تعمیر مساجد کی فضیلت سے متعلق 12 صحیح احادیث
یہ اقتباس الشیخ محمد منیر قمر کی کتاب احکام مساجد سے ماخوذ ہے۔

فضائل تعمیر مساجد حدیث کی روشنی میں

مساجد کی دیکھ ریکھ اور تعمیر و ترقی میں کوشاں اور ان کی آبادی میں دلی سکون محسوس کرنے والوں کے بارے میں اس قرآنی شہادت ایمان سے بڑھ کر اس عمل کی اور فضیلت کیا ہو سکتی ہے۔ جب کہ اسی پر بس نہیں بلکہ حدیث شریف میں بھی تعمیر مسجد کے بہت فضائل وارد ہوئے ہیں۔ چنانچہ

جنت میں گھر:

صحیح بخاری و مسلم، ترمذی و ابن ماجہ اور مسند احمد میں حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من بنى لله مسجدا بنى الله له بيتا فى الجنة
"جس نے رضائے الہی کے لئے مسجد تعمیر کی، اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں گھر تعمیر کرتا ہے۔”
بخاری 450، مختصر مسلم 240، صحیح ترمذی 263، ابن ماجہ 732، صحیح الجامع 6131
ایک اور روایت میں ہے:
بنى الله له مثله فى الجنة
"اللہ اس کے لئے ویسا ہی مکان جنت میں بناتا ہے۔”
بخاری 450، مسلم مع نووی 14/5/3، صحیح ترغیب 264، صحیح الجامع 6130، منتخب مع نیل 147/2/1
➋ اور رضائے الہی کا حصول شرط ہے۔ ورنہ ریاکاری تو عمل کو برباد کر دیتی ہے۔ اس لئے تعمیر مسجد کے لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بنیاد بتائی ہے کہ اخلاص وللہیت ہو، فخر و مباحات اور نمود و نمائش نہ ہو۔ چنانچہ اس بات کی صراحت ایک دوسری حدیث میں موجود ہے، جس میں طبرانی اوسط کی روایت کے مطابق ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من بنى مسجدا لا يريد به رياء ولا سمعة بنى الله له بيتا فى الجنة
"جس نے کوئی مسجد بنائی جس سے اس کی غرض ریاکاری و دکھلاوا نہیں ہے (بلکہ لوجہ اللہ بنائی)، اللہ اس کے لئے جنت میں گھر بناتا ہے۔”
صحیح الترغیب 272
➌ اور بعض احادیث میں اس اجر و فضیلت کے لئے ایک اور شرط بھی لگائی گئی ہے کہ وہ مسجد ایسی جگہ پر ہو جہاں لوگ نماز پڑھتے ہوں۔ ایسا نہ ہو کہ کہیں مسجد بنا دی، اسے خوب سجایا اور نماز و جماعت کا کوئی اہتمام نہیں، بلکہ بند کئے رکھی یا ایسی جگہ بنائی جہاں لوگوں کا گزر ہی نہیں ہوتا، تو ظاہر ہے کہ ایسی مسجد کا ثواب بھی تو ایسا ہی ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ مسند احمد و طبرانی میں حضرت واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہ سے مروی ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
من بنى مسجدا يصلى فيه بنى الله عز وجل له فى الجنة أفضل منه
جس نے ایسی مسجد بنائی جس میں نماز پڑھی جاتی ہے، اس کے لئے اللہ تعالیٰ جنت میں اس سے بھی عالی شان مکان بناتا ہے۔
مسند احمد و طبرانی بحوالہ صحیح ترغیب 271
➍ جب کہ نسائی و مسند احمد و شرح السنہ بغوی میں حضرت عمر و بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے اور صحیح ابن حبان و سنن ابن ماجہ میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے:
من بنى لله مسجدا يذكر فيه بنى الله له بيتا فى الجنة
جس نے ایسی مسجد تعمیر کی جس میں اللہ کا ذکر ہوتا ہے، اللہ اس کے لئے جنت میں گھر بناتا ہے۔
مسند احمد 113/4۔ شرح السنہ 2420 ، صحیح نسائی 664 ابن ماجہ 735 صحیح ترغیب 266 مشکوۃ 1011/25
پہلی حدیث میں يصلى فيه اور اس حدیث میں يذكر فيه کے الفاظ ہیں، جب کہ معنی و مفہوم دونوں کا نماز پڑھنے والوں کو بالاولی شامل ہے، کیونکہ نماز بھی تو ذکر الہی ہے۔
➎ اور یہ بھی کوئی ضروری نہیں کہ بہت بڑی جامع مسجد ہی بنائیں، تب جا کر یہ اجر و ثواب ملتا ہے، بلکہ یہ تو چھوٹی ہو یا بڑی ہر طرح کی مسجد بنانے پر ملتا ہے، جیسا کہ سنن ترمذی میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں اس بات کی صراحت موجود ہے۔ چنانچہ وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من بنى لله مسجدا صغيرا كان أو كبيرا بنى الله له بيتا فى الجنة
جس نے کوئی چھوٹی یا بڑی مسجد بنائی، اللہ اس کے لئے جنت میں گھر بناتا ہے۔
ضعیف الترمذی 50، ضعیف الجامع 5518
➏ بعض احادیث میں تو اس حد تک بھی ذکر آیا ہے کہ اگر کوئی شخص کبوتر کی مانند پرندے قطا کے گھونسلے جتنی مسجد بنائے، تب بھی اسے اللہ تعالیٰ جنت میں گھر عطا فرمائے گا۔ اور قطاة کبوتر کی مانند وہ پرندہ ہے جو پانی کی تلاش میں کوسوں (میلوں) دور نکل جاتا ہے، اور پھر گھونسلے میں چلا آتا ہے، اور اپنے بچے کو پانی پلاتا ہے، اور یہ وہیں رہتا ہے جہاں عموماً قرب و جوار میں گھاس اور پانی موجود ہو۔ عرب کے لوگ اس کی آواز سے پہچان لیتے تھے کہ یہاں قریب ہی کہیں پانی موجود ہے۔ اور عرب اس پرندے کو "صدوق” بھی کہتے ہیں۔
لغت الحدیث 126/5 ، کتاب ق مصباح اللغات ص 296
اس پرندے قطا کے گھونسلے کے برابر مسجد تعمیر کرنے پر بھی جنت میں گھر کی بشارت مسند بزار، معجم طبرانی صغیر اور صحیح ابن حبان میں حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے، جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
من بنى لله مسجدا قدر مفحص قطاة بنى الله له بيتا فى الجنة
جس نے قطا کے گھونسلے کے برابر بھی مسجد بنائی، اللہ اس کے لئے جنت میں گھر بنائے گا۔
ابن حبان ، الموارد 301، مسند بزارہ معجم طبرانی بحوالہ صحیح ترغیب 265
➐ جب کہ مسند احمد و بزار میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
من بنى لله مسجدا ولو كمفحص قطاة لبيضها بنى الله له بيتا فى الجنة
جس نے اگرچہ صرف اتنی ہی مسجد بنائی جتنا کہ قطا انڈے دینے کے لئے گھونسلا بناتا ہے، اللہ اس کے لئے بھی جنت میں گھر بناتا ہے۔
مسند احمد و بزار صحیح ترغیب 268 صحیح الجامع 6129
➑ جب کہ سنن ابن ماجہ و صحیح ابن خزیمہ میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے تو اس سے بھی چھوٹی مسجد پر جنت میں گھر کی بشارت وارد ہوئی ہے۔ چنانچہ وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من بنى لله مسجدا ولو كمفحص قطاة أو أصغر بنى الله له بيتا فى الجنة
جس نے اللہ کی رضا کے لئے مسجد بنائی، اگرچہ وہ قطا نامی پرندے کے گھونسلے جتنی یا اس سے بھی چھوٹی ہی کیوں نہ ہو، اللہ اس کے لئے جنت میں گھر بناتا ہے۔
ابن ماجہ 738 صحیح الجامع 2168صحیح ترغیب 267
اور قطا کے گھونسلے والے الفاظ مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ والی حدیث میں، طبرانی اوسط میں حضرت انس رضی اللہ عنہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث میں اور حلیة الاولیاء ابونعیم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں وارد ہوئے ہیں۔ فتح الباری 545/1 ، نیل الاوطار 148/1/2، 149
اور اکثر اہل علم نے گھونسلے کے ذکر کو مبالغہ پر محمول کیا ہے، کیونکہ قطا کے انڈے دینے اور سونے والا گھونسلا تو اتنا بھی نہیں ہوتا کہ اتنی جگہ پر کوئی نماز پڑھی جا سکے۔ اور اس لفظ کے برائے مبالغہ ہونے کی تائید حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کے الفاظ سے بھی ہوتی ہے جو ابھی ہم نے ذکر کی ہے۔
اور بعض اہل علم نے کہا ہے کہ اس سے مراد مبالغہ نہیں، بلکہ اس سے اس کا ظاہری معنی و مفہوم ہی مراد ہے کہ کہیں مسجد میں اتنی ہی ضرورت تھی جو پوری کر دی گئی تو اس اضافے کا یہ مقام ہوگا۔ یا پھر یہ کہ مسلمانوں کی ایک جماعت یعنی کئی افراد نے مشترکہ طور پر ایک مسجد تعمیر کی، اور ہر ایک کے حصہ میں پوری مسجد سے اتنی جگہ کا تعمیر کرنا ہی آیا جتنا کہ گھونسلا ہوتا ہے، تب بھی اسے اللہ تعالیٰ جنت میں گھر عطا کرے گا۔ اور جنت میں گھر کا ملنا خود دخول جنت کی صاف صاف ضمانت ہے۔ کیونکہ جو جنت میں داخل نہیں ہوگا، وہ اس گھر میں کیسے داخل ہوگا جو اس کے لئے جنت میں بنایا جائے گا۔ تو گویا جنت میں گھر ملنے کا صاف صاف مفہوم جنت میں داخل کیا جانا ہے۔
حوالہ جات بالا
➒ بہرحال جنت میں داخل کئے جانے اور جنت میں گھر عطا کئے جانے کی بشارتیں بعض دیگر احادیث میں بھی وارد ہوئی ہیں، جن میں سے ایک امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ابن ماجہ میں مروی ہے، جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من بنى لله مسجدا بنى الله له بيتا فى الجنة
جس نے اللہ کی رضا حاصل کرنے کی خاطر مسجد بنائی، اللہ اس کے لئے جنت میں گھر بناتا ہے۔
ابن ماجہ 737 صحیح الجامع 6127
➓ اور مسند احمد میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے اور معجم طبرانی میں حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
من بنى لله مسجدا بنى الله له بيتا فى الجنة أوسع منه
جس نے اللہ کی رضا کے لئے مسجد بنائی، اللہ اس کے لئے اس مسجد سے بھی بڑا گھر بناتا ہے۔
صحیح الترغیب 270 فتح الباری 546/1
⓫ سنن ابن ماجہ و بہیقی اور صحیح ابن خزیمہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ مرنے کے بعد مومن کو اس کے جن اعمال کی نیکیاں پہنچتی رہتی ہیں ان میں سے:
① اس کا سکھلایا ہوا اور نشر و عام کیا ہوا علم۔
② نیک اولاد۔
③ وراثت میں چھوڑا ہوا مصحف یعنی قرآن مجید۔
④ اس کا بنایا ہوا مسافر خانہ۔
⑤ اس کی جاری کردہ پانی کی نہر۔
⑥ اور اس کا نکالا ہوا وہ صدقہ جو اس نے باہوش و حواس اور تندرست ہونے کی حالت میں کیا ہو۔
⑦ اور ان چھ اعمال کے علاوہ ایک ساتواں عمل اس حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بتایا ہے وہ ہے۔
أو بناه مسجدا
یا اس نے کوئی مسجد بنادی ہو۔
صحیح الترغیب 273، 1080، ابن ماجہ 242، ایضاً شعب الایمان بیہقی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اور معجم طبرانی میں حضرت ابوقرصافہ رضی اللہ عنہ سے حسن درجہ کی احادیث مروی ہیں۔ انظر الفتح 545/1
اور یہ جو بعض احادیث میں اس مسجد سے بھی بڑا اور کھلا گھر دینے یا اس مسجد سے افضل مکان دینے یا اس کے مثل گھر تعمیر کرنے کا ذکر آیا ہے، تو یہ جزاء من جنس العمل رہا مثل افضل یا وسیع تو یہ کوئی مقابلے کی باتیں نہیں۔ کیونکہ ایک صحیح حدیث کی رو سے جنت کی تو ایک بالشت جگہ دنیا و مافیہا سے بہتر ہے، اور جنت میں گھر اگرچہ کمیت و گنتی میں ایک ہی ہوگا، البتہ کیفیت اور حسن و جمال نیز شان و شوکت میں بدرجہا بہتر ہوگا۔
للتفصیل فتح الباری، نیل الاوطار ایضاً
⓬ ہم تعمیر مسجد کے فضائل کو ایک ایسی حدیث پر ختم کرنا چاہتے ہیں، جس کے بعد کسی دوسری فضیلت کے ذکر کی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی، اور وہ حدیث ایسی ہے جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مساجد کو اللہ کے گھر قرار دیا ہے۔
خانہ کعبہ تو اللہ کا گھر ہے، بیت اللہ معروف ہے، جب کہ مسجد تعمیر کرنے والے کو قیامت کے دن جنت کی بشارت اور جنت میں گھر دینے کی خوشخبری کے لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو عمل بتایا ہے، الفوائد للسمويه میں ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی روایت کے مطابق وہ عمل ہے:
من بنى لله بيتا
کہ جس نے اللہ کے لئے گھر بنایا۔
بحوالہ فتح الباری 545/1 وحسنه
اندازہ فرمائیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعبیر جمیل کے مطابق جو شخص اللہ کا گھر تعمیر کرے گا، اسے خالق کائنات سے کیا خوشنودیاں اور انعامات نہیں ملیں گے؟
اور اسی حدیث میں یہ صراحت بھی آگئی کہ مسجدیں اللہ کے گھر ہیں، یہ کوئی عام سی عمارتیں نہیں ہوتیں، انہیں تو اللہ کے گھر ہونے کا شرف عظیم حاصل ہوتا ہے، لہذا ان کی عزت وقدر اور احترام و اکرام بھی اسی نظر سے کرنا چاہئے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے