اعتراض
کچھ افراد اعتراض کرتے ہیں کہ تاریخ میں کئی انبیاء، خصوصاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر موجود نہیں ہے۔ بعض مورخین کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام تقریباً ساڑھے تین ہزار سال پہلے (پندرہ سو سال قبل مسیح) تشریف لائے۔ کچھ جدید تاریخ دان تو یہ تک کہتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام ایک خیالی کردار تھے، کوئی حقیقی شخصیت نہیں۔
جواب
یہ بات پہلے سمجھنی ضروری ہے کہ تاریخ میں صرف چند انبیاء کا ذکر موجود ہے، اور وہ بھی محدود پیمانے پر۔ زیادہ تر انبیاء کا ذکر ہمیں صرف مذہبی کتابوں میں ملتا ہے، کیونکہ تاریخ کا علم مخصوص اصولوں اور تعصبات کے تحت مرتب کیا جاتا ہے۔
تاریخ کیا ہے؟
تاریخ انسانی علم کی وہ شاخ ہے جسے انسان ہی لکھتے ہیں، اور یہ مکمل طور پر غیر جانبدار نہیں ہوتی۔ عموماً ہم یہ کہتے ہیں کہ "تاریخ بتاتی ہے”، لیکن یہ سمجھنا ضروری ہے کہ تاریخ کسی خودکار یا غیر انسانی نظام کا نام نہیں۔ یہ انسانوں کی لکھی گئی دستاویزات ہیں، جن پر وقت، حالات، اور لکھنے والے کے نظریات اثر انداز ہوتے ہیں۔
تاریخ کی غیر جانبداری کا مفروضہ
ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ تاریخ ہمیشہ غیر جانبدار ہوتی ہے، لیکن حقیقت میں یہ دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ تاریخ دان اپنی پسند اور ضرورت کے مطابق حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔ وہ کسی واقعے کو ایک خاص تناظر میں دیکھ کر لکھتے ہیں اور اگر کوئی واقعہ ان کی قوم یا نظریات کے خلاف ہو، تو وہ اسے نظر انداز یا مسخ کر دیتے ہیں۔
موغادیشو کی لڑائی کا واقعہ: ایک حالیہ مثال
1993 میں صومالیہ کے دارالحکومت موغادیشو میں ہونے والے ایک واقعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تاریخ کو کس طرح جانبداری کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔
واقعات کا خلاصہ
◄ امریکہ نے فرح عدید کو گرفتار کرنے کے لیے ایک منصوبہ بنایا۔
◄ امریکی فوج نے 45 منٹ میں مشن مکمل کرنے کا اندازہ لگایا۔
◄ لیکن آپریشن کے دوران دو امریکی ہیلی کاپٹر مار گرائے گئے، اور فوجیوں کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔
◄ امریکی فوج نے پاک فوج سے مدد طلب کی، جنہوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر ان فوجیوں کو بچایا۔
تاریخی مسخ
اس واقعے پر امریکہ نے اپنی فلم Black Hawk Down بنائی، جس میں کہانی کو مکمل طور پر تبدیل کر کے امریکی فوج کو ہیرو اور پاکستانی مدد کو صرف معمولی "ہاسپٹالیٹی” کے طور پر دکھایا گیا۔
تاریخ کی خاموشی: ابرہہ کا واقعہ
ابرہہ کے یمن پر حملے اور خانہ کعبہ کو گرانے کی کوشش کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔ لیکن یمن کے مورخین نے اس واقعے کو بیان کرنے سے گریز کیا، کیونکہ یہ ان کے بادشاہ کی شکست اور عذاب الٰہی کا اظہار کرتا تھا۔
ابرہہ کی موت
یمن کے تاریخ دانوں نے ابرہہ کی موت کو بیان نہیں کیا، کیونکہ اس وقت ابرہہ کے بیٹے حکمران بن چکے تھے، اور اپنی بادشاہت کو خطرے میں ڈالنا ان کے لیے ممکن نہیں تھا۔
اس واقعے کی سچائی کو اس بات سے تقویت ملتی ہے کہ صرف چالیس سال کے عرصے میں یمن نے بغیر جنگ کے اسلام قبول کر لیا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر تاریخ میں کیوں نہیں؟
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر دنیاوی تاریخ میں نہ ہونے کی چند وجوہات ہیں:
◄ فرعون کی حکومت کا تسلسل:
موسیٰ علیہ السلام کے زمانے کے فرعون اور اس کا لشکر تو دریائے نیل میں غرق ہو گیا تھا، لیکن مصر کی حکومت ختم نہیں ہوئی۔ ممکن ہے، فرعون کا کوئی وارث یا قریبی شخص اقتدار میں آ گیا ہو، اور اس نے موسیٰ علیہ السلام کے ذکر کو مٹا دیا ہو۔
◄ فرعون کی لاش کی دریافت:
فرعون کی ممی اہرام مصر سے برآمد ہوئی، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ مصر میں ہمیشہ سے بادشاہوں کی لاشوں کو محفوظ رکھنے کا رواج تھا۔ فرعون کے ڈوبنے کے بعد اس کی لاش کو نیل سے نکال کر ممی بنا دیا گیا ہوگا۔
◄ بنی اسرائیل کی مصر واپسی:
اگر پورا مصر موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں تباہ ہو گیا ہوتا، تو بنی اسرائیل چالیس سال تک بھٹکنے کے بجائے دوبارہ مصر جا کر حکومت قائم کر لیتے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا، کیونکہ فرعون کے ساتھ صرف اس کا لشکر غرق ہوا تھا، پورا مصر نہیں۔
◄ یہودی تاریخ اور حضرت موسیٰ:
یہودیوں نے اپنی تاریخ میں بھی موسیٰ علیہ السلام کے معجزات کو پوری طرح درج نہیں کیا، کیونکہ ان معجزات کی تشہیر ان کے لیے نقصان دہ ہو سکتی تھی۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں بھی یہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ تاریخ دانوں نے ان کے معجزات کا ذکر کیوں نہیں کیا؟
◄ کیا یہ لکھا جا سکتا تھا کہ وہ مردوں کو زندہ کرتے تھے، یا اندھوں کو بینائی دیتے تھے؟
◄ ایسے حقائق کو لکھنے کے نتیجے میں یہودی تاریخ دان خود اپنی قوم کے غیظ و غضب کا شکار ہو سکتے تھے، اس لیے انہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کے ذکر کو مٹانے میں ہی عافیت سمجھی۔
نتیجہ
دنیاوی تاریخ اکثر طاقت، تعصب، اور جانبداری کے اثرات کے تحت لکھی جاتی ہے۔ انبیاء کا ذکر نہ ہونے کی وجہ یہ نہیں کہ وہ خیالی تھے، بلکہ یہ ہے کہ تاریخ ہمیشہ سچ بولنے کی پابند نہیں ہوتی۔