سوال
کیا درج ذیل شعر
"لي خمسة أطفى بها حر الوبى ، الحاطمة والمصطفى والمجتبى والفاطمة و أبنائها”
کو بیماریوں سے بچاؤ کے لیے لکھ کر لٹکانا جائز ہے؟
الجواب
الحمد للہ، والصلاة والسلام علی رسول اللہ، أما بعد!
اس شعر کے باطل ہونے کی وجوہات
یہ شعر کئی وجوہ سے باطل اور ناقابل قبول ہے:
➊ اس شعر کا قائل معلوم نہیں
کسی بھی صحیح حدیث یا معتبر اسلامی مصدر میں اس شعر کا ذکر نہیں ملتا، اس لیے یہ غیر مستند اور من گھڑت ہے۔
➋ "الحاطمة” کا کوئی واضح معنی نہیں
لفظ "الحاطمة” کا یہاں کوئی واضح اور موزوں مفہوم نہیں بنتا، جو اس شعر کی لغوی بے ترتیبی کو ظاہر کرتا ہے۔
➌ یہ شعر شیعہ عقائد پر مبنی ہے
یہ شعر اہل تشیع کی طرف سے گھڑا گیا معلوم ہوتا ہے، کیونکہ یہ صرف پانچ شخصیات (نبی اکرم ﷺ، سیدنا علی، سیدہ فاطمہ، حسن، اور حسین رضی اللہ عنہم) کا ذکر کرتا ہے جبکہ دیگر صحابہ کرام کو نظر انداز کرتا ہے۔
اہل سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ تمام صحابہ کرام اہل ایمان کے لیے قابل احترام ہیں، اور کسی خاص گروہ کو دوسرے سے زیادہ فضیلت دینا کسی بھی شرعی دلیل کے بغیر جائز نہیں۔
➍ یہ شعر شرکیہ عقائد کی راہ ہموار کرتا ہے
اگر اس شعر سے بیماری اور مصائب سے بچنے کا عقیدہ رکھا جائے تو یہ شرک کی ایک صورت ہو سکتی ہے۔
کیونکہ اسلام میں بیماری اور تکلیف دور کرنے کے لیے صرف اللہ تعالیٰ کی مدد مانگنے کا حکم ہے، نہ کہ کسی مخلوق سے۔
📖 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"جب تم دعا کرو تو صرف اللہ سے مانگو، اور جب مدد چاہو تو صرف اللہ سے طلب کرو۔”
(سنن الترمذی: 2516، صحیح)
مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ نے "احسن الفتاویٰ” (1/48) میں فرمایا:
"یہ شعر اور اس کو تعویذ کے طور پر لٹکانا باطل اور شرک ہے۔”
تعویذات کے بارے میں شرعی حکم
تعویذ (تعویذ، وظائف، اور دم) کی دو اقسام ہوتی ہیں:
➊ شرکیہ اور حرام تعویذات
اگر تعویذ میں کوئی غیر واضح عبارت، عجیب و غریب نقوش، غیر اللہ کا ذکر، یا غیر شرعی کلمات ہوں تو وہ حرام اور شرک میں داخل ہیں۔
📖 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"یقیناً دم (جھاڑ پھونک)، تعویذات، اور محبت کے جادو (تولہ) شرک ہیں۔”
(سنن ابو داود: 3883، ابن ماجہ: 353، صحیح ابن حبان: 1413، مسند احمد: 1/381، مستدرک حاکم: 4/217، صحیح)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
"جو شخص تعویذ لٹکائے، اللہ اسے اسی کے حوالے کر دیتا ہے۔”
(مسند احمد: 4/154، سنن ترمذی: 2072، صحیح)
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کے ہاتھ میں تعویذ دیکھی تو اسے فوراً کاٹ دیا اور یہ آیت پڑھی:
﴿وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُم بِاللَّهِ إِلَّا وَهُم مُّشْرِكُونَ﴾
(سورۃ یوسف: 106، صحیح)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"تعویذ میں غیر عربی کلمات یا غیر شرعی نقش و الفاظ کا استعمال جائز نہیں، کیونکہ یہ بدعت اور شرک کی طرف لے جاتا ہے۔”
(فتاویٰ ابن تیمیہ: 1/92، صحیح)
➋ جائز تعویذات (شرعی دم اور اذکار)
اگر تعویذ قرآنی آیات یا صحیح احادیث میں مذکور دعاؤں پر مشتمل ہو، تو بعض اہل علم کے نزدیک یہ جائز ہے، جبکہ کچھ اسے بھی مکروہ قرار دیتے ہیں۔
📖 عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"جو شخص نیند میں گھبراہٹ محسوس کرے، وہ یہ دعا پڑھے: ‘بِسْمِ اللَّهِ أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ غَضَبِهِ وَعِقَابِهِ وَشَرِّ عِبَادِهِ وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَأَنْ يَحْضُرُونِ'”
(سنن ترمذی: 277، صحیح)
شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"اگر تعویذ میں قرآنی آیات ہوں، تب بھی اسے لٹکانے کی بجائے زبانی پڑھنا زیادہ بہتر ہے، کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے ایسا نہیں کیا۔”
(السلسلہ الصحیحہ: 331، صحیح)
نتیجہ
یہ شعر (لى خمسة…) کسی صحیح حدیث یا معتبر اسلامی کتاب میں ثابت نہیں۔
اسے بیماری یا مصائب کے علاج کے طور پر استعمال کرنا بدعت اور شرک کی طرف لے جا سکتا ہے۔
قرآنی آیات اور صحیح دعاؤں کو زبانی پڑھنا جائز ہے، لیکن تعویذ کے طور پر لکھ کر لٹکانا بعض علماء کے نزدیک مکروہ اور بعض کے نزدیک ناجائز ہے۔
بہترین طریقہ یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ سے ثابت شدہ اذکار اور دعائیں پڑھی جائیں۔
(فتاویٰ ابن تیمیہ، السلسلہ الصحیحہ، مسند احمد، سنن ترمذی، سنن ابو داود، صحیح ابن خزیمہ، زاد المعاد)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب