توبہ کے بعد اصل سرمایہ رکھنے کا شرعی حکم
مؤلف : ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ

ایک آیت کا مفہوم

سوال: اس آیت کریمہ «وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ» [البقرة: 279]
’’ اور اگر توبہ کر لو تو تمہارے لیے تمہارے اصل مال ہیں، نہ تم ظلم کرو گے اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا۔ میں راس مال (اصلی سرمایہ) سے کیا مراد ہے؟
جواب: یہ آیت کریمہ سودی تجارت میں داخل ہونے سے پہلے، اصلی سرمائے اور توبہ سے پہلے لیے گئے اموال، دونوں کا احتمال رکھتی ہے، پہلا احتمال ہی اکثر علما کا قول ہے، جبکہ میرے نزدیک دوسرا احتمال راجح ہے، کیونکہ ایک تو آیت اس معنی کا احتمال رکھتی ہے، دوسرے یہ احتمال توبہ کرنے میں معاونت فراہم کرتا ہے، اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ سے خوش ہوتے ہیں، یہ بات عقل اور دین میں محال ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو توبہ پر اکسائیں، بلکہ اسے واجب قرار دیں، پھر انہیں خود ہی اس سے روکیں بھی ! یہ بات اس شخص کے معاملے میں روشن ہو کر سامنے آتی ہے، جو ایک طویل عرصے تک سودی لین دین کرتا رہا ہوں اس کے پاس مال کی کثرت ہو جائے، اس آدمی نے تجارت کی ابتدا سینکڑوں یا ہزاروں سے کی ہو، پھر کئی سال تک یہ کام کرتا رہا ہو حتی کہ وہ کروڑ پتی بن جائے، پھر اللہ تعالیٰ اسے سچی توبہ کی توفیق دے دے، تو اس سے کہا جائے کہ تیرا سرمایہ وہی دس بیس ہزار ہیں، لہٰذا تجھ پر اپنا سارا مال چھوڑ دینا اور اس گھر سے نکل جانا لازم ہو جاتا ہے، تیرا صرف وہی قلیل سا اصلی سرمایہ ہے، بہت سارے لوگ اس جیسی کیفیت کے متحمل نہیں ہو سکتے، وہ سود ہی پر مرنا پسند کرلیں گے لیکن اپنی پہلی فقیری اور در ماندگی کی حالت کی طرف لوٹنا قطعا برداشت نہیں کریں گے، اچھا بننے کے بجائے یہ شخص دوسروں کو بھی اچھا بننے سے روکے گا۔
بنا بریں اس جیسا اختیار دینا توبہ کرنے والوں کے لیے معاون ثابت ہو سکتا ہے لیکن جو مال اس نے توبہ سے پہلے نہیں لیا تھا اب اس سے اپنے اصلی سرمائے سے زیادہ لیناجائز نہیں۔ واللہ المستعان
[عبدالكريم خضير، فتاوي: 11/1]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے