تارک نماز کا شرعی حکم
نماز ارکان اسلام میں بلا تردو عظیم درجے کی حامل ہے مزید برآں اسے دین کا ستون قرار دیا گیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیشتر احادیث میں اس کی بہت زیادہ فضیلت بھی منقول ہے۔ اس کی اس اہمیت وفضیلت کے باعث اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کم و بیش اسی (80) مرتبہ اس کا تذکرہ فرمایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وجوب نماز کا انکار کرتے ہوئے اسے چھوڑنے والا بالا تفاق کافر ہے جبکہ اس کے وجوب کے اعتقاد کے ساتھ ستی و کاہلی سے چھوڑنے والے کے شرعی حکم میں فقہائے امت کا اختلاف ہے لیکن راجح موقف یہی ہے کہ صرف جان بوجھ کر دائمی طور پر نماز چھوڑ دینے والا ہی کا فر ہے اور اس کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ مشرکین کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
فَاِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ [التوبة: 11]
”اگر یہ لوگ توبہ کر لیں اور نماز قائم کر لیں اور زکوۃ ادا کرنے لگیں تو تمہارے دینی بھائی ہیں۔“ اس آیت سے از خود یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو تمہارے دینی بھائی نہیں ہیں اور یہاں یہ بات بھی یا ور ہے کہ دینی بھائی چارہ صرف اسلام سے خارج ہونے سے ہی ختم ہوتا ہے۔
➋ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ [الروم: 31]
”نماز قائم کرو اور مشرکوں میں سے نہ ہو جاؤ۔“ اس آیت کا یقیناً مفہوم یہی ہے کہ جو نماز چھوڑ دیتا ہے وہ مشرکوں میں سے ہے۔
➌ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
وبين الرجل وبين الكفر والشرك ترك الصلاة
”کفر و شرک اور (مسلمان ) بندے کے درمیان فرق نماز کا چھوڑ دینا ہے ۔ “
[مسلم: 82 ، كتاب الإيمان: باب بيان إطلاق اسم الكفر على من ترك الصلاة أحمد 370/3 ، دارمي 280/1 ، أبو داود 4678 ، ترمذي 2618 ، ابن ماحة 1078 ، الحلية لأبي نعيم 256/8 ، بيهقي 366/3]
➍ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا :
وبين العبد وبيـن الـكـفـر والإيمان الصلاة فإذا تركها فقد أشرك
”بندے اور کفر و ایمان کے درمیان (فرق کرنے والی ) نماز ہے پس جب اس نے اسے ترک کر دیا تو اس نے شرک کیا۔“
[صحيح: شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة للالكائي 822/4 ، اس كي سند صحيح مسلم كي شرط پر صحيح هے نيز امام منذريؒ نے بهي اسے حيح كها هے۔ الترغيب والترهيب 379/1]
➎ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ کی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا :
العهد الذى بيننا وبينهم الصلاة فمن تركها فقد كفر
”ہمارے اور کافروں کے درمیان عہد نماز ہے جس نے اسے چھوڑ دیا اس نے کفر کیا۔“
[صحيح: صحيح ابن ماجة 884 ، المشكاة 574 ، ترمذى 2621 ، كتاب الإيمان: باب ما جاء فى ترك الصلاة ، أحمد 346/5 ، نسائي 231/1 ، ابن ماجه 1079 ، حاكم 6/1 ابن أبى شيبة 34/11 ، دار قطني 52/2 ، بيهقى 366/3]
➏ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ولا تترك صلاة مكتوبة متعمدا فمن تركها متعمدا فقد برئت منه الذمة
” تم فرض نماز جان بوجھ کر نہ چھوڑو پس جس شخص نے فرض نماز جان بوجھ کر چھوڑ دی تو اس سے امن و امان کا ذمہ ختم ہو گیا۔“
[حسن: المشكاة 580 ، ابن ماجة 4034 ، كتاب الفتن: باب الصبر على البلاء]
➐ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مـن حـافـظ عليهـا كـانت لـه نورا و برهانا ونجاة يوم القيمة ومن لم يحافظ عليها لم تكن له نورا ولا برهانا ولا نجاة وكان يوم القيمة مع قارون و فرعون وهامان وأبي بن خلف
”جس شخص نے نماز کی حفاظت کی، نماز اس کے لیے روشنی، دلیل اور قیامت کے دن نجات کا باعث ہوگی اور جس شخص نے نماز کی حفاظت نہ کی تو نماز اس کے لیے روشنی، دلیل اور نجات کا باعث نہیں ہوگی بلکہ وہ شخص قیامت کے دن قارون، فرعون، ہامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہوگا۔“
[جيد: احمد 169/2 ، دارمي 301/2 ، مجمع البحرين 528 ، موارد 254 ، مشكل الآثار 229/4 ، شيخ الباني رقمطراز هيں كه امام منذري نے اس حديث كي سند كو صحيح كها هے۔ المشكاة 578]
➑ حضرت عبداللہ بن شقیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
وكان أصحاب رسول الله لا يرون شيئا من الأعمال تركه كفر غير الصلاة
”رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نماز کے علاوہ اعمال میں سے کسی چیز کو چھوڑنا بھی کفر نہیں سمجھتے تھے۔“
[صحيح: المشكاة 579 ، ترمذي 2622 ، كتاب الإيمان: باب ما جاء فى ترك الصلاة ، حاكم 7/1]
➒ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
لا حظ فى الإسلام لمن ترك الصلاة
”نماز چھوڑنے والے کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں۔ “
[مؤطا 74 ، كتاب الطهارة: باب العمل فيمن غلبه الدم من جرح أو رعاف]
(جمہور، مالکؒ ، شافعیؒ) وجوب کا اعتقاد رکھتے ہوئے محض تساہل و تکاسل کے باعث اگر نماز چھوڑ دے تو وہ کافر نہیں ہوگا بلکہ فاسق ہو جائے گا، اگر وہ تو بہ کرے تو ٹھیک ورنہ شادی شدہ زانی کی طرح اسے بطور حد قتل کر دیا جائے گا نیز اسے تلوار کے ساتھ قتل کیا جائے گا۔
(احناف) ایسا شخص نہ کافر ہوگا اور نہ ہی اسے قتل کیا جائے گا بلکہ تعزیرا اسے کچھ سزادی جائے گی اور اس وقت تک قید کر دیا جائے گا جب تک کہ وہ نماز نہ پڑھنے لگے۔
(احمدؒ) بے نماز کو اس کے کفر کی وجہ سے قتل کر دیا جائے گا۔
[الأم 424/1 ، الحاوى 525/2 ، روضة الطالبين 668/1 ، الأصل 400/1 ، الخرشي على مختصر سيدي خليل 138/2 ، المغنى 351/3، الإنصاف فى معرفة الراجح من الخلاف 401/1 ، القوانين الفقهية ص/ 42 ، بداية المجتهد 87/1 ، الشرح الصغير 238/1 ، معنى المحتاج 327/1 ، المهذب 51/1 ، كشاف القناع 263/1 ، الدر المختار 326/1 ، مغنى المحتاج 327/1 المهذب 51/1 ، كشاف القناع 263/1 ، الدر المختار 326/1 ، مراقي الفلاح ص: 60]
(راجح) جان بوجھ کر دائمی طور پر نماز چھوڑ دینے والا کافر ہے اور اگر استطاعت ہو تو اسے قتل کیا جائے گا جیسا کہ دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
امرت أن أقاتل الناس حتى يشهدوا أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله ويقيموا الصلاة ويؤتوا الزكوة
”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس وقت تک لوگوں سے قتال کرتا رہوں جب تک کہ وہ اس بات کی گواہی نہ دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور بیشک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور وہ نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں ۔“
[بخاري: 25 ، كتاب الإيمان: باب فان تابوا وأقاموا الصلاة وأتوا الزكوة ، مسلم 22 ، دار قطني 232/1 ، بيهقي 92/3 ، ابن حبان 174 ، حاكم 387/1 ، دارقطني 231/1 ، شرح معاني الآثار 213/3 ، أحمد 345/2 ، ابن ماجة 3927]
➋ اسی حدیث کے پیش نظر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے منکرین زکوۃ کے خلاف قتال کیا۔
[نسائي 76/7 ، أبو يعلى 68 ، ابن خزيمة 2447 ، حاكم 368/1 ، مجمع الزوائد 30/1]
(شوکانیؒ) حق بات یہی ہے کہ ایسا شخص کافر ہے اور قتل کا مستحق ہے۔
[نيل الأوطار 424/1]
(نوویؒ) اگر کوئی شخص نماز چھوڑ دے اس کے اور کفر کے درمیان کوئی حائل باقی نہیں رہ جاتا۔
[شرح مسلم للنووى 178/4]
(شنقیطیؒ) بے نماز کافر ہے۔
[أضواء البيان 311/4]
(عبد الرحمن مبارکپوریؒ) ایسے لوگ اور کافر برابر ہیں ۔
[تحفة الأحوذي 407/7]
(ابن تیمیہؒ ) جو شخص نماز چھوڑ دے پھر اس چھوڑنے پر مصر و قائم رہے اور پھر ایسی حالت میں ہی فوت ہو جائے تو وہ کافر فوت ہوا ہے۔ [الصارم المسلول 554 ، مجموع الفتاوي 97/20]
(ابن قیمؒ) انہوں نے ایسے لوگوں پر اظہار تعجب کیا ہے کہ جو وجوب نماز کا اعتقاد رکھنے کے باوجود اسے چھوڑنے والوں کو کافر نہیں سمجھتے ۔
[كتاب الصلاة ص 62]
(شیخ عثیمینؒ) بے نماز کافر ہے۔
[رسالة: حكم تارك الصلاة]
(شیخ ابن جبرینؒ) جس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑ دی اس پر کفر کا ہی حکم لگا یا جائے گا۔
[الفتاوى الإسلامية 296/1]
(سعودی مجلس افتاء) جو شخص سستی وکوتا ہی سے (عمداََ بلا عذر ) نماز چھوڑ دیتا ہے علماء کے اقوال میں سے صحیح یہی ہے کہ وہ کافر ہو جاتا ہے۔
[الفتاوى الإسلامية 311/1-312]