تحریف کی ابتدا اور تاریخ کی مسخ شدگی
قرون ثلاثہ اور فرقہ واریت
قرون ثلاثہ کی تاریخ میں فرقہ وارانہ عناصر نے ایسی گمراہ کن روایات گھڑیں جنہوں نے اصحابِ رسول ﷺ اور اہلِ بیت کے بارے میں ایک مسخ شدہ تصویر پیش کی۔ اس دوران صحیح روایات میں بھی تبدیلیاں کی گئیں تاکہ مسلمانوں کو اصل حقائق سے دور کیا جا سکے۔ تیسری صدی ہجری کے وسط کے بعد یہ عمل زیادہ نمایاں ہوا، اور اس سے عظیم ہستیوں کی سیرت و کردار پر اثر پڑا۔ قرآن و حدیث کے برعکس ان ہستیوں کے بارے میں ایسا تاثر دیا گیا جو ان کی حقیقت سے میل نہیں کھاتا۔
قرآن و حدیث کی گواہی
قرآن اور حدیث دونوں صحابہ کرام اور اہل بیت رسول ﷺ کی امانت، دیانت اور آپس کی محبت پر گواہ ہیں۔ اگر تاریخ پر تحقیق سے نظر ڈالیں تو ہمیں کہیں یہ نہیں ملتا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کسی صحابہ سے ناراض تھے یا ان سے ناخوش تھے، جیسا کہ کچھ لوگ منسوب کرتے ہیں۔ بلکہ تاریخی حقائق اس کے برعکس ہیں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام کے تعلقات
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عملی شواہد
- حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے رشتہ داری: حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی صاحبزادی سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے کیا۔
{بحوالہ: الکافی، ج:5، ص:346} - حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے رشتہ داری: حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیوہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا، جس سے محمد بن ابوبکر رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ربیب بنے۔
{بحوالہ: معرفة الصحابة، ج:1، ص:309} - اولاد کے ناموں میں عقیدت: حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹوں کے نام "ابوبکر”، "عمر” اور "عثمان” رضی اللہ عنہم کے نام پر رکھے۔
{بحوالہ: معرفة الصحابة، ج:1، ص:309} - حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی روایت: حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کا نام "ابوبکر” رکھا اور حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہما نے اپنے بیٹے کا نام "عمر” رکھا۔ اسی طرح حضرت موسیٰ بن جعفر الصادق نے اپنے بیٹے کا نام "عمر” اور بیٹی کا نام "عائشہ” رکھا۔
{بحوالہ: سیر اعلام النبلاء، ج:3، ص:279} - حضرت جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی گواہی: حضرت جعفر صادق فرماتے ہیں کہ مجھے دو مرتبہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جنا، کیونکہ ان کی ماں ام فروہ حضرت قاسم بن محمد بن ابوبکر کی بیٹی تھیں اور ان کی نانی حضرت اسماء بنت عبدالرحمن بن ابوبکر تھیں۔
{بحوالہ: سیر اعلام النبلاء، ج:6، ص:255}
محبت و یگانگت کا مظہر
یہ تمام حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد نے اپنے پیشرو صحابہ کرام سے محبت اور یگانگت کا عملی ثبوت دیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں قاضی کا عہدہ قبول کیا اور شیخین کریمین کی مدح فرمائی۔ انہوں نے نہ تو ان کے خلاف بغاوت کی، نہ ان کے قوانین منسوخ کیے، بلکہ ان کے خاندان کے ساتھ رشتہ داری قائم کی۔
دو انتہائیں اور حق کا راستہ
دو انتہا پسند گروہ
- پہلا گروہ: یہ لوگ اصحابِ رسول ﷺ کے فضائل کو کم دکھانے کی کوشش کرتے ہیں اور اہلِ بیت کے فضائل کے منکر ہیں۔
- دوسرا گروہ: یہ گروہ اہلِ بیت کے فضائل کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے اور صحابہ کرام کی عظمت کو نظرانداز کرتا ہے۔
درمیانی اور حق کا راستہ
- تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم سے یکساں محبت رکھی جائے اور ان کی نیکیوں کا احترام کیا جائے۔
- ان کی خطاؤں پر سب و شتم سے اجتناب کیا جائے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے۔
- اہلِ بیت سے محبت رکھی جائے، لیکن بغیر غلو کے، اور انہیں ان کے اسی مقام پر رکھا جائے جو اللہ نے عطا کیا ہے۔
صحابہ کرام اور اہلِ بیت کی فضیلت
اہلِ بیت اور صحابہ کرام ایک ہی مقدس گروہ کے افراد ہیں جنہوں نے دینِ اسلام کی حفاظت اور فروغ میں بے مثال کردار ادا کیا۔ ان کا علم اور عمل اس قدر خالص اور بلند تھا کہ قیامت تک کوئی ان کے برابر نہیں ہو سکتا۔ یہی وہ ہستیاں ہیں جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو سربلندی عطا فرمائی۔