عورت پر ظلم: حقیقت یا پروپیگنڈہ؟
تحفظ نسواں بل کی بنیاد اس مفروضے پر رکھی گئی ہے کہ پاکستان میں صرف عورتیں مظلوم اور مرد ظالم ہیں، حالانکہ یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ظلم و زیادتی صرف مرد کی طرف سے نہیں ہوتی، بلکہ بعض اوقات عورتیں بھی مختلف طریقوں سے مردوں پر ظلم کرتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں جہالت اور اسلامی تعلیمات سے دوری کے باعث گھریلو جھگڑوں میں کبھی مرد اور کبھی عورت زیادتی کرتے ہیں۔
لیڈی ڈاکٹر فوزیہ سعید کا مؤقف
لیڈی ڈاکٹر فوزیہ سعید اپنے مضمون "کیا صرف مرد ذمہ دار ہے؟” (روزنامہ نوائے وقت، 21 مارچ 2016ء) میں لکھتی ہیں کہ 80 فیصد کیسز میں عورت خود بھی قصوروار ہوتی ہے۔ مردوں کو ظلم پر اُکسانے میں بھی عورتوں کا کردار نظر آتا ہے، چاہے وہ ماں ہو، بہن ہو، یا کوئی اور رشتہ۔ اس کے باوجود صرف مردوں کو مجرم قرار دے کر یکطرفہ قانون سازی کرنا غیر منصفانہ ہے۔
پولیس کی مداخلت: گھریلو زندگی پر منفی اثرات
اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے رشتے کو
"هُنَّ لِباسٌ لَكُم وَأَنتُم لِباسٌ لَهُنَّ…”
"وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو۔۔۔”
(البقرة: 187)
سے تعبیر کیا، یعنی وہ ایک دوسرے کے لیے لباس کی مانند ہیں۔ مگر اس قانون کے تحت پولیس کو گھریلو معاملات میں مداخلت کا اختیار دے کر ازدواجی زندگی کی پرائیویسی کو ختم کیا جا رہا ہے۔ اگر عورت کسی جھگڑے پر مرد کو پولیس کے حوالے کر دے تو نتیجہ طلاق کی صورت میں نکل سکتا ہے، کیونکہ مرد اپنی بے عزتی برداشت نہیں کرے گا۔ یہ اقدام عورت کے تحفظ کے بجائے، اس کی ازدواجی زندگی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
اسلامی حل موجود ہے، مگر نظر انداز
اسلام نے میاں بیوی کے جھگڑوں کا حل پہلے ہی
"فَابعَثوا حَكَمًا مِن أَهلِهِ وَحَكَمًا مِن أَهلِها…”
"تو ایک حکم (ثالث) مرد کے خاندان سے اور ایک حکم عورت کے خاندان سے مقرر کرو۔۔۔”
(النساء: 35)
کے ذریعے بیان کر دیا ہے، یعنی دونوں خاندانوں کے ثالث فیصلہ کریں۔ اگر صلح ممکن نہ ہو تو طلاق کا اختیار رکھا گیا ہے، تاکہ ازدواجی زندگی کے مسائل حل ہو سکیں۔ اس کے برعکس یہ بل میاں بیوی کے درمیان نفرت پیدا کر کے خاندانوں کو تباہ کرنے کی راہ ہموار کر رہا ہے۔
عورتوں کے اصل مسائل اور ان کا حل
اگر حکومت واقعی عورت کے حقوق کے تحفظ میں سنجیدہ ہے، تو اسے درج ذیل اقدامات کرنے چاہئیں:
اسلامی تعلیم و تربیت
◄ میاں بیوی کے حقوق و فرائض سے آگاہی کے لیے نصاب میں اسلامی تعلیمات شامل کی جائیں۔
طلاق کے قوانین میں اصلاح
◄ ایک ساتھ تین طلاقوں کو جرم قرار دیا جائے، تاکہ جلد بازی میں ازدواجی رشتے ختم نہ ہوں۔
پنچایتی نظام کا قیام
◄ محلوں کی سطح پر ثالثی کمیٹیاں بنا کر جھگڑوں کو عدالتوں تک جانے سے پہلے حل کیا جائے۔
عدالتی نظام میں بہتری
◄ عائلی مقدمات کے فیصلے مقررہ مدت میں کیے جائیں، تاکہ عورت کو فوری انصاف ملے۔
جہیز کی لعنت ختم کی جائے
◄ سخت قانون سازی کر کے اس روایت کا خاتمہ کیا جائے، جو کئی عورتوں کی مشکلات کا سبب ہے۔
وراثت میں عورتوں کے حق کا تحفظ
◄ عورت کو اس کے حصے سے محروم کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
غیرت کے نام پر قتل کا سد باب
◄ اس جرم کے خلاف سخت سزائیں دی جائیں۔
تعلیمی نظام میں اصلاحات
◄ خواتین کے لیے علیحدہ تعلیمی ادارے اور ان کے مخصوص شعبے مقرر کیے جائیں، تاکہ وہ محفوظ ماحول میں ترقی کر سکیں۔
نتیجہ
یہ بل عورتوں کے تحفظ کے بجائے، گھریلو نظام کو کمزور کر رہا ہے۔ اصل مسئلہ مغربی ایجنڈے کے تحت خواتین کے حقوق کی آڑ میں معاشرتی اقدار کو تباہ کرنا ہے۔ عورتوں کو حقیقی تحفظ صرف اسلامی تعلیمات کے مطابق حقوق فراہم کر کے ہی دیا جا سکتا ہے، نہ کہ یکطرفہ قانون سازی کے ذریعے۔