تحائف کا تبادلہ
تحریر : فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالستار الحماد حفظ اللہ

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْبَلُ الْهَدِيَّةَ، وَيُثِيبُ عَلَيْهَا
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہدیہ قبول کرتے تھے اور اس کا بدلہ بھی دیتے تھے۔“ [صحيح بخاري/الهبة وفضلها والتحريض عليها : 2585 ]
فوائد :
ہدیہ وہ عطیہ ہے جو دوسرے کا دل خوش کرنے اور اس کے ساتھ تعلق خاطر ظاہر کرنے کے لئے دیا جاتا ہے۔ لیکن اس سے رضا الہٰی مطلوب ہو۔ یہ تحفہ اگر اپنے کسی برخودار کو دیا جائے تو اس کے ساتھ اپنی شفقت کا اظہار، اگر کسی دوست کو دیا جائے تو محبت میں اضافے کا باعث اور اگر کسی بزرگ کو دیا جائے تو اس کا احترام و اکرام ہے۔ افسوس ! اس امت میں باہمی تحائف کا تبادلہ بہت کم ہو گیا ہے حالانکہ ہدیہ دلوں کی کدورت دور کر کے باہمی محبت پیدا کرتا ہے۔
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
”ایک دوسرے کو تحائف بھیجا کرو کیونکہ ان سے دلوں کے کینے ختم ہو جاتے ہیں۔ “ [ترمذي/الولاء : 2130 ]
بلاشبہ مکارم اخلاق کا تقاضا یہی ہے لیکن آج ہم میں اس کریمانہ سنت کا رواج بہت کم نظر آتا ہے۔ بہرحال تحفہ دینے والے کا شکر یہ بھی ادا کرنا چاہئے جیسا کہ حدیث میں ہے :
”جس نے احسان کرنے والے کا شکریہ ادا نہیں کیا وہ اللہ تعالیٰ کا بھی شکر گزار نہیں ہے۔ “ [مسند احمد ص : 258 ج 2 ]
اس سلسلہ میں یہ بھی یاد رہے کہ ہدیہ دے کر واپس لینا بہت مکروہ حرکت ہے جیسا کہ حدیث میں آیا ہے جو شخص ہدیہ دے کر اسے واپس لے، اس کی مثال اس کتے کی سے ہے جس نے کوئی چیز کھائی جب خوب پیٹ بھر گیا تو اس کو قے کر کے نکال دیا پھر اسے چاٹنے لگا۔ [ابوداود /البيوع : 3539 ]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: