سوال
بے لباس یا نجس کپڑوں میں نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
جواب
آپ کے سوال کے دو حصے ہیں، جو بے لباس نماز اور نجس کپڑوں میں نماز کے حوالے سے ہیں۔ ان دونوں مسائل کا تفصیل سے جواب دیا جا رہا ہے۔
1. بے لباس نماز پڑھنے کا حکم
اسلام میں نماز کے دوران لباس کا ایک خاص معیار مقرر کیا گیا ہے، جو ستر ڈھانپنے کے اصول پر مبنی ہے۔
مردوں کا ستر: ناف سے گھٹنوں تک کا حصہ۔
عورتوں کا ستر: پورے جسم کو ڈھانپنا، سوائے چہرے اور ہاتھوں کے (اگرچہ بعض فقہاء کے نزدیک نماز میں چہرہ اور ہاتھ بھی ڈھانپنا افضل ہے)۔
اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود بے لباس نماز ادا کرے تو اس کی نماز باطل ہوگی، یعنی وہ قبول نہیں کی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حکم دیا ہے:
"يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ”
(سورہ الأعراف: 31)
ترجمہ: "اے بنی آدم! ہر نماز کے وقت اپنی زینت کو اختیار کرو۔”
علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص استطاعت رکھتے ہوئے بے لباس ہو کر نماز ادا کرتا ہے تو اس کی نماز باطل ہوگی اور اسے دوبارہ نماز پڑھنی پڑے گی۔
2. نجس کپڑوں میں نماز پڑھنے کا حکم
نماز کے لیے طہارت ایک بنیادی شرط ہے، جو نہ صرف جسم کی پاکیزگی بلکہ لباس اور جگہ کی پاکیزگی کو بھی شامل کرتی ہے۔ اگر کپڑے نجس ہوں (یعنی ان پر کوئی ناپاکی لگی ہو جیسے پیشاب، خون یا دیگر نجاستیں)، تو ان میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہے، اور ایسی حالت میں نماز ادا کرنے والے کی نماز باطل ہوگی۔
- نماز کی صحت کے لیے وضو اور پاکیزہ لباس ضروری ہیں۔
- اگر کوئی شخص جان بوجھ کر یا بھول کر نجس کپڑوں میں نماز ادا کرتا ہے، تو اس کی نماز نہیں ہوگی اور اسے نماز دوبارہ پڑھنی ہوگی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر نماز قبول نہیں کرتا۔”
(صحیح مسلم)
اگر کوئی شخص بغیر طہارت (یعنی وضو یا پاک کپڑوں کے بغیر) نماز پڑھتا ہے، تو اسے توبہ کرنی چاہیے اور دوبارہ نماز ادا کرنی چاہیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا ہے۔
خلاصہ
- بے لباس ہو کر نماز ادا کرنا، جب کہ لباس پہننے کی استطاعت ہو، نماز کو باطل کرتا ہے۔
- نجس کپڑوں میں نماز ادا کرنا جائز نہیں اور نماز دوبارہ پڑھنی ہوگی۔