم میں دم کرتا ہوں، لیکن اللہ کی قسم! ہم نے تم سے حق ضیافت طلب کیا، لیکن تم نے ہماری ضیافت نہیں کی، اب میں تمھارے لیے اس وقت تک دم نہیں کروں گا، حتی کہ تم ہمارے لیے کوئی عوضانہ مقرر کرو۔ انھوں نے ان سے بکریوں کے ایک ریوڑ پر مصالحت کی۔
پھر وہ صحابی گئے اور اس پر الحمد لله رب العليين پڑھ کر تھتکارا، تو وہ ایسے ہو گیا، جیسے رسیوں سے آزاد کیا گیا ہو اور ایسے چلنے گا، جیسے اسے کوئی بیماری ہے ہی نہیں۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: انھوں نے وہ عوضانہ پورا ادا کیا، جس پر انھوں نے مصالحت کی تھی۔ کچھ لوگوں نے کہا: اسے تقسیم کر لو، لیکن دم کرنے والے نے کہا: ایسے نہ کرو۔ ہم نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم کے پاس جائیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس معاملے کا ذکر کریں گے، پھر ہم دیکھیں گے کہ وہ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں۔ پھر وہ نبی کریم کے پاس آئے اور آپ کے سامنے بات چیت ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وما يدريك أنها رقية ؟ ثم قال: قد أصبتم، أقسموا واضربوا لي معكم سهما فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم
تجھے کیسے پتا چلا کہ وہ دم ہے؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے درست کیا ہے، ان بکریوں کو تقسیم کر لو اور اپنے ساتھ میرا حصہ بھی رکھنا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے۔“ [ صحيح البخاري، رقم الحديث 2156 كتاب الإجاره، رقم الحديث 16 صحيح مسلم، رقم الحديث 2201 ]
ایک روایت میں ہے کہ انھوں نے وہ سورت سات بار یا تین بار پڑھی تھی۔ دم میں تھوکنے کا محل قراءت کے بعد ہے، تا کہ ان اعضا میں قراءت کی برکت حاصل ہو جائے، جن پر وہ گزرتا ہے۔ [ نيل الأوطار 290/5/2]
فاتحہ درج ذیل مضامین کو متضمن ہے، عبادت کا خالص کرنا، اللہ کی تعریف کرنا، تمام کام اس کے سپرد کرنا، اس پر توکل کرنا، اس سے جامع کلمات میں سوال کرنا اور ان تمام باتوں کا مجموعہ وہ ہدایت ہے، جو تمام نعمتوں کے حصول اور تمام بیماریوں سے دوری کا سبب ہے۔ سورة الفاتحہ تمام ادویات میں سے بڑی دوا، شفا کا موجب اور کفایت کرنے والی ہے۔
——————
235۔ کیا جادو کی تمام انواع کو باطل کرنے کے لیے، قرآن کی کوئی سورت ہے ؟
جواب :
ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
اقرءوا القرآن فإنه يأتي يوم القيامة شفيعا لأصحابه، اقروا الزهراوين البقرة وسورة آل عمران فإنهما تأتيان يوم القيامة، كأنهما غمامتان أو كانهما غيايتان أو كأنهما فرقان من طير صواف، تحاجان عن أصحابهما، اقرءوا سورة البقرة، فإن أخذها بركة، وتركها حسرة، ولا تستطيعها البطلة
قرآن پڑھا کرو، بلاشبہ وہ قیامت کے دن اپنے ساتھیوں کے لیے سفارشی بن کر آئے گا۔ سورة البقرہ اور سورة آل عمران دو روشنیوں کو پڑھا کرو، اس لیے کہ وہ قیامت کے دن دو بادلوں، یا دو پردوں، یا صف بستہ پرندوں کے دو گروہوں کی صورت میں آئیں گی اور اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے جهگڑ یں گی۔ بلاشبہ اس کا پكڑنا ( عمل کرنا) برکت اور اس کا چھوڑ دینا حسرت ہے اور باطل پرست اس کی طاقت نہیں رکھتے۔ [صحيح البخاري، رقم الحديث5130]
معاویہ نے کہا: مجھے یہ بات پہنچي ہے کہ البطلة سے مراد جادوگر ہیں۔
مفسرین نے کہا: سورة البقرہ اور آل عمران کا نام الزهراوين ان کے نور، ان کی ہدایت اور ان کے عظیم اجر کی وجہ سے ہے۔
——————
236۔ کھجور اور جادو میں کیا تعلق ہے ؟
جواب :
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :
من تصبح سبع تمرات لم يضره ذلك اليوم سم ولا سحر
”جس نے صبح کے وقت (نہار منہ) سات کھجوریں کھائیں، اسے اس دن کوئی زہر اور کوئی جادو نقصان نہ دے گا۔ “ [صحيح البخاري، رقم الحديث 5130]
صحیح بخاری کی ایک روایت میں إلى اليل ” رات تک“ کے لفظ ہیں اور صحیح مسلم کی ایک روایت میں عامر بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے سعد رضی اللہ عنہ کو سنا، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
من أكل سبع تمرات ما بين لابتيها حين يصبح كم يضره سم حتى يمسي
”جس نے مدینے کی دو پہاڑیوں کے درمیان کی سات کھجوریں صبح کے وقت کھالیں، اسے شام تک کوئی نہ نقصان نہ دے گا۔ “ [صحيح المسلم، رقم الحديث 2047]
ان احادیث میں مدینے کی عجوہ کھجور اور دوسری کھجور کو مخصوص کیا گیا ہے۔ مدینے کے علاوہ ہیں۔ بعض علما نے کہا ہے ”کوئی بھی کھجور ہو۔“ والله أعلم.
——————
237۔ میں جادو کا مریض ہوں، ایک عرصے سے علاج کروا رہا ہوں، لیکن ابھی تک شفا نہیں ہوئی، مجھے کیا کرنا چاہیے ؟
جواب :
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ ﴿٢﴾
کیا لوگوں نے گمان کیا ہے کہ وہ اسی چیز پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ کہہ دیں ہم ایمان لائے اور ان کی آزمائش نہ کی جائے گی۔ [العنكبوت: 1 ]
یہ ایک اللہ تعالیٰ کی آزمائش ہے، اس پر صبر کرنا چاہیے، مگر ساتھ ساتھ علاج بھی جاری رکھیں، یہاں تک کہ علاج کا کوئی فائدہ حاصل ہو۔
دوسرے مقام پر الله تعالیٰ نے فرمایا:
وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ ﴿١٥٥﴾
”اور یقیناً ہم تمھیں خوف اور بھوک اور بالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی میں سے کسی نہ کسی چیز کے ساتھ ضرور آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دے۔ “ [البقرة: 155 ]
تجھے درج ذیل کام کرنے چاہیں :
➊ قضاے الہی کے ساتھ راضی ہونا ضروری ہے۔ کئی مریض ایسے ہوتے ہیں جو کہتے ہیں، میں ہوں ہی اسی لائق جب کہ یہ درست نہیں۔ آزمائش ہٹائی نہیں جاتی حتی کہ بندہ اس سے راضی ہو جائے۔
➋ صبر کرنا، اگر لوگوں کو علم ہو جائے کہ آزمائش میں کیا بھلائی ہے تو اللہ کا یہ فرمان ہی کافی ہے۔
وَاللَّهُ يُحِبُّ الصَّابِرِينَ ﴿١٤٦﴾
”اور اللہ صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ “ [آل عمران: 146]
➌ اكل حلال، اپنی غذا حلال کر لو تمھاری دعا قبول ہو گی۔
➍ لوگوں کے حقوق و اموال ان کی طرف لوٹانا۔
➎ سود سے دور رہنا۔
➏ تمام گناہوں سے توبہ کرنا۔
——————
238۔ آیات شفا کون سی ہیں ؟
جواب :
وہ آیات درج ذیل ہیں:
➊ قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِينَ ﴿١٤﴾
”ان سے لڑو، اللہ انھیں تمھارے ہاتھوں سے عذاب دے گا اور انھیں رسوا کرے گا اور ان کے خلاف تمھاری مدد کرے گا اور مومن لوگوں کے سینوں کو شفا دے گا۔“ [التوبة: 14]
➋ وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ ﴿٨٠﴾
”اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔“ [ الشعرآء: 80 ]
➌ يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِّمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ ﴿٥٧﴾
”اے لوگو! بے شک تمھارے رب کی طرف سے عظیم نصیحت اور اس کے لیے سراسر ہدایت اور رحمت آئی ہے۔“ [ يونس: 57 ]
➍ ثُمَّ كُلِي مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا ۚ يَخْرُجُ مِن بُطُونِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ فِيهِ شِفَاءٌ لِّلنَّاسِ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ﴿٦٩﴾
”پھر ہر قسم کے پھلوں سے کھا، پھر اپنے رب کے راستوں پر چل جو مسخر کیے ہوئے ہیں۔ ان کے پیٹوں سے پینے کی ایک چیز نکلتی ہے، جس کے رنگ مختلف ہیں، اس میں لوگوں کے لیے ایک قسم کی شفا ہے۔ بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لیے یقینا ایک نشانی ہے جو غور و فکر کرتے ہیں۔ “ [النحل: 69 ]
➎ وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ ۙ وَلَا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلَّا خَسَارًا ﴿٨٢﴾
”اور ہم قرآن میں سے تھوڑا تھوڑا نازل کرتے ہیں، جو ایمان والوں کے لیے سراسر شفا اور رحمت ہے اور وہ ظالموں کو خسارے کے سوا کسی چیز میں زیادہ نہیں کرتا۔“ [الإسراء: 82]
➏ وَلَوْ جَعَلْنَاهُ قُرْآنًا أَعْجَمِيًّا لَّقَالُوا لَوْلَا فُصِّلَتْ آيَاتُهُ ۖ أَأَعْجَمِيٌّ وَعَرَبِيٌّ ۗ قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدًى وَشِفَاءٌ ۖ وَالَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ فِي آذَانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى ۚ أُولَٰئِكَ يُنَادَوْنَ مِن مَّكَانٍ بَعِيدٍ ﴿٤٤﴾
”اور اگر ہم اسے عجمی قرآن بنا دیتے تو یقیناً وہ کہتے اس کی آیات کھول کر کیوں نہ بیان کی گئیں؟ کیا عجمی زبان اور عربی (رسول)؟ کہہ دے، یہ ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے، ہدایت اور شفا ہے اور وہ لوگ جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں بوجھ ہے اور یہ ان کے حق میں اندھا ہونے کا باعث ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں بہت دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے۔“ [حم السجدة: 44]
——————
239۔ جادو کو باطل کرنے والی آیات کون سی ہیں ؟
جواب :
➊ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ ﴿١﴾ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٢﴾ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ ﴿٣﴾ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ﴿٤﴾ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ﴿٥﴾ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿٦﴾ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾
”سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو سارے جہانوں کا پالنے والا ہے۔ بے حد رحم والا، نہایت مہربان ہے۔ بدلے کے دن کا مالک ہے۔ ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ سے مدد مانگتے ہیں۔ ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔ ان لوگوں کے راستے پر جن پرتو نے انعام کیا، جن پر نہ غصہ کیا گیا اور نہ وہ گمراہ ہیں۔ ‘‘ [ الفاتحه 1-7 ]
➋ اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ۚ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ۚ لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۚ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ۖ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ۖ وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا ۚ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ ﴿٢٥٥﴾
”الله (وہ ہے کہ) اس کے سوا کوئی معبود نہیں، زندہ ہے، ہر چیز کو قائم رکھنے والا ہے، نہ اسے کچھ اونگھ پڑتی ہے اور نہ کوئی نیند، اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے کون ہے وہ جو ان کے پاس اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرے، جانتا ہے جو کچھ ان کے سامنے اور جو ان کے پیچھے ہے اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرتے مگر جتنا وہ چاہے۔ اس کی کرسی آسانوں اور زمین کو سمائے ہوئے ہے اور اسے ان دونوں کی حفاظت نہیں تھکاتی اور وہی سب سے بلندی سب سے بڑا ہے۔“ [البقرة: 255]
➌ وَجَاءَ السَّحَرَةُ فِرْعَوْنَ قَالُوا إِنَّ لَنَا لَأَجْرًا إِن كُنَّا نَحْنُ الْغَالِبِينَ ﴿١١٣﴾ قَالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ ﴿١١٤﴾ قَالُوا يَا مُوسَىٰ إِمَّا أَن تُلْقِيَ وَإِمَّا أَن نَّكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ ﴿١١٥﴾ قَالَ أَلْقُوا ۖ فَلَمَّا أَلْقَوْا سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ وَجَاءُوا بِسِحْرٍ عَظِيمٍ ﴿١١٦﴾ وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ أَنْ أَلْقِ عَصَاكَ ۖ فَإِذَا هِيَ تَلْقَفُ مَا يَأْفِكُونَ ﴿١١٧﴾ فَوَقَعَ الْحَقُّ وَبَطَلَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١١٨﴾ فَغُلِبُوا هُنَالِكَ وَانقَلَبُوا صَاغِرِينَ ﴿١١٩﴾ وَأُلْقِيَ السَّحَرَةُ سَاجِدِينَ ﴿١٢٠﴾ قَالُوا آمَنَّا بِرَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿١٢١﴾ رَبِّ مُوسَىٰ وَهَارُونَ ﴿١٢٢﴾
اور جادوگر فرعون کے پاس آئے، انھوں نے کہا یقیناً ہمارے لیے ضرور کچھ صلہ ہو گا، اگر ہم ہی غالب ہوئے۔ کہا : ہاں! اور یقیناً تم ضرور مقرب لوگوں سے ہو گے۔ انھوں نے کہا اے موسیٰ! یا تو تو پھینکے، یا ہم ہی پھینکنے والے ہوں۔ کہا تم پھینکو۔ تو جب انھوں نے پھینکا، لوگوں کی آنکھوں پر جادو کر دیا اور انھیں سخت خوف زدہ کر دیا اور وہ بہت بڑا جادو لے کر آئے۔ اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ اپنی لاٹھی پھینک، تو اچانک وہ ان چیزوں کو نگلنے لگی جو وہ جھوٹ موٹ بنا رہے تھے۔ پس حق ثابت ہو گیا اور باطل ہو گیا جو کچھ وہ کر رہے تھے۔ تو اس موقع پر وہ مغلوب ہو گئے اور ذلیل ہو کر واپس ہوئے۔ اور جادوگر سجدے میں گرا دیے گئے۔ انھوں نے کہا ہم جہانوں کے رب پر ایمان لائے۔ موسیٰ اور ہارون کے رب پر۔ [الأعراف: 113-122]
➍ قَالَ مُوسَىٰ أَتَقُولُونَ لِلْحَقِّ لَمَّا جَاءَكُمْ ۖ أَسِحْرٌ هَٰذَا وَلَا يُفْلِحُ السَّاحِرُونَ ﴿٧٧﴾ قَالُوا أَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا وَتَكُونَ لَكُمَا الْكِبْرِيَاءُ فِي الْأَرْضِ وَمَا نَحْنُ لَكُمَا بِمُؤْمِنِينَ ﴿٧٨﴾ وَقَالَ فِرْعَوْنُ ائْتُونِي بِكُلِّ سَاحِرٍ عَلِيمٍ ﴿٧٩﴾ فَلَمَّا جَاءَ السَّحَرَةُ قَالَ لَهُم مُّوسَىٰ أَلْقُوا مَا أَنتُم مُّلْقُونَ ﴿٨٠﴾ فَلَمَّا أَلْقَوْا قَالَ مُوسَىٰ مَا جِئْتُم بِهِ السِّحْرُ ۖ إِنَّ اللَّهَ سَيُبْطِلُهُ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِينَ ﴿٨١﴾ وَيُحِقُّ اللَّهُ الْحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُونَ ﴿٨٢﴾
”موسیٰ نے کہا: کیا تم حق کے بارے میں (یہ) کہتے ہو، جب وہ تمھارے پاس آیا، کیا جادو ہے ؟ حالانکہ جادوگر کامیاب نہیں ہوتے۔ انھوں نے کہا کیا تو ہمارے پاس اس لیے آیا ہے کہ میں اس راہ سے پھیر دے، جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے اور اس سرزمین میں تم دونوں ہی کو بڑائی مل جائے؟ اور ہم تم دونوں کو ہرگز ماننے والے نہیں۔ اور فرعون نے کہا میرے پاس ہر ماہر فن جادوگر لے کر آؤ۔ تو جب جادوگر آ گئے تو موسیٰ نے ان سے کہا: پھینکو جو کچھ تم پھینکنے والے ہو۔ تو جب انھوں نے پھینکا، موسیٰ نے کہا تم جو کچھ لائے ہو یہ تو جادو ہے، یقیناً اللہ اسے جلدي باطل کر دے گا۔ بے شک اللہ مفسدوں کا کام درست نہیں کرتا۔ اور اللہ ان کو اپنی باتوں کے ساتھ سچا کر دیتا ہے، خواہ مجرم برا ہی جانیں۔“ [يونس: 77-82]
➎ وَلَقَدْ أَرَيْنَاهُ آيَاتِنَا كُلَّهَا فَكَذَّبَ وَأَبَىٰ ﴿٥٦﴾ قَالَ أَجِئْتَنَا لِتُخْرِجَنَا مِنْ أَرْضِنَا بِسِحْرِكَ يَا مُوسَىٰ ﴿٥٧﴾ فَلَنَأْتِيَنَّكَ بِسِحْرٍ مِّثْلِهِ فَاجْعَلْ بَيْنَنَا وَبَيْنَكَ مَوْعِدًا لَّا نُخْلِفُهُ نَحْنُ وَلَا أَنتَ مَكَانًا سُوًى ﴿٥٨﴾ قَالَ مَوْعِدُكُمْ يَوْمُ الزِّينَةِ وَأَن يُحْشَرَ النَّاسُ ضُحًى ﴿٥٩﴾ فَتَوَلَّىٰ فِرْعَوْنُ فَجَمَعَ كَيْدَهُ ثُمَّ أَتَىٰ ﴿٦٠﴾ قَالَ لَهُم مُّوسَىٰ وَيْلَكُمْ لَا تَفْتَرُوا عَلَى اللَّهِ كَذِبًا فَيُسْحِتَكُم بِعَذَابٍ ۖ وَقَدْ خَابَ مَنِ افْتَرَىٰ ﴿٦١﴾ فَتَنَازَعُوا أَمْرَهُم بَيْنَهُمْ وَأَسَرُّوا النَّجْوَىٰ ﴿٦٢﴾ قَالُوا إِنْ هَٰذَانِ لَسَاحِرَانِ يُرِيدَانِ أَن يُخْرِجَاكُم مِّنْ أَرْضِكُم بِسِحْرِهِمَا وَيَذْهَبَا بِطَرِيقَتِكُمُ الْمُثْلَىٰ ﴿٦٣﴾ فَأَجْمِعُوا كَيْدَكُمْ ثُمَّ ائْتُوا صَفًّا ۚ وَقَدْ أَفْلَحَ الْيَوْمَ مَنِ اسْتَعْلَىٰ ﴿٦٤﴾ قَالُوا يَا مُوسَىٰ إِمَّا أَن تُلْقِيَ وَإِمَّا أَن نَّكُونَ أَوَّلَ مَنْ أَلْقَىٰ ﴿٦٥﴾ قَالَ بَلْ أَلْقُوا ۖ فَإِذَا حِبَالُهُمْ وَعِصِيُّهُمْ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِن سِحْرِهِمْ أَنَّهَا تَسْعَىٰ ﴿٦٦﴾ فَأَوْجَسَ فِي نَفْسِهِ خِيفَةً مُّوسَىٰ ﴿٦٧﴾ قُلْنَا لَا تَخَفْ إِنَّكَ أَنتَ الْأَعْلَىٰ ﴿٦٨﴾ وَأَلْقِ مَا فِي يَمِينِكَ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوا ۖ إِنَّمَا صَنَعُوا كَيْدُ سَاحِرٍ ۖ وَلَا يُفْلِحُ السَّاحِرُ حَيْثُ أَتَىٰ ﴿٦٩﴾ فَأُلْقِيَ السَّحَرَةُ سُجَّدًا قَالُوا آمَنَّا بِرَبِّ هَارُونَ وَمُوسَىٰ ﴿٧٠﴾ قَالَ آمَنتُمْ لَهُ قَبْلَ أَنْ آذَنَ لَكُمْ ۖ إِنَّهُ لَكَبِيرُكُمُ الَّذِي عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ ۖ فَلَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُم مِّنْ خِلَافٍ وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ فِي جُذُوعِ النَّخْلِ وَلَتَعْلَمُنَّ أَيُّنَا أَشَدُّ عَذَابًا وَأَبْقَىٰ ﴿٧١﴾ قَالُوا لَن نُّؤْثِرَكَ عَلَىٰ مَا جَاءَنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالَّذِي فَطَرَنَا ۖ فَاقْضِ مَا أَنتَ قَاضٍ ۖ إِنَّمَا تَقْضِي هَٰذِهِ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا ﴿٧٢﴾
”اور بلاشبہ يقيناً ہم نے اسے اپنی نشانياں سب كی سب دكهلائيں، پس اس نے جهٹلايا اور انكار كر ديا. كہا كيا تو ہمارے پاس اس ليے آيا ہے كہ ميں ہماری سرزمين سے اپنے جادو كے ذريعے نكال دے اے موسیٰ! . تو ہم بھی ہر صورت تيرے پاس اس جيسا جادو لائيں گے، پس تو ہمارے درميان اور اپنے درميان وعدے كا ايک وقت طے كر دے كہ نہ ہم اس كے خلاف كريں اور نہ تو ايسی جگہ ميں جو مساوی ہو. كہا تمھارے وعدے كا وقت زينت كا دن ہے اور يہ كہ لوگ دن چڑهے جمع كيے جائيں. پس فرعون لوٹا، پس اس نے اپنے داؤ پيچ جمع كيے، پهر آ گيا. موسیٰ نے ان سے كہا تمہاری بربادی ہو! الله پر كوئی جهوٹ نہ باندہنا، ورنہ وه تمہيں عذاب سے ہلاک كر دے گا اور يقيناً ناكام ہوا جس نے جهوٹ باندھا. تو وه اپنے معاملے ميں آپس ميں جهگڑ پڑے اور انهوں نے پوشيده سرگوشی كی. كہا بے شک يہ دونوں يقيناً جادوگر ہيں، چاہتے ہيں كہ تمهيں تمہاری سرزمين سے اپنے جادو كے ذريعے نكال ديں اور تمهارا وه طريقه لے جائيں جو سب سے اچھا ہے. سو تم اپنی تدبير پختہ كرو، پهر صف باندھ كر آ جاؤ اور يقيناً آج وه كامياب ہو گا جس نے غلبہ حاصل كر ليا. انهوں نے كہا : اے موسیٰ ! يا تو تو پهينكے، يا ہم ہی پهينكنے والے ہوں. كہا بلكہ تم پهينكو، تو اچانک ان كی رسياں اور ان كی لاٹهياں، اس كے خيال ميں ڈالا جاتا تها، ان كے جادو كی وجہ سے كہ واقعی وه دوڑ رہی ہيں . تو موسیٰ نے اپنے دل ميں ايک خوف محسوس كيا. ہم نے كہا خوف نہ كر، يقيناً تو ہی غالب ہے. اور پهينک جو تيرے دائيں ہاتھ ميں ہے، وه نگل جائے گا جو كچھ انهوں نے بنايا ہے، بے شک انهوں نے جو كچھ بنايا ہے، وه جادوگر كی چال ہے اور جادوگر كامياب نہيں ہوتا جہاں بھی آئے. تو جادوگر گرا ديے گئے، اس حال ميں كہ سجده كرنے والے تهے، انهوں نے كہا: ہم هارون اور موسیٰ كے رب پر ايمان لائے . كہا تم اس پر اس سے پہلے ايمان لے آئے كہ ميں تمهيں اجازت دوں، يقيناً يہ تو تمهارا بڑا ہے جس نے تمهيں جادو سكهايا ہے، پس يقينا ميں ہر صورت تمهارے ہاتھ اور تمهارے پاؤں مخالف سمت سے بری طرح كاٹوں گا اور ضرور ہر صورت ميں كهجور كے تنوں پر بری طرح سولی دوں گا اور يقيناً تم ضرور جان لو گے كہ ہم ميں سے كون عذاب دينے ميں زياده سخت اور زياده باقی رہنے والا ہے. انهوں نے كہا ہم تجهے ہرگز ترجيح نہ ديں گے ان واضح دلائل پر جو ہمارے پاس آئے ہيں اور اس پر جس نے ہميں پيدا كيا ہے، سو فيصلہ كر جو تو فيصلہ كرنے والا ہے، اس كے سوا كچھ نهيں كہ تو اس دنيا كی زندگی كا فيصله كرے گا. بے شک ہم اپنے رب پر اس ليے ايمان لائے ہیں كہ وه ہمارے ليے ہماری خطائيں بخش دے اور جادو كے وه كام بھی جن پر تو نے ہميں مجبور كيا ہے اور الله بہتر اور سب سے زياده باقی رہنے والا ہے. بے شک حقيقت يہ ہے كہ جو اپنے رب كے پاس مجرم بن كر آئے گا تو يقيناً اسی كے ليے جہنم ہے، نہ وه اس ميں مرے گا اور نه جيے گا اور جو اس كے پاس مومن بن كر آئے گا كہ اس نے اچهے اعمال كيے ہوں گے تو یہی لوگ ہيں جن كے ليے سب سے بلند درجے ہيں۔ ہميشگی كے باغات، جن كے نيچے سے نہريں بہتی ہيں، ان ميں ہميشہ رہنے والے اور يہ اس كی جزا ہے جو پاک ہوا. “ [طه: 56-72]
➏ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ ﴿١﴾ اللَّهُ الصَّمَدُ ﴿٢﴾ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ ﴿٣﴾ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ ﴿٤﴾
”کہہ دے وہ اللہ ایک ہے۔ اللہ ہی بے نیاز ہے۔ نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ وہ جنا گیا۔ اور نہ کبھی کوئی ایک اس کے برابر کا ہے۔“ [ الإخلاص: 1-4 ]
➐ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ﴿١﴾ مِن شَرِّ مَا خَلَقَ ﴿٢﴾ وَمِن شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ ﴿٣﴾ وَمِن شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ ﴿٤﴾ وَمِن شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ ﴿٥﴾
”تو کہہ میں مخلوق کے رب کی پناہ پکڑتا ہوں۔ اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کیا۔ اور اندھیری رات کے شر سے جب وہ چھا جائے۔ اور گرہوں میں پھونکنے والیوں کے شر سے۔ اور حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرے۔ “ [ الفلق: 1-5 ]
➑ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ ﴿١﴾ مَلِكِ النَّاسِ ﴿٢﴾ إِلَٰهِ النَّاسِ ﴿٣﴾ مِن شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ ﴿٤﴾ الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ ﴿٥﴾ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ ﴿٦﴾
”تو کہہ میں پناہ پکڑتا ہوں لوگوں کے رب سے۔ لوگوں کے بادشاہ کی۔ لوگوں کے معبود کی۔ وسوسہ ڈالنے والے کے شر سے، جو ہٹ ہٹ کر آنے والا ہے۔ وہ جو لوگوں کے سینوں میں وسوسہ ڈالتا ہے۔ جنوں اور انسانوں میں سے۔ “ [الناس: 1-5 ]
——————
240۔ ولید بن مغیرہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کیا کہا: تھا ؟
جواب :
اس کا جواب اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہے :
فَقَالَ إِنْ هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ يُؤْثَرُ ﴿٢٤﴾
”پھر اس نے کہا یہ جادو کے سوا کچھ نہیں، جو نقل کیا جاتا ہے۔ “ [المدثر: 24]
یعنی یہ ایسا جادو ہے، جسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سے قبل کے کسی بندے سے نقل کرتا اور اسے بیان کرتا ہے۔ اسی لیے اس نے کہا: إِنْ هَٰذَا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ ﴿٢٥﴾ یہ انسان کے قول کے سوا کچھ نہیں۔
یعنی یہ اللہ کا کلام نہیں، کسی بشر کا کلام ہے۔ مذکورہ آیت کے سیاق میں ولید بن مغیرہ مخزوی ہی کا تذکرہ ہے، جو لوگوں کے سامنے آیا اور کہنے لگا : محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو بات کرتے ہیں وہ بڑی تعجب آمیز ہے۔ پس اللہ کی قسم ! نہ وہ شعر ہے، نہ جادو اور نہ جنون کی غیر معقول باتیں، اس کا قول اللہ کا کلام ہے۔
پھر ابوجہل آیا اور اس نے ولید بن مغیرہ پر سختی کی کہ وہ اپنی بات کو بدلے، پھر ولید نے کہا کہ فَقَالَ إِنْ هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ يُؤْثَرُ یہ کلام دوسروں سے نقل کیا جاتا ہے۔
——————