تفسیر ابن عباس کی تحقیق
"تنویر المقباس فی تفسیر ابن عباس” کا تحقیقی جائزہ
"تنویر المقباس فی تفسیر ابن عباس” کے نام سے مشہور تفسیر، سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ثابت نہیں ہے بلکہ یہ محمد بن مروان السدی اور کلبی کی من گھڑت تفسیر ہے، جسے جھوٹ پر مبنی روایتوں کے ذریعے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منسوب کر دیا گیا ہے۔
اس تفسیر کی سند کچھ یوں ہے:
"(أخبرنا) عبد الثقة ابن المأمور الھروي قال أخبرنا أبي قال أخبرنا أ بو عبد اللہ قال أخبرنا أبو عبید اللہ محمود بن محمد الرازي قال أخبرنا عمار ابن عبد المجید الھروي قال أخبرنا علي بن إسحاق السمرقندي عن محمد ابن مروان عن الکلبي عن أبي صالح عن ابن عباس۔۔۔۔۔”
(تنویر المقباس، ص۲)
یہ سند علمی لحاظ سے کمزور ہے اور اس کے راویوں پر شدید جرح کی گئی ہے، جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
تفسیر ابن عباس کو موضوع (من گھڑت) قرار دینے کی وجوہات
1. پہلا راوی: ابو صالح باذام (ضعیف راوی)
اس تفسیر کی سند میں پہلا راوی ابو صالح باذام ہے، جسے جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔
- امام بخاری نے اسے "کتاب الضعفاء” میں ذکر کیا۔ (تحفۃ الاقویاء، ص۲۱)
- ابو حاتم الرازی نے کہا: "یکتب حدیثه ولا یحتج به” (اس کی حدیث لکھی جاتی ہے، لیکن اس سے استدلال نہیں کیا جا سکتا۔) (الجرح والتعدیل: ۴۳۲/۲)
- امام نسائی نے کہا: "ضعیف کوفي” (الضعفاء والمتروکین: ۷۲)
- حافظ ذہبی نے فرمایا: "ضعیف الحدیث” (یہ حدیث میں ضعیف ہے۔) (دیوان الضعفاء: ۵۴۴)
- حافظ ابن حجر العسقلانی نے فرمایا: "ضعیف یرسل” (یہ راوی مرسل حدیث بیان کرتا ہے۔) (تقریب التہذیب: ۶۳۴)
- امام ابن حبان نے فرمایا: "یہ ابن عباس سے روایتیں بیان کرتا تھا، حالانکہ اس نے ان سے سنا نہیں تھا۔” (کتاب المجروحین لابن حبان: ۱۸۵/۱)
یہ تصریحات واضح کرتی ہیں کہ یہ سند منقطع ہے، یعنی اس میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے براہ راست روایت کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
2. دوسرا راوی: محمد بن السائب الکلبی (کذاب و متروک)
یہ راوی حدیث اور تفسیر میں متروک اور کذاب تسلیم کیا گیا ہے۔
- سلیمان التیمی نے کہا: "کوفي میں دو کذاب تھے، ان میں سے ایک کلبی ہے۔” (الجرح والتعدیل: ۲۷۰/۷، وسندہ صحیح)
- سفیان ثوری نے کہا: "ہمیں کلبی نے بتایا کہ میری سند سے ‘عن ابی صالح عن ابن عباس’ جو بھی بیان کیا جائے، وہ جھوٹ ہے، اسے روایت نہ کرنا۔” (الجرح والتعدیل: ۲۷۱/۷، وسندہ صحیح)
3. تیسرا راوی: محمد بن مروان السدی (متروک و کذاب)
- امام ابن نمیر نے کہا: "یہ کذاب ہے۔” (الضعفاء الکبیر للعقیلی: ۱۳۶/۴)
- امام بخاری نے کہا: "یہ متروک ہے۔ اس کی حدیث بالکل نہیں لکھی جاتی۔” (التاریخ الکبیر: ۲۳۲/۱، الضعفاء الصغیر: ۳۵۰)
اہم علمی شخصیات کی آراء
1. امام احمد بن حنبل
"کلبی کی تفسیر اول سے آخر تک جھوٹ ہے، اسے پڑھنا بھی جائز نہیں ہے۔” (ازالۃ الریب، ص۳۱۶-۳۱۷ بحوالہ تذکرۃ الموضوعات، ص۸۲)
2. احمد رضا خان صاحب
"یہ تفسیر ابن عباس رضی اللہ عنہما کی نہیں، بلکہ جھوٹ پر مبنی ہے، کیونکہ اس کی سند سلسلۂ کذب ہے۔” (فتاویٰ رضویہ، ج۲۹، ص۳۹۶)
3. جسٹس تقی عثمانی
"یہ کتاب حضرت ابن عباس کی طرف منسوب درست نہیں، کیونکہ اس کی سند کو محدثین نے ‘سلسلۃ الکذب’ قرار دیا ہے، اس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔” (علوم القرآن، ص۴۵۸)
نتیجہ
یہ واضح ہو جاتا ہے کہ "تنویر المقباس فی تفسیر ابن عباس” ایک من گھڑت اور موضوع تفسیر ہے۔ اس کی سند جھوٹ پر مبنی ہے اور اس کے تمام مرکزی راوی ضعیف، متروک یا کذاب ہیں۔ اس لیے اس تفسیر کو کسی بھی علمی یا دینی استدلال میں استعمال نہیں کیا جا سکتا۔