علامہ ابن جریر طبری کا تعارف
ابن جریر طبری (224ھ-310ھ) اسلامی تاریخ کے ایک ممتاز مورخ، مفسر اور فقیہ تھے۔ ان کا مکمل نام ابو جعفر محمد بن جریر بن یزید طبری تھا۔ وہ طبرستان میں پیدا ہوئے، جس کی نسبت سے انہیں "طبری” کہا جاتا ہے۔ طبری نے ابتدائی عمر میں قرآن مجید حفظ کیا اور نو سال کی عمر میں حدیث لکھنا شروع کردی۔ اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیے انہوں نے عراق، کوفہ، بغداد اور بیروت سمیت کئی شہروں کا سفر کیا اور وہاں کے جید علما سے استفادہ کیا۔
علامہ طبری کی علمی خدمات
- حدیث، تفسیر، قرآت، فقہ اور تاریخ جیسے علوم میں مہارت حاصل کی۔
- تقریباً 26 کتابیں تصنیف کیں، جن میں تفسیر طبری اور تاریخ طبری کو غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی۔
- فقہِ شافعی کے پیروکار تھے، لیکن بعد میں انہوں نے اجتہادی حیثیت اختیار کر لی۔
علامہ طبری کا مذہب اور ایک غلط فہمی
ابن جریر طبری کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ سنی شافعی المسلک تھے، تاہم ان کے ہم نام محمد بن جریر بن رستم طبری رافضی (شیعہ) تھے۔ دونوں کے نام اور کنیت ایک جیسی ہونے کی وجہ سے بعض لوگ دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ علماء نے وضاحت کی ہے کہ سنی طبری کے دادا کا نام یزید اور شیعہ طبری کے دادا کا نام رستم تھا۔
(طبقات الشافعیہ الکبریٰ، 2/135؛ میزان الاعتدال، 3/498)
تاریخ طبری: مصادر اور اسلوب
تاریخ طبری کا مکمل نام "تاریخ الرسل والملوک” یا "تاریخ الأمم والملوک” ہے۔ یہ کتاب اسلامی تاریخ کا ایک بنیادی ماخذ سمجھی جاتی ہے اور اپنی جامعیت اور قدیم معلومات کی وجہ سے مشہور ہے۔
کتاب کا اسلوب
- تاریخ طبری کی ابتدا تخلیقِ کائنات سے ہوتی ہے اور آدم علیہ السلام سے لے کر حضور اکرم ﷺ کی بعثت اور پھر 302ھ تک کے اہم واقعات شامل ہیں۔
- ہر واقعہ کو سال بہ سال ترتیب سے بیان کیا گیا ہے۔
- کتاب میں مختلف موضوعات، جیسے حدیث، تفسیر، لغت، ادب، سیرت، اور واقعاتِ جنگ، کو منظم انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
- طبری نے ہر روایت کو اس کے راوی کی سند کے ساتھ ذکر کیا، لیکن اس پر تنقیدی تحقیق (نقد) نہیں کی۔
(مقدمہ تاریخ طبری)
مصادر
- تفسیر کے لیے مجاہد اور عکرمہ کی روایات۔
- سیرت کے لیے ابان بن عثمان اور ابن اسحاق۔
- فتوحات کے لیے سیف بن عمر اسدی۔
- جنگ جمل اور صفین کے لیے ابو مخنف اور مدائنی۔
- بنو امیہ کی تاریخ کے لیے عوانہ بن حکم۔
- اہل فارس کے واقعات کے لیے فارسی کتب کے عربی تراجم۔
تاریخ طبری میں ضعیف اور جھوٹی روایات
دروغ گو راویوں کی روایات
علامہ ابن جریر طبری کی کتاب میں بعض دروغ گو اور غیر معتبر راویوں کی روایات موجود ہیں، جن کی وجہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں جھوٹے قصے اور فتنہ انگیز واقعات کو جگہ ملی۔ ان مشہور دروغ گو راویوں میں شامل ہیں:
- محمد بن سائب کلبی (12 روایات)
- ہشام بن محمد کلبی (55 روایات)
- ابو مخنف لوط بن یحییٰ (612 روایات)
(مدرسة الکذابین فی روایتہ التاریخ، ص: 45-47)
طبری کا وضاحتی بیان
طبری نے اپنی کتاب کے مقدمہ میں لکھا:
"میں نے جو کچھ نقل کیا ہے، وہ اپنی طرف سے نہیں بلکہ سابقہ راویوں سے منقول ہے۔ اگر کسی روایت میں جھول یا عجیب بات نظر آئے تو جان لیں کہ یہ میری طرف سے نہیں بلکہ راویوں کی طرف سے ہے۔”
(مقدمہ تاریخ طبری)
تحقیق کا فقدان
طبری نے جھوٹی اور ضعیف روایات کو بغیر تحقیق کے درج کیا، جس سے فتنوں کا دروازہ کھلا۔ صحابہ کے بارے میں متضاد اور بے بنیاد قصے نہ صرف اس زمانے میں بلکہ آج تک غلط فہمیوں کا سبب بن رہے ہیں۔
علامہ ذہبی نے طبری کے متعلق کہا:
"ثقةٌ صادقٌ فِیْہ تشیُّعٌ یسیرٌ۔”
"ثقہ، صادق، اس میں تھوڑا سا تشیع پایا جاتا ہے۔”
(میزان الاعتدال، 3/499)
محققین کی آراء
- مولانا محمد نافع: "طبری نے عباسی خلیفہ معتضد کے تیار کردہ متنازعہ مواد کو بلا تحقیق نقل کیا، جو حضرت ابو سفیان اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہما کے خلاف تھا۔ یہ مواد شیعہ مصنفین کے لیے ہتھیار بن گیا۔”
(فوائد نافعہ، 1/57-58) - ڈاکٹر خالد علال کبیر: "طبری نے دروغ گو راویوں سے جان بوجھ کر روایات نقل کیں اور ان پر سکوت اختیار کیا۔ اس سے بعد کی نسلیں گمراہ ہوئیں۔ اگر طبری ان روایات پر تحقیق کرتے تو بہتر ہوتا۔”
(مدرسة الکذابین فی روایتہ التاریخ، ص: 67-68)
خلاصہ
تاریخ طبری اسلامی تاریخ کا ایک قیمتی ذخیرہ ہے، لیکن اس میں موجود ضعیف اور جھوٹی روایات کے سبب فتنوں کا دروازہ کھلا۔ طبری نے اپنی کتاب میں تحقیق کے بغیر مختلف راویوں کی روایات کو ان کی اسناد کے ساتھ نقل کیا، جس کی وجہ سے کئی جھوٹی باتیں تاریخ کا حصہ بن گئیں۔ محققین نے اس پہلو پر تنقید کی ہے، لیکن طبری کی علمی حیثیت اور خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔