تحریک نسواں اور خاندانی نظام کی تباہی

ابتدائی پس منظر

روشن خیالی کی تحریک نے مغربی معاشرے میں جدیدیت (Modernism) کے فلسفے کو بنیاد بنا کر کئی بڑے نظریات کو فروغ دیا۔ انہی میں سے ایک نمایاں نظریہ تحریک نسواں (Feminism) ہے، جو درحقیقت مردوں کی جانب سے متعارف کرایا گیا۔ برطانیہ کے مفکر جریمی بینتھم (1791ء) کو اس کا اولین حامی کہا جا سکتا ہے، جس نے مرد و عورت کی مکمل مساوات کا نعرہ لگایا۔

مساوات مرد و زن کا نعرہ

روشن خیالی کا بنیادی تصور یہ تھا کہ انسان مکمل طور پر آزاد ہے، اور کسی بھی مافوق الفطرت ہستی کی طرف سے اسے پابند نہیں کیا جا سکتا۔ ابتدا میں مرد و عورت کے درمیان برابری کا تصور متعارف کرایا گیا، جسے فرانسیسی مفکر مارکوس نے بھی آگے بڑھایا۔ پہلی خاتون جس نے اس تحریک میں بڑا نام پیدا کیا، وہ میری وال سٹونی کرافٹ تھی۔

صنعتی انقلاب اور عورت کی معاشی آزادی

صنعتی انقلاب کے بعد عورتوں کو گھروں سے نکل کر کام کرنے کی ضرورت پڑی، جس کے لیے نئے نظریات اور دلکش نعروں کی ضرورت محسوس کی گئی۔ 18ویں صدی میں "مساوات مرد و زن” کا نعرہ خاصا مقبول ہوا۔

جنسی آزادی اور "Queer Theory”

1990ء میں Queer Theory کے نام سے ایک نیا نظریہ پیش کیا گیا، جس میں اس خیال کو فروغ دیا گیا کہ جنس مخالف کی طرف کشش ایک فطری جذبہ نہیں بلکہ محض جسمانی ضرورت ہے۔ اس بنیاد پر ہم جنس پرستی کو بھی جائز قرار دینے کی کوشش کی گئی، اور مغربی ممالک میں اس کے لیے باقاعدہ قوانین بنائے گئے۔

تیسری لہر: خاندان اور شادی کے خلاف نظریات

تحریک نسواں کی تیسری لہر میں خاندان، شادی اور عورت کے روایتی کردار کے خلاف شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔ شادی کو عورت کی غلامی قرار دے کر اسے مسترد کرنے کی تحریک زور پکڑنے لگی۔

  • شیلا کرونن نے لکھا کہ شادی دراصل عورتوں کی غلامی ہے، اس لیے اسے ختم کیا جانا چاہیے۔
  • بیٹی فرائیڈین نے شادی کو "آرام دہ حراستی کیمپ” قرار دیا۔
  • میل کرانٹ زیلر نے اپنی کتاب Creative Divorce میں طلاق کو ایک نئی اور آزاد زندگی کا آغاز قرار دیا۔

یہ نظریات طلاق کو فروغ دینے اور شادی کے ادارے کو کمزور کرنے کے لیے استعمال کیے گئے۔

تولیدی حقوق اور اسقاط حمل

  • 1970ء میں فائر سٹون نے اپنی کتاب The Dialectics of Sex میں لکھا کہ عورت کی مساوات کا واحد حل یہ ہے کہ تولیدی عمل (بچوں کی پیدائش) میں اس کا کردار ختم کر دیا جائے، اور ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی مدد سے بچوں کی پیدائش ممکن بنائی جائے۔
  • اسقاط حمل کو عورت کے "حق” کے طور پر پیش کیا گیا، اور دلیل دی گئی کہ چونکہ عورت اپنے جسم کی مالک ہے، اس لیے وہ جب چاہے حمل ضائع کر سکتی ہے۔
  • مزید برآں، Surrogacy (کرائے کی کوکھ) کا تصور متعارف کرایا گیا، تاکہ ماں بننے کی "ذمہ داری” سے نجات حاصل کی جا سکے۔

عورت کی آزادی یا استحصال؟

تحریک نسواں نے جنسی آزادی، شادی کے خاتمے اور اسقاط حمل کو فروغ دے کر عورت کو آزاد تو کر دیا، مگر اس کے نتیجے میں خاندانی نظام تباہ ہو گیا۔ سیلویا اینڈریا نے اپنی کتاب A Lesser Life: The Myth of Women’s Liberation in America میں اس بات پر روشنی ڈالی کہ نام نہاد آزادی کے بعد عورت نہ گھر کی رہی، نہ باہر کی۔

نتیجہ

تحریک نسواں نے آزادی کے نام پر عورت کو خاندان، مذہب اور روایات سے بے زار کر دیا، مگر اس کے بدلے میں اسے سکون اور خوشحالی نہیں ملی۔ مغربی دنیا میں ان نظریات کے تباہ کن نتائج سامنے آ چکے ہیں، جبکہ ہمارے معاشرے میں بھی ان نظریات کو آہستہ آہستہ متعارف کرایا جا رہا ہے۔ یہ سوچنے کا مقام ہے کہ کیا واقعی یہ تحریک عورت کے حقوق کے لیے ہے، یا کسی اور ایجنڈے کا حصہ؟

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1