سوال
کیا بیماروں اور دیوانوں کے لیے تعویذ، دم، یا تحریری وظائف لکھ کر لٹکانا جائز ہے، خواہ وہ قرآن و سنت سے ہوں یا کسی اور ذریعے سے؟
الجواب
الحمد للہ، والصلاة والسلام علی رسول اللہ، أما بعد!
یہ مسئلہ تفصیل کے ساتھ بیان ہو چکا ہے۔ اب ہم ہیئۃ کبار العلماء (1/15) اور فتاویٰ اللجنۃ الدائمۃ (1/125) میں دیے گئے فتاویٰ کو ذکر کرتے ہیں، جن میں اس موضوع پر واضح دلائل موجود ہیں۔
قرآن اور اذکار سے دم کرنا جائز ہے، بشرطیکہ اس میں شرک نہ ہو
📖 نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مجھے اپنے دم سناؤ، ایسا دم جس میں شرک نہ ہو، کوئی حرج نہیں۔”
(صحیح مسلم، کتاب السلام، حدیث 2200)
علماء کا اس پر اجماع ہے کہ وہ دم جائز ہے جس میں شرک نہ ہو اور جس کا مفہوم واضح ہو۔
تاہم، دم اور دعائیں اللہ کے حکم کے مطابق صرف ایک سبب ہیں، ان میں بذاتِ خود کوئی طاقت نہیں ہوتی۔
حرام اور شرکیہ تعویذات
اگر تعویذ میں قرآن یا صحیح اذکار کے بجائے غیر واضح الفاظ، غیر اسلامی دعائیں، جادوئی کلمات، یا غیر اللہ کی مدد طلب کی گئی ہو، تو وہ حرام اور بعض اوقات شرک ہوتا ہے۔
📖 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جس نے تمیمہ (تعویذ) لٹکایا، اللہ اس کی مراد پوری نہ کرے، اور جس نے منکا لٹکایا، اللہ اسے آرام نہ دے۔”
(مسند احمد، 4/154، حسن حدیث)
ایک اور روایت میں فرمایا:
"جس نے تمیمہ لٹکایا، اس نے شرک کیا۔”
(مسند احمد، حدیث 17440، صحیح)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
"رقی، تمائم، اور تولہ (جادوئی محبت کے تعویذ) شرک ہیں۔”
(سنن ابو داود، حدیث 3883، ابن ماجہ، حدیث 353، صحیح ابن حبان، حدیث 1413، مستدرک حاکم، 4/217، صحیح)
شیخ شعیب الارناؤوط نے اس حدیث کو "حسن” قرار دیا ہے۔
قرآنی تعویذات کے بارے میں اختلاف
اگر تعویذ قرآنی آیات یا صحیح احادیث میں وارد شدہ اذکار پر مشتمل ہو، تو اس کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے۔
پہلا موقف: قرآنی تعویذات بھی لٹکانا ناجائز ہے
بعض علماء کے نزدیک قرآنی آیات یا اذکار پر مشتمل تعویذات بھی ناجائز ہیں، کیونکہ:
➊ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے ایسا کبھی نہیں کیا۔
➋ اس سے غیر قرآنی تعویذات کے جواز کا دروازہ کھل سکتا ہے۔
➌ یہ تعویذات بعض اوقات نجاست میں جانے، بے ادبی، اور غیر شرعی طریقے سے استعمال ہونے کا سبب بنتے ہیں۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"صحابہ کرام قرآن اور غیر قرآن کے تعویذ لٹکانے کو مکروہ سمجھتے تھے۔”
(مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث 3524، صحیح)
امام ابو عبید رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"بعض صحابہ کرام اور تابعین قرآن کی آیات لکھ کر بیماروں کو پلانے کو بھی مکروہ سمجھتے تھے۔”
(فضائل القرآن، 1/11، مصنف ابن ابی شیبہ، 8/27)
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"قرآنی آیات لکھ کر تعویذ کے طور پر لٹکانے کی کوئی واضح دلیل نہیں، لہذا یہ بدعت ہے۔”
(فتاویٰ ابن تیمیہ، 1/92، صحیح)
دوسرا موقف: قرآنی تعویذات جائز ہیں
بعض علماء قرآنی آیات اور صحیح اذکار کے تعویذات کو مشروط طور پر جائز قرار دیتے ہیں، بشرطیکہ:
➊ ان میں صرف قرآنی آیات یا صحیح احادیث میں وارد اذکار ہوں۔
➋ یہ شرکیہ عقائد سے پاک ہوں۔
➌ یہ بے ادبی اور نجاست والی جگہوں پر نہ لے جائے جائیں۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
"اگر کسی عورت پر زچگی کی تکلیف ہو، تو ایک برتن میں یہ آیات لکھ کر دھو کر اسے پلا دیں۔”
(ابن السنی، حدیث 619، کنز العمال، حدیث 28381، سند ضعیف)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"اگر تعویذ میں صرف قرآنی آیات ہوں، اور انہیں لٹکانے کے بجائے صرف دم کے لیے استعمال کیا جائے، تو یہ جائز ہے۔”
(فتاویٰ ابن عثیمین، 1/185، صحیح)
شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
"افضل یہ ہے کہ تعویذ کے بجائے اذکار زبانی پڑھے جائیں، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی طریقہ تھا۔”
(فتاویٰ اللجنۃ الدائمۃ، 1/125، صحیح)
نتیجہ
شرکیہ تعویذات حرام اور ناجائز ہیں۔
غیر واضح یا غیر اسلامی کلمات پر مشتمل تعویذات لٹکانا جائز نہیں۔
بہترین طریقہ یہ ہے کہ بیماروں کے لیے زبانی اذکار اور دعائیں پڑھی جائیں، جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا۔
(فتاویٰ ابن تیمیہ، فتاویٰ ابن عثیمین، فتاویٰ اللجنۃ الدائمۃ، زاد المعاد، صحیح مسلم، سنن ابی داود، مسند احمد)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب