تقلید شخصی کے 6 بڑے نقصانات
مرتب کردہ : توحید ڈاٹ کام

تقلید کے چند اہم نقصانات

  1. قرآن و حدیث کے اسرار سے محرومی

    – جب کوئی شخص کسی ایک امام یا عالم کے اقوال پر اِکتفا کر لیتا ہے تو وہ قرآن و سنت کے وسیع علمی ذخیرے سے براہِ راست استفادہ کرنے سے محروم رہ جاتا ہے۔
    – مقلد صرف اپنے امام کی عبارات اور اُن کے فہم پر اکتفا کرتا ہے، جس سے وہ امت کے دوسرے بڑے علماء کی تحقیق و علم سے بھی بے خبر رہ جاتا ہے۔

  2. ضعیف اور موضوع روایات کا دفاع

    – تقلید کے سبب بعض لوگ اپنے موقف کے حق میں ضعیف یا یہاں تک کہ موضوع روایات کو بھی صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
    – صحیح احادیث کو اپنے مذہب کے خلاف سمجھ کر اُنہیں ضعیف کہہ دینا یا غلط تاویلات کے ذریعے اُن کا اصل مفہوم بدل دینا بھی اسی تعصب کی ایک شکل ہے۔
    – مثال کے طور پر بخاری و مسلم کی ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہبہ واپس لینے سے منع فرمایا اور ایسا کرنے والے کو اس کتے سے تشبیہ دی جو قے کر کے دوبارہ چاٹ لیتا ہے۔ اس کے برعکس بعض احناف نے اس حدیث کا بالکل اُلٹا مفہوم نکالا کہ "اگر کتا ایسا کر سکتا ہے تو انسان کے لیے بھی ہبہ واپس لینا جائز ہو گا”

    (حوالہ: اللمعات بحوالہ حاشیہ مشکوٰۃ، ج1 ص260)۔
    اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصل حکم کو ہی پلٹ دیا جاتا ہے۔

  3. بدعت میں مبتلا ہونا

    – تقلید (بحیثیت ایک مستقل اور لازم دستور کے) صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور خیر القرون کے دور میں رائج نہیں تھی۔ اسی لیے اسے علما نے بدعتِ قبیحہ قرار دیا ہے۔
    – علامہ شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "ایضاح الحق الصریح” (ص81) میں تقلید کو بدعتِ حقیقی کہا ہے۔
    – تاریخ گواہ ہے کہ جب جب تقلیدی جمود میں شدت آئی، شریعت اسلامیہ کے واضح احکامات اور اس کی اصل روح کو دھندلایا گیا۔

  4. جھوٹ کی طرف مائل ہونا

    – بعض اوقات نام نہاد مقلدین، اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف ایسی باتیں منسوب کر دیتے ہیں جو حقیقت میں موجود نہیں ہوتیں۔
    – کبھی دعویٰ کرتے ہیں کہ "قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے تقلید کا حکم دیا ہے”، حالانکہ یہ ایک صریح جھوٹ ہے۔
    – کبھی احادیثِ رسول کی ایسی تاویلات کی جاتی ہیں جن سے تقلید کو ثابت کیا جائے، جبکہ شریعتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم ان من گھڑت تعبیرات سے پاک ہے۔
    – کبھی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو مقلد ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ ان کا طرزِ عمل واضح طور پر "تقلیدِ شخصی” کے خلاف تھا۔

    صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی مثال
    – صحیح بخاری میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا واقعہ ملتا ہے، جہاں انہوں نے ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے خلاف حج تمتع کے مسئلے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کی تو لوگوں نے صحابۂ کرام کی مخالفت کا شکوہ کیا۔ اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
    "يوشك ان تنزل عليكم حجارة من السماء اقول: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم وتقولون: قال ابو بكر و عمر”
    یعنی "میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سناتا ہوں اور تم ابو بکر و عمر کا نام لیتے ہو؟ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں تم پر آسمان سے پتھر نہ برس پڑیں۔”

    – اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کے مقابلے میں کسی انسان کی بات کو کوئی حیثیت دینے کو تیار نہ تھے۔ لہٰذا انہیں "مقلد” کہنا یا ان کے عمل سے تقلیدِ شخصی کو ثابت کرنا قطعی غلط ہے۔

  5. نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور علما کے مراتب میں خلط ملط کرنا

    – تقلید بعض اوقات کسی عالم کی شخصیت کو اتنا بڑھا دیتی ہے کہ اس عالم کے اقوال کو عملاً مقامِ نبوت کے قریب یا اس سے بھی آگے سمجھا جانے لگتا ہے۔
    – نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح فرامین کو چھوڑ کر امام یا شیخ کی رائے کو فوقیت دینا اس حد تک بڑھ جاتا ہے کہ اگر کوئی یہ کہے کہ "امام صاحب سے اس مسئلے میں خطا ہوئی ہے” تو لوگ ناراض ہوتے ہیں، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو منسوخ یا "ہمارے مذہب کے خلاف” قرار دینے پر وہ بالکل پریشان نہیں ہوتے۔
    – علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے اس صورتِ حال کو اشعار میں بیان کیا ہے، جس میں مقلدین کے رویّے پر افسوس کیا گیا ہے کہ اگر آپ نے امام یا شیخ کے خلاف حدیث پیش کی تو وہ آپ کو بدعتی اور گمراہ کہیں گے، اور اگر آپ نے حدیث کے مقابلے میں امام کی بات کو ترجیح دی تو آپ کو "محقق و صاحب عرفان” سمجھیں گے۔

  6. شریعتِ نبوی سے تجاوز

    – تقلید کا مقصد اکثر یہ نظر آتا ہے کہ لوگوں کو براہِ راست نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی طرف آنے سے روکا جائے اور انہیں کسی مخصوص فقہی امام کے اقوال کا پابند بنا دیا جائے۔
    – یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جس کی دعوت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہو، وہ حق پرست ہے۔ لیکن جس کی دعوت علماء یا اولیاء کی طرف ہو، وہ یا تو شرک کے راستے کا داعی ہے یا تقلید کے جمود میں مبتلا ہے۔
    – علماء و مشائخ کا اپنا ایک بلند مقام ہے، لیکن وہ معصوم عن الخطا نہیں۔ اگر کوئی ان کی ہر بات کو دین میں حرفِ آخر سمجھ کر پیش کرے تو یہ بھی ایک طرح سے شریعت سے تجاوز ہے۔

 خلاصۂ کلام 

• تقلید ایک ایسی مضر بیماری ہے جو دین اور ایمان کو خطرے میں ڈال دیتی ہے۔
• یہ سر تا سر بدعت ہے، اور اس میں کسی قسم کی "ممدوح” ہونے کی گنجائش نہیں نکلتی۔
• جو حضرات تقلید کی دعوت دیتے ہیں، وہ یا تو اسلام کے صحیح تصور سے ناواقف ہیں، یا پھر تقلید کے انجامِ بد سے بے خبر ہیں، یا پھر جان بوجھ کر تعصب کی وجہ سے اس کی طرف بلا رہے ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو تعصبات سے دور رہ کر قرآن و حدیث کو مضبوطی سے تھامنے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح فرامین کی اتباع کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1