سوال:
کیا بیٹی کو زکاۃ دینا شرعاً جائز ہے؟
جواب از فضیلۃ العالم عمر اثری حفظہ اللہ
قرآن مجید میں زکاۃ کے مصارف واضح طور پر بیان کیے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلۡفُقَرَآءِ وَالۡمَسٰكِيۡنِ وَالۡعٰمِلِيۡنَ عَلَيۡهَا وَالۡمُؤَلَّـفَةِ قُلُوۡبُهُمۡ وَفِى الرِّقَابِ وَالۡغٰرِمِيۡنَ وَفِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَابۡنِ السَّبِيۡلِؕ فَرِيۡضَةً مِّنَ اللّٰهِؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌ حَكِيۡمٌ”
(سورة التوبة: 60)
’’صدقات تو صرف فقیروں، مسکینوں، ان پر مقرر عاملوں، دلوں کی الفت کے لیے، گردنیں چھڑانے، تاوان بھرنے، اللہ کے راستے، اور مسافر کے لیے ہیں۔‘‘
بیٹی کو زکاۃ دینے کے اصول
شادی شدہ بیٹی:
➤ اگر بیٹی شادی شدہ ہے اور اس کا کفیل (ذمہ دار) اس کا شوہر ہے تو والد اپنی بیٹی کو زکاۃ نہیں دے سکتا، کیونکہ بیٹی کا خرچ شوہر کے ذمے ہے۔
غیر شادی شدہ یا واپس آنے والی بیٹی:
➤ اگر بیٹی غیر شادی شدہ ہو یا شادی کے بعد خلع، طلاق، یا شوہر کی وفات کی وجہ سے والد کے پاس واپس آ گئی ہو، تو ایسی صورت میں بھی والد زکاۃ نہیں دے سکتا، کیونکہ والد خود اس کا کفیل ہے۔
رشتے دار کو زکاۃ دینے کی شرط:
➤ زکاۃ ان رشتہ داروں کو دی جا سکتی ہے جن کا خرچ دینے والا (زکاۃ دینے والا) خود کفیل نہ ہو۔
➤ مثال کے طور پر، خاوند اپنی بیوی کو زکاۃ نہیں دے سکتا، لیکن بیوی اپنے مقروض یا غریب شوہر کو زکاۃ دے سکتی ہے، جیسا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب رضی اللہ عنہا نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا اور آپ ﷺ نے اجازت دی۔
خلاصہ:
➤ والد اپنی بیٹی کو زکاۃ تب دے سکتا ہے جب وہ خود بیٹی کا کفیل نہ ہو، اور بیٹی مستحق ہو۔
➤ اگر بیٹی کا خرچ والد کے ذمے ہو، تو زکاۃ دینا جائز نہیں۔
➤ رشتے داروں کو زکاۃ دینا جائز ہے بشرطیکہ زکاۃ دینے والا ان کا کفیل نہ ہو اور وہ مستحق ہوں۔