بیٹھنے اور لیٹنے کے مسنون انداز: صحیح احادیث کی روشنی میں رہنمائی
یہ اقتباس الشیخ محمد منیر قمر کی کتاب احکام مساجد سے ماخوذ ہے۔

بیٹھنے کے چار مسنون انداز

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹھنے کی بھی عموماً چار صورتیں ہوتی تھیں۔ سب سے زیادہ محتبیا یا پھر متربعا یا پھر قرفصاء یا پھر مقعیا۔
شرح نووی 78/14/7

➊ اجتباء:

عربی میں گوٹ (گوٹھ) مار کر بیٹھنے کو کہتے ہیں۔ اور یہ عربوں کے بیٹھنے کا اکثر مروج انداز تھا۔ کیونکہ وہ جنگلوں اور ریگستانوں میں رہنے والے لوگ ہوتے ہیں۔ جہاں ٹیک لگانے کے لئے دیوار وغیرہ تو ہوتی نہیں۔ لہذا وہ لوگ گوٹھ مار کر بیٹھتے تھے۔ اور اسی سے ہے:
الاحتباء حيطان العرب
کہ احتباء اہلِ عرب کی دیواریں ہیں۔
اور احتباء یا گوٹھ مارنا یہ ہے کہ کسی کپڑے یا ہاتھوں سے اپنے پاؤں اور پیٹ کو ملا کر کمر سے جکڑ لینا۔ اور طیبی نے کہا ہے کہ:
دونوں گھٹنے کھڑے کر کے تلوے زمین پر لگا کر بیٹھنے اور دونوں ہاتھ پنڈلیوں پر ہوں تو اس بیٹھک کو احتباء (گوٹھ مار کر بیٹھنا) کہا جاتا ہے۔
لغات الحدیث جلد اول کتاب ح ص 15
اور بیٹھنے کے اس انداز کے جواز کا پتہ صحیح بخاری و مسلم، الادب المفرد اور المناقب امام حاکم کی اس حدیث سے چلتا ہے۔ جس میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے پیار و محبت کا واقعہ بیان کرتے ہیں۔ اس میں یہ بھی ہے کہ ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکلے تو مجھے مسجد میں پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوق بن قینقاع پہنچے، اور ادھر ادھر پھرے، اور واپس ہوئے۔
حتى جئنا المسجد فجلس فاحتبى
بخاری مع الفتح 339/4، 279/10 – مسلم مع نووی 193/10/8، لیکن اس میں ”احتباء“ کے الفاظ نہیں ہیں – الادب المفرد ص 519
حتیٰ کہ ہم دوبارہ مسجد میں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم گوٹھ مار کر بیٹھ گئے۔
اور خود حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ کا احتباء کرنا بھی صحیح بخاری (مع الفتح 541/1) کی ایک حدیث میں ثابت ہے۔ ہاں اگر آدمی صرف ایک ہی کپڑا پہنے ہوئے ہو، جس میں اس طرح بیٹھنے سے ستر کھلنے کا اندیشہ ہو تو پھر ایسے بیٹھنے کی ممانعت ہے۔ چنانچہ بخاری و مسلم اور نسائی میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ والی حدیث کی ممانعت اسی حالت پر محمول ہو گی۔ جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو قسم کی بیع و شراء اور دو قسم کے لباس سے منع فرمایا۔ اس میں ہی ہے:
واللبسة الأخرى احتباء بثوبه وحابس ليس على فرجه منه
بخاری 278/10 – مسلم مع نووی 155/10/5، لیکن مذکورہ الفاظ نہیں ہیں – صحیح ابی داؤد 768/2، 769 – ترمذی مع التحفة 450/5، 451 – الادب المفرد ص 515 – صحیح نسائی 1081/3
اور دوسرا ممنوع اندازِ لباس یہ ہے کہ کوئی شخص بیٹھا ہو، اور اپنے اکلوتے کپڑے سے گوٹھ مار لے، جب کہ اس کے ستر پر کوئی کپڑا نہ ہو۔
تو یہ ممانعت صرف ایک ہی چادر باندھے ہوئے ہونے کی صورت میں ہے۔ کیونکہ اس طرح بسا اوقات ستر کھل جاتا ہے۔
لغات الحدیث ایضاً

➋ تربع:

اور تربع عربی زبان میں چار زانو ہو کر بیٹھنے کو کہتے ہیں۔ جسے ہم چوکڑی مار کر بیٹھنا بھی کہتے ہیں۔ اور اس سلسلہ میں امام بخاری کی کتاب الادب المفرد، الاستیعاب ابن عبد البر اور تہذیب الکمال مزی میں حنظلہ بن خذیم رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:
آتيت النبى صلى الله عليه وسلم فرأيته جالسا متربعا
لغات الحدیث ایضا
میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چار زانو بیٹھے ہوئے دیکھا۔
اور صحیح مسلم، ابو داؤد، ترمذی اور نسائی میں حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:
كان النبى صلى الله عليه وسلم إذا صلى الفجر تربع فى مجلسه حتى تطلع الشمس حسناء
مسلم مع نووی 171/5/3 ۔ ابع داود مع العون199/3۔ صحیح ترمذی479 ۔ صحیح نسائی 1285,1281
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز کے بعد اپنی جگہ پر چار زانو ہو کر بیٹھ جاتے، حتیٰ کہ سورج خوب اچھی طرح چڑھ آتا۔
ایسے ہی الادب المفرد اور معانی الآثار طحاوی میں عمران بن مسلم بیان کرتے ہیں:
رأيت أنس بن مالك يجلس هكذا متربعا ويضع إحدى قدميه على الأخرى
الادب المفرد ص 517
میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو چار زانو بیٹھے دیکھا کہ انہوں نے اپنا ایک پاؤں دوسرے پر رکھا ہوا تھا۔
ایسے چار زانو چوکڑی مار کر بیٹھنے کے بارے میں بعض آثار بھی ہیں۔ جو اس طرح بیٹھنے کے جواز و مشروعیت کا پتہ دیتے ہیں۔
لغات الحدیث جلد دوم کتاب ”ر“ ص 26
اور بعض صحابہ سے مروی ہے:
لم ير متربعا قط
صحیح ابی داود 4057۔ صحیح ترمذی 2256 ۔ لیس فیہ کیفیہ الجلوس الادب المفرد ص 517 ۔ مختصر الشمائل 101
کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی چوکڑی مار کر بیٹھے نہیں دیکھے گئے۔
تو اس کے بارے میں علامہ وحید الزمان رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ شاید اس راوی نے نہیں دیکھا ہوگا۔

➌ قرفصاء:

اور بیٹھنے کا تیسرا انداز ہے قرفصاء، جب کہ عرب لوگ کہتے ہیں:
قرفص الرجل
آدمی اپنے پاؤں پر بیٹھا اور رانوں کو پنڈلیوں سے ملا دیا۔
اس کو اسیفاز بھی کہتے ہیں، یعنی اکڑوں بیٹھنا جو جلدی اور ضرورت کی حالت میں ہوتا ہے۔ جسے ہم پاؤں پر بیٹھنا بھی کہتے ہیں۔ یہ انداز بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ چنانچہ ابو داؤد و ترمذی، الادب المفرد اور طبرانی میں حضرت قبیلہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں:
رأيت النبى صلى الله عليه وسلم قاعدا القرصفاء
ابو داؤد مع العون 196/13-195 – ترمذی مع التحفة 690/8 -و حسنه المنذری و ابو عمر ابن عبد البر -لغات الحدیث جلد پنجم کتاب "ح” ص 132 – صفة صلاة النبي للالبانی ص 93
میں نے نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کو اکڑوں (یعنی پاؤں کے بل) بیٹھے دیکھا۔

➍ اقعاء:

بیٹھنے کی چوتھی شکل ہے اقعاء، اور اقعاء بھی دو طرح کا ہے۔ چنانچہ مجمع البحار میں ہے کہ اقعاء نماز میں یہ ہے کہ آدمی اپنی سرین زمین پر لگا دے اور دونوں رانوں نیز پنڈلیوں کو کھڑا کرے اور دونوں ہاتھ زمین پر رکھے۔ اور یہی بات ابوعبید نے بھی کہی ہے۔
یہ اقعاء نماز میں ممنوع ہے، بلکہ اسے کتے کے بیٹھنے کا انداز کہا گیا ہے۔ تشہد میں ایسے بیٹھنے سے نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ مسند احمد، طیالسی اور مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
نهاني خليلي صلى الله عليه وسلم عن إقعاء كاقعاء الكلب
صفة صلاة النبي للالبانی ص 93
مجھے نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے کتے کی طرح اقعاء کر کے بیٹھنے سے منع فرمایا ہے۔
جب کہ اس اقعاء کی دوسری شکل یہ ہے کہ پاؤں کے پائینچے زمین پر ہوں، اور پاؤں کھڑے ہوں، اور آدمی اپنی پاؤں کی ایڑیوں پر سرین رکھ کر بیٹھے۔ دو سجدوں کے درمیان والے جلسے میں اور عام حالت میں اس طرح بیٹھنا جائز ہے۔ جیسا کہ صحیح مسلم، ابوعوانہ اور بیہقی میں ہے:
وهي سنة نبيك صلى الله عليه وسلم و كان أحيا نا يقعي
صفة صلاة النبي للالبانی ص 90 – سلسلة الاحاديث الصحيحة 664/1
یہ تمہارے نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کی سنت ہے، آپ صلى الله عليه وسلم کبھی کبھار اقعاء کر کے بھی بیٹھتے تھے۔
ایسے ہی مسلم، ابوداؤد اور ترمذی میں بھی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کا جواز مروی ہے۔ اور انہوں نے اسے سنت قرار دیا ہے۔ اور بیہقی میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی صحیح یا کم از کم حسن سند سے یہ مروی ہے۔
صفة صلاة النبي و سلسلة الاحاديث الصحيحة ایضاً
اور ابو اسحاق حربی نے غریب الحدیث نامی اپنی کتاب میں صحیح سند سے امام طاؤوس کا قول نقل کیا ہے:
إنه رأى ابن عمر و ابن عباس يقعيان
ایضاً
میں نے حضرت ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کو اقعاء کرتے دیکھا ہے۔
غرض یہ بیٹھنے کی چار شکلیں عربوں میں معروف تھیں۔ اور نبی اکرم صلى الله عليه وسلم بھی مختلف اوقات میں ان مختلف اندازوں سے بیٹھا کرتے تھے۔

آمدم برسر مطلب:

اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام خطابی سے نقل کرتے ہوئے فتح الباری میں لکھا ہے کہ اس طرح پاؤں پر پاؤں رکھ کر لیٹنے کی ممانعت منسوخ ہو چکی ہے۔ یا پھر ممانعت کو اس صورت پر محمول کرنا پڑے گا ۔جس میں ستر کھلنے کا خدشہ ہو۔ اور جواز کو دوسری باپردہ صورت پر امام بیہقی و بغوی نے بھی اسی جمع و تطبیق کو ہی مانا ہے۔ اور ابن بطال اور ان کے رفقاء نے بھی نسخ کے قول کو ہی اختیار کیا ہے۔ جب کہ حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ نے شرح الموطا میں لکھا ہے کہ:
امام مالک رحمہ اللہ نے پہلے نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کے مسجد میں پاؤں پر پاؤں رکھ کر لیٹنے کی فعلی حدیث لائے ہیں اور پھر حضرت عمر و عثمان رضی اللہ عنہما کا بھی یہی عمل بیان کیا ہے۔ تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ ممانعت والی احادیث کو منسوخ سمجھتے تھے۔
جب کہ امام مازری نے سب سے الگ بات کہی ہے کہ یوں لیٹنا نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کے خصائص میں تھا۔ عام آدمی کے لئے یہ نہیں ہے۔
جبکہ حافظ ابن حجر نے اس سلسلہ میں بڑا عمدہ محاکمہ کیا ہے، اور لکھا ہے کہ:
خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کا عمل اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ آپ صلى الله عليه وسلم کے خصائص میں سے ہرگز نہیں تھا۔ ورنہ وہ ایسا کبھی نہ کرتے۔ (جب کہ ان سے ایسا بکثرت لیٹنا منقول ہوا ہے) اور نسخ کا دعویٰ بھی صحیح نہیں، کیونکہ محض احتمال سے کسی مسئلہ کو منسوخ نہیں مانا جا سکتا۔ اور سب سے برتر بات اسے قرار دیا ہے کہ ممانعت کی حدیث اس صورت پر محمول ہوگی جس میں (گھٹنا کھڑا کر کے اس پر پاؤں رکھنے کے نتیجہ میں) ستر کھل جانے کا خدشہ ہو۔ اور جواز کی حدیث اس (پہلی) صورت پر محمول ہوگی جس میں (پاؤں دراز کر کے ایک کو دوسرے پر رکھنے سے)ستر کھلنے کا اندیشہ نہ ہو۔
اور امام بیہقی و بغوی رحمها اللہ اور دیگر محدثین سے بھی اسی کی تائید نقل کی ہے اور اسے ہی اولیٰ کہا ہے۔
اور امام خطابی و امام بغوی نے کہا ہے کہ ان پہلی احادیث میں اس بات کی دلیل پائی جاتی ہے کہ مسجد میں ٹیک لگا کر بیٹھنا اور کسی بھی دیگر انداز سے استراحت و آرام کرنا جائز ہے۔
للتفصيل فتح الباری -563/1 – شرح السنة 276/2-375 -شرح الزرقانی 353/6

➋ پیٹ کے بل نہ لیٹنا:

اور مسجد میں سونے اور لیٹنے بلکہ گھر یا کسی بھی جگہ پر لیٹنے اور سونے کے آداب میں سے دوسرا ادب یہ ہے کہ پیٹ کے بل نہ لیٹا جائے۔ چنانچہ سنن ابی داؤد کتاب الادب، باب الرجل ينطبخ على بطنه میں یعیش بن طحفہ بن قیس الغفاری اپنے والد طحفہ رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے، ایسے ہی نسائی، ابن ماجہ اور الادب المفرد میں موصولاً اور شرح السنہ بغوی میں تعلیقاً مروی ہے کہ:
میں مسجد میں پیٹ کے بل سویا ہوا تھا کہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے میرا پاؤں پکڑ کر ہلاتے ہوئے فرمایا:
إنها ضجعة يبغضها الله
صحیح ابن ماجہ 305/2 – الادب المفرد 1187 – شرح السنہ 378/2 – وقال الالبانی فی ضعیف ابی داؤد ولكن صحيح منه الاضطجاع على البطن. ضعیف السنن ص 496-495 – ابو داؤد مع العون 380/13
سونے کا یہ انداز اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والا ہے۔
جب کہ اس حدیث کی شاہد مؤید ایک دوسری حدیث سنن ترمذی کتاب الادب، باب ما جاء في كراهية الاضطجاع على البطن میں ہے۔ جس میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:
رأى رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا مضطجعا على بطنه فقال: إن هذه ضجعة لا يحبها الله
ترمذی مع تحفة -51/8 – وقال الارناؤوط في تحقيق الشرح السنة 378/2 و اسناده صحیح
نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے ایک آدمی کو پیٹ کے بل لیٹے ہوئے دیکھا۔ تو ارشاد فرمایا: لیٹنے کا یہ انداز ایسا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے پسند نہیں کرتا۔
اور ایک تیسری حدیث سنن ابن ماجہ میں حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ جس میں وہ فرماتے ہیں:
مر بي النبى صلى الله عليه وسلم وأنا مضطجع على بطني فركضني برجله وقال: يا جنيدب إنما هذه ضجعة أهل النار
صحیح ابن ماجہ 305/2
نبی اکرم صلى الله عليه وسلم میرے پاس سے گزرنے لگے ، جبکہ میں پیٹ کے بل لیٹا ہوا تھا۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے اپنے پاؤں سے مجھے ہلاتے ہوئے فرمایا: اے جنیدب! لیٹنے کا یہ انداز اہل جہنم والا ہے۔
اسی مفہوم کی ایک اور حدیث الادب المفرد، امام بخاری اور ابن ماجہ میں ہی حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔ جس میں ہے:
فإنها نومة جهنمية
ضعیف سنن ابن ماجہ ص 302 – الادب المفرد ص 251 – طبع اوقاف الامارات
کہ یہ انداز اہل جہنم والا ہے۔
لیکن اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔
غرض مذکورہ صحیح الاسناد متین حدیثوں کو سامنے رکھتے ہوئے وہ لوگ (مردوزن) ذرا اپنے رویے پر نظر ثانی کر لیں جنہیں پیٹ کے بل سونے کی عادت ہو چکی ہے۔ کہ کسی دوسرے طریقہ سے نیند ہی نہیں آتی۔ ان کی یہ بات کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ کیونکہ دو چار دن میں وہ اپنی بری عادت کو چھوڑ کر مسنون طریقہ سے سونے کی عادت ڈال سکتے ہیں۔ اور دو چار دن کی بے آرامی یقیناً مسلسل غضب الہی سے بدرجہا بہتر ہے۔ اور جہاں بڑے اسی ناجائز طریقے سے سوتے ہوں گے، وہاں یقیناً یہ عادت بچوں کو بھی آجائے گی۔
لہذا ایسے لوگوں کو سنجیدگی سے اس پر غور کر کے اس قبیح عادت کو فوراً چھوڑ دینا چاہئے۔ اور اگر کہیں بڑوں میں نہیں صرف بچوں میں یہ عادت قدم جما چکی ہے، تو والدین کو چاہئے کہ سختی کے ساتھ انہیں اس طرح سونے سے باز کریں تاکہ عمر بھر کے لئے نہ وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لیں اور نہ ہی عدم تربیت کی وجہ سے اس کا تھوڑا بہت حصہ والدین کے کھاتے میں چڑھتا رہے۔ نسال الله العافية

➌ دائیں پہلو پر لیٹنا:

اور جب سونے کے آداب کا ذکر چل رہا ہے تو یہیں ایک تیسرا ادب بھی ذکر کر دیں جس کا تعلق بھی پہلے آداب کی طرح ہی نہ صرف مسجد میں سونے سے ہے، بلکہ اپنے گھر یا کسی بھی جگہ سوئیں، تو اس ادب کا خیال رکھنا چاہئے۔ کیونکہ یہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کا مسنون و پسندیدہ ادب ہے۔ اور یہ ادب ہے دائیں پہلو پر لیٹنا۔ چنانچہ صحیح بخاری و مسلم، ابو داؤد و ترمذی، الادب المفرد، عمل الیوم واللیلة نسائی، مسند ابی عوانہ اور مسند احمد میں حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا:
إذا آتيت مضجعك فتوضأ وضوءك للصلاة ثم اضطجع على شقك الأيمن
جب تم سونے کے لئے بستر پر آؤ تو پہلے نماز کے لئے کئے جانے والے وضو کی طرح وضو کر لو اور پھر اپنے دائیں پہلو یا کروٹ پر لیٹ جاؤ۔
اور آگے فرمایا کہ یہ دعا کرو:
اللهم أسلمت نفسي إليك ووجهت وجهي إليك وفوضت أمري إليك وألجأت ظهري إليك رغبة ورهبة إليك ولا ملجأ ولا منجا منك إلا إليك آمنت بكتابك الذى أنزلت، وبنبيك الذى أرسلت
اے اللہ! میں نے اپنی جان تیرے سپرد کی اور تیری طرف متوجہ ہوا، اور اپنا ہر کام تیرے سپرد کیا۔ اور تیرے عفو و کرم کی رغبت اور تیرے غضب و قہر سے ڈرتے ہوئے تیرے سہارے کا طلب گار ہوں۔ اور تیرے سوا کوئی ملجا و ماویٰ اور سہارا و آسرا نہیں۔ میں تیری کتاب پر ایمان لایا جو تو نے نازل کی ہے۔ اور تیرے نبی محمد صلى الله عليه وسلم پر ایمان لایا جسے تو نے بھیجا ہے۔
یہ دعا سکھانے کے بعد آپ صلى الله عليه وسلم فرماتے ہیں کہ یہ کلمات تم سوتے وقت کے آخری کلمات کہو:
فإن مت من ليلتك مت على الفطرة
مختصر مسلم للمنذری 1896 – بخاری مع الفتح حدیث 1315 -صحیح ابی داؤد 4219 – صحیح الترمذی 2703 – الادب المفرد ص 533، 534 – عمل الیوم واللیلة للنسائی ص 460، تحقیق ڈاکٹر فاروق حماد طبع، مراكش – الكلم الطيب ابن تیمیہ بتحقیق الالبانی ص 41 – صحیح الاذكار ابو عبیدہ عبد العزیز 71 – ابن ماجہ 3876
اگر تم اسی رات مر گئے تو فطرت پر مر گئے۔

➍ دائیں ہتھیلی پر اپنا دایاں رخسار رکھنا:

اور سونے کے آداب میں سے ہی چوتھا ادب یہ ہے کہ جب سونے لگے تو اپنے دائیں پہلو پر لیٹنے کے علاوہ اپنا دایاں رخسار اپنے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر رکھے۔ کیونکہ صحیح مسلم 209 ، ابو داؤد و ترمذی (سنن و شمائل)، نسائی (سنن و عمل الیوم واللیلة)، مصنف ابن ابی شیبہ، ابن ماجہ، مسند ابی لیلی، مسند احمد و بزار، الادب المفرد اور عمل الیوم واللیلة ابن سنی میں حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ، حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ اور ام المومنین حضرت حفصہ بنت عمر الفاروق رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
أن النبى صلى الله عليه وسلم كان إذا أراد أن يرقد وضع يده اليمنى تحت حده، ثم يقول اللهم قني عذابك يوم تبعث عبادك
صحیح ابی داؤد 4218 – صحیح ترمذی 2700 نسائی عمل الیوم واللیلة ص 449، 453 – صحیح الاذكار ص 70 -الادب المفرد ص 536 – ابن ماجہ 3877 – الكلم الطيب ص 39 – ابن السنی ص 266 – حدیث 737 – احمد 382/5، 288/6
نبی اکرم صلى الله عليه وسلم جب سونے لگتے تو اپنا دایاں ہاتھ اپنے رخسار کے نیچے رکھتے، اور پھر یہ دعا پڑھتے: اے اللہ! مجھے اس دن کے عذاب سے بچا لینا جس دن تو اپنے بندوں کو (اخروی زندگی کے لئے) اٹھائے گا۔

➎ دعا کرنا:

اور ان دونوں ہی حدیثوں میں دو آداب کے علاوہ دو دعائیں بھی آگئی ہیں جو نبی اکرم صلى الله عليه وسلم سوتے وقت کیا کرتے تھے۔ جب کہ اس وقت کے لئے کتنی ہی دیگر دعائیں بھی ہیں۔ جن میں سے بعض یہ ہیں۔ مثلاً:
باسمك أموت وأحيا
اے اللہ! میں تیرے نام سے ہی مرتا (یعنی سوتا) اور جیتا (یعنی بیدار ہوتا) ہوں۔
اور اسی حدیث میں ہے کہ جب آپ صلى الله عليه وسلم نیند سے بیدار ہوتے تو یہ دعا فرمایا کرتے تھے:
الحمد لله الذى أحيانا بعد ما أماتنا وإليه النشور
بخاری 6324 – صحیح ابی داؤد 4222 – صحیح ترمذی 2718 -ابن ماجہ 3880 – عمل الیوم واللیلة ص 447-448 – الكلم الطيب ص 36 – صحیح الاذكار ص 69
ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے ہمیں موت (یعنی نیند) کے بعد زندہ (یعنی بیدار) کیا۔ اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
یہی الفاظ دعا (حصہ اول) صحیح مسلم، مسند احمد، عمل الیوم واللیلة نسائی میں حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے، اور صحیح بخاری، عمل الیوم واللیلة نسائی اور بعض دیگر کتب میں حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہیں۔
مسلم مع نووی 30/17/2 – بخاری 6325 – عمل الیوم واللیلة نسائیو تحقیقہ ص 447-448 – صحیح ابی داؤد 4228
جب کہ صحیح بخاری و مسلم، ابو داؤد و ترمذی، ابن ماجہ اور مسند احمد و عمل الیوم واللیلة نسائی میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم ہر رات جب بستر پر سونے لگتے، تو دونوں ہتھیلیوں کو جمع کرتے اور ان میں پھونک مارتے اور پھر ان میں (تین سورتیں) ﴿قل هو الله احد، قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس﴾ پڑھتے، اور پھر دونوں ہاتھوں کو حتی الامکان اپنے سارے جسم پر پھیرتے تھے۔ جس کی ابتداء سر اور چہرے سے کرتے، جسم کا جو سامنے کا حصہ ہے اس پر ہاتھ پھیرتے اور تین مرتبہ ایسا کرتے تھے۔
بخاری 6319 – صحیح ابی داؤد 4228 – عمل الیوم واللیلة ص 462 -الكلم الطيب ص 36،37 – صحیح الاذكار ص 69
صحیح بخاری شریف کتاب الوکالة میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ صدقہ کی کھجوروں میں سے کوئی ہر رات کچھ نہ کچھ چرا لے جاتا تھا۔ تیسری رات میں نے پکڑ لیا اور کہا کہ تیرا یہ معاملہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کے حضور پیش کروں گا۔ اس نے کہا: آپ مجھے چھوڑ دیں، میں آپ کو کچھ مفید کلمات بتاتا ہوں۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تو خیر و بھلائی کے بڑے خواہاں و حریص تھے۔
اس نے بتایا کہ جب بستر پر سونے لگو تو آیت الکرسی:
﴿الله لا إله إلا هو الحي القيوم﴾
آخر تک پڑھ لیا کرو۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم پر محافظ مقرر کر دیا جائے گا۔ اور صبح ہونے تک شیطان اور چور تمہارے قریب بھی نہیں پھٹکے گا۔ اس پر نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
صدقك وهو كذوب ذاك الشيطان
بخاری مع الفتح 487/4 – حدیث 5010
اس نے یہ بات سچ کہی ہے ورنہ وہ خود تو بڑا جھوٹا ہے۔ وہ شیطان تھا۔
اور صحیح بخاری و مسلم میں حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
من قرأ الآيتين من آخر سورة البقرة فى ليلة كفتاه
بخاری حدیث 5009 – مختصر مسلم للمنذری 2097 – الكلم الطيب ص 37
جس نے رات کو سورہ بقرہ کی آخری دو آیتیں (سوتے وقت) تلاوت کر لیں وہ اس کے لئے کافی ہو جاتی ہیں۔
صحیح بخاری و مسلم، ابو داؤد و ترمذی، مصنف عبد الرزاق اور ابن السنی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جگر گوشہ رسول، حضرت فاطمة الزہراء رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور ایک خادم کا مطالبہ کیا۔ (اس رات) نبی اکرم صلى الله عليه وسلم ہمارے گھر تشریف لائے جب کہ ہم بستر پر لیٹ چکے تھے۔ اور فرمایا:
ألا أدلكما على ما هو خير لكما من خادم
کیا میں ایک ایسا ذکر نہ بتاؤں جو تمہارے لئے خادم سے بھی بدرجہا بہتر ثابت ہو۔
اور پھر آپ صلى الله عليه وسلم نے بتایا کہ سوتے وقت تینتیس (33) مرتبہ سبحان اللہ، تینتیس (33) مرتبہ الحمد للہ، اور چونتیس (34) مرتبہ اللہ اکبر کہہ لیا کرو۔ یہ تمہارے لئے خادم سے بہتر ہوگا۔
بخاری 5362 – مسلم مع نووی 45/17/9-46 – صحیح ابی داؤد 4232 -صحیح ترمذی 2713 – عمل الیوم واللیلة ص 473، 474 – الكلم الطيب ص 38-39 – صحیح الاذكار ص 70
(حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس دن سے لے کر میں نے کبھی یہ وظیفہ ترک نہیں کیا۔ ان سے پوچھا گیا کہ جنگ صفین جیسی رات بھی نہیں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ صفین کی رات میں بھی نہیں۔)
تو گویا گھریلو کام کاج کر کے تھک جانے والی عورتوں، بلکہ مرد و زن کے لئے یہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کا بتایا ہوا بہترین ذکر و وظیفہ یا نسخہ ہے۔

➏ ایک دفعہ بیدار ہو کر بستر سے اترنا اور پھر سونا:

اور سونے کے آداب میں سے چھٹا ادب صحیح بخاری و مسلم، ترمذی اور عمل الیوم واللیلة ابن سنی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب کوئی شخص نیند سے بیدار ہو کر بستر سے نیچے اترے، اور پھر دوبارہ سونے لگے تو بستر کو ذرا جھاڑے اور اس حدیث میں ہی سونے کے وقت کی ایک دعا بھی ہے۔ چنانچہ وہ بیان کرتے ہیں کہ :
نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص اپنے بستر سے اٹھ کر کہیں جائے، اور پھر واپس بستر پر آئے تو اسے چاہئے کہ:
فلينفضه بطرف إزاره فإنه لا يدري ما خلفه عليه بعده
وہ اپنے بستر کو اپنی چادر (یا کسی کپڑے کے) کونے سے جھاڑ لے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کے بعد اس کے بستر پر کیا چیز آگئی ہو ۔(یعنی کوئی زہریلا کیڑا نہ آگیا ہو)۔
اور آگے آپ صلى الله عليه وسلم فرماتے ہیں کہ لیٹتے وقت یہ دعا کرنی چاہئے:
باسمك ربي وضعت جنبي وبك أرفعه فإن أمسكت نفسي فارحمها وإن أرسلتها فاحفظها بما تحفظ به عبادك الصالحين
بخاری مع الفتح حدیث 7393 – مختصر مسلم 1900 -صحیح ابی داؤد 4223 – صحیح ترمذی 2707
اے میرے پروردگار! میں نے تیرے نام سے اپنا پہلو بستر پر لگایا ہے۔ اور تیرے فضل و کرم سے ہی اسے اٹھاؤں گا۔ اگر تو اسی عرصہ میں میری روح قبض کر لے تو اس پر رحم فرمانا۔ اور اگر تو نے یہ مجھے عطا فرمائی تو پھر اس کی اسی طرح حفاظت فرما جیسے تو اپنے نیک بندوں کی حفاظت فرماتا ہے۔
اور سابق میں ذکر کی گئی تیسری حدیث میں بھی بیدار ہونے کی ایک دعا گزری ہے۔ اور ترمذی کی روایت کے مطابق اس حدیث میں بھی ایک دوسری دعا وارد ہوئی ہے۔ اور ابن السنی میں صرف یہی دعا ہے۔ چنانچہ آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص بیدار ہو تو وہ یہ دعا کرے:
الحمد لله الذى عافاني فى جسدي ورد على روحي وأذن لي بذكره
صحیح ترمذی 2707 – الكلم الطيب ص 37، 38 – صحیح الاذكار ص 70
ہر قسم کی تعریف اللہ تعالیٰ کے لئے ہے جس نے مجھے جسمانی طور پر عافیت بخشی، اور مجھے میری روح واپس لوٹائی(بیدار کر دیا) اور مجھے اپنے ذکر کا موقع عطا فرمایا۔
➐ اور سونے کے آداب میں سے ساتواں ادب یہ ہے کہ آدمی سوتے وقت باوضو ہو اور ذکر الہی کرتے ہوئے سو جائے۔ ایسا شخص رات کو بیدار ہو کر کوئی بھی دعا مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو قبول کرتا ہے۔ چنانچہ ابو داؤد و نسائی، ابن ماجہ و مسند احمد اور مسند طیالسی میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
ما من مسلم يبيت على ذكر طاهرا فيتعار من الليل فيسأل الله تعالى خيرا من أمر الدنيا والآخرة إلا أعطاه الله إياه
صحیح ابی داؤد 4216 – مسند احمد 641/5 – نسائی فی عمل الیوم واللیلة حدیث 1137 – ابن ماجہ 3881 – صحیح الجامع 177/5/3 – صحیح الترغیب 317/1، طبع مکتبة المعارف
کوئی بھی مسلمان جب وضو کی حالت میں ذکر الہی کرتا ہوا سو جائے اور رات کے کسی پہر اٹھ کر دنیا و آخرت کی کسی بھی بھلائی کی کوئی بھی دعا مانگے تو اللہ تعالیٰ اسے وہ چیز عطا فرما دیتا ہے۔
اور باب النوم على الطهارة میں امام ابو داؤد نے ایک اور حدیث وارد کی ہے جو کہ صحیحین اور سنن اربعہ میں ہی ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں:
إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قام من الليل فقضى حاجته قال أبو داود يعني بال فغسل وجهه ويديه ثم نام
بخاری 6316 – ابو داؤد مع العون 387/13 و صحیح ابی داؤد 3217
نبی اکرم صلى الله عليه وسلم رات کو اٹھے۔ آپ صلى الله عليه وسلم قضاء حاجت (اور بقول امام ابوداؤد پیشاب) سے فارغ ہوئے تو، آپ صلى الله عليه وسلم نے اپنا چہرہ اقدس اور دونوں ہاتھ دھوئے (یعنی وضو کیا) اور پھر سو گئے۔
اور تیسری حدیث صحیح ابن حبان میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے جس میں نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
من بات طاهرا بات فى شعاره ملك فلا يستيقظ إلا قال الملك اللهم اغفر لعبدك فلان فإنه بات طاهرا
صحیح الترغیب 317/1، طبع الریاض
جو شخص باوضو ہو کر سوتا ہے اس کے شعار میں (یعنی اس کے ساتھ) ایک فرشتہ لگ جاتا ہے۔ اور جب وہ آدمی جاگتا ہے، تو وہ فرشتہ دعا کرتا ہے۔ اے اللہ! اپنے فلاں بندے کی مغفرت فرما، اس نے باوضو ہو کر رات گزاری ہے۔
اور اسی موضوع کی ایک چوتھی حدیث طبرانی اوسط میں اور نجم کبیر میں بھی حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:
طهروا هذه الأجساد فيطهركم الله فإنه ليس من عبد يبيت طاهرا إلا بات معه فى شعاره ملك لا ينقلب ساعة من الليل إلا قال: اللهم اغفر لعبدك فإنه بات طاهرا
صحیح الجامع 15/4/2 – صحیح الترغیب 245/1 و تحقیقہ،طبع المکتب الاسلامی
اپنے اجسام (یعنی اپنے بدنوں) کو پاک رکھا کرو اور اللہ تعالیٰ تمہیں پاک کر دے۔ اور جو شخص باوضو ہو کر رات گزارے تو اس کے ساتھ ایک فرشتہ (اس کے شعار میں) رات گزارتا ہے۔ اور جب وہ شخص رات کے کسی بھی وقت کروٹ لیتا ہے تو فرشتہ دعا کرتا ہے۔ اے اللہ! اپنے اس بندے کو بخش دے، یہ باوضو ہو کر سویا ہے۔
ان چاروں احادیث سے یہ بات واضح ہوگئی کہ سونے کے آداب میں سے ہی ایک ادب یہ بھی ہے کہ سوتے وقت آدمی باوضو ہو، اور ذکر و دعا کرتے کرتے سو جائے اور اس ادب پر عمل پیرا ہونے کی بہت ہی زیادہ فضیلت و برکت ہے۔
بیدار ہوتے وقت اور خصوصاً سوتے وقت کے اذکار و وظائف، دعائیں اور فضائل تو بکثرت اور صحیح اسناد پر مشتمل کتب حدیث میں مذکور ہیں۔ لیکن ہم انہی چند اذکار اور اوراد پر اکتفاء کرتے ہیں۔

آمدم برسر مطلب:

مسجد میں سونے کے جواز کا ذکر شروع ہوا تھا تو، ساتھ ہی مسجد میں اور عام جگہ پر سونے کے آداب کا ضروری حد تک تذکرہ ہو گیا ہے۔ والحمد لله على ذالك

عورت کا مسجد میں سونا:

یہاں ہم اس بات کی وضاحت بھی کرتے جائیں کہ مسجد میں سونا چونکہ محض بوقت ضرورت ہے۔ لہذا اس معاملہ میں حدود سے تجاوز نہ کیا جائے۔ اور دوسری بات یہ کہ جس طرح یہ بوقت ضرورت مردوں کے لئے جائز ہے۔ اسی طرح عورتوں کے لئے بھی جائز ہے۔ بشرطیکہ فتنہ سے امن اور اس کا مناسب انتظام ہو۔ جیسا کہ سابق میں ذکر کی گئی مسجد نبوی کی صفائی کرنے والی ایک نیک خاتون کے واقعہ والی حدیث گزری ہے کہ اس کے لئے مسجد نبوی میں خیمہ لگایا گیا تھا، جس میں وہ رہتی تھی۔
ایسےہی اس بات کی دوسری دلیل وہ حدیث ہے، جو صحیح بخاری، ابن حبان اور صحیح ابن خزیمہ میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے۔ جس میں وہ ایک کنیز کا واقعہ اسی کی زبانی بیان کرتی ہیں کہ اسے اس کے آقاؤں نے آزاد کر دیا۔ لیکن ابھی وہ ان کے پاس ہی تھی کہ ان کی ایک بچی لال رنگ کا ہار پہنے ہوئے آئی۔ اور اس نے وہ کہیں رکھا یا اس سے وہ ہار گر گیا۔ چیل آئی اور سمجھی شاید گوشت ہے، لہذا لے اڑی۔ ان لوگوں نے ادھر ادھر تلاش کرنے کے بعد اس عورت پر الزام لگا دیا کہ اس نے چرایا ہے۔ اور اس کے جسم کے ایک ایک عضو کی تلاشی لی حتی کہ ستر کی بھی تلاشی لی۔ وہ کہتی ہے:
فدعوت الله أن يبرئني
میں نے اللہ سے دعا کی کہ وہ میری براءت ثابت کرے۔
چنانچہ وہ کہتی ہے کہ اللہ کی قسم میں ابھی ان کے پاس ہی کھڑی تھی کہ چیل گزری اور وہ ہار پھینک گئی، جو ان کے عین درمیان گرا۔ تو میں نے کہا کہ یہ ہے وہ چیز جس کی چوری کا الزام تم نے میرے سر دھرا تھا اور میں اس سے بری ہوں۔ پھر وہ عورت نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اسلام لے آئی۔ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
فكان لها خباء فى المسجد أو حفش
اسے مسجد نبوی میں ایک خیمہ لگا کر دیا گیا تھا یا اس کے لئے ایک چھوٹا سا گھر بنایا گیا تھا۔
اور آگے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بتاتی ہیں کہ وہ عورت میرے گھر آتی رہتی تھی۔ اور جب بھی آتی تو یہ شعر ضرور پڑھ کر بیٹھتی:
ويوم الوشاح من تعابيب ربنا
ألا أنه من بلدة الكفر أنجاني

وہ دن بھی عجائب قدرت میں تھا کہ جس دن ہار کے گم ہونے کا واقعہ رونما ہوا، جو بالآخر مجھے اس کفر کی بستی سے نجات دلانے (میرے مسلمان ہونے) کا سبب بن گیا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :
جب وہ ہر دفعہ آتے ہی شعر پڑھتی تو ایک دن میں نے اس کی وجہ پوچھ ہی لی تو اس نے مجھے یہ سارا ماجرا کہہ سنایا۔
بخاری 533/1، 534 مع الفتح 14/1/7 – الاحسان 535/4، 537 – ابن خزیمہ 286/2، 287
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس کا کوئی گھر ٹھکانا نہ ہو وہ چاہے عورت ہی کیوں نہ ہو۔ اس کے لئے جائز ہے کہ دوپہر اور رات کو مسجد میں سوئے جبکہ مسجد میں اس طرح خیمہ لگا کر رہنے سے کسی فتنہ و بگاڑ کا اندیشہ نہ ہو۔
فتح الباری 535/1

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے