تلبیہ کب ختم کیا جائے گا
جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنے کے بعد تلبیہ ختم کر دیا جائے گا جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
لم يزل النبى صلى الله عليه وسلم يلبي حتى رمى جمرة العقبة
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنے تک تلبیہ کہتے رہے۔“
[بخاري: 1686 – 1687 ، كتاب الحج: باب التلبية والتكبير … ، مسلم: 1281 ، ابو داود: 1815 ، ترمذي: 918 ، نسائي: 268/5]
علما نے تلبیہ چھوڑنے کے وقت میں اختلاف کیا ہے۔
(احمدؒ) جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنے سے فراغت کے ساتھ ہی تلبیہ ختم ہو جائے گا۔
(جمہور ) پہلی کنگری مارنے پر ہی تلبیہ ختم ہو جائے گا۔
[سبل السلام: 992/2]
(راجح) مندرجہ ذیل احادیث امام احمدؒ کے موقف کی تائید میں ہیں:
➊ فلم يزل يلبي حتى رمى الجمرة
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمرے کو کنکریاں مارنے تک تلبیہ کہتے رہے ۔“
[صحيح: صحيح نسائي: 2861 ، كتاب مناسك الحج: باب التلبية فى السير، نسائي: 3057]
➋ ثم قطع التلبية مع آخر حصاة
”پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری کنگری (پھینکنے ) کے ساتھ ہی تلبیہ ختم کر دیا۔“
[ابن خزيمة: 2887 ، بسند صحيح]
اور پھر وہ اپنا سر منڈائے گا یا بال ترشوائے گا، تو اس کے لیے بیوی کے سوا تمام اشیاء حلال ہو جائیں گی
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی:
اللهم اغـفـر للمحلقين
”اے اللہ! سر منڈوانے والوں کی مغفرت فرما۔“ صحابہ نے عرض کیا : وللمقصرين اور بال ترشوانے والوں کے لیے بھی (یہی دعا کیجیے ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ فرمایا: وللمقصرين ”اور ترشوانے والوں کے لیے بھی ۔“
[بخاري: 1728 ، كتاب الحج: باب الحلق والتقصير عنا الإحلال ، مسلم: 1302 ، ابن ماجة: 3043 ، أحمد: 231/2 ، بيهقي: 134/5]
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی روایت میں یہ لفظ ہیں:
اللهم ارحم المحلقين
”اے اللہ ! سر منڈوانے والوں پر رحم فرما۔ “
[بخاري: 1727 ، كتاب الحج: باب الحلق والتقصير عند الإحلال]
معلوم ہوا کہ بال منڈوانا ، ترشوانے سے افضل ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ترشوانے والوں کے لیے ابتدا میں دعا نہیں فرمائی۔