تکبیر تحریمہ کے بعد دعائے استفتاح پڑھنا مسنون ہے
تحریر: عمران ایوب لاہوری

تکبیر تحریمہ کے بعد دعائے استفتاح پڑھنا

مختلف احادیث میں مختلف دعائیں منقول ہیں جن میں سے کسی ایک کا پڑھ لینا کفایت کر جاتا ہے البتہ ان میں سے سب سے زیادہ صحیح وہ دعا ہے جو صحیحین میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔ (یعنی مندرجہ ذیل پہلی دعا ) ۔
[تحفة الأحوذى: 59/2 ، نيل الأوطار: 11/2]
اللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتُ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ ، اللَّهُمْ نَقْنِي مِنْ خَطَايَايَ كَمَا يُنقى الثوبُ الْأبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ، اَللَّهُمَّ اغْسِلْنِي مِنْ خَطَايَايَ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ
”اے اللہ میرے اور میرے گناہوں کے درمیان دوری ڈال دے جس طرح تو نے مشرق و مغرب کے درمیان دوری ڈالی ہے۔ اے اللہ ! مجھے میرے گناہوں سے اس طرح صاف کر دے جس طرح سفید کپڑا میل کچیل سے صاف کیا جاتا ہے۔ اے اللہ! مجھے میرے گناہوں سے پانی ، برف اور اولوں کے ساتھ دھو ڈال ۔
[بخارى: 744 ، كتاب الأذان: باب ما يقول بعد التكبير ، مسلم: 598 ، أحمد: 231/2 ، ابن ماجة: 805 ، أبو داود: 781 ، دارمي: 283/1 ، نسائي: 128/2 ، ابن خزيمة: 465]
➋ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابتدائے نماز میں یوں کہتے تھے ۔
سُبحَانَكَ اللهُم وَ بِحَمْدِكَ وَ تَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلَا إِلَهُ غَيْرُ .
[صحيح: صحيح أبو داود: 702 ، كتاب الصلاة: باب من رأى الاستفتاح بسبحانك اللهم وبحمدك ، أبو داود: 776 ، ترمذي: 243 ، ابن ماجة: 806]
➌ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں یہ دعا مذکور ہے۔
وَجْهُتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا مُسْلِمًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ إِنْ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الخ
[أحمد: 94/1 ، مسلم: 771 ، كتاب صلاة المسافرين و قصرها: باب الدعاء فى صلاة الليل وقيامه ، أبو داود: 760 ، ترمذي: 3421 ، نسائي: 129/2 ، دارمي: 282/1]
➍ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں یہ لفظ ہیں :
اللهم لك الحمدُ اَنْتَ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَكَ الحمد أنتَ قِيَامُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ الخ
[صحيح: صحيح أبو داود: 698 ، كتاب الصلاة: باب ما يستفتح به الصلاة من الدعاء ، أبو داود: 771]
➎ ایک اور روایت میں یہ دعا بھی موجود ہے ۔
اللهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا (تین مرتبہ ) وَالْحَمْدُ لِلَّهِ كَثِيرًا (تین مرتبہ ) وَسُبْحَنَ اللهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا (تین مرتبه )“
[ضعيف: ضعيف أبو داود: 160 ، كتاب الصلاة: باب ما يستفتح به الصلاة من الدعاء ، المشكاة: 817 ، إرواء الغليل: 342 ، أبو داود: 764 ، وله شاهد عند أبى داود: 775 ، ومسلم: 601 ، و ترمذي: 242]
(شافعیؒ) دعائے استفتاح میں حدیث علی رضی الله عنہ إنى وجهت وجهي … کومختار سمجھتے ہیں۔
(ابو حنیفہؒ) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث یعنی: سبحانك اللهم وبحمدك .. کوترجیح دیتے ہیں۔
(مالکؒ) دعائے استفتاح کے علاوہ سورہ فاتحہ سے نماز شروع کی جائے گی۔ ان کی دلیل یہ حدیث ہے
كان النبى صلى الله عليه وسلم و أبو بكر و عمر يفتتحون الصلاة بالحمد لله رب العلمين
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ، اور حضرت عمر رضی الله عنہ الحمد الله رب العلمين سے نماز شروع کرتے تھے ۔ “
[الفقه الإسلامي وأدلته: 875/2 ، الروضة الندية: 268/1 ، رد المختار: 456/1 ، نيل الأوطار: 5/2]
(راجع) دعائے استفتاح مختلف احادیث میں مختلف الفاظ کے ساتھ ثابت ہے لٰہذا ان میں سے کسی ایک کو اختیار کر لینا کافی ہے۔ والله اعلم
(شوکانیؒ) بلا تر دد یہ بات ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (پہلی) تکبیر کے بعد دعائے استفتاح پڑھتے تھے اور قراءت کی ابتداء سے پہلے تعوذ پڑھتے تھے۔
[السيل الجرار: 22331]

تعوذ کہنا سنت ہے

➊ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِدُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّحِيمِ
[النحل: 98]
”جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ طلب کرو۔“
➋ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو دعائے استفتاح پڑھتے پھر کہتے
أعُوذُ بِاللهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّحِيْمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفَيهِ
[صحيح: صحيح أبو داود: 701 ، كتاب الصلاة: باب من رأى الاستفتاح بسبحانك اللهم ، أبو داود: 775 ، ترمذي: 242 ، نسائي: 132/2 ابن ماجة: 804 ، أحمد: 50/3]
➌ تعوذ کے لیے کچھ دوسرے الفاظ بھی ثابت ہیں مثلاً:
اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ اور أَسْتَعِيدُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيم
[حجة البالغة: 8/2 ، الروضة الندية: 269/1 ، التعليق على السيل الجرار للشيخ محمد صبحي خلاق: 479/1]
(ابو حنیفہؒ، شافعیؒ ، احمدؒ) نماز میں قراءت سے پہلے استعاذہ سنت ہے۔ امام حسن ، امام ابن سیرین ، امام عطا ، امام ثوری ، امام اوزاعی ، امام اسحاق رحمہم اللہ اجمعین اور اصحاب الرائے کا یہی موقف ہے۔
(مالکؒ) استعاذہ نہیں کہنا چاہیے۔
[المغني: 145/2 ، نيل الأوطار: 13/2]
تعوذ دعائے استفتاح کے بعد کہا جائے گا جیسا کہ گذشتہ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے اور حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی اور کہا الله اكبر كبيرا تین مرتبہ الحمد لله كثيرا تین مرتبه سبحان الله بكرة وأصيلا تین مرتبہ (پھر کہا ) أعوذ بالله من الشيطان من نفخه ونفثه و همزه
[ضعيف: ضعيف أبو داود: 160 ، كتاب الصلاة: باب ما يستفتح به الصلاة من الدعاء ، أبو داود: 7640 ، أحمد: 80/4 ، ابن ماجة: 807 ، ابن خزيمة: 468 ، ابن حبان: 1779 ، حاكم: 235/1 ، بيهقى: 35/2 ، المشكاة: 817 ، إرواء الغليل: 342]

کیا ہر رکعت میں تعوذ کہا جائے گا

شیخ البانیؒ اس آیت : فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللهِ… کے عموم سے استدلال کرتے ہوئے اسے ہر رکعت میں مشروع قرار دیتے ہیں اور مزید بیان کرتے ہیں کہ مذہب شافعیہ میں یہی زیادہ صیح بات ہے اور امام ابن حزمؒ نے بھی اسی کو تر جیح دی ہے۔
[تمام المنة: ص/ 176]
(نوویؒ) ہمارے مذہب میں زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ ہر رکعت میں تعوذ پڑھنا مستحب ہے۔ امام ابن سیرینؒ بھی اسی کے قائل ہیں۔
(ابو حنیفہؒ) تعوذ صرف پہلی رکعت کے ساتھ خاص ہے امام عطاؒ ، امام نخعیؒ اور امام ثوریؒ کا بھی یہی موقف ہے ۔
[المجموع: 326/3]
(راجح) صرف پہلی رکعت میں ہی تعوذ پڑھا جائے گا جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث اس کا واضح ثبوت ہے:
أن النبى صلى الله عليه وسلم كان إذا نهض من الركعة الثانية استفتح القراءة بالحمد لله رب العلمين
”نبي صلی اللہ علیہ وسلم جب دوسری رکعت سے اٹھتے تھے تو الحمد لله رب العلمين کے ساتھ قراءت شروع فرماتے تھے ۔“
[مسلم: 941 ، كتاب المساجد ومواضع الصلاة: باب ما يقال بين تكبيرة الإحرام والقراءة ، ابن ماجة: 706 ، كتاب إقامة الصلاة و السنة فيها]
معلوم ہوا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس عمل کی وضاحت منقول ہے تو قرآنی آیت کے عموم سے استدلال درست نہیں۔
(شوکانیؒ) اسی کے قائل ہیں۔
[نيل الأوطار: 303/2]
(ابن قیمؒ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب (کسی رکعت کے لیے ) اٹھتے تو قراءت شروع فرما دیتے اور خاموش نہ رہتے جیسا کہ ابتدائے نماز میں خاموش رہتے تھے۔
[زاد المعاد: 234/1]
(سید سابقؒ) اس کو ترجیح دیتے ہیں ۔
[فقه السنة: 133/1]

تعوذ کے بعد بسم اللہ کی قراءت

سورہ فاتحہ سے پہلے بسم الله پڑھنا مشروع ہے لیکن فقہاء نے اس کے حکم میں اختلاف کیا ہے۔
(شافعیؒ) یہ سورہ فاتحہ کی طرح واجب ہے۔
(مالکؒ) سری طور پر اور جہری طور پر دونوں طرح مکروہ ہے۔
(احمدؒ ، ابو حنیفہؒ) بسم اللہ پڑھنا مستحب ہے۔
[تحفة الأحوذى: 61/2]
حق بات یہی ہے کہ اس کی قراءت (سنت نبوی سے) ثابت ہے اور یہ ہر سورت کی آیت ہے۔
[الروضة الندية: 270/1]
◈ اس کے ثبوت کے بعد اس مسئلے میں اختلاف کیا گیا ہے کہ اسے اونچی آواز سے پڑھا جائے یا پوشیدہ پڑھا جائے۔
(شافعیؒ) اونچی آواز سے پڑھنا مسنون ہے۔
(جمہور، ابو حنیفہؒ ، احمدؒ) اونچی آواز سے پڑھنا مسنون نہیں ہے۔
امام ترمذیؒ رقمطراز ہیں کہ صحابہ و تابعین میں سے اکثر اہل علم کا اس پر (یعنی جمہور کے موقف پر ) عمل ہے جن میں خلفاء اربعہ ، حضرت ابن مسعود ، حضرت ابن زبیر اور حضرت عمار رضی اللہ عنہم وغیرہ شامل ہیں ۔
[المغنى: 149/2 ، تحفة الأحوذى: 61/2 ، ترمذي ، كتاب الصلاة: باب ما جاء فى ترك الجهر بسم اللہ الرحمن الرحيم ، عارضة الأحوزى:
44/2]

جن حضرات کے نزدیک مخفی و پوشیدہ پڑھنا مسنون ہے ان کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت ابو بکر ، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ نماز پڑهى :
فلم أسمع أحدا منهم يقرأ بسم الله الرحمن الرحيم
”میں نے ان میں سے کسی کو بھی بسم الله الرحمن الرحيم پڑھتے ہوئے نہیں سنا۔“
[أحمد: 273/3 ، مسلم: 605 ، كتاب الصلاة: باب حجة من قال لا يجهر بالبسملة ، دارقطني: 315/1]
➋ ایک دوسری روایت میں ہے کہ :
فكانوا لا يجهرون بسم الله الرحمن الرحيم
” (حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر صحابہ ) اونچی آواز سے بسم الله الرحمن الرحيم نہیں پڑھتے تھے ۔“
[أحمد: 179/3 ، نسائي: 135/2 ، دارقطني: 315/1 ، شرح معاني الآثار: 203/1]
➌ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ :
وكامرا يستفتحون بالحمد لله رب العلمين لا يذكرون بسم الله الرحمن الرحيم فى أول قراءة ولا آخرها
(حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ سب لوگ ) نماز کا آغاز الحمد لله رب العلمين سے کرتے تھے اور قراءت کے شروع اور آخر دونوں موقعوں پر بسم الله نہیں پڑھتے تھے ۔“
[مسلم: 606 ، كتاب الصلاة: باب حجة من قال لا يجهر بالبسملة ، بيهقى: 50/2 ، أحمد: 223/3]
➍ امام ابن خزیمہؒ نے ایک روایت میں یہ لفظ بھی نقل فرمائے ہیں وكانوا يسرون ”وہ لوگ مخفی بسم الله پڑھا کرتے تھے۔ “
حافظ ابن حجرؒ رقمطراز ہیں کہ اسی پر امام مسلمؒ کی نفی کو محمول کیا جائے گا بخلاف ان لوگوں کے جنہوں نے اسے معلول کہا ہے۔
[بلوغ المرام: 263]
ان لوگوں کے دلائل جن کے نزدیک اونچی آواز سے بسم الله پڑھنا مسنون ہے:
➊ حضرت نعیم مجمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی امامت میں نماز پڑھی :
فقرأ بسم الرحيم ثم قرأ بأم القرآن …..
”انہوں نے پہلے بسم الله تلاوت فرمائی پھر اس کے بعد سورہ فاتحہ پڑھی ۔“
اسی روایت میں آگئے یہ لفظ ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمايا:
والذين نفسي بيده إني لأشبهكم صلاة برسول الله
”اسی ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یقینا میں تم میں نماز کی ادائیگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت مشابہ ہوں ۔“
[ضعيف: ضعيف نسائي: 36 ، كتاب الافتتاح: باب قراءة بسم الله الرحمن الرحيم ، نسائي: 905 ، ابن خزيمة: 499 ، شرح معاني الآثار: 199/1 ، دارقطني: 305/1 ، بيهقي: 46/2 ، حافظ ابن حجرؒ رقطراز هيں كه يه حديث اونچي آواز سے بسم الله كے متعلق وارد شدہ احاديث ميں سے سب سے زياده صحيح هے۔ فتح الباري: 312/2 ، شيخ محد صجي حلاق نے اس حديث كو صحيح كها ہے ، التعليق على السيل الجرار: 486/1]
➋ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب میں کہا کہ :
كانت مدا ثم قرأ بسم الله الرحمن الرحيم يمد ”بسم الله“ ويمد ”بالرحمان“ ويمد ”بالرحيم“
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت مد کے ساتھ تھی۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے بسم الله الرحمن الرحيم پڑھی اور کہا کہ بسم الله لفظ اللہ کی لام کو ) مد کے ساتھ پڑھتے الرحمن (میں میم ) کو مد کے ساتھ پڑھتے اور الرحيم (میں حاء کو ) مد کے ساتھ پڑھتے ۔“
[بخارى: 5046 ، كتاب فضائل القرآن: باب من القراءة]
➌ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نماز پڑھی.
و جهر بسم الله الرحمن الرحيم وقال أقتدى بصلاة رسول الله
”اور بسم الله الرحمن الرحيم کو اونچی آواز سے پڑھا اور کہا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی اقتدا کر رہا ہوں ۔“
[دار قطني: 308/1 ، كتاب الصلاة: باب وجوب قراءة ، بسم الله الرحمن الرحيم فى الصلاة والجهر بها ، حاكم: 233/1]
(البانیؒ) حق بات یہی ہے کہ اونچی آواز سے بسم الله پڑھنے کی کوئی صریح صحیح حدیث نہیں ہے ۔
[تمام المنة: ص/ 169]
(راجع) دونوں طرح جائز و مباح ہے البتہ پوشیدہ پڑھنے کے متعلق احادیث زیادہ صحیح اور واضح ہیں۔
(ابن تیمیہؒ ) عام اوقات میں پوشیدہ پڑھنا ہی سنت ہے جبکہ بعض اوقات اونچی آواز سے پڑھنا بھی جائز ہے۔
[مجموع الفتاوى: 410/22]
(ابن قیمؒ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم بسم الله اونچی آواز سے پڑھتے تھے لیکن اونچی آواز سے پڑھنے کی نسبت ہلکی آواز سے زیادہ پڑھتے تھے
[زاد المعاد: 199/1]
(شوکانیؒ ) دونوں طرح جائز ہے۔
[نيل الأوطار: 23/2]
(عبد الرحمٰن مبارکپوریؒ) میرے نزدیک پوشیدہ پڑھنا اونچی آواز سے پڑھنے سے زیادہ پسندیدہ ہے۔
[تحفة الأحوذى: 61/2]
یاد رہے کہ جن احادیث میں بسم الله کا ذکر نہیں ہے انہیں راوی کے عدم علم یا اس کی قراءت کے مخفی ہونے پر محمول کیا جائے گا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے