توحید
توحید کی حقیقت :
توحید کا مادہ ” وحد “ ہے اور اس کے مصادر ” وَحُدًا “ ، ” وَحْدَةً‘‘ ، ’’حِدَةً “ اور ’’ وُحُودًا “ آتے ہیں۔
تو حید کا لغوی مفہوم ہے، یکتا اور تنہا جاننا اور ماننا۔المعجم الوسيط، ص: ١٢٣٧.
اور اس کا شرعی مفہوم ہے، اللہ کو اس کی ذات اور صفات میں یکتا و تنہا مان کر اُسی کی عبادت کرنا ( کسی اور کو اُس کی صفات اُلوہیت اور عبادت میں شریک نہ ٹھہرانا۔ )المغنى المريد ١٣/١.
❀ امام طحاوی حنفی (متوفی ۳۲۱ ھ ) عقیدہ توحید کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں:
(( نَقُولُ فِي تَوْحِيدِ اللَّهِ مُعْتَقِدِينَ بِتَوْفِيقِ اللهِ إِنَّ اللَّهَ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ ، وَلَا شَيْءٍ مِثْلَهُ ، وَلَا شَيْءَ يُعْجِزُهُ ، وَلَا إِلَهَ غَيْرُهُ ، قَدِيمٌ بِلَا اِبْتِدَاءٍ ، دَائِمٌ بِلَا اِنْتِهَاءٍ ، لَا يَفْنِى وَلَا يَبِيدُ وَلَا يَكُونُ إِلَّا مَا يُرِيدُ، لا تبلغه الا وَهَامٌ ، وَلَا تُدْرِكُهُ الأَفَهَامُ ، وَلَا يُشْبِهُ الْآنَامُ ، خَالِقٌ بِلَا حَاجَةٍ رَازِقٌ بِلا مَتُونَةٍ ، مُمِيتُ ِبلا مَخَافَةٍ ، بَاعِتُ بِلَا مُشْقة ، مَا زَالَ بِصِفَاتِهِ قَدِيمًا قَبْلَ خَلْقِهِ لَمْ يَزْدَدُ بِكَوْنِهِمُ شَيْئًا ، لَمْ يَكُن لَهُمُ مِنْ صِفَتِهِ ، كَمَا كَانَ بِصِفَاتِه اَزْلِيًّا ، كَذَالِكَ لَا يَزَالُ عَلَيْهَا ابدِيًّا ، لَيْسَ بَعْدَ الْخَلْفِ ِاسْتِفَادَ إِسْمَ الْخَالِقِ ، وَلَا بِإِحْدَاثِهِ الْبَرِيَّةِ اِسْمَ الْبَارِئ ، لَهُ مَعْنَى الرَّبُوبِيَّةِ وَلَا مَرْبُوبَ وَمَعَنَى الْخَلَّاقِ وَلَا مَخْلُوقُ ، وَ كَمَا أَنَّهُ مُحْيِ الْمَوْتَى بَعْدَ مَا أَحْيَا اسْتَحَقَّ هَذَا الْإِسْمَ قَبْلَ اِحْيَاءِ هِمُ كَذَالِكَ بِأَنَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ، وَكُلُّ شَيْءٍ إِلَيْهِ فَقِيرٌ ، وَكُلَّ اَمْرٍ إِلى يَسِيرُ ، لَا يَحْتَاجُ إِلَى شَيْءٍ ، لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ، وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ . خَلَقَ الْخَلْقَ بِعِلْمِهِ ، وَقَدَّرَ لَهُمْ أَقْدَارًا، وَضَرَبَ لَهُمُ اَجَالًا لَمْ يَخَفْ عَلَيْهِ شَيْءٌ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَهُمْ وَعَلِمَ مَا هُمُ عَامِلُونَ قَبْلَ أَن يَخْلُقُهُمْ ، وَاَمْرَهُمْ بِطَاعِتِهِ ، وَنَهَاهُمْ عَنْ مَعْصِيَتِهِ ، وَكُلُّ شَيْءٍ يَجْرِى بِتَقْدِيرِهِ ، وَمَشِيئَتُهُ تَنْفَذُ ، لَا مَشِيئَةٌ لِلْعِبَادِ ، إِلَّا مَا شَاءَ لَهُمُ ، فَمَا شَاءَ كَانَ وَمَا لَمْ يَشَأْ لَمْ يَكُنُ، يَهْدِى مَنْ يَشَاءُ ، وَيَعْصِمُ وَيُعَافِى فَضْلًا، وَيُضِلُّ مَنْ يَشَاءَ ، ويَخْذُلُ . وَيَبْتِلِى عَدْلًا ، وَكُلُّهُمْ يَنَقَلِبُونَ فِي مَشِيئَتِهِ ، بَيْنَ فَضْلِهِ وَعَدْلِهِ ، وَهُوَ مُتَعَالٍ عَنِ الْاَضْدَادِ وَلانَدَادِ ، لَا رَادَ لِقَضَاءِ هِ وَلَا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهِ ، وَلَا غَالِبَ لاَمْرِه . أمَنَّا بِذَالِكَ كُلِّهِ وَأَيْقَنَّا أَنَّ كُلَّا مِّنْ عنده . ))
العقيدة الطحاويه للإمام الطحاوى في ضمن شرح العقيدة الطحاويه لإبن أبي العز، طبع المكتب الإسلامی، ص : ٧٧-١٤٩.
’’اللہ کی توحید کے بارے میں ہم اللہ ہی کی توفیق سے کہتے ہیں اور یہی ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ کی ذات یکتا و یگانہ ہے، اس کے ساتھ کوئی بھی شریک نہیں ، کوئی چیز اس کی مثل نہیں ، کوئی چیز اس کو کمزور اور عاجز نہیں کرسکتی ، اس کے سوا کوئی بھی عبادت کے لائق نہیں ، وہ قدیم ہے جس کے وجود کے لیے کوئی ابتداء نہیں، زندہ و جاوید ہے جس کے وجود کے لیے کوئی انتہا نہیں، اس کی ہستی پر فنا اور زوال نہیں آسکتا ، کچھ بھی نہیں ہوسکتا سوائے اس کے جس کا وہ ارادہ فرمالے۔ اس کی ماہیت اور کیفیت انسانی عقل کی رسائی سے بلند ہے اور انسانی فکر اس کا ادراک نہیں کر سکتی، وہ مخلوق کے ساتھ کوئی مشابہت نہیں رکھتا، وہ خالق ہے بغیر کسی حاجت کے، رازق ہے بغیر کسی محنت کے، موت دینے والا ہے بغیر کسی خوف و خطر کے، دوبارہ زندہ کرنے والا ہے بغیر کسی مشقت کے، وہ مخلوق کے پیدا کرنے سے پہلے ہی اپنی صفات سے متصف تھا، اس نے مخلوق کے وجود سے کوئی ایسی صفت حاصل نہیں کی جو اسے پہلے سے حاصل نہ تھی، جس طرح ازل میں وہ صفات الوہیت سے متصف تھا اسی طرح ابد تک ان سے متصف رہے گا ، اس نے اپنے لئے خالق اور باری کا نام مخلوقات اور کائنات کی پیدائش کے بعد حاصل نہیں کیا ( بلکہ اس کا یہ نام ازلی ہے، یعنی پیدا کرنے کی قدرت از لی اور قدیم ہے ، اگر چہ بالفعل پیدا کرنا، یعنی عمل تخلیق و تکوین حادث ہے) اسے ربوبیت کی صفت اس وقت بھی حاصل تھی جب کہ کوئی پرورش لینے والا نہیں تھا، اور اسے خالق کی صفت اس وقت بھی حاصل تھی جب کہ کوئی مخلوق نہیں تھی ، جس طرح وہ زندہ کرنے کے بعد مردوں کو زندہ کرنے والا کہلاتا ہے، اسی طرح وہ اس نام کا مستحق مُردوں کو زندہ کرنے سے پہلے بھی تھا ( زندگی دینے کی قدرت کے اعتبار سے ) اسی طرح وہ مخلوق کی ایجاد سے پہلے بھی خلاق ( پیدا کرنے والا یعنی خالق ) کے نام کا مستحق تھا۔
وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے، ہر چیز اُس کی محتاج ہے، ہر چیز اُسی کی جانب لوٹتی ہے اور وہ خود کسی کا محتاج نہیں، کوئی چیز اُس کی مثل نہیں ، وہ ہر بات سنتا ہے اور ہر چیز دیکھتا ہے، اُس نے مخلوق کو اپنے علم کے مطابق پیدا کیا ہے ( یعنی کائنات کی ہر چیز کا علم اُسے تخلیق سے پہلے بھی حاصل تھا) اُس نے مخلوق کے لیے ہر ضروری چیز کا اندازہ اور مقدار پہلے سے مقرر اور متعین کر دی ہے، اُس نے اُن کی موت کے اوقات مقرر کر دیئے ہیں۔ مخلوق کے پیدا کرنے سے قبل بھی اُس سے کوئی چیز مخفی نہیں تھی، اُسے یہ علم حاصل تھا کہ یہ لوگ پیدا ہونے کے بعد کیا کریں گے۔
اُس نے اپنی اطاعت کا حکم دیا ہے اور اپنی نافرمانی سے منع کیا ہے، ہر چیز اُس کی تقدیر اور ارادے سے نافذ ہوتی اور وجود پاتی ہے، بندوں کا ارادہ نافذ نہیں ہوسکتا ، وہ ارادہ کر ہی نہیں سکتے سوائے اس کے جس کا ارادہ اُس نے اُن کے لئے کیا ہو، وہ جو چاہے ہو جاتا ہے اور جو نہیں چاہتا نہیں ہوسکتا، وہ ہدایت ( توفیق) دیتا ہے جسے چاہے اور نافرمانی سے بچاتا اور معاف کرتا ہے جسے چاہے اپنے فضل کی بناء پر ۔ اور گمراہ کرتا ہے جسے چاہے ( یعنی ضدی اور سرکش کو ) اور رسوا کرتا ہے اور عذاب میں گرفتار کرتا ہے جسے چاہے اپنے عدل کی بناء پر ۔ سب لوگ اُس کی مشیت کے اندر اس کے فضل اور عدل کے درمیان گردش کرتے رہتے ہیں۔ نہ کوئی اُس کا مد مقابل ہے، نہ شریک ۔ اُس کی قضا کو کوئی رد نہیں کر سکتا اور اُس کے فیصلے کو کوئی مؤخر نہیں کرسکتا۔ اور نہ اُس کے حکم پر کسی کا حکم غالب آ سکتا ہے۔ ہم ان سب باتوں پر ایمان لا چکے ہیں اور یقین کرتے ہیں کہ سب کچھ اُسی کی جانب سے ہے۔“
❀ شاہ ولی اللہؒ اپنی معروف تصنیف ”حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں توحید کی شرح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’تو حید کے چار بنیادی اور اساسی عقیدے ہیں:
➊ واجب الوجود اور از لی اور ابدی صرف اللہ کی ذات ہے۔
➋ عرش ، آسمانوں ، زمین اور تمام جواہر کا خالق اللہ ہے۔ ان دو عقیدوں سے نہ تو مشرکین عرب نے اختلاف کیا اور نہ یہود و نصاری نے ۔
➌ آسمانوں، زمین اور ان کے درمیان کی سب چیزوں کا مدبر ، متصرف اور منتظم صرف اللہ تعالیٰ ہے۔
➍ عبادت اور پرستش کا مستحق صرف اللہ تعالیٰ ہے ۔ ان آخری دونوں عقیدوں میں باہمی تلازم ہے اور ان دونوں عقیدوں میں بہت سے گروہوں نے اختلاف کیا ہے ۔“
حجة الله البالغة، القسم الاول ، باب التوحيد۔
توحید کی اہمیت:
اللہ تعالیٰ کے ہر رسول اور نبی نے اپنی دعوت کا آغاز توحید سے کیا اور اختتام بھی اسی نقطہ پر کیا، کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ اور دعوت انبیاء ورسل علیہم صلوات اللہ والسلام پر ایک سرسری نظر دوڑائیے گا، آپ کو صاف نظر آ جائے گا کہ ہر نبی اور رسول نے اپنے کام کا آغاز اسی مسئلہ سے کیا۔ اور دنیا سے رخصت ہوتے وقت بھی اسی مسئلہ کی وصیت فرمائی۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
(وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُون)
(الأنبياء:٢٥)
’’اور ہم نے آپ سے قبل جو رسول بھی بھیجا، اس پر یہی وحی نازل کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اس لیے تم سب میری ہی عبادت کرو۔“
اسوه نوحؑ :
سیدنا نوحؑ اپنی قوم کو تو حید کی دعوت دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
(أن لَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّهَ)
(هود: ٢٦)
’’تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔“
اور جب ان کی وفات کا وقت آتا ہے تو اپنے بیٹے سے فرماتے ہیں:
((أُوصِيكَ بِقَولٍ : لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، فَإِنَّهَا لَوُ وُضِعَتُ فِي كِفَّةِ الْمِيزَان، وَوُضِعَتِ السَّمْوَاتُ وَالْأَرْضُ فِي كِفَّةِ لَرَجَحَتُ بھن))
الأدب المفرد، رقم : ٥٤٨، مسند البزار، رقم: ۳۰۲۹ مجمع الزوائد ٩٢/١٠، رقم: ١٦٨١٦، الزهد لأحمد، رقم: ۲۸۲ ، الدر المنثور ١١٥/٤ ، سلسلة الصحيحة، رقم : ١٣٤.
’’میں تجھے ’’ لَا إِلَهَ إِلَّا الله ‘‘ پرسختی سے کار بند رہنے کی وصیت کرتا ہوں، کیونکہ
اگر ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں ترازو کے ایک پلڑے میں رکھی جائیں، اور ’’ لَا إِلَهَ إِلَّا الله “ دوسرے پلڑے میں، تو ’’ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ “ وزنی ثابت ہوگا۔
أسوة ابراہیمؑ :
سیدنا ابراهیمؑ ساری زندگی وحدت الوہیت اور توحید الہیٰ کی دنیا کو دعوت دیتے رہے اور معبودانِ باطلہ کی پرستش سے منع کرتے رہے، فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗۚ-اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِهِمْ اِنَّا بُرَءٰٓؤُا مِنْكُمْ وَ مِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ٘-كَفَرْنَا بِكُمْ وَ بَدَا بَیْنَنَا وَ بَیْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَ الْبَغْضَآءُ اَبَدًا حَتّٰى تُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَحْدَهٗۤ
(الممتحنه : ٤ )
’’مسلمانو! یقیناً تمہارے لئے ابراہیم اور ان کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے، جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ ہم لوگ تم سے اور تمہارے ان معبودوں سے بری ہیں جن کی تم اللہ کے سوا پرستش کرتے ہو، ہم تمہارے دین کا انکار کرتے ہیں، اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے دشمنی اور بغض کی ابتدا ہو چکی ہے، یہاں تک کہ تم ایک اللہ پر ایمان لے آؤ۔“
اور پھر آخری وقت اپنے بیٹوں کو اس مسئلہ پر ڈٹے رہنے کی تلقین فرماتے ہیں، چنانچہ فرمانِ الہیٰ ہے:
(وَوَصَّى بِهَا إِبْرهِمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يُبَنِيَّ إِنَّ اللهَ اصْطَفى لَكُمُ الدِّينَ فَلا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَانْتُم مُّسْلِمُونَ)
(البقرة : ۱۳۲)
’’اور یہی وصیت ابراہیمؑ نے اپنے بیٹوں کو اور یعقوب نے (اپنے بیٹوں کو) کی، کہ؛ اے میرے بیٹو! اللہ نے تمہارے لئے دین اسلام کو اختیار کرلیا ! ہے، اس لئے جب مرو تو اسلام کی حالت میں مرو۔“
اُسوۂ یعقوب وابنائے یعقوب (علیہم السلام):
سیدنا یعقوبؑ نے بھی اپنی اولاد کے سامنے وحدت الٰہ کا تصور پیش کیا، اور جب ان کی وفات کا وقت آیا تو اس تعلیم کا امتحان کر کے انہوں نے اطمینان حاصل کر لیا کہ میرے بعد میری اولاد ایک اللہ ہی کی عبادت کرے گی ، فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
(كُنتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِي قَالُوا نَعْبُدُ إِلَٰهَكَ وَإِلَٰهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إِلَٰهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ)
(البقرة : ۱۳۳)
’’ کیا جب یعقوب کی موت قریب تھی تو تم لوگ وہاں موجود تھے؟ جب اس نے اپنے بیٹوں سے پوچھا کہ میرے بعد تم لوگ کس کی عبادت کرو گے؟ انہوں نے کہا کہ ہم آپ اور آپ کے آباء ابراہیم ، اسماعیل اور اسحاق کے معبود، ایک اللہ کی عبادت کریں گے ، اور ہم اسی (ایک اللہ) کے اطاعت گزار ہیں۔“
أسوة يوسفؑ:
اسی باپ کا فرزند سیدنا یوسفؑ جیل کی تنگ و تاریک کوٹھریوں میں لوگوں کو دعوتِ توحید دے رہا ہے۔ فرمانِ باری ہے:
(اِنِّیْ تَرَكْتُ مِلَّةَ قَوْمٍ لَّا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ هُمْ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ كٰفِرُوْنَ وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبَائِي إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ ۚ مَا كَانَ لَنَا أَن نُّشْرِكَ بِاللَّهِ مِن شَيْءٍ ۚ ذَٰلِكَ مِن فَضْلِ اللَّهِ عَلَيْنَا وَعَلَى النَّاسِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ)
(يوسف : ۳۸،۳۷)
’’میں نے ان لوگوں کا دین و ملت چھوڑ دیا ہے، جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے ہیں، اور آخرت کا بھی انکار کرتے ہیں، اور میں نے اپنے باپ دادا ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب کا دین اختیار کر لیا ہے، ہمیں یہ حق نہیں پہنچتا ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک بنائیں، یہ (عقیدہ توحید) ہم پر اور لوگوں پر اللہ کا فضل ہے، لیکن اکثر لوگ اللہ کا شکر نہیں ادا کرتے ہیں۔“
یوسفؑ اپنا عقیدہ بیان کرنے کے بعد اب نہایت ہی حکمت و دانائی کے ساتھ ان کی قوم کے مشرکانہ عقیدہ کی خرابی بیان کرنے کے لئے انہی سے سوال کرتے ہیں:
( يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَأَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ (39) مَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِهِ إِلَّا أَسْمَاءً سَمَّيْتُمُوهَا أَنتُمْ وَآبَاؤُكُم مَّا أَنزَلَ اللَّهُ بِهَا مِن سُلْطَانٍ ۚ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۚ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (40))
(يوسف : ٤٠،٣٩)
” اے جیل کے ساتھیو! کیا کئی مختلف معبود اچھے ہیں، یا اللہ جو ایک اور زبر دست ہے، اللہ کے علاوہ جن کی تم عبادت کرتے ہو، وہ صرف نام ہیں جنھیں تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے رکھ لئے ہیں، اللہ نے ان کی کوئی دلیل نہیں اتاری ہے، ہر حکم اور ہر فیصلے کا مالک صرف اللہ ہے، اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، یہی صحیح دین ہے ، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ہیں ۔‘‘
جب یوسفؑ کی وفات کا وقت آتا ہے تو عقیدہ توحید پر مرنے کی تمنا کرتے ہیں:
(فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ- اَنْتَ وَلِیّٖ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِۚ-تَـوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّ اَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ)
(يوسف: ١٠١)
’’اے آسمان و زمین کے پیدا کرنے والے! دنیا و آخرت میں تو ہی میرا یار و مددگار ہے، تو مجھے بحیثیت مسلمان دنیا سے اٹھا، اور نیک لوگوں میں شامل کرنا ۔“
أسوہ رسولﷺ :
پیارے پیغمبر کی جب بعثت ہوئی تو آپ ﷺ نے اپنی دعوت کا آغاز بھی توحید سے کیا ، توحید کی اسی اہمیت کے پیش نظر حضور رحمۃ للعالمین علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی تیرہ سالہ مکی زندگی میں فقط مسئلہ توحید ہی واضح کیا، چنانچہ سیدنا ربیعہ دیلیؓ سے روایت ہے کہ میں نے اپنے عہد جاہلیت میں دیکھا رسول اللہ ﷺ بازار ذوالمجاز میں فرماتے تھے:
((يَا أَيُّهَا النَّاسُ : قُولُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، تُفْلِحُوا .))
صحيح مسند أحمد، رقم: ١٦٠٢٠، ١٦٠٢١، ١٦٠٢٢، ١٦٠٢٣، ١٦٠٢٤، ١٦٠٢٦، ١٦٠٢٧ و ٣٤١/٤، ٣٤٢ ، الأحاد والمثاني، رقم : ٩٦٣ .
”اے لوگو! ’’ لَا إِلَهَ إِلَّا الله ‘‘ کہو، کامیاب ہو جاؤ گے۔“
اور زندگی کے آخری لمحات میں آپ ﷺ نے لوگوں کو یوں توحید کی وصیت فرمائی:
سیدہ عائشہؓ فرمایا کرتی تھیں کہ رسول اللہ ﷺ (کی وفات کے وقت) آپ کے سامنے ایک بڑا پانی کا پیالہ رکھا ہوا تھا ، جس میں پانی تھا ۔ آپ ﷺ اپنا ہاتھ مبارک اس برتن میں ڈالنے لگے اور پھر اس ہاتھ کو اپنے چہرے پر ملتے اور فرماتے:
((لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ إِنَّ لِلْمَوْتِ سَكَرَاتٍ.))
”لوگو! موت کی بے ہوشیوں میں بھی میرا پیغام یہی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔“
پھر آپ ﷺ اپنا ہاتھ اٹھا کر فرمانے لگے ” فی الرفيق الأعلیٰ “ یہاں تک کہ آپ ﷺ کی روح مبارک قبض ہوگئی ، اور آپ کا ہاتھ جھک گیا ۔“
صحیح بخاری کتاب الرقاق، باب سكرات الموت، رقم: ٦٥١٠ .
سورۃ بنی اسرائیل کے شروع میں جہاں دین اسلام کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے، وہاں ابتداء (لَا تَجْعَلُ مَعَ اللهِ إِلَهًا آخَرَ)
(بنى إسرائیل : ۲۲) ’’اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کوشریک نہ بنائیے سے کی گئی ہے، پھر ساری باتیں کرنے کے بعد ارشاد ہوتا ہے:
(ذٰلِكَ مِمَّاۤ اَوْحٰۤى اِلَیْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَةِؕ-وَ لَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ)
(بنى إسرائيل :۳۹)
’’یہ سب حکمت کی وہ باتیں ہیں جو آپ کے رب نے آپ کو بذریعہ وحی عطا کی ہیں، اور آپ اللہ کے ساتھ دوسرے معبود کو شریک نہ ٹھہرائے ۔‘‘
جس سے ایک لطیف اشارہ اس طرف بھی ہے کہ دین کی ابتداء بھی کلمہ توحید ’’ لَا إِلَهَ إِلَّا الله “ سے اور انتہا بھی توحید پر ہے۔
لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ كا معنی ومفہوم:
ذیل کی سطور میں کلمہ توحید ’’ لَا إِلَهَ إِلَّا الله ‘‘ کا معنی و مفہوم بیان کیا جاتا ہے، تا کہ توحید کا کامل تصویر سامنے آ جائے ، اور توحید کی حقیقت مزید عیاں ہو جائے ، مزید برآں کلمہ طیبہ کے منفی اور مثبت دونوں پہلوؤں کو سمجھنے میں آسانی ہو جائے۔
إلهَ کے لغوی معنی:
إِلَهَ کے کے معنی ہیں معبود (یعنی جس کی پرستش کی جاتی ہو ) ۔ اگر وہ عبادت کا مستحق ہو تو ’’إله حق‘‘ ، یعنی معبودِ برحق ہے۔ جیسے ذاتِ الہیٰ ۔ اور اگر عبادت و پرستش کا حق دار نہ ہو، تو وهى ” إِلهِ باطل ‘‘یعنی جھوٹا معبود ہے۔ جیسے مشرکین عرب کے خود ساختہ معبودان تھے۔ چنانچہ عربی لغت کی مشہور کتاب مختار الصحاح (ص: ۲۶ ، ماده آ، ل ، ه ) میں ہے؛ (( أَلَهَ يَأْلَهُ إِلَاهَةً أَي عَبَدَ .)) ” معبود کی عبادت کرتا ہے، إِلا هَةً پوجا کرنا۔“
اور لسان العرب (۱۸۹/۱ ، مادة آ، ل ، ه ) میں ہے کہ؛ (( إِلَّةٌ عَلَى فِعَالٍ بِمَعْنَى مَفْعُول لااَنَّهُ مَأْلُوهٌ أى مَعُبُودٌ .)) ’’ إِلهُ فِعال کے وزن پر ، مفعول کے معنوں میں ہے ، اس لئے کہ الہ اُس کو کہا جاتا ہے جس کی پرستش کی جائے۔)
یاد رہے کہ انسان پوجا اور پرستش اُسی کی کرتا ہے جس کو وہ غیبی طاقت اور مافوق الأسباب اختیارات کا مالک سمجھتا ہو۔ کتب لغت اور تفسیر سے پتا چلتا ہے کہ الہ کا اصل مفہوم ہے وہ ذات جس کی پناہ پکڑی جائے ، جس کے ہاں سکون و اطمینان نصیب ہو، جس کی طرف انتہائی شوق و محبت کے ساتھ رجوع کیا جائے ، اور جس کی طرف یوں بے قرار ہو کر توجہ کی جائے جس طرح وہ بچہ جس کا دودھ چھڑا دیا جاتا ہے اپنی ماں سے لپٹ جاتا ہے، اور وہ ذات جس کی عبادت کی جائے ، اور وہ ذات جو پوشیدہ ہو ۔ “ چند محاورات ملاحظہ ہوں :
(( أَلِهَ يَأْلَهُ إِذَا تَحَيَّرَ لِأَنَّ الْعُقُولَ تَأْلَهُ فِي عَظُمَتِهِ . ))
لسان العرب ١٩٠/١.
’’ أَلِهَ يَأْلَهُ ، ایسے موقع پر بولا جاتا ہے، جب حیران وسرگشتہ ہو جائے ، گویا کہ عقول اس کی عظمت و بڑائی معلوم کرنے میں حیران وسرگشتہ ہوگئی ہیں۔“
((أَلِهَ إِذَا تَحَيَّرَ لِأَنَّ الْعُقُولَ تَتَحَيَّرُ فِي مَعْرِفَتِهِ . ))
تفسير البيضاوي ٦/١.
’’ اله ایسے موقع پر بولا جاتا ہے، جب حیران ہو جائے ، گویا کہ عقول اس کی معرفت حاصل کرنے میں سرگشتہ ہوگئی ہیں۔“
(( أَلِهَ إِذَا فَزِعَ مِنْ أَمْرٍ نَزَلَ عَلَيْهِ، وَآلَهَهُ غَيْره أَي أَجاره إِذَا العَائَذُ يَفْزَعُ إِلَيْهِ وَهُوَ يُجِيرُهُ حَقِيقَةٌ أَو بِزَعْمِه . ))
تفسير البيضاوى ٦/١.
’’ آدمی کی مصیبت اور پریشانی کے نزول سے خوف زدہ اور پریشان ہوا اور دوسرے نے اُس کو پناہ دی۔ اس لیے کہ پناہ لینے والا اُس کی پناہ چاہتا ہے، اور وہ اُس کو پناہ دیتا ہے فی الحقیقت یا اُس کے زعم میں ۔“
((أَلِه يَأْلَهُ إِلَه كَذَا أَي لَجَأَ إِلَيْهِ لِأَنَّهُ سُبْحَانَهُ الْمَفْزَعُ الَّذِي يُلْجَدُّ إِلَيْهِ فِى كُلّ أَمْرٍ ، قَالَ الشَّاعِرُ : أَلِهتَ إِلَيْنَا وَالْحَوَادِتُ جُمَّةٌ .))
لسان العرب ١٩٠/١.
’’خوف زدگی اور پریشانی کی حالت میں فلاں کے پاس اُس نے پناہ حاصل کی، اور اُس کی جانب متوجہ ہوا۔ اس لئے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی وہ پناہ گاہ ہے جس کی پناہ حاصل کی جاتی ہے، ہر مصیبت اور حادثے کے وقت ، ایک شاعر کہتا ہے:
تم نے ہمارے ہاں پناہ حاصل کر لی ہے، اور حوادث بہت زیادہ ہیں۔“
(( اَلهُتُ إِلَى فُلانٍ أَى سَكَنتُ إِلَيْهِ ، لِأَنَّ الْقُلُوبَ تَطْمَئِنُّ بِذكُرِهِ، وَالْأَرْوَاحَ تَسْكُنُ إِلَى مَعْرِفَتِهِ . ))
تفسير البيضاوى ٦/١.
” اس کی پناہ میں جا کر میں نے سکون حاصل کر لیا۔ اس لئے کہ دلوں کو اس کے ذکر سے اطمینان حاصل ہوتا ہے، اور رُوحوں کو اس کی معرفت سے سکون میسر آتا ہے۔“
((ألِهَ الْفَيُصِلُ إِذَا وَلَعَ بِأُمَّهِ، إِذَا الْعِبَادِ يُولَعُوْنَ بِالْتَضَرُّعِ إِلَيْهِ فِي الشَّدَائِدِ . ))
حواله ايضا.
’’اونٹنی کا بچہ ماں کو پاتے ہی شدت شوق سے اُسے چمٹ گیا، اس لئے کہ لوگ مصائب کے وقت عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی جانب توجہ کرتے ہیں ۔“
(( لَاة يَلِيهُ لَيْهَا وَلَاهَا ، إِذَا احْتَجَبَ وَارْتَفَعَ لِأَنَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى مَحْجُوبٌ عَنْ إِدْرَاكِ الْأَبْصَارِ، وَمُرْتَفِعٌ عَلَى كُلِّ شَيءٍ وَعَمَّا لَا يَلِيقُ بِهِ))
تفسير البيضاوي، أيضًا.
’’لَاةَ ، يَلِيهُ، لَيْها اور لاھاً ایسے مواقع پر بولا جاتا ہے، جب کوئی چیز پوشیدہ اور بلند ہو جائے ، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ بھی نظروں سے پوشیدہ ہے، اور اُس کی ذات ہر چیز سے بلند ہے، اور وہ ہر اُس چیز سے پاک ہے جو اُس کی شان کے لائق نہ ہو۔“
إلٰه کے اصطلاحی معنی:
ائمہ تفسیر وحدیث اور ائمہ لغت نے مذکورہ بالا محاورات کی روشنی میں الٰہ کا یہی مفہوم متعین کیا ہے، کہ الہ حق ، وہی ہوتا ہے جو خالق ہو، مالک ہو، حاکم ہو، رازق ہو، غیبی علم کا مالک ہو، کامل قدرت کا مالک ہو، کارساز ہو، قانون ساز ہو، اور تمام صفات کا ملہ کا مالک ہو۔
چنانچہ ابن منظور لسان العرب‘ (۱۸۹/۱) میں رقم طراز ہیں :
(( قَالَ أَبُو الْهَيْثَمِ : وَلَا يَكُونُ إِلَها حَتَّى يَكُونَ مَعْبُودًا ، وَحَتَّى يَكُونَ لِعَابِدِهِ خَالِقًا وَرَازِقًا وَمُدَبّرًا ، وَعَلَيْهِ مُقْتَدِرًا ، فَمَنْ لَمْ يَكُن فَلَيْسَ بِالهِ ، وَإِنْ عُبْدِ ظُلُمَّا بَلْ هُوَ مَخْلُوقٌ وَ مُتَعَبَّدٌ أَنَّ الْخَلْقَ يُولَهُونَ إِلَيْهِ فِي حَوَائِجِهِمْ ، وَيَضَرَّعُونَ إِلَيْهِ فِيمَا يُصِيبُهُم ، وَيَفْزَعُونَ إِلَيْهِ فِى كُلّ مَا يَنُوبُهُمُ كَمَا يُولَهُ كُلُّ طِفل إلى أمّه . ))
’’ابو الہیثم فرماتے:
الٰہ ہی ہو سکتا ہے جس کی عبادت کی جاتی ہو، اور پرستش و عبادت کا مستحق وہی ہو سکتا ہے جو عابد کا خالق ہو، رازق ہو، مدبر ہو اور مقتدر اعلیٰ ہو ۔ جو یہ صفات نہ رکھتا ہو وہ الہ نہیں ہے، اگر چہ ظلماً اُس کی عبادت کی جاتی ہو، بلکہ وہ مخلوق ہے اور کمزور معبود بن بیٹھا ہے، جب کہ خلقت اپنی حاجات میں اس کی طرف مضطرب ہوتی ہے، اور اپنے مصائب میں اس کے سامنے گڑ گڑاتی ہے، اور تمام حوادث میں جو اس پر پڑتے ہیں، اس کے پاس چلاتی ہے، جس طرح بچہ اپنی شکایات لے کر آغوش مادر کا رُخ کرتا ہے۔“
امام قرطبی فرماتے ہیں:
(( إِنَّمَا سُمّى ’’ الله ‘‘ إلها، لأنَّ الخَلْقَ يَتَأَلَهُونَ إِلَيْهِ فِي حَوائِجِهِمْ وَيَتَضَرَّعُونَ إِلَيْهِ عِنْدَ شَدَائِدِهِمُ . ))
الجامع لأحكام القرآن للقرطبي ۷۳/۱. المعروف ”تفسیر قرطبی“
’’اللہ کو الہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ لوگ اپنی حاجات کے لئے اُس کی جانب متوجہ ہوتے ، اور مصائب و شدائد کے وقت اس کے دربار میں فریاد و گریہ کرتے ہیں۔“
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:
(( فَالْإِلهُ هُوَ الَّذِي يَأْلَهُهُ الْقَلْبُ بِكَمَالِ الْحُبِّ وَالتَّعْظِيمِ وَالْإِجْلَالِ وَالْإِكْرَامِ وَالْخَوْفِ وَالرَّجَاءِ. ))
الہ وہ ذات ہے کہ جس کے ساتھ دل انتہا درجے کی محبت رکھتے ہوں، انتہا درجے کی تعظیم اور اجلال و اکرام کرتے ہوں ، اور انتہا درجے کا خوف ورجاء بھی اسی سے رکھتے ہوں، اور ایسے ہی تمام امور اسی سے متعلق رکھتے ہوں ۔“
علامہ ابن قیمؒ فرماتے ہیں:
((تَأَلَهُهُ الْخَلَائِقُ مَحَبَّةً وَتَعْظِيمًا وَحُضُوعًا وَفَرُعًا إِلَيْهِ فِي الْحَوَائِج وَالنَّوَائِب .))
’’الہ سے مراد وہ ذات ہے کہ دل جس کی محبت میں بے قرار ہوتے ہوں ، اسی کی جلالت شان سے مرعوب ہوں، اسی کی طرف رجوع کرتے ہوں، اسی کا اکرام و تعظیم کرتے ہوں، اسی کی طرف رجوع کرتے ہوں، اسی کا اکرام و تعظیم کرتے ہوں، اسی کے سامنے ذلت، خضوع اور خوف سے پیش آئے ہوں، اسی سے امیدیں باندھتے ہوں اور اسی پر بھروسہ رکھتے ہوں۔‘‘
الہ کے بارے میں قرآنی آیات :
مسئلہ اللہ کو مزید سمجھنے کے لیے آیات قرآنی کا مطالعہ مفید ثابت ہوگا، لہٰذا چند وہ آیات پیش کی جارہی ہیں جن میں اللہ کے الٰہ ہونے کا ذکر ہے، ان ساری کی ساری آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ حاکم تکوینی بھی اللہ ہے، اور حاکم تشریعی بھی اللہ ہے، اس لئے کہ الٰہ وہی ہوسکتا ہے جو غیبی طاقت کا مالک ہو، چنانچہ تکوینی اور تشریعی حاکم بھی وہی ہے جو غیبی طاقت کا مالک ہے۔
(سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ .)
رسالة العبودية، ص ۱۲ في مجموعة التوحيد، طبع دمشق سنه ١٩٦٢ء.
التفسير القيم، ص : ٣٣، طبع سنه ١٩٤٩ء.
پیدا کرنے والا ، عالم وجود میں لانے والا ۔
الٰہ وہی ہوسکتا ہے جو شریعت ساز ہو۔ جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
(وَ لَا تَدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَۘ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۫-كُلُّ شَیْءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجْهَهٗؕ-لَهُ الْحُكْمُ وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ)
(القصص : ۸۸)
اور اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہ پکاریئے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اس کے سوا ہر چیز فنا ہو جائے گی ، حکم اُسی کا ہے، اور تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔“
مذکورہ بالا آیت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ الہ اُسے کہتے ہیں جو شریعت ساز ہو، جس کا حکم ہو۔
الہ وہی ہو سکتا ہے جو خالق ہو، اور روزی رساں ہو۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
(یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْؕ-هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَیْرُ اللّٰهِ یَرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِؕ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ﳲ فَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَ)
(فاطر: ۳)
”اے لوگو! تم اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یاد کرو، کیا اللہ کے سوا اور کوئی پیدا کرنے والا ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے روزی پہنچاتا ہے، اس کے سوا کوئی الہ نہیں ہے، پس تمہاری عقل کیوں ماری گئی ہے۔“ مذکورہ آیت سے واضح ہوتا ہے کہ خالق اور روزی رساں ہونا الہ کے مفہوم میں شامل ہے۔ الہ وہی ہو سکتا ہے جو شنوائی سننے کی طاقت ( یعنی کان ) اور بصارت یعنی آنکھیں ۔ چھین سکتا ہو اور واپس دے سکتا ہو۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
(قُلْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ اَخَذَ اللّٰهُ سَمْعَكُمْ وَ اَبْصَارَكُمْ وَ خَتَمَ عَلٰى قُلُوْبِكُمْ مَّنْ اِلٰهٌ غَیْرُ اللّٰهِ یَاْتِیْكُمْ بِهٖؕ-اُنْظُرْ كَیْفَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ ثُمَّ هُمْ یَصْدِفُوْنَ)
(الأنعام : ٤٦)
آپ پوچھے تمہارا کیا خیال ہے، اگر اللہ تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں لے لے، اور تمہارے دلوں پر مہر لگا دے، تو کیا اللہ کے علاوہ کوئی معبود ہے جو وہ چیزیں تمہیں دوبارہ عطا کر دے، آپ دیکھ لیجئے کہ ہم نشانیوں کو کس طرح مختلف انداز میں پیش کرتے ہیں ، لیکن وہ پھر بھی اعراض سے ہی کام لیتے ہیں۔“ الہ وہی ہوسکتا ہے جو نظام شمسی کو قائم رکھ سکتا ہو۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
(قُلْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللّٰهُ عَلَیْكُمُ الَّیْلَ سَرْمَدًا اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ مَنْ اِلٰهٌ غَیْرُ اللّٰهِ یَاْتِیْكُمْ بِضِیَآءٍؕ-اَفَلَا تَسْمَعُوْنَ(71)قُلْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللّٰهُ عَلَیْكُمُ النَّهَارَ سَرْمَدًا اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ مَنْ اِلٰهٌ غَیْرُ اللّٰهِ یَاْتِیْكُمْ بِلَیْلٍ تَسْكُنُوْنَ فِیْهِؕ-اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ(72))
(القصص: ۷۲،۷۱)
”اے میرے نبی ! آپ مشرکین سے پوچھئے، تمہارا کیا خیال ہے، اگر اللہ قیامت تک کے لئے تم پر رات کو مسلط کر دے، تو اللہ کے سوا کون تمہارے لئے روشنی لے آئے گا، کیا تم سنتے نہیں ہو۔ آپ مشرکین سے پوچھئے ،تمہارا کیا خیال ہے، اگر اللہ قیامت تک کے لئے تم پر دن کو مسلط کر دے، تو اللہ کے سوا کون تمہارے لئے رات کو لے آئے گا، جس میں تم آرام کرتے ہو، کیا تم دیکھتے نہیں ہو۔“
الہ وہی ہوسکتا ہے جو ہر قسم کی حمد وثنا کا دنیا و آخرت میں تنہا سزاوار ہو۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
(وَ هُوَ اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَؕ-لَهُ الْحَمْدُ فِی الْاُوْلٰى وَ الْاٰخِرَةِ٘-وَ لَهُ الْحُكْمُ وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ)
(القصص : ۷۰)
اور وہ اللہ ہے، اس کے سوا کوئی الہنہیں ہے، ساری تعریفیں دنیا و آخرت میں اسی کے لیے ہیں، اور ہر جگہ اسی کی حکمرانی ہے، اور اسی کی طرف تم سب لوٹائے جاؤ گے۔“
الٰہ وہی ہو سکتا ہے جو متصرف و مختار اور عالم الغیب ہو۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
(اَلرَّحْمٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوٰى(5)لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَا وَ مَا تَحْتَ الثَّرٰى(6) وَ اِنْ تَجْهَرْ بِالْقَوْلِ فَاِنَّهٗ یَعْلَمُ السِّرَّ وَ اَخْفٰى(7)اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَؕ-لَهُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى(8))
(طه: ٥-٨)
’’وہ ” نہایت مہربان عرش پر مستوی ہے، جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، اور جو ان دونوں کے درمیان میں ہے، اور جو کچھ مٹی میں ہے، سب اسی کا ہے، اور اگر آپ اونچی آواز سے بات کریں گے، تو وہ بے شک خفیہ بات کو جانتا ہے اور اس سے بھی زیادہ پوشیدہ (باتوں کو) جانتا ہے، اس اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے، اس کے بہت اچھے نام ہیں۔“
الٰہ وہی ہو سکتا ہے جو بارش نازل کرتا اور درخت اُگا تا ہو۔
فرمانِ باری تعالی ہے:
(اَمَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ اَنْزَلَ لَكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءًۚ-فَاَنْۢبَتْنَا بِهٖ حَدَآىٕقَ ذَاتَ بَهْجَةٍۚ-مَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُنْۢبِتُوْا شَجَرَهَاؕ-ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِؕ-بَلْ هُمْ قَوْمٌ یَّعْدِلُوْنَﭤ(60))
(النمل: ٦٠)
” ( ان کے خود ساختہ شریک بہتر ہیں ) یا وہ ذات بہتر ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے، اور تمہارے لئے آسمان سے بارش نازل کی ہے، پس ہم نے اس کے ذریعہ بارونق اور خوشنما باغات اُگائے ، جن کے درختوں کو تم نہیں اُگا سکتے تھے، کیا اللہ کے ساتھ کسی اور معبود نے بھی یہ کام کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ راہِ حق سے دور ہو گئے ہیں۔
فائده :
معبودان باطلہ کی عمومی نفی کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت مطلقہ کی مثالیں دے کر مشرکین مکہ سے الزامی سوال کیا ہے کہ بتاؤ یہ کس کی قدرت کا کرشمہ ہے، ان چیزوں کو کس نے پیدا کیا ہے، یہ نعمتیں کس نے دی ہیں؟
اور جب ہر سوال کا جواب تمہارے پاس سوائے اس کے کچھ نہیں کہ یہ سب اللہ کی کرشمہ سازی ہے، تو پھر تم اُسے چھوڑ کر دوسروں کو اپنا معبود کیوں بناتے ہو؟ اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ سے پہلا الزامی سوال یہ کیا کہ ان آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے، اور آسمان سے تمہارے لئے بارش کس نے نازل کی ہے؟
جس کے ذریعہ ہم نے تمہارے لئے خوبصورت باغات اُگائے ہیں ، تم ان درختوں کو اُگانے کی طاقت نہیں رکھتے تھے۔ ظاہر ہے اس کے سوا کوئی جواب نہیں کہ یہ سارے کام اللہ تعالیٰ کے ہیں، تو پھر تم کیوں اللہ کے سوا کسی اور کی پرستش کرتے ہو؟ الہ وہی ہو سکتا ہے جو زمین کو برقرار رکھ سکتا ہو، اور ندیاں، پہاڑ اور دریا بنا سکتا ہو، کڑوے اور میٹھے دو دریاؤں کو اکٹھے چلانا اور حد فاصل کا قائم رکھنا ، یہ صفات بھی لوازم الوہیت میں سے ہیں۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
(اَمَّنْ جَعَلَ الْاَرْضَ قَرَارًا وَّ جَعَلَ خِلٰلَهَاۤ اَنْهٰرًا وَّ جَعَلَ لَهَا رَوَاسِیَ وَ جَعَلَ بَیْنَ الْبَحْرَیْنِ حَاجِزًاؕ-ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِؕ-بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَﭤ(61))
(النمل: ٦١)
’’یا وہ ذات بہتر ہے، جس نے زمین کو رہنے کی جگہ بنائی ہے، اور اس میں نہریں جاری کی ہیں، اور اس پر پہاڑ بسا دیئے ہیں، اور دوسمندروں کے درمیان ایک آڑ کھڑی کر دی ہے، کیا اللہ کے ساتھ کسی اور معبود نے بھی یہ کام کیا ہے، حقیقت یہ ہے کہ اکثر مشرکین نادان ہیں ۔“
فائدہ:
دوسرا سوال یہ کیا کہ اس زمین کو تمہارے لئے قرار کی جگہ کس نے بنایا ہے کہ وہ الٹتی نہیں ہے، اور تم آرام سے اس پر زندگی گزارتے ہو، اور زمین پر نہریں کس نے جاری کی ہیں، اور اس پر پہاڑ کس نے جمادیے، تا کہ حرکت نہ کرے، اور میٹھے اور کھارے پانی کے درمیان رکاوٹ کس نے کھڑی کی ہے، کہ وہ ایک دوسرے سے نہیں ملتے ہیں، اس کے سوا تمہارے پاس کوئی جواب نہیں کہ یہ سب اللہ کی قدرت کے کرشمے ہیں، تو پھر تم کیوں اس کے سوا کسی اور کو اپنا معبود بناتے ہو؟ !
الٰہ وہی ہوسکتا ہے جو بے کس کی غائبانہ پکار کو سنے، دستگیری کرسکتا ہو اور مصیبت ہٹا سکتا ہو۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
(اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ وَ یَكْشِفُ السُّوْٓءَ وَ یَجْعَلُكُمْ خُلَفَآءَ الْاَرْضِؕ-ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِؕ-قَلِیْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَﭤ(62))
(النمل: ٦٢)
’’یا وہ ذاتِ برحق بہتر ہے، جسے پریشان حال جب پکارتا ہے تو وہ اس کی پکار کا جواب دیتا ہے، اور اس کی تکلیف کو دور کر دیتا ہے، اور تمہیں زمین میں جانشیں بناتا ہے، کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی یہ کام کرتا ہے، لوگو! تم بہت ہی کم نصیحت قبول کرتے ہو۔“
فائدہ:
تیسرا سوال یہ کیا کہ جب انسان کو کوئی پریشانی لاحق ہوتی ہے، کسی مرض میں مبتلا ہوتا ہے، یا کسی ظالم کے ہتھے چڑھ جاتا ہے، تو وہ بے تحاشا کسے پکارتا ہے، اور کون ہے جو اس کی فریاد رسی کرتا ہے اور اس کی مصیبت کو دور کر دیتا ہے؟ اور کون ہے جو کچھ کو موت دیتا رہتا ہے اور ان کی نسلوں کو زمین کا وارث بناتا رہتا ہے؟ جواب معلوم ہے کہ وہ اللہ ہے ۔ تو اے مشرکین مکہ ! پھر کیوں تم اسے چھوڑ کر معبودانِ باطلہ کے سامنے سر بسجود ہوتے ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ تم لوگ بہت ہی کم نصیحت حاصل کرتے ہو۔ بے کس، بے بس اور مضطر کی دعا کی مناسبت سے علامہ ابن القیمؒ اپنی کتاب ’’الجواب الکافی‘‘ (ص: ۲۱) پر رقم طراز ہیں کہ:
’’اگر دعا کرتے وقت پورے طور پر حضور قلب حاصل ہو، اپنی حاجت وضرورت کا شدید احساس ہو، اور رب العالمین کے حضور انتہائی عاجزی و انکساری اور غایت درجہ کا خشوع و خضوع حاصل ہو، اور دل پر رقت طاری ہو۔ اور اس حال میں بندہ اپنے رب کے پاکیزہ ناموں اور اعلیٰ صفات کو وسیلہ بنا کر دعا کرے، تو ایسی دعا شاید ہی رد کی جاتی ہے۔‘‘
الہ وہی ہو سکتا ہے جو بحر و بر کی تاریکیوں میں انسانوں کی راہنمائی کرتا اور ہواؤں کو چلاتا ہو۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
(اَمَّنْ یَّهْدِیْكُمْ فِیْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ مَنْ یُّرْسِلُ الرِّیٰحَ بُشْرًۢا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِهٖؕ-ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِؕ-تَعٰلَى اللّٰهُ عَمَّا یُشْرِكُوْنَﭤ(63) )
(النمل: ٦٣)
’’یا وہ اللہ بہتر ہے جو سمندر اور خشکی کی تاریکیوں میں تمہاری رہنمائی کرتا ہے، اور جو ہواؤں کو اپنی بارانِ رحمت سے پہلے خوشخبری بنا کر بھیجتا ہے، کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی یہ کام کرتا ہے، اللہ ان کے جھوٹے معبودوں سے برتر و بالا ہے۔‘‘
فائدہ:
چوتھا سوال یہ کیا کہ صحراء اور سمندر کی تاریکیوں میں تمہاری کون رہنمائی کرتا ہے، اور کون بارش برسانے سے پہلے ہواؤں کو بھیجتا ہے، جن سے لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ اب بارش ہوگی، کون ان باتوں پر قادر ہے؟ جواب معلوم ہے کہ وہ اللہ ہے، تو پھر کیوں تم لوگ اس کے ساتھ غیروں کو شریک بناتے ہو، اللہ تمہارے ان جھوٹے معبودوں سے بہت ہی برتر و بالا ہے۔
قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کے الہ واحد ہونے کا ذکر (۱۲۲) آیات میں ہوا ہے، مسئلہ الوہیت کو مزید سمجھنے کے لئے ان آیات کا مطالعہ ضروری ہے۔
توحيد سلبي لا إلهَ:
گزشتہ سطور میں دعوتِ انبیاء کا جو مختصر خاکہ پیش کیا گیا ہے، اُس میں قدر مشترک کلمہ ’’ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ‘‘ ہے، یہ چھوٹا سا جملہ ایجاب وسلب اور نفی اور اثبات پر مشتمل ہے، نفی ’’ لا إِلهَ “ ہے اور اثبات ” ، جس کا لفظی ترجمہ یوں ہوگا ”نہیں کوئی الہ سوائے اللہ کے“ کلمہ توحید میں نفی اس لیے مقدم ہے تا کہ واضح ہو جائے کہ اللہ کو الہ ماننے سے قبل غیر اللہ کی الہیت کا کلی طور پر انکار ضروری ہے۔ یعنی جو کچھ پہلے ذہن میں موجود ہے، اسے بھلا دینا ہوگا، بلکہ مٹا دینا ہوگا۔ جب زمین یوں صاف ہو جائے تو پھر اس پر ایک نئی تعمیر ہوگی۔ جب تک مکان خالی نہیں ہوتا نیا مکین آ کر نہیں بستا۔
کلمہ طیبہ کے اس منفی جزء میں ان تمام صفات کی غیر اللہ سے نفی لازم آئے گی جو مفہوم میں شامل ہوں ۔
توحيد إيجابي … إلا الله:
ایجاب وسلب کے اعتبار سے مستثنیٰ کی حالتیں مختلف ہوتی ہیں۔ چنانچہ کلام سابق اگر مثبت ہو تو منتقلی سے حکم منفی ہوگا ، جیسا کہ ’’ “ میں زید محبت (آنے) کے حکم سے خارج ہے، اور اگر کلام سابق منفی ہو ، تو صفت منفی مستی کے ساتھ خاص ہو جاتی ہے، جیسا کہ میں آنے کا حکم زید کے ساتھ خاص ہے۔ اسی طرح کلمہ طیبہ کے سلبی حصہ میں اُلوہیت غیر کے ضمن میں جن صفات کی غیر اللہ سے نفی کی گئی ہے وہ تمام صفات اللہ کی ذات کے ساتھ مختص ہیں۔ کہنے سے مقصود فقط اللہ کی ذات کا اقرار نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی الوہیت کا ملہ کا اقرار مقصود ہے، جس سے لازم آئے گا کہ خالق اللہ ہے، مخلوقات پر حاکم وہی ہے، بندوں کی تمام عبادتوں اور نیاز مندیوں کا مستحق وہ ہے، جس نے اُن کو پیدا کیا ہے۔ مخلوقات کا نفع و نقصان، مارنا جلانا، عزت وذلت، صحت و بیماری سب اسی کے اختیار میں ہے ہر ایک کی فریاد رسی کرنے والا وہی ہے، کیونکہ وہ عالم الغیب ہے، اور ہر ایک مصیبت زدہ ، دردمند کی مشکل کو حل وہی کرتا ہے، کیونکہ ہر ایک کی پکار کو غائبانہ سنتا ہے۔
یہ ہیں توحید کے ایجابی اصول و ارکان جن کی توضیح قرآن مجید کی روشنی میں ذیل کی سطور میں کی گئی ہے، چنانچہ:
زمین و آسمان میں بادشاہت اللہ کی ہے:
زمین و آسمان میں بادشاہت صرف ایک اللہ کی ہے، اس کی بادشاہت میں کوئی دوسرا شریک نہیں، جن ہستیوں کو مصالح عباد کا متولی جان کر اللہ کا شریک ٹھہرایا جاتا ہے، ان بیچاروں کا خود اپنا وجود بھی اپنے گھر کا نہیں، نہ تو وہ ایک ذرہ کے پیدا کرنے کا اختیار رکھتے ہیں، نہ مارنا، جلانا ان کے قبضہ میں ہے، نہ اپنے اختیار سے کسی کو ادنی ترین نفع ، نقصان پہنچا سکتے ہیں، بلکہ خود اپنی ذات کے لئے بھی ذرہ بھر فائدہ حاصل کرنے اور نقصان سے محفوظ رہنے کی قدرت اور طاقت نہیں رکھتے ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
(اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِؕ)
(يوسف : ٤٠)
’’اس اللہ کے سوائے کسی کی حکومت نہیں۔“
اور سورۃ الملک میں فرمایا:
(تبارك الذي بيده الملك وهو على كل شيء قدير الذي خلق الموت والحياة ليبلوكم أيكم أحسن عملا وهو العزيز الغفور الذي خلق سبع سماوات طباقا ما ترى في خلق الرحمن من تفاوت فارجع البصر هل ترى من فطور ثم ارجع البصر كرتين ينقلب إليك البصر خاسئا وهو حسير)
(الملك : ١-٤)
” بے حساب برکتوں والا ہے وہ (اللہ ) جس کے ہاتھ میں (سارے جہاں کی ) بادشاہی ہے، اور وہ ہر چیز پر بڑا قادر ہے، جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا ہے، تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل کے اعتبار سے زیادہ بہتر ہے، اور وہ زبر دست ، بڑا معاف کرنے والا ہے، جس نے اوپر تلے آسمان بنائے ہیں، آپ رحمن کی تخلیق میں کوئی بے ضابطگی نہ دیکھیں گے، آپ نظر ڈال لیجئے ، کیا آپ کو کوئی شگاف نظر آتا ہے، پھر آپ بار بار نظر ڈال لیجئے ، وہ عاجز ہو کر آپ کی طرف تھکی ہوئی واپس آ جائے گی ۔“
متصرف فی الامور اللہ ہے :
زمین و آسمان کو پیدا کرنے کے بعد ان پر کامل قبضہ واقتدار اور ہر قسم کے مالکانہ اور شہنشہا نہ تصرفات کا حق صرف اسی کو حاصل ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
(اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ۫-یُغْشِی الَّیْلَ النَّهَارَ یَطْلُبُهٗ حَثِیْثًاۙ-وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ وَ النُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍۭ بِاَمْرِهٖؕ-اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُؕ-تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ(54))
(الاعراف : ٥٤)
” بے شک آپ کا رب وہ اللہ ہے، جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر عرش پر مستوی ہو گیا، وہ رات کے ذریعہ دن کو ڈھانک دیتا ہے، رات تیزی کے ساتھ اس کی طلب میں رہتی ہے، اور اس نے سورج اور چاند اور ستاروں کو پیدا کیا، یہ سب اس کے حکم کے تابع ہیں، آگاہ رہو کہ وہی سب کا پیدا کرنے والا ہے اور اسی کا حکم ہر جگہ نافذ ہے، اللہ رب العالمین کی ذات بہت ہی بابرکت ہے۔“
کائنات میں مختار کل اللہ ہے :
اللہ تعالیٰ جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، اور مختار کل بھی آپ ہی ہے، اس کی پیدا کردہ مخلوق میں سے کسی غیر کو مختار سمجھنا شرک ہے۔ تخلیق و تشریع کا اس نے کسی کو اختیار نہیں دیا۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
(وَ رَبُّكَ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ وَ یَخْتَارُؕ-مَا كَانَ لَهُمُ الْخِیَرَةُؕ-سُبْحٰنَ اللّٰهِ وَ تَعٰلٰى عَمَّا یُشْرِكُوْنَ(68))
(القصص : ٦٨)
اور آپ کا رب جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، اور جسے چاہتا ہے ( اپنی رسالت کے لئے ) چن لیتا ہے، ان مشرکین کو کوئی اختیار نہیں ( کہ وہ ہمارے شریک چنیں ) اللہ تمام عیوب سے پاک اور مشرکوں کے شرک سے بلند و بالا ہے۔“
فائدہ :
اس آیت کریمہ میں بندوں کے خلق و اختیار کی نفی کی گئی ہے، کہ نہ وہ کسی کو پیدا کر سکتے ہیں، اور نہ انہیں یہ اختیار حاصل ہے کہ اللہ کا نبی بننے کے لیے وہ جسے چاہیں اختیار کریں ، اور جس کا چاہیں انکار کر دیں، بلکہ اللہ جسے چاہتا ہے اپنا نبی بناتا ہے، اور نہ بندوں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ جس چیز کی چاہیں عبادت کریں اور جیسے چاہیں عبادت کریں، یہ حق اللہ خالق کا ئنات کا ہے کہ وہ صرف اپنی بندگی کا حکم دیتا ہے ،شرک سے منع کرتا ہے، اور اپنی بندگی کا مشروع طریقہ بناتا ہے، بندوں کا کام صرف اطاعت و بندگی ہے، اسی لئے آیت کے آخر میں کہا گیا ہے کہ اللہ کی ذات مشرکوں کے شرک سے پاک اور بلند و بالا ہے۔“
مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ آیت ولید بن مغیرہ کی تردید میں نازل ہوئی تھی، جب اس نے کہا تھا کہ دونوں بستی والوں میں سے کسی بڑے آدمی کو کیوں نہ اللہ نے اپنا نبی بنایا۔ نیز عام مشرکوں کی تردید میں نازل ہوئی تھی، جنہوں نے اپنی مرضی سے اللہ کے لئے شریک بنالئے اور گمان کر بیٹھے کہ یہ معبودانِ باطلہ قیامت کے دن سفارشی بنیں گے۔
اسباب النزول للواحدی، ص: ۱۸۹.
تمام خزانے اللہ کے اختیار میں ہیں :
ہر چیز کے وافر خزانوں پر اسی کو اختیار حاصل ہے کہ جس خزانہ میں سے جس کو جتنا چاہے عطا کرے اور آپ ہی روزی کا تقسیم کرنے والا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
(وَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَآىٕنُهٗ٘-وَ مَا نُنَزِّلُهٗۤ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ(21))
(الحجر: ۲۱)
” اور کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں ، اور اُسے ہم ایک معین مقدار میں ہی اتارتے ہیں۔“
مصالح عباد کا متولی اللہ ہے :
حکومت وسلطنت، عزت و ذلت اور ہر قسم کے تصرفات کی زمام اکیلے اللہ مالک العلام کے ہاتھ میں ہے۔ ملک جس کو چاہے دے، اور جس سے چاہے سلب کر لے، کبھی رات کو گھٹا کر دن کو بڑھا دیتا ہے، کبھی اس کا عکس کرتا ہے، بیضہ کو مرغی سے، مرغی کو بیضہ سے، آدمی کو نطفہ سے اور نطفہ کو آدمی سے، جاہل کو عالم سے، عالم کو جاہل سے، کامل کو ناقص سے اور ناقص کو کامل سے نکالنا اسی کا کام ہے۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
(قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِی الْمُلْكَ مَنْ تَشَآءُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَآءُ٘-وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآءُؕ-بِیَدِكَ الْخَیْرُؕ-اِنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(26) تُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّهَارِ وَ تُوْلِجُ النَّهَارَ فِی الَّیْلِ٘-وَ تُخْرِ جُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ تُخْرِ جُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ٘-وَ تَرْزُقُ مَنْ تَشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ(27))
(ال عمران : ٢٧،٢٦)
” آپ کہہ دیجئے کہ اے میرے اللہ ! حقیقی بادشاہی کے مالک! تو جسے چاہتا ہے بادشاہی عطا کرتا ہے، اور جس سے چاہتا ہے بادشاہی چھین لیتا ہے، اور جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے، اور جسے چاہتا ہے ذلیل بنادیتا ہے، تمام بھلائیاں تیرے ہاتھ میں ہیں، بے شک تو ہر چیز پر بڑا قادر ہے، تو رات کو دن میں، اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے، اور زندہ کو مردہ سے، اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے، اور تو جسے چاہتا ہے، بے حساب رزق دیتا ہے۔“
اور سورۃ الشورٰی (الآیۃ : ۴۹۔۵۰) میں فرمایا:
(لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-یَخْلُقُ مَا یَشَآءُؕ-یَهَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ اِنَاثًا وَّ یَهَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ الذُّكُوْرَ(49)اَوْ یُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَّ اِنَاثًاۚ-وَ یَجْعَلُ مَنْ یَّشَآءُ عَقِیْمًاؕ-اِنَّهٗ عَلِیْمٌ قَدِیْرٌ(50))
(الشورٰى : ٥۰۰٤٩)
’’آسمانوں اور زمین کی بادشاہی صرف اللہ کے لئے ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، جسے چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے، اور جسے چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے، یا انہیں لڑکے اور لڑکیاں ملا کر دیتا ہے، اور جسے چاہتا ہے بانجھ بنا دیتا ہے، وہ بے شک بڑا جاننے والا ، بڑی قدرت والا ہے۔“
عالم الغیب فقط اللہ ہے :
قرآن مجید میں بار بار اس عقیدہ کی تکرار کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کو علم الغیب نہیں ہے ۔
چنانچہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
(قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰهُؕ)
(النمل: ٦٥)
’’آپ کہہ دیجئے کہ آسمانوں اور زمین میں جتنی مخلوقات ہیں، ان میں سے کوئی بھی اللہ کے سوا غیب کی باتیں نہیں جانتا ہے۔“
اور سورۃ الانعام میں فرمایا:
(وَ عِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُهَاۤ اِلَّا هُوَؕ-وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِؕ-وَ مَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلَّا یَعْلَمُهَا وَ لَا حَبَّةٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَ لَا رَطْبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ(59))
(الانعام : ٥٩)
’’ اور غیب کے خزانے اُسی کے پاس ہیں، اس کے علاوہ انہیں کوئی نہیں جانتا ، وہ خشکی اور سمندر کی ہر چیز کی خبر رکھتا ہے، اگر ایک پتہ بھی گرتا ہے تو وہ اسے جانتا ہے، اور اگر ایک دانا بھی زمین کی تاریکیوں میں گرتا ہے، اور کوئی بھی تازہ اور کوئی بھی خشک ، تو وہ اللہ کی روشن کتاب میں موجود ہے۔‘‘
فائدہ :
اللہ تعالیٰ نے غیبی اُمور کو اُن قیمتی اور اہم اشیاء سے تشبیہ دی ہے جنہیں صندوقوں میں بند کر کے غایت احتیاط کے طور پر تالا ڈال دیا جاتا ہے، ان غیبی امور کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے۔
بعض مشاہدات کا ذکر کر کے مزید تاکید فرمائی کہ تمام غیبی امور کا علم صرف اللہ کو ہے، چنانچہ فرمایا کہ برو بحر میں جو کچھ ہے اس کا علم صرف اللہ کو ہے، اور اس حقیقت کے بیان میں مزید مبالغہ کے طور پر کائنات کی ان گنت جزئیات کے بارے میں فرمایا کہ ان سب کا علم صرف اللہ کو ہے۔
صاحب ’’ فتح البیان‘‘ نے لکھا ہے کہ اس آیت کریمہ سے کاہنوں ، نجومیوں اور غیب کی باتیں بتانے والوں کی تردید ہوتی ہے، جو کشف والہام کا جھوٹا دعوی کرتے ہیں، سیدنا ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(( مَنْ أَتَى كَاهِنًا أَوْ عَرَّافًا فَصَدَّقَهُ بِمَا يَقُولُ، فَقَدْ كَفَرَ بِمَا أُنزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ . ))
مسند أحمد ٢/ ٤٢٩ ، رقم : ٩٥٣٦ ، مستدرك حاكم ١/ ٨١ اور حاکم نے اسے صحیح کہا ہے، مزید برآں علامہ البانی نے بھی ارواء الغلیل ۶۹/۷ میں اسے صحیح کہا ہے۔
’’جو کسی کاہن یا نجومی کے پاس گیا، اس نے محمد ﷺ پر اتاری گئی کتاب کا انکار کر دیا ۔‘‘
فتح البيان ٢ / ٣٨٢.
فائدہ:
انبیاءؑ کو جو علم دیا گیا وہ تعلیمی اور اطلاعی ہے۔ اس لئے قرآن مجید میں اس پر اطلاع اور اظہار کا لفظ اطلاق کیا گیا ہے، کس آیت میں یوں نہیں فرمایا، کہ اللہ تعالیٰ نے کسی پیغمبر یا ولی یا خاتم النبین ﷺ کو علم غیب کی صفت سے متصف فرمایا ہے، اور اطلاع کے بعد ” غیب‘‘ غیب نہیں رہتا، کیونکہ آنحضرت ﷺ نے غیب کی خبریں امت کو بھی بتائی ہیں، تو کیا ساری اُمت عالم الغیب بن گئی ؟
علم غیب کی تعریف :
علم غیب کی تعریف یہ ہے کہ خود بخود بلا واسطہ اور بغیر کسی ذریعہ کے حاصل ہو، اور وہ بعض نہ ہو ، کل ہو، یہ صفت خاصہ ذاتِ الہی ہے، اس لئے انبیاء کرام کو غیب سے مطلع کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ”عالم الغیب کا لقب اپنے لئے مخصوص رکھا ہے، کسی نبی کے لئے استعمال نہیں کیا ، سید نا علیؓ کے ایک مرید نے سلسلہ گفتگو میں کہا ؟
(( لَقَدْ أُعْطِيتَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عِلْمَ الْغَيْبِ . ))
”اے امیر المؤمنین ! یقینا آپ کو علم غیب دیا گیا ہے۔‘‘
جواب میں آپؓ نے ارشاد فرمایا:
(( يا أَخَا كَلْبٍ، لَيْسَ هُوَ بِعِلْمٍ غَيْبٍ، وَإِنَّمَا هُوَ تَعَلَّمُ مِنْ ذِى عِلم.))
”اے کلبی آدمی ! یہ علم غیب نہیں ہے، بلکہ صاحب علم سے سیکھا ہوا علم ہے۔“
پھر آپ نے سورۃ لقمان کی آخری آیت پڑھی:
( اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِۚ-وَ یُنَزِّلُ الْغَیْثَۚ-وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِؕ-وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّا ذَا تَكْسِبُ غَدًاؕ-وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌۢ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ(34) )
(لقمان : ٣٤)
’’ بے شک اللہ کو ہی قیامت کا علم ہے، اور وہی بارش برساتا ہے، اور وہی جانتا ہے اُسے جو ماں کے رحم میں ہوتا ہے، اور کوئی آدمی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا ، اور نہ کوئی یہ جانتا ہے کہ زمین کے کس خطے میں اس کی موت واقع ہوگی ، بے شک اللہ بڑا جاننے والا ، بڑا باخبر ہے۔“
اور مفاتیح الغیب کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا:
((فَهَذَا عِلْمُ الْغَيْبِ الَّذِي لَا يَعْلَمُهُ أَحَدٌ إِلَّا اللَّهُ وَمَا سِوَى ذَلِكَ فَعِلُمٌ عَلَّمَهُ اللهُ نَبِيَّة))
تفصیل دیکھئے: نهج البلاغه، ص: ١٨٦ ، طبعه منشورات دار الهجرة ،ایران، قم اصول کافی ۱/ ٢٥٧، بصائر الدرجات، ص ۲۱۳ جزء خامس.
’’پس یہ ہے علم غیب جسے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور علم غیب کے علاوہ جس قدر بھی ہے وہ مطلق علم ہے جو اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کو سکھایا اور انہوں نے ہمیں بتایا۔“
علم حصولی بذریعہ وحی الہیٰ :
اللہ تعالیٰ کسی شخص کو علم غیب دینے کا ارادہ بھی نہیں کر سکتا، البتہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کو بذریعہ وحی بعض غیبی امور پر مطلع کیا جاتا ہے۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
(عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْهِرُ عَلٰى غَیْبِهٖۤ اَحَدًا(26)اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّهٗ یَسْلُكُ مِنْۢ بَیْنِ یَدَیْهِ وَ مِنْ خَلْفِهٖ رَصَدًا(27))
(الجن : ٢٧،٢٦)
(وہی) غیب ( کی باتیں) جاننے والا ہے، اور کسی پر اپنے غیب کو ظاہر نہیں کرتا ، (ہاں) جس کو پیغمبروں میں سے پسند فرمائے تو اس کو غیب کی باتیں بتا دیتا ہے۔
چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ماضی کے ہزاروں واقعات اس طرح بیان فرمائے ہیں، گویا کہ آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے ، اسی طرح مستقبل کے بارے میں سینکڑوں پیشگوئیاں کی ہیں، جو حرف بحرف پوری ہوئیں، ہورہی ہیں اور ہو کر رہیں گی لیکن سوال یہ ہے کہ یہ علم آپ کو کس ذریعے سے حاصل ہوا۔ آیا ہر زمانے میں آپ حاضر و ناظر تھے؟ اگر نہیں ، اور واقعی نہیں ، تو کیا مشاہدہ کرنے والوں سے آپ نے سن پایا ؟ اگر یہ بھی نہیں تو کیا تعلیم و تعلم اور مطالعہ کتب کے ذریعے آپ نے معلومات حاصل کر لیں ؟ نہیں نہیں ! قرآنِ پاک ان تمام ذرائع علم کی آپ کی ذات سے نفی کرتا ہے، اور باقی صرف ایک ہی ذریعہ معلومات رہ جاتا ہے یعنی وحی نبوت اور الہام، سو آپ کو جس قدر علم حاصل ہوا، اسی کے ذریعے سے حاصل ہوا، اور یہی آپ کی صداقت کی سب سے بڑی علامت اور نشانی ہے۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
(وَ مَا كُنْتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِیِّ اِذْ قَضَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسَى الْاَمْرَ وَ مَا كُنْتَ مِنَ الشّٰهِدِیْنَ(44))
(القصص : ٤٤)
’’اور آپ کوہ طور کے مغربی جانب اس وقت موجود نہیں تھے جب ہم نے موسیٰ کو اپنی شریعت دی، اور نہ آپ نے اس کا مشاہدہ کیا۔“
((وَ مَا كُنْتَ ثَاوِیًا فِیْۤ اَهْلِ مَدْیَنَ تَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِنَاۙ-وَ لٰـكِنَّا كُنَّا مُرْسِلِیْنَ(45)وَ مَا كُنْتَ بِجَانِبِ الطُّوْرِ اِذْ نَادَیْنَا وَ لٰـكِنْ رَّحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّاۤ اَتٰىهُمْ مِّنْ نَّذِیْرٍ مِّنْ قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ(46)))
(القصص : ٤٦،٤٥)
’’اور نہ آپ اہل مدین کے درمیان پائے گئے انہیں ہماری آیتیں سنانے کے لئے لیکن ہم نے آپ کو اپنا رسول بنا کر بھیجا، اور آپ کوہ طور کے دامن میں اس وقت موجود نہ تھے جب ہم نے (موسیٰ کو) آواز دی تھی لیکن آپ اپنے رب کی جانب سے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں تا کہ آپ ایک ایسی قوم کو ڈرائیں جس کے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا، تا کہ وہ نصیحت حاصل کریں۔“
اور سورۃ العنکبوت میں فرمایا:
(وَ مَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖ مِنْ كِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّهٗ بِیَمِیْنِكَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ(48))
(العنكبوت : ٤٨)
’’اور آپ پہلے سے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے، اور نہ آپ ہاتھ سے اسے لکھتے تھے ، ورنہ باطل پرست لوگ شبہ کرتے ۔“
مفسر أبوالسعو در قم طراز ہیں:
((الْوَقُوفُ عَلى مَا فَصَّلَ مِنَ الأحَوَالِ لَا يَتَسَتَّى إِلَّا بِالْمُشَاهَدَةِ أوِ التَّعَلُّمِ وَحَيْثُ انْتَفَى كِلَاهُمَا تَبَيَّنَ أَنَّهُ يُوحَى مِنْ عَلَّامٍ الْغُيُوبِ))
تفسير أبي السعود.
’’(یعنی) آپ ٹیم نے جو گزشتہ امم کے احوال بیان کئے ہیں ان کا علم سوائے مشاہدہ یا تعلیمی ذریعہ کے ممکن نہیں ، لہذا جہاں ان دونوں کی نفی کی گئی ہے، وہاں یہ امر خود بخود واضح ہو جاتا ہے کہ عالم الغیب کی طرف سے آپ کو بذریعہ وحی اطلاع دی جاتی ہے۔“
مگر یہ علم غیب نہیں، علم حصولی ہے، جو حادث بھی ہے اور محدود بھی ، حادث اس لئے کہ وحی کے پہلے آپ کو یہ علم نہ تھا، اور محدود اس لئے کہ کئی چیزوں کا علم آپ کو وحی کے ذریعے بھی نہیں دیا گیا ، دلیل کے طور پر فرمانِ باری تعالیٰ یا در ہے:
(اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِۚ-وَ یُنَزِّلُ الْغَیْثَۚ-وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِؕ)
(لقمان : ٣٤)
(وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّا ذَا تَكْسِبُ غَدًاؕ-وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌۢ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ(34))
’’ اللہ ہی کو قیامت کا علم ہے، وہی بارش برساتا ہے اور وہی ( حاملہ کے ) پیٹ کی چیزوں کو جانتا ہے۔ نیز کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کام کرے گا ؟ نہ ہی کوئی نفس یہ جانتا ہے کہ کس سرزمین میں اسے موت آئے گی؟ بے شک اللہ ہی جاننے والا ، خبر رکھنے والا ہے۔“
جب کہ حدیث شریف میں ہے، نبی اکرم ﷺ سے جب قیامت کے بارے میں پوچھا گیا کہ کب آئے گی؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا:
(( فِي خَمْسٍ لَا يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا اللهُ . ))
صحيح بخاري، كتاب الإيمان، باب سؤال جبريل النبي ﷺ رقم: ٥٠، صحب مسلم، كتاب الإيمان، باب بيان الإيمان والإسلام والإحسان، رقم: ۹۹.
” یعنی قیامت ان پانچ چیزوں میں سے ہے، جنہیں اللہ رب العزت کے سوا دوسرا کوئی نہیں جانتا۔“
پھر آپ ﷺ نے یہی (مذکورہ بالا) آیت پڑھی۔
گویا قرآن و حدیث دونوں نے یہ بتلا دیا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا ان چیزوں کا علم کسی کونہیں۔
عاقل را اشاره کافی است ، ورنہ اس موضوع پر اس قدر لکھا جا سکتا ہے کہ ایک پوری کتاب تیار ہو جائے ۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ حق سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین !
پکار کا مستحق فقط اللہ ہے :
فرمانِ باری تعالی ہے:
(لَهٗ دَعْوَةُ الْحَقِّؕ)
(الرعد: ١٤)
’’صرف اسی کو پکارنا حق ہے۔“
اور جن معبودانِ باطلہ کو اللہ کے سوا پکارا جاتا ہے، وہ کوئی حاجت پوری نہیں کر سکتے ، حاجت روائی تو کیا کرتے وہ کسی کی پکار کو سنتے بھی نہیں ۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
(وَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ مَا یَمْلِكُوْنَ مِنْ قِطْمِیْرٍﭤ(13) اِنْ تَدْعُوْهُمْ لَا یَسْمَعُوْا دُعَآءَكُمْۚ-وَ لَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَكُمْؕ)
(فاطر: ١٤،١٣)
” اور اس کے سوا جنہیں تم پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کی جھلی کے بھی مالک نہیں ہیں ۔ اگر تم انہیں پکارو گے تو وہ تمہاری پکار نہیں سنیں گے ، اور اگر بالفرض سن بھی لیں تو وہ تمہارے کسی کام نہیں آئیں گے۔“
بلکہ قیامت کے دن ان مشرکانہ حرکات سے بیزاری کا اظہار کریں گے اور بجائے مددگار بننے کے دشمن ثابت ہوں گے ۔ فرمانِ باری تعالیٰ ملاحظہ ہو:
(وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَنْ لَّا یَسْتَجِیْبُ لَهٗۤ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ وَ هُمْ عَنْ دُعَآىٕهِمْ غٰفِلُوْنَ(5) وَ اِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوْا لَهُمْ اَعْدَآءً وَّ كَانُوْا بِعِبَادَتِهِمْ كٰفِرِیْنَ(6))
(الأحقاف : ٦،٥)
’’ اور اس آدمی سے بڑھ کر گمراہ کون ہو گا جو اللہ کے بجائے اُن معبودوں کو پکارتا ہے جو قیامت تک اس کی پکار کو نہ سن سکیں گے، اور بلکہ وہ اُن کی فریاد و پکار سے یکسر غافل ہیں۔ اور جب لوگ میدانِ محشر میں لائے جائیں گے تو وہ معبود اُن کے دشمن ہو جائیں گے، اور اُن کی عبادت کا انکار کر دیں گے۔“
اور سورۃ یونس ( الٰایۃ :۲۹) میں آتا ہے کہ وہ یوں کہیں گے:
( فَكَفَىٰ بِٱللَّهِ شَهِيدًۢا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ إِن كُنَّا عَنْ عِبَادَتِكُمْ لَغَٰفِلِينَ )
’’پس ہمارے اور تمہارے درمیان گواہ کی حیثیت سے اللہ کافی ہے، ہم تمہاری عبادت یعنی پکار سے بالکل ہی بے خبر تھے ۔“
اس آیت پر شاہ صاحبؒ رقم طراز ہیں :
” جتنے مشرک ہیں اپنے خیال کو پوجتے ہیں یا شیطان کو ، اور نام کرتے ہیں نیکوں کا ، وہ اس کام سے بیزار ہیں، آخرت میں معلوم ہوگا۔“
عبادت کا مستحق صرف اللہ تعالیٰ ہے :
کتاب وسنت، قرآن و حدیث کی نصوص صریحہ سے یہ ثابت اور واضح ہوتا ہے کہ عبادت صرف ایک اللہ کا حق ہے، اللہ رب العزت کے علاوہ ہر کسی کی عبادت ممنوع و حرام، کفر اور شرک ہے ۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
(یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ(21) الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّ السَّمَآءَ بِنَآءً۪-وَّ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخْرَجَ بِهٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْۚ-فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ اَنْدَادًا وَّ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(22))
(البقرة : ۲۲،۲۱)
”اے لوگو، اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا، اور ان لوگوں کو پیدا کیا جو تم سے پہلے گزر گئے ، تاکہ تم پرہیز گار بن جاؤ، جس نے زمین کو تمہارے لیے فرش اور آسمان کو چھت بنایا، اور آسمان سے پانی اُتارا جس کے ذریعہ اس نے مختلف قسم کے پھل نکالے تمہارے لیے روزی کے طور پر، پس تم اللہ کا شریک اور مقابل نہ ٹھہراؤ، حالانکہ تم جانتے ہو ۔( کہ اس کا کوئی مقابل نہیں)‘‘
اب عبادت کا معنی و مفہوم، عبادت کی حقیقت اور اس کی انواع و اقسام پر تفصیل مگر اختصار سے بحث ملاحظہ ہو۔
عبادت کی تعریف :
عبادت کے معنی ہیں بندگی، پرستش، بدرجہ غائت تذلل و عاجزی اور انتہائی تعظیم و اطاعت ۔ چنانچہ ؛
➊ امام راغب اصفہانیؒ رقم طراز ہیں:
’’العَبُودِيَّة “ کے معنی ہیں کسی کے سامنے عاجزی اور انکساری ظاہر کرنا، مگر العبادۃ“ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے پر بولا جاتا ہے۔
اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے لفظ ” العبادة “، ” العبودیة“ سے زیادہ بلیغ ہے، لہٰذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہو سکتی ہے جو بے حد صاحب فضل و انعام ہو، اور ایسی ذات صرف ذاتِ الہیٰ ہی ہے، اسی لیے فرمایا:
(( أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ .))
کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو “
مفردات القرآن، معنى ” العبادة “.
➋ امام فخر الدین رازیؒ تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں:
(( إِنَّ الْعِبَادَةَ عِبَارَةٌ عَنْ نِهَايَةِ التَّعْظِيمِ وَهِيَ لَا تَلِيقُ إِلَّا بِمَنْ صَدَرَ عَنْهُ غَايَةُ الْإِنْعَامِ .))
تفسير كبير ٢٤٢/١ ، تفسير ’’ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ “.
” عبادت کے معنی ہیں انتہائی تعظیم ، اور عبادت اُسی ذات کے لائق ہے جس کے انعام بے حد و نہایت ہوں۔“
ایک اور مقام پر رقم طراز ہیں:
(( إِنَّ الْعِبَادَةَ اَعْظَمُ أَنْوَاعِ التَّعْظِيمِ فَهِيَ لَا تَلِيقُ إِلَّا بِمَنْ صَدَرَ عَنْهَ اَعْظَمُ انْوَاعِ الْإِنْعَامِ وَذَلِكَ لَيْسَ إِلَّا الْحَيَوةَ وَالْعَقْلَ وَالْقُدْرَةَ وَمَصَالِحَ الْمَعَاشِ وَالْمَعَادِ ، فَإِذَا كَانَتِ الْمَنَافِعُ وَالْمَضَارُ كُلُّهَا مِنَ اللهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى وَجَبَ أَنْ لَا تَلَيْقَ الْعِبَادَةُ إِلَّا بِاللهِ سُبْحَانَهُ . ))
تفسير كبير ٥٩/١٧، تفسير الآية ” ويعبدون من دون الله ما لا يضرهم۔
”یقینا عبادت تعظیم کی انواع واقسام سے اعظم واعلی نوع و قسم ہے، لہذا یہ سوائے اس ذات کے جس کے انعامات کی تمام انواع و اقسام سے اعظم واعلیٰ ہوں کسی کو لائق نہیں اور اعظم انعامات زندگی ، عقل، طاقت دنیا اور آخرت کے مصالح ہیں، پس جب ہر قسم کا نفع و نقصان اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اختیار میں ہے تو واجب ہے کہ اس ذات سبحانہ و تعالیٰ کے سوا عبادت کے لائق کوئی نہیں۔“
تو امام رازیؒ عبادت کو نھایۃ التعظیم اور اعظم انواع التعظیم قرار دیتے ہیں، اسی تفسیر کبیر میں عبادت کو اطاعت قرار دیتے ہوئے ایک نہایت ہی عجیب و نفیس بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
(( قوله : ” لَا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ ” مَعْنَاهُ لَا تُطِيعُوهُ بِدَلِيلٍ أَنَ الْمَنْهِىَ عَنْهُ لَيْسَ هُوَ السَّجُودُ لَهُ فَحَسْبُ ، بَلِ الْاِنْقِيَادُ لِأمْرِهِ وَالطَّاعَةُ لَهُ فَالطَّاعَةُ عِبَادَةٌ.))
اللہ تعالیٰ کے کلام ’’لَا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ “ کے معنی ہیں ” تم شیطان کی اطاعت نہ کرو اس دلیل کی بنیاد پر کہ شیطان کو محض سجدہ کرنا ہی ممنوع نہیں بلکہ اس کے حکم کی متابعت اور اس کی اطاعت بھی منع ہے، پس اطاعت عبادت ہے۔“
ایک اعتراض:
سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے فرمان ؛
(أَطِيعُوا اللهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُوْلَ وَأُولِي الأمْرِ مِنْكُمُ )
میں ہمیں امراء کی اطاعت کا حکم دیا ہے تو کیا ہم کو امراء کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے؟
جواب:
(امام رازیؒ فرماتے ہیں کہ )
((طَاعَتُهُمْ إِذَا كَانَتْ بِأَمْرِ اللهِ لَا تَكُونُ إِلَّا عِبَادَةُ اللَّهِ وَطَاعَةٌ لَهُ.))
’’ (ان امراء یعنی حکام) کی اطاعت جب اللہ کے حکم سے ہو تو وہ اللہ ہی کی عبادت اور اللہ ہی کی اطاعت ہوگی ۔“
اور یہ اطاعت کیسے اللہ کی اطاعت نہ ہوگی، جب کہ غیر اللہ کو سجدہ اور رکوع تک بھی اللہ کے حکم سے ہو تو اللہ ہی کی عبادت ہوگی ، کیا آپ نہیں دیکھتے کہ ملائکہ نے آدمؑ کا سجدہ (جب اللہ کے حکم سے ) کیا اور یہ اللہ ہی کی عبادت تھی ۔
(( وَإِنَّمَا عِبَادَةُ الْأُمَرَاءِ هُوَ طَاعَتُهُمْ فِيْمَا لَمْ يَأْذَنِ اللَّهُ فِيْهِ .))
’’امراء (حکام ) کی اطاعت (فرمانبرداری ) ان کی عبادت صرف اس صورت میں ہوگی جس صورت میں اللہ تعالیٰ نے ان کی اطاعت کا اذن و حکم نہیں دیا ۔“
اگر یہ کہا جائے کہ جب ہم شیطان کی کوئی بات نہیں سنتے اور نہ ہی اس کا کوئی اثر پاتے ہیں تو شیطان کی اطاعت اور رحمن کی اطاعت میں کس طرح فرق و امتیاز ہوگا ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ:
(( عِبَادَةُ الشَّيْطَانِ فِي مُخَالِفَةِ أَمْرِ اللَّهِ.))
’’اللہ کے حکم کی مخالفت، شیطان کی عبادت ہے۔“
اور اللہ کے حکم کی تعمیل میں شیطان کی عبادت نہیں ہوگی ، کیوں کہ اس کا تو اللہ نے حکم فرمایا ہے:
((فَفِي بَعْضِ الْأَوْقَاتِ يَكُونُ الشَّيْطَانُ يَأْمُرُكَ وَهُوَ غَيْرُكَ وَفِي بَعْضِ الْأَوْقَاتِ يَأْمُرُكَ وَهُوَ فِيُكَ.))
’’پس بعض اوقات شیطان تجھے حکم دیتا ہے اور وہ تیرے سوا کسی دوسرے کی صورت میں ہوتا ہے، اور بعض اوقات شیطان تجھے حکم دیتا ہے اور وہ خود تیرے اندر ہوتا ہے۔“
پس جب کوئی شخص آپ کے پاس آئے اور کسی بات کا حکم دے تو دیکھو کہ وہ حکم حکم الہٰی کے موافق ہے یا موافق نہیں۔
((فَإِن لَم يَكُن مُوَافِقًا فَذَالِكَ الشَّخصُ مَعَهُ الشَّيْطَانُ يَأْمُرُكَ بِمَا يَأْمُرُكَ به .))
’’اگر اللہ کے حکم کے موافق نہ ہو تو یہی شخص ہے جس کے ساتھ شیطان ہے، اس کا حکم شیطان کا حکم ہے ۔“
((فَإن أَطَعْتَهُ فَقَدْ عَبَدَتَ الشَّيْطَانَ، وَإِن دَعْتكَ نَفْسُكَ إِلى فِعل فَانْظُرْ أَهْوَ مَأْذُونَ فِيهِ مِنْ جِهَةِ الشَّرْعِ أَوْلَيْسَ كَذَلِكَ، فَإِن لَّمْ يَكُن مأذوناً فِيهِ ، فَنَفْسُكَ هِىَ الشَّيْطَانُ أَوْ مَعَهَا الشَّيْطَانُ يَدْعُوكَ ،فَإِن اتَّبَعْتَهُ فَقَدْ عَبَدتَهُ.))
’’اس صورت میں اگر تو نے اس شخص کی اطاعت کی تو تو نے شیطان کی عبادت کی ۔ اور اگر تیرا نفس تجھے کسی کام کی طرف بلائے تو دیکھو کہ شرع کی رُو سے اس کام کی اجازت ہے یا نہیں؟ اگر شرعاً اس فعل کی اجازت نہیں ہے تو تیرا نفس خود شیطان ہے یا اس کے ساتھ شیطان ہے جو تجھے بلاتا ہے۔ اگر تو نے اس کی پیروی کی تو یقیناً تو نے شیطان کی عبادت کی ۔“
پھر شیطان پہلے تو ظاہر اللہ عزوجل کی نافرمانی اور مخالفت کا حکم دیتا ہے:
((فَمَنْ أَطَاعَهُ فَقَدْ عَبْدَهُ ، وَمَنْ لَّمْ يُطِعْهُ فَلَا يَرْجِعُ عَنْهُ، بَلْ يَقُولُ لَهُ أَعْبُدُ اللَّهَ كَى لَاتُهَانَ وَ لِيُرْتَفَعَ عِنْدَ النَّاسِ شَأْنُكَ، وَيَنْتَفَعُ بِكَ اِخْوَانُكَ وَأَعْوَانُكَ، فَإِنْ أَجَابَ إِلَيْهِ فَقَدْ عَبَدَهُ.))
’’پس جس نے اس کی فرمانبرداری کی اس نے اس کی عبادت کی ، اور جو شیطان کی اطاعت نہیں کرتا شیطان (ہمت ہار کر ) اس کو چھوڑ نہیں دیتا، بلکہ اسے کہتا ہے تو اللہ کی عبادت کرتا کہ تیری تو ہین نہ ہو اور لوگوں کی نظر میں تیرا مرتبہ بلند ہو اور تیری ذات سے تیرے دوسرے بھائیوں اور دوستوں کو فائدہ پہنچے، پس اگر اس شخص نے اس کی بات مان لی تو یقیناً اس نے شیطان کی عبادت کی ۔“
لیکن شیطان کی عبادت ، عبادت میں تفاوت ہے، کیونکہ اعمال میں سے بعض عمل ایسے ہوتے ہیں کہ جن میں عمل کرنے والے کا دل، اس کی زبان اور اس کے اعضاء و جوارح سب برابر کے شریک ہوتے ہیں اور بعض کام ایسے واقع ہوتے ہیں کہ کرنے والے کا دل اور اس کی زبان و جوارح کی مخالفت ہوتی ہے۔
بعض لوگ ایک جرم کا ارتکاب اس حال میں کرتے ہیں کہ ان کا دل اس پر خوش نہیں ہوتا اور وہ (اپنی زبان سے ) اپنے رب سے مغفرت طلب کر رہے ہوتے ہیں اور اعتراف کرتے ہیں کہ یہ کام برا ہے۔ (( فَهُوَ عِبَادَةُ الشَّيْطَانِ بِالْأَعْضَاءِ الظَّاهِرَةِ.)) يہ (صرف) ظاہری اعضاء سے شیطان کی عبادت ہے۔
اور بعض لوگ گناہ کا ارتکاب اس حال میں کرتے ہیں کہ ان کا دل خوش ہوتا ہے اور ان کی زبان بھی (اس گناہ کے ذکر و بیاں سے) تر ہوتی ہے ۔ ( یہ ظاہر و باطن دونوں میں ہے شیطان کے عبادت گزار ہیں۔)
تفسير كبير ٩٦/٢٦ – ٩٧ ، تفسير الآية : لا تعبدوا الشيطان.
سبحان اللہ! کیا عجیب پر کیف و بصیرت افروز تقریر ہے، نفس شریر کی مکاریوں اور ابلیس لعین کی دسیسہ کاریوں کو کس خوبی سے بے نقاب کیا گیا ہے۔ مزید برآں
➌ حافظ ابن کثیرؒ (المتوفی سنہ ۷۷۴ ھ ) لکھتے ہیں :
(( وَالْعِبَادَةُ فِى اللُّغَةِ مِنَ الدُّلَّةِ يُقَالُ طَرِيقُ مُعبَّدٌ وَبَعِيرٌ مُعَبَّدُ أَى مُذِلُّ وَفِي الشَّرْعِ عِبَارَةٌ عَمَّا يَجْمَعُ كَمَالَ الْمَحَبَّةِ وَالْخُضُوع وَالخَوفِ .))
تفسير ابن كثير ۱ / ۱۲۸ ، تفسير : إياك نعبد وإياك نستعين.
’’عبادت کا معنی لغت میں ذلت ہے ’’طریق معبد‘‘ اس راستے کو کہتے ہیں جو کمزور ہو۔ اسی طرح ’’بغیر معبد“ اس اونٹ کو کہتے ہیں جو بہت دبا اور جھکا ہوا ہو۔ اور شریعت اسلامیہ میں عبادت نام ہے، محبت، خشوع، خضوع اور خوف (کے مجموعے) کا۔“
➍ امام ابن قیم الجوزیہؒ (المتوفی سنہ ۷۵۱ ھ) نے عبادت کی تعریف کچھ یوں بیان فرمائی ہے:
((الْعِبَادَةُ عِبَارَةٌ عَنِ الْاِعْتِقَادِ وَالشُّعُورِ بِأَن لِلْمَعُبُودِ سُلْطَةٌ غَيبيَّةٌ يَقْدِرُ بِاَعْلَى النَّفَع وَالضَّرَرِ فَكُلُّ ثَنَاءٍ وَدُعَاءٍ وَتَعْظِيمٍ يُصَاحِبُهُ هَذَا الْاِعْتِقَادُ وَالشُّعُورُ فَهِيَ عِبَادَةٌ. ))
مدارج السالكين بحواله تفسير جواهر القرآن ۸/۱
’’عبادت اس اعتقاد اور شعور کا نام ہے کہ معبود کو ایک غیبی تسلط (وتصرف) حاصل ہے جس کی بناء پر وہ نفع و نقصان پر قدرت رکھتا ہے، پس ہر تعریف اور ہر پکار اور ہر تعظیم جو اس اعتقاد وشعور کے ساتھ کی جائے وہ عبادت ہے۔“
➎ اور السید شریف الجرجانی عبادت کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
(( الْعِبَادَةُ هُوَ فِعَلُ الْمُكَلَّفِ عَلى خِلَافِ هَوى نَفْسِهِ تَعْظِيمًا لِرَبِّهِ ))
التعريفات ، ص : ١٢١
” مکلف کا اپنی خواہشات نفس کے خلاف عمل کرنا ، اور اللہ کی تعظیم کرنا عبادت کہلاتا ہے۔“
عبادت کی اس تعریف سے بہت سے شبہات کا ازلہ ہو گیا ۔ تعریف ہو یا پکار، تعظیم ہویا کوئی اور فعل، صرف وہی عبادت ہے جس میں محمود و مدعو اور معظم ہستی کو غیبی طور پر متصرف و مقتدر مانا جائے ، اسے مافوق الاسباب طاقت و قدرت اور سلطہ واقتدار کا مالک جانا جائے ، اگر کسی معظم و مکرم ہستی کو اس صفت سے متصف نہ مانا جائے تو نہ تو کسی کی مدح و ثناء، نہ کسی کی دعا و پکار اور نہ ہی کسی کی تعظیم و تکریم عبادت میں داخل ہوگی، لہذا رسول کریم ﷺ کی تعظیم و تکریم ، اولیاء اللہ کی عزت اور ظاہری اسباب کے تحت کسی کو کسی کام کے لیے پکارنا جائز ہوگا، یہ شرک نہیں ہوگا۔
انواع و اقسام عبادت :
عبادت تین اقسام پر مشتمل ہے۔
➊ قولی عبادت ۔
➋ فعلی عبادت ۔
➌ مالی عبادت۔
قولی عبادت:
تسبیح و تہلیل ، تکبیر و تحمید، ذکر و دعاء وغیرہ سب قولی عبادات ہیں۔
بدنی عبادت:
روزه ، طواف، اعتکاف اور نماز وغیرہ بدنی عبادتیں ہیں۔
مالی عبادت:
صدقہ خیرات، زکوۃ، نذر و نیاز اور قربانی وغیرہ مالی عبادتیں ہیں۔
یادر ہے کہ یہ تینوں انواع اللہ رب العزت کے لئے خاص ہیں، غیر اللہ کے لئے کوئی بھی نوع جائز نہیں، نہ قولی عبادت، نہ بدنی عبادت اور نہ ہی مالی عبادت، اور مسلمانوں کے لئے حکم دیا گیا ہے کہ وہ پانچ وقتہ نمازوں میں کئی کئی دفعہ قولاً وعملاً اس حقیقت کا اعتراف کریں کہ ہر قسم کی عبادتیں صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں۔ چنانچہ نمازی تشہد کے اندر اعلان کرتا ہے کہ (( التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ . )) یعنی تمام عبادات قولیہ، بدنیہ اور مالیہ اللہ ہی کے لیے ہیں ۔ قرآن حکیم میں رسول اللہ ﷺ کو اور ان کے واسطہ سے ساری اُمت کو ارشاد ہوتا ہے کہ ان عبادات ثلاثہ کو اللہ ہی کے لیے ادا کریں، کسی دوسرے کو اس میں شریک نہ کریں۔“
( قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(162)لَا شَرِیْكَ لَهٗۚ-وَ بِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ(163))
(الأنعام: ١٦٣،١٦٢)
’’آپ کہیے کہ میری نماز اور میری قربانی ، اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ ربّ العالمین کے لئے ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ہے، اور مجھے اس کا حکم دیا گیا ہے، اور میں اللہ کا پہلا فرمانبردار بندہ ہوں۔“
فائدہ :
یعنی مقبول عمل وہ ہے جو حکم الہٰی سے کیا جائے ، چاہے وہ حکم الہٰی آیات قرآنی کی صورت میں ہو یا احادیث رسول ﷺ کی صورت میں ہو ، اور جو اس کے علاوہ ہے وہ مقبول نہیں ہے، چاہے کتنا بھاری عمل ہی کیوں نہ ہو ۔
نذرونیاز کا مستحق صرف اللہ ہے:
نذر و نیاز صرف اللہ کا حق ہے، جو لوگ انفاق مال اور نذر میں حکم الہی کے خلاف کرتے ہیں، ان ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ، اللہ جو چاہے ان پر عذاب مسلط کرے، فرمانِ باری تعالی ہے:
(وَ مَاۤ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ نَّفَقَةٍ اَوْ نَذَرْتُمْ مِّنْ نَّذْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُهٗؕ-وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ(270))
(البقرة : ۲۷۰)
” اور تم جو کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہو یا کوئی منت مانتے ہو، تو اللہ بے شک اُسے جانتا ہے، اور ظالموں کا کوئی مددگار نہ ہوگا۔“
یعنی مشرکین غیر اللہ کی عبادت کرتے تھے، اور غیر اللہ کے تقرب کے لئے نذرونیاز کے طور پر ذبح کرتے تھے اس لئے نبیؑ کو حکم ہوا کہ آپ ان کی مخالفت میں اس بات کا اعلان کر دیں کہ میری ہر قسم کی عبادت نماز اور ذبح وغیرہ اللہ تعالیٰ کے تقرب اور خوشنودی کے لئے ہے۔
زائرین بیت اللہ کو حکم ہوتا ہے:
( وَ لْیُوْفُوْا نُذُوْرَهُمْ )
(الحج : ٢٩)
’’اور چاہیے کہ وہ اپنی نذر پوری کریں۔“
اور سورۃ الدھر ( الٰایۃ : ۷ ) میں عباد اللہ کی تعریف میں اس وصف کو نمایاں طور پر بیان کیا گیا ہے کہ جو اللہ کی نذر و نیاز مانتے ہیں ، اس کو پورا کرتے ہیں ۔
(یُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ)
(الدهر : ۷)
’’( مومنین ) اپنی نذریں پوری کرتے ہیں۔“
توحید کے فوائد واثرات:
اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا عقیدہ ایمان کا جزو اعظم اور دین اسلام کا اصل الأصول ہے۔ عبادات و معاملات اور اعمال و اخلاق کی پوری عمارت اس بنیاد اور اساس پر قائم ہے، اگر یہ بنیادی عقیدہ درست اور صحیح ہے تو تمام عبادات و اعمال عنداللہ مقبول اور موجب اجر و ثواب ہوں گے۔ لیکن اگر اس بنیادی عقیدے میں خرابی ہوئی تو تمام عبادات و اعمال مردود، رائیگاں اور بے نتیجہ ہوں گے۔ اسی معنی کو آپ اس طرح بھی ادا کر سکتے ہیں کہ توحید کا تعلق دین اسلام سے ایسے ہی ہے جیسے کہ روح کا تعلق جسم کے ساتھ ۔ جاندار کے جسم میں جتنے بھی اعضاء ہیں اور ان اعضاء کے اندر جتنی بھی قوتیں اللہ رب العزت نے ودیعت کر رکھی ہیں، ان سب کی بقا کا دار و مدار فقط روح اور جان پر ہے۔ جب تک جان جسم کے اندر موجود ہے، تمام اعضاء اور قوتیں بھی زندہ ہیں، لیکن جب روح نکل جاتی ہے تو یہ سب کا رخانہ معطل ہو کر رہ جاتا ہے۔
بالکل اسی طرح دین فطرت کا وجود تو حید پر موقوف ہے۔ اگر تو حید ہوگی تو دین کا تصور بھی موجود ہوگا ، اور اگر توحید نہ ہوگی یا اس کے تصور میں کمی ہوگی تو سارا دین جسم بے روح کی طرح بے کار سمجھا جائے گا۔ یا جس طرح ایک مکان کی مضبوطی اس کی بنیادوں پر موقوف ہوتی ہے، بالکل اسی طرح دین حق کی عمارت مسئلہ توحید پر قائم ہے، اگر یہ عقیدہ مجروح ہو گیا، اگر یہ بنیاد کمزور ہوگئی تو اس پر جو بھی دین کی عمارت اٹھائی جائے گی ، لازماً وہ نا پائیدار اور نا قابل اعتماد ہوگی۔
یہ عقیدہ اس قدر اہم اور ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی نشر و اشاعت اور افہام و تفہیم کا اس قدر زیادہ اہتمام فرمایا ہے۔ ایک لاکھ سے زیادہ پیغمبر اور سینکڑوں کتابیں اور صحیفے اس عقیدے کی تبلیغ و تبین کے لئے بھیجے ۔ سید الانبیاء ﷺ پر چونکہ سلسلہ نبوت ختم کرنا تھا۔ اس لئے آپ کی بعثت اور تنزیل قرآن سے سارے دین اسلام کی عموماً اور اسلام کے اس بنیادی عقیدے کی خصوصاً تکمیل فرمادی۔ قرآن مجید کا کامل ۱/۳ حصہ اسی مسئلہ سے متعلق ہے جس میں اس مسئلے کو دلائل عقل و نقل ، آیات آفاق والنفس اور نظائر وامثال سے واضح فرمایا ہے۔ اور اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے فعل اور قول سے اس کی تفسیر فرمائی، اور اس کے ساتھ ساتھ مال و جان سے اور اصحاب و اقارب کی معیت میں اس کی خاطر جہاد بھی کیا۔
اسی توحید کی وجہ سے آپ پر بے پناہ مظالم ڈھائے گئے اور آپ ﷺ کو مصائب و شدائد کا سامنا کرنا پڑا۔ حتی کہ آپ ﷺ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ہجرت پر مجبور ہوئے۔ سیدنا معاذؓ کو آپ ﷺ نے جب یمن کی طرف روانہ فرمایا تو ان کو یہی تاکید الله فرمائی کہ پہلے وہاں کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار لینا اور پھر باقی مسائل بتلا نا ! اور سید نا ابو الدرداءؓ فرماتے ہیں کہ؛
((أَوْصَانِى خَلِيلِى أَن لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ شَيْئًا وَإِنْ قُطِعُتَ وَحُرِّقْتَ . ))
علامہ البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے، سنن ابن ماجه، کتاب الفتن، رقم: ٤٠٣٤، الأدب المفرد، رقم: ۱۸ ، إرواء الغليل، رقم : ٢٠٢٦ ، التعليق الرغيب ١٩٥/١.
”میرے انتہائی مخلص دوست (رسول اللہ ﷺ) نے مجھے وصیت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا ( یعنی توحید پر مضبوطی سے قائم رہنا ) خواہ تمہارے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے جائیں یا تجھے جلا دیا جائے ۔“
ثابت ہوا کہ توحید کو لازم پکڑنا اور شرک سے نفرت بنیادی مسئلہ ہے۔ شرک اس قدر مذموم فعل ہے کہ اس کی وجہ سے خودی، خود اعتمادی اور عزت نفس کی روح آدمی سے فنا ہو جاتی ہے، اور وہ ہر ہر قدم پر دوسروں کا سہارا لینے پر مجبور ہو جاتا ہے، تب اس کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ کائنات کی ہر اس چیز کے سامنے جھکنے لگتا ہے جو اس کے لئے مسخر و منقاد کردی گئی ہے، وہ اپنے ہی جیسے انسانوں کو اپنا رب اور آقا تسلیم کر لیتا ہے، ان کے آگے جھکتا ہے’’داتا‘‘ اور ’’غریب نواز‘‘ ایسے خطابات سے انہیں مخاطب کرتا ہے۔ یہاں تک کہ زندوں سے گزر کر مردوں کے سامنے بھی اپنی درخواستیں اور التجائیں پیش کرتا ہے اور انہیں عالم الغیب، نافع و ضار، متصرف في الامور جان کر پکارنے لگ جاتا ہے۔
جب کہ توحید کی بناء پر وہ اپنی خودی کے کھوئے ہوئے گوہر کو پھر سے حاصل کر لیتا ہے، اس کی ذلت عزت نفس میں تبدیل ہو جاتی ہے اور اس عقیدہ کی بدولت وہ اپنی اس فطری آزادی و حریت اور خود داری کے مقام کو از سر نو پالیتا ہے، جس کی وجہ سے اسے اشرف المخلوقات ہونے کا شرف حاصل تھا! پہلے وہ جس قدر پستی کا شکار تھا، اب اسی قدر وہ اپنے آپ کو بلند سمجھتا ہے، غیر اللہ سے اس کے تمام علاقے ٹوٹ جاتے ہیں اور اس کا تعلق خالق حقیقی سے قائم ہو جاتا ہے۔ تب اس کی حالت یہ ہوتی ہے کہ اس کا ہر عمل ، فعل اور قول اللہ کی رضا کے تابع ہو جاتا ہے۔ ماں باپ سے حسن سلوک، بڑوں کا احترام چھوٹوں پر شفقت، اقرباء سے حسن معاملت، الغرض تمام خصائل حسنہ سے وہ اس لئے متصف ہو جاتا ہے کہ اس کے آقا، خالق و مالک ، معبودِ واحد وحقیقی نے اسے ان باتوں کا حکم دیا ہے۔ یوں ایک موحد کے دل کی کائنات ہی بدل جاتی ہے اور وہ اپنے ظاہر و باطن میں یکسو، بندۂ حنیف بن کر زندگی گزارنے لگتا ہے، پھر اس حالت پر اگر اسے استقامت نصیب ہو تو اس پر رحمت کے فرشتے نازل ہوتے ہیں اور دنیا سے رخصت ہوتے وقت اسے یہ خوشخبری ملتی ہے کہ:
( یٰۤاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىٕنَّةُ(27)ارْجِعِیْۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً(28) فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ(29)وَ ادْخُلِیْ جَنَّتِیْ(30) )
(الفجر : ۲۷-۳۰)
”اے اطمینان پانے والی روح! اپنے رب کی طرف لوٹ چل (اس حالت میں کہ) تو اُس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ۔تو میرے(ممتاز) بندوں میں شامل ہو جا اور میری جنت میں داخل ہو جا۔“
جس شخص کی توحید ناقص ہوگی، اسے یہ مرتبہ حاصل نہ ہوگا۔ بلکہ یہ مقام و مرتبہ اسے نصیب ہوگا جس کی توحید خالص ہو گی ، اس توحید خالص میں اللہ کی محبت ہے، اس کی عظمت و جلالت کا احساس اور اس کا خوف ہے، جو گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ ہے، اگر چہ ان سے زمین بھری پڑی ہو۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُۚ)
(النساء : ٤٨)
’’اللہ رب العزت شرک کو معاف نہیں فرمائیں گے ۔ اور اس کے علاوہ گناہ، جسے چاہیں گے، معاف فرما دیں گے۔“
قارئین! مذکورہ بالا بحث سے توحید کی حقیقت، اہمیت اور اس کے اثرات روز روشن کی طرح واضح ہو گئے ہوں گے، اب ہم تو حید کی اقسام بیان کرنے لگے ہیں۔
توحید کی اقسام:
توحید کی تین قسمیں ہیں:
➊ توحید ربوبیت
➋ توحید الوہیت
➌ توحید اسماء وصفات
توحید ربوبیت:
تو حید ربوبیت یہ ہے کہ اللہ کو اس کی ذات میں اکیلا ، بے مثال، بے نظیر اور لا شریک مانا جائے ۔ یہ تسلیم کیا جائے کہ اس کی بیوی ہے نہ اولاد، ماں ہے نہ باپ، وہ کسی کی ذات کا جزء ہے نہ کوئی دوسرا اس کی ذات کا جزء۔
مشرکین مکہ کو جب رسول اللہ ﷺ نے ایک الٰہ کی طرف بلایا تو انہوں نے آپ ﷺ سے سوال کیا اور پوچھا؛ ” جس چیز کی طرف آپ ﷺ دعوت دیتے ہیں اس کا نسب نامہ بیان کیجئے ، وہ کس چیز سے بنا ہے اور کیا کھاتا پیتا ہے، اس نے کس سے وراثت پائی ہے، اور اس کا وارث کون ہوگا ؟‘‘ پس ان کے سوالوں کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے سورۃ اخلاص نازل فرمائی۔
(قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ(1)اَللّٰهُ الصَّمَدُ(2)لَمْ یَلِدْ ﳔ وَ لَمْ یُوْلَدْ(3)وَ لَمْ یَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ(4))
”اے میرے نبی ! آپ کہہ دیجئے کہ وہ اللہ ایک ہے، اللہ بے نیاز ہے، اس نے کسی کو پیدا نہیں کیا ہے، اور نہ وہ پیدا کیا گیا ہے، اور کوئی اس کا ہمسر نہیں ہے ۔“
مسند أحمد، رقم : ٢٠٧١٤، تفسیر طبرى ٧٤٠/١٢ ، الدر المنثور ٦١٠/٨ . علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔ سنن ترمذی ، ابواب التفسير ، رقم : ٣٣٦٤۔
اور یہ ایک بدیہی بات ہے کہ زمین و آسمان ، اس کائنات کے تمام ستارے، بدلیاں، بجلی ، کڑک ، ہوا، صحرا وسمندر، رات و دن ، ظلمت و نور، درخت و پھول، جن و انسان، فرشته و جانور غرض تمام مخلوقات جن کو احاطہ شمار میں نہیں لایا جا سکتا، وہ بغیر کسی خالق کے پیدا نہیں ہوئے ہیں ، اور نہ ہی انہوں نے اپنے آپ کو پیدا کیا ہے، اور نہ آج تک ان میں سے یا ان کے پہلے اور بعد والوں میں سے کسی نے بھی اس کا دعویٰ کیا کہ وہ اُن سب چیزوں کے خالق ہیں یا ان میں سے کسی ایک کے ، تو پھر ان کا خالق کون ہے؟ اگر آدمی نفسانیت سے بلند ہوکر سوچے تو اس سوال کا وہی جواب دے گا جو مشرکین مکہ نے دیا تھا، جس کے متعلق اللہ رب العزت نے قرآنِ مجید میں خبر دی ہے کہ:
( وَ لَىٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ خَلَقَهُنَّ الْعَزِیْزُ الْعَلِیْمُ(9) )
(الزخرف : ٩)
’’ اور اگر آپ ان (مشرکین) سے پوچھیں کہ آسمان و زمین کس نے بنائے ہیں، تو وہ ضرور کہیں گے ، ان کو غالب جاننے والے نے پیدا کیا ہے۔“
لیکن دہریے اور کیمونسٹ اور جن کا بھی ذہن ان کی تعلیمات سے آلودہ ہے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انسان اور یہ کائنات اور اس میں موجودہ سب چیزیں خود بخود پیدا ہوگئی ہیں نیچر ہی ان کا خالق ہے، لیکن وہ اس پر عمل سلیم کو آمادہ نہ کر سکے ، اور علت العلل کے نام سے الہیٰ صفات کو انہیں تسلیم کرنا پڑا اور یہ نظریہ سراسر کلام پاک کے مخالف ہے، جب کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
(ااَللّٰهُ خَالِقُ كُلِّ شَیْءٍ٘-وَّ هُوَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ وَّكِیْلٌ(62))
(الزمر: ٦٢)
” ہر چیز کا اللہ ہی پیدا کرنے والا ہے، اور وہی ہر چیز کا نگہبان ہے۔“
اس عقیدے کے برعکس کسی کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا یا بیٹی ماننا کسی مخلوق کو اللہ تعالیٰ کی ذات کا حصہ اور جزء کہنا، یا اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہر جگہ اور ہر چیز میں موجود سمجھنا شرک فی الذات کہلاتا ہے۔
توحید الوہیت:
توحید الوہیت کو توحید عبادت بھی کہا جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر قسم کی عبادت و ریاضت کو صرف اللہ تعالیٰ کے لئے خاص کیا جائے ، اور کسی دوسرے کو اس میں شریک نہ کیا جائے ، یادر ہے کہ عبادت کا لفظ ، پوجا، پرستش اور اطاعت و فرمانبرداری اور اطاعت وغیرہ کے تمام مفاہیم کو شامل ہے۔ (جیسا کہ پیچھے گزر چکا ہے)
عبادت کے مذکورہ مفہوم کو سامنے رکھیں تو توحید عبادت یہ ہوگی کہ ہر قسم کے مراسم عبودیت (نماز، روزہ، حج، زکوۃ، صدقات رکوع و سجود، نذر و نیاز ، طواف و اعتکاف، دعا و پکار، استعانت و استغاثه، اطاعت و غلامی ، فرمانبرداری اور پیروی ) صرف ایک اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہیں۔ ان چند میں سے کسی ایک میں بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا ”شرك في العبادة“ يا ”شرك في الألوهية“ کہلاتا ہے۔
توحید اسماء وصفات :
تو حید اسماء و صفات یہ ہے کہ قرآن و حدیث سے ثابت شدہ تمام صفات الٰہیہ میں اللہ تعالیٰ کو یکتا ، بے مثال اور لاشریک مانا جائے۔
ان صفات میں سے ایک اللہ کی صفت حیاة “ بھی ہے، فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
(ٱللَّهُ لَآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ٱلْحَىُّ ٱلْقَيُّومُ)
(ال عمران : ٢)
’’اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، جو ہمیشہ سے زندہ ہے۔“
اور صفت ’’علم‘‘ بھی ، جیسا کہ فرمانِ الہیٰ ہے:
( وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖۤ )
(البقره: ٢٥٥)
اور لوگ اس کے علم میں سے کسی بھی چیز کا احاطہ نہیں کر سکتے ہیں۔“
اور صفت ’’ارادہ‘‘ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
(اِنَّمَاۤ اَمْرُهٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیْــٴًـا اَنْ یَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ(82))
(يٰس : ۸۲)
’’اس کی شان تو یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے کہتا ہے”ہوجا“ اور وہ چیز ہو جاتی ہے۔“
اور صفت ” قدرت‘‘ بھی ہے۔ فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَاللهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ )
(آل عمران : ۲۹)
’’ اور اللہ ہر چیز پر بڑی قدرت رکھنے والا ہے۔“
اور صفت ’’سمع و بصر“ بھی ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
( وَأَنَّ اللهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ )
(الحج: ٦١)
’’اور بے شک اللہ تعالیٰ خوب سننے والا اور خوب دیکھنے والا ہے۔‘‘
اور صفت ” کلام‘‘ بھی ہے، جیسا کہ ارشاد ہے:
( تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍۘ-مِنْهُمْ مَّنْ كَلَّمَ اللّٰهُ )
(البقره: ٢٥٣)
”ہم نے ان رسولوں میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، ان میں سے بعض وہ ہیں جن سے اللہ نے کلام کی ۔“
اور صفت رحمت اور مغفرت بھی ہے، فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
( إِنَّ اللهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا )
(النساء : ٢٣)
” بے شک اللہ مغفرت کرنے والا ، بے حد رحم کرنے والا ہے۔“
اور صفت ”محبت“ بھی ہے، ارشاد الہیٰ ہے:
((اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِیْنَ(222) ))
(البقره : ۲۲۲)
’’اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے، اور خوب پاکی حاصل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔“
اور صفت ’’الیدین‘‘ بھی ہے۔ ارشادِ باری ہے:
( بل يده مبسوطتن )
(المائده : ٦٤ )
بلکہ اس (اللہ) کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں۔“
اور صفت ’’استواء علی العرش‘‘ بھی ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ۫)
(الأعراف : ٥٤)
” بے شک آپ کا رب وہ اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا ، پھر عرش پر مستوی ہو گیا۔“
اور صفت ” نزول ‘‘بھی ہے۔ چنانچہ سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ ؟
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(( يَنزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَى سَمَاءِ الدُّنيا . ))
صحیح بخاری، کتاب التهجد، رقم: ١١٤٥.
”ہمارا پروردگار، بلند برکت والا ہر رات کو آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے۔“
علامہ ابن تیمیہؒ نے اس بارے ایک مستقل كتاب بنام ’’ نزول الرب إلى سماء الدنيا‘‘ ، تحریر فرمائی ہے، جس میں بدلائل واضحہ اس کا آسمان دنیا پر نازل ہونا ثابت فرمایا ہے۔
قارئین ! اللہ تعالیٰ کی ان صفات یا کسی اور صفت میں کسی دوسرے کو شریک سمجھنا اور ماننا شرک فی الأسماء والصفات ہے۔