ترجیع والی (یعنی دوہری ) اذان مشروع ہے
ترجیع والی اذان سے مراد ایسی اذان ہے کہ جس میں کلمہ شہادتین کو دو دو مرتبہ دہرایا گیا ہو ۔ پہلی دو مرتبہ ہلکی آواز میں جبکہ دوسری دو مرتبہ قدرے اونچی آواز میں۔ یہ اذان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کو سکھائی تھی ۔
[مسلم 379 ، كتاب الصلاة : باب صفة الأذان ، ترمذى 176 ، ابن ماجة 701]
( جمہور، شافعیؒ ، احمدؒ ، مالکؒ) ترجیع والی اذان مستحب ہے۔ (ان کی دلیل حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے )۔
(ابو حنیفہؒ ) یہ اذان مستحب نہیں ہے۔ (ان کا کہنا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ کی حدیث میں اس کا ذکر نہیں ہے اس لیے یہ مشروع نہیں حالانکہ حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کی حدیث جنگ حنین کے بعد 8 ہجری کی ہے اور حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کی حدیث پہلی ہجری کی لٰہذا حضرت ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں جو اضافہ ہے اسے یقینا قبول کیا جانا چاہیے۔)
[ شرح المهذب 104/3 ، الهداية 41/1 ، سبل السلام 166/1 – 168 ، المبسوط 128/1]
اس اذان کو مستحب نہ کہنے والوں کا گمان یہ بھی ہے کہ حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ جن سے اذان میں ترجیع ثابت ہے انہیں تعلیم دینا مقصود تھا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تعلیم دی کہ پہلی مرتبہ اذان میں شہادتین کچھ دھیمی و پست آواز میں اور دوسری مرتبہ اونچی آواز سے کہیں ۔
اسکا جواب یوں دیا گیا ہے کہ حضرت ابو محذوره رضی اللہ عنہ ، وفات تک مکہ میں مؤذن مقرر رہے اور ان کی وفات انسٹھ (59) ہجری کو ہوئی ۔ دریں اثناء صحابہ و تابعین ان کی ترجیع والی اذان سنتے رہے اور مواسم حج میں مختلف علاقوں سے آنے والی مسلمانوں کی کثیر تعداد بھی اس اذان کو سنتی رہی لیکن کسی ایک کا بھی اس پر انکار منقول نہیں۔ اگر یہ خلاف سنت ہوتی تو یہ سب لوگ اس غلطی کو قائم نہ رہنے دیتے ۔
[تحفة الأحوذي 597/1-598]
(راجح) جمہور کا قول رائج ہے۔
(ابن قیمؒ) اذان میں ترجیع و غیر تر جیع دونوں سنت ہے۔
[ زاد المعاد 389/2]
(نودیؒ) اذان میں ترجیع ثابت و مشروع ہے۔
[شرح مسلم 317/2]
(شوکانیؒ ) اذان میں ترجیع جائز ہے۔
[السيل الجرار 203/1]
(امیر صنعانیؒ ) حضرت ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں حضرت عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ترجیع کی زیادتی ہے اور عادل کی زیادتی مقبول ہوتی ہے۔
[سبل السلام 251/1]