یہ مضمون نماز میں رفعِ یدین کے ثبوت، اس کے دائمی ہونے اور ترکِ رفع یدین کے لیے پیش کردہ دلائل کا جائزہ لینے کے لیے تحریر کیا گیا ہے۔ اس میں ہر اہم روایت کے ساتھ مختصر عربی متن، اردو ترجمہ اور اصل کتاب کا حوالہ ذکر کیا گیا ہے۔ اُمید ہے کہ یہ ایک علمی کاوش کے طور پر آپ کے لیے مفید ثابت ہوگی۔
نماز میں رفعِ یدین (دونوں ہاتھوں کو کندھوں یا کانوں تک اٹھانا) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ثابت شدہ سنت ہے جس پر آپؐ نے ہمیشگی فرمائی۔ یہ سنت آپؐ سے کثیر صحابہ کرام نے روایت کی ہے اور صحاحِ ستہ سمیت بے شمار کتب حدیث میں اس کے شواہد موجود ہیں۔ اس کے باوجود بعض حضرات ترکِ رفعِ یدین کے قائل ہیں اور اسے نبیؐ کا آخری عمل یا ناسخ طریقہ قرار دیتے ہیں۔ زیرِ نظر مضمون میں انہی دلائل کی حقیقت کو واضح کیا جارہا ہے، اور دکھایا جارہا ہے کہ رفعِ یدین منسوخ نہیں بلکہ یہ آپؐ کی دائمی اور غیر منسوخ سنت ہے۔
حصہ اوّل: رفعِ یدین کا ثبوت اور اس کے منسوخ نہ ہونے کی چند بنیادی دلیلیں
1) حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما (صحیح بخاری)
عربی متن:
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يَكُونَا حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، ثُمَّ كَبَّرَ، وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ فَعَلَ مِثْلَهُ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ فَعَلَ مِثْلَهُ…
اردو ترجمہ:
“رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے تھے، پھر تکبیر کہتے۔ جب رکوع کا ارادہ کرتے تو (دوبارہ) ایسے ہی ہاتھ اٹھاتے، اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو پھر ایسے ہی ہاتھ اٹھاتے…”
حوالہ: صحیح بخاری، کتاب الأذان، حدیث نمبر: 736
اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ آپؐ نماز کی ابتداء میں، رکوع جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت باقاعدگی سے رفع یدین کیا کرتے تھے۔ اسی طرح صحیح مسلم (حدیث نمبر: 390) میں بھی سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اسی مفہوم کی روایت ہے، جو بتاتی ہے کہ یہ عمل کسی مخصوص مرحلے میں نہیں بلکہ حیاتِ طیبہ کے آخری ایام تک جاری رہا۔
2) حدیث وائل بن حجر رضی اللہ عنہ (سنن ابی داؤد)
عربی متن (خلاصہ):
رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَفَعَ يَدَيْهِ حِيْنَ دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ، ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنٰى عَلَى يَدِهِ الْيُسْرٰى عَلَى صَدْرِهِ… وَإِذَا رَكَعَ رَفَعَ يَدَيْهِ… وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ رَفَعَ يَدَيْهِ…
اردو ترجمہ (مفہوم):
“میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے نماز شروع کرتے وقت دونوں ہاتھ اٹھائے۔ پھر آپ نے دائیں ہاتھ کو بائیں پر اپنے سینے پر رکھا۔ جب آپؐ رکوع کے لیے جھکے تو (دوبارہ) دونوں ہاتھ اٹھائے، اور جب رکوع سے سر اٹھایا تو پھر دونوں ہاتھ اٹھائے…”
حوالہ: سنن ابی داؤد، کتاب الصلاۃ، باب افتتاح الصلاة، حدیث نمبر: 734 (وغیرہ)
یہ حدیث مسند احمد اور دیگر کتب میں بھی آئی ہے۔ سب کے سب طرق مل کر اس حدیث کو قوی درجہ کی بنا دیتے ہیں۔
3) رفعِ یدین کے منسوخ نہ ہونے پر امت کا عمل
اگر واقعی رفعِ یدین منسوخ ہوچکا ہوتا تو اس تبدیلی کے بارے میں اتنی اہم عبادت (نماز) میں ضرور صریح احادیث ہوتیں۔ لیکن نہ تو آپ ﷺ نے صحابہ کو کسی مرحلے پر یہ اعلان فرمایا کہ “اب رفع یدین نہ کیا جائے”، اور نہ ہی صحابہ کرام میں اس بارے میں کوئی واضح تعلیم ملتی ہے۔
اسی لیے جمہور محدّثین و فقہاء کے نزدیک رفعِ یدین بدستور سنت ہے۔ حضرت امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام احمدؒ اور دیگر ان کے متبعین ہمیشہ اس سنت کے قائل و فاعل رہے۔ حتّٰی کہ خود بعض حنفی محققین نے بھی تحقیق کے بعد اسی رائے کو ترجیح دی ہے۔
حصہ دوم: ترکِ رفع یدین کے دلائل کا جائزہ اور اُن کا رد
1) حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت
روایت کا خلاصہ: حضرت علقمہ تابعی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
“کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز نہ پڑھ کر دکھاؤں؟”
اس کے بعد انہوں نے صرف پہلی تکبیر میں ہاتھ اٹھائے اور پھر پوری نماز میں نہ اٹھائے۔
بعض روایتوں میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ ابن مسعودؓ نے کہا:
“میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ نماز پڑھی، انہوں نے بھی تکبیرِ تحریمہ کے علاوہ رفعِ یدین نہیں کیا۔”
یہ روایت سنن ابی داؤد (حدیث نمبر: 748)، جامع ترمذی (حدیث نمبر: 257)، سنن نسائی (حدیث نمبر: 1059) وغیرہ میں مذکور ہے۔ لیکن محدثین کی جرح یہ ہے:
(الف) امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ
عربی متن:
«سُئِلَ أَحْمَدُ عَنْ حَدِيثِ عَلْقَمَةَ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: صَلَّيْتُ خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَخَلْفَ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ فَلَمْ يَرْفَعُوا أَيْدِيَهُمْ إِلَّا فِي الِافْتِتَاحِ؟ فَقَالَ أَحْمَدُ: هُوَ حَدِيثٌ وَاهٍ.»
اردو ترجمہ:
“امام احمد بن حنبلؒ سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا گیا جو علقمہ نے ابن مسعودؓ سے روایت کی ہے کہ: ‘میں نے نبیؐ اور ابوبکر و عمرؓ کے پیچھے نماز پڑھی؛ وہ صرف افتتاحِ نماز کے وقت ہی ہاتھ اٹھاتے تھے۔’ تو امام احمد نے فرمایا: یہ ایک کمزور (واہی) روایت ہے۔”
حوالہ: مسائل الإمام أحمد بن حنبل برواية أبي داود، صفحہ: 50
(ب) امام یحییٰ بن آدم رحمہ اللہ
عربی متن:
«قُلْتُ لِيَحْيَى بْنِ آدَمَ: حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ فِي تَرْكِ الرَّفْعِ، فَقَالَ: لَا يَصِحُّ.»
اردو ترجمہ:
“میں نے یحییٰ بن آدم سے ابن مسعودؓ کی روایت کے بارے میں پوچھا، جس میں رفع یدین ترک کرنے کا ذکر ہے، تو انہوں نے کہا: یہ صحیح نہیں۔”
حوالہ: یہ قول متعدد تذکرہ نگاروں نے نقل کیا ہے؛ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو: إعلاء السنن (باب رفع الیدین)
(ج) امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ
عربی متن:
«هَذَا الْحَدِيثُ خَطَأٌ.»
اردو ترجمہ:
“یہ حدیث (اپنے موجودہ متن کے ساتھ) غلط ہے۔”
حوالہ: علل الحدیث لابن أبي حاتم، جلد 1، صفحہ: 44
(د) امام بزار رحمہ اللہ
عربی متن:
«لَا يَصِحُّ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا يَثْبُتُ.»
اردو ترجمہ:
“یہ حدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی بھی صحیح طریق سے ثابت نہیں، اور نہ ہی پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہے۔”
حوالہ: مسند البزار (البحر الزخار)، حدیث نمبر: 2041 (مطبوعہ مؤسسۃ علوم الحدیث)
نتیجۂ جرح
-
سند میں اضطراب اور راویوں کے بیانات کا اختلاف۔
-
متن کا دیگر صحیح روایات کے خلاف ہونا۔
-
ابن مسعودؓ کے شاگردوں سے اس کے متضاد آثار کا ملنا، جن میں رفعِ یدین کا اثبات ملتا ہے۔
-
محدثین کا صراحت کے ساتھ اسے “واہی”، “غلط”، “غیر ثابت” قرار دینا۔
ان تمام وجوہات کی بنا پر جمہور محدّثین نے اس روایت کو ناقابلِ حجت تسلیم کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحاح ستہ کے شارحین بھی اس کے ضعف پر متفق ہیں۔
2) حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی روایت
روایت کا خلاصہ: اس روایت میں مذکور ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف پہلی تکبیر میں ہاتھ اٹھائے اور اس کے بعد نہ اٹھائے۔ روای کا نام عبداللہ بن محمد بن ابی لیلیٰ ہے، جو کہ کمزور حافظہ رکھتے تھے۔
(الف) امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ
محدثین نے تصریح کی ہے کہ سفیان بن عیینہ نے اس حدیث کو محفوظ نہیں سمجھا، اس لیے وہ اسے بیان کرنے سے احتراز کرتے تھے۔ اس پر دیگر ائمہ کا اتفاق ہے کہ یہ روایت غیر محفوظ ہے۔
-
سفیان بن عیینہ کا مختصر بیان متعدد کتب تراجم میں منقول ہے کہ وہ ابن ابی لیلیٰ کی روایات کو مضبوط نہیں مانتے تھے، خاص کر ایسی روایتوں کو جو صحیح احادیث کے معارض ہوں۔
(ب) امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ
انہوں نے بھی ابن ابی لیلیٰ کی وجہ سے اس روایت کو ضعیف قرار دیا، کیونکہ وہ ضابط راوی نہیں تھے۔ امام احمد کے نزدیک براء بن عازبؓ کا یہ بیان غیر معتبر ہے جب اس میں ابن ابی لیلیٰ راوی ہوں اور متن بھی مخالفِ روایتِ مشہور ہو۔
(ج) امام بخاری رحمہ اللہ کا اشارہ
امام بخاریؒ نے اپنی جزء رفع الیدین میں براء بن عازبؓ والی روایت کو ضعیف قرار دیا اور ابن ابی لیلیٰ پر کلام کرتے ہوئے بتایا کہ یہ درست محفوظ سند نہیں رکھتی۔
ابن ابی لیلیٰ پر بنیادی جرح
عربی متن (از تہذیب الکمال یا تقریب التہذیب)
«قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ: كَانَ ضَعِيفًا فِي كُلِّ شَيْءٍ.»
«قَالَ ابْنُ حِبَّانَ: كَانَ رَدِيءَ الْحِفْظِ يَكْثُرُ الْخَطَأُ.»
ترجمہ:
“یحییٰ بن سعید القطان نے کہا: وہ (عبد اللہ بن محمد بن ابی لیلیٰ) ہر چیز (روایت) میں ضعیف تھے۔ ابن حبان نے کہا: ان کا حافظہ بہت خراب تھا اور ان سے کثرت سے غلطیاں صادر ہوتیں۔”
حوالہ: تقریب التہذیب لابن حجر، تہذیب الکمال للمزی وغیرہ میں ان پر یہی توثیقات و تضعیفات مذکور ہیں۔
نتیجۂ جرح
-
اس روایت کے مرکزی راوی ابن ابی لیلیٰ کمزور ہیں۔
-
متن صحیح احادیث کے خلاف ہے جنہیں درجنوں رواة ثقہ نے بیان کیا ہے۔
-
خود امام بخاریؒ، امام احمدؒ، امام سفیانؒ اور دیگر نے اس کی سند کو محفوظ قرار نہیں دیا۔
اس لیے ترکِ رفع یدین کے لیے اسے دلیل بنانا درست نہیں۔
3) حدیث جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ (خیلِ شمس والی روایت)
یہ صحیح مسلم وغیرہ میں حدیث آئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«مَا بَالِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟ اسْكُنُوا فِي الصَّلَاةِ.»
مخالفین اسے رفع یدین کی ممانعت سمجھتے ہیں، حالانکہ:
-
سیاق و سباق کے مطابق یہ اشارۂ سلام اور بےجا ہاتھ ہلانے کے بارے میں ہے، جیسا کہ صحیح مسلم ہی میں اس کی وضاحت ملتی ہے کہ صحابہ کرام سلام پھیرتے ہوئے دائیں بائیں ہاتھوں سے اشارہ کرتے تھے تو آپؐ نے منع فرمایا۔
-
امام نووی رحمہ اللہ اور دیگر شارحینِ حدیث نے صراحت کی ہے کہ اس حدیث میں رکوع کے وقت رفعِ یدین کا ذکر نہیں بلکہ دورانِ نماز غیر ضروری حرکتوں کی ممانعت ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«هَذَا الْحَدِيثُ لَيْسَ فِيهِ تَرْكُ الرَّفْعِ عِنْدَ الرُّكُوعِ وَرَفْعِ الرَّأْسِ مِنْهُ، وَإِنَّمَا فِيهِ النَّهْيُ عَنْ الْإِشَارَةِ بِالْيَدِ فِي الصَّلَاةِ بِغَيْرِ حَاجَةٍ.»
(“اس حدیث میں رکوع اور رکوع سے اٹھتے وقت رفعِ یدین کے ترک کا بیان نہیں، بلکہ اس میں نماز میں بلا ضرورت ہاتھ ہلانے (یا اشارہ کرنے) کی ممانعت ہے۔”)
حوالہ: شرح النووی على صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ کے ذیل میں
اس لیے واضح ہوا کہ “خیلِ شمس” والی حدیث کا موضوع ہی الگ ہے اور رفع یدین کی سنت سے اس کا کوئی ٹکراؤ نہیں۔
4) حضرت عمر، حضرت علی، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہم کی طرف ترکِ رفع یدین کی نسبت
بعض آثار میں آیا ہے کہ سیدنا عمر، سیدنا علی وغیرہ صرف پہلی تکبیر میں ہاتھ اٹھاتے تھے۔ لیکن یہ تمام آثار:
-
سنداً ضعیف یا شاذ ہیں، جن میں عموماً ابراہیم نخعی وغیرہ کے واسطے سے روایات کوفہ میں رائج ہوئیں۔
-
دیگر صحیح احادیث کے ساتھ ٹکراتی ہیں۔ کیونکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے سیدنا ابن عمرؓ تو مستقل ہر رکوع کے وقت رفع یدین کے پابند تھے اور ترک کرنے والوں کو ٹوکتے تھے۔ اگر خود ان کے والد ہی یہ ترک کرتے تو ابن عمرؓ یقینا اسی کی اتباع کرتے۔
-
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی کوئی صحیح سند ترکِ رفع یدین کی نہیں۔ موطّا امام محمدؒ کے ایک اثر میں اس کا ذکر ہے، لیکن وہ بھی محدثین کے نزدیک محفوظ نہیں۔
-
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں براہِ راست کوئی ایک بھی مضبوط سند موجود نہیں کہ انہوں نے (معاذ اللہ) رفع یدین منسوخ کردیا تھا۔
لہٰذا خلفائے راشدین کے ترکِ رفع یدین کے حق میں پیش کردہ یہ آثار اصولِ حدیث کی رو سے ضعیف ہیں اور معتمد ائمہ نے انہیں قبول نہیں کیا۔
حصہ سوم: خلاصہ و نتائج
-
رفعِ یدین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ثابت شدہ اور مسلسل جاری رہنے والی سنت ہے۔
-
اس کے منسوخ ہونے یا ترک کیے جانے کی کوئی صحیح حدیث موجود نہیں۔
-
ترکِ رفع یدین کے دلائل بیشتر ضعیف، شاذ یا معارض احادیث وآثار پر مبنی ہیں جنہیں محدثین نے درجۂ قبولیت نہیں دیا۔
-
صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابی داؤد، سنن نسائی، جامع ترمذی اور دیگر کتب حدیث میں رفعِ یدین کی متعدد روایات صحیح سندوں سے وارد ہیں۔
-
صحابہ و تابعین کی ایک بڑی جماعت اس کی قائل و فاعل رہی۔ خلفائے راشدینؓ سے ترکِ رفع یدین کی نسبت ثابت نہیں۔
-
محدثین و فقہاء کی اکثریت کے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہی ہے کہ تکبیر تحریمہ، رکوع جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت دونوں ہاتھوں کو اٹھایا جائے۔
لہٰذا بہتر یہی ہے کہ آدمی بلا کسی تردد کے اس سنت پر عمل پیرا ہو، اور کسی ضعیف یا شاذ روایت کی بنا پر نماز جیسے اہم رکن میں نبی کریمؐ کی ثابت شدہ سنت کو ترک نہ کرے۔
وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ المُبِيْن
(اور رسول کے ذمے تو صرف صاف صاف پہنچا دینا ہے)
دعا
اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو تعصّب سے بالاتر ہوکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی اتباع کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!