بیوی کی دبر میں وطی کا حکم اور کفارہ
ماخوذ: فتاویٰ علمائے حدیث، کتاب الصلاۃ، جلد 1

سوال

کیا بیوی کی دبر (پاخانہ والی جگہ) میں وطی کرنا جائز ہے؟ اور اگر کوئی ایسا کرے تو کیا اس پر کفارہ لازم ہے؟

جواب

اسلام میں بیوی کی دبر میں وطی کرنا سخت حرام ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے والے کو ملعون قرار دیا ہے۔

قرآن و حدیث کی روشنی میں

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

«مَلْعُونٌ مَنْ أَتَى امْرَأَتَهُ فِي دُبُرِهَا»
( سنن ابوداؤد، حدیث نمبر 2162 ، صحیح ابوداؤد میں حسن قرار دی گئی ہے)
"وہ شخص ملعون ہے جو اپنی بیوی کے دبر میں وطی کرے۔”

اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے:

«لا يَنْظُرُ اللَّهُ إِلَى رَجُلٍ أَتَى رَجُلا أَوْ امْرَأَةً فِي الدُّبُرِ»
( سنن ترمذی، حدیث نمبر 1166، صحیح ترمذی میں حسن قرار دی گئی ہے)

"اللہ تعالیٰ ایسے شخص کی طرف نہیں دیکھے گا جو کسی مرد یا اپنی بیوی کے ساتھ دبر میں وطی کرے۔”

کفارہ کے متعلق علماء کا موقف

شرعی طور پر اس فعل کے لیے کوئی کفارہ مقرر نہیں ہے۔ کفارہ کی جگہ صرف سچی توبہ ہے۔ اس گناہ سے توبہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ:

◈ فوراً اس عمل کو ترک کرے۔

◈ اللہ کے خوف سے اس پر ندامت محسوس کرے۔

◈ آئندہ کبھی ایسا نہ کرنے کا پختہ ارادہ کرے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا:

"وَإِنِّى لَغَفَّارٌ لِمَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدَى”
(سورۃ طہ: 82)
’’جو توبہ کرے، ایمان لائے اور نیک عمل کرے، اللہ اسے معاف کر دیتا ہے۔‘‘

شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا فتویٰ

شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے جب بیوی کی دبر میں وطی کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا:

"یہ کبیرہ گناہ ہے اور بدترین معاصی میں سے ہے، لیکن اس کا کفارہ شریعت میں مقرر نہیں ہے۔ گناہ سے توبہ کرنا ہی اس کا کفارہ ہے”
(فتاویٰ اسلامیہ، ج 3، ص 256)۔

بیوی کے حقوق اور اس فعل سے انکار کا حق

  • ◈ اگر شوہر بیوی سے دبر میں وطی کا مطالبہ کرے تو بیوی کو حق ہے کہ وہ انکار کرے۔
  • ◈ اگر شوہر باز نہ آئے تو بیوی فسخ نکاح کا مطالبہ کر سکتی ہے۔

علماء کی آراء

امام بھوتی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"اگر کوئی شخص دبر میں وطی کرے تو حاکم اسے تعزیری سزا دے سکتا ہے، کیونکہ یہ ایسا گناہ ہے جس کی کوئی حد یا کفارہ مقرر نہیں”
(کشاف القناع، ج 5، ص 190)۔

غلط فہمی کا ازالہ

اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر کسی گناہ پر کفارہ مقرر نہیں تو وہ گناہ معمولی ہے۔ یہ سوچ غلط ہے۔ بلکہ بعض گناہ ایسے سنگین ہوتے ہیں کہ ان کے لیے کوئی کفارہ نہیں، جیسے امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جھوٹی قسم (غموس) اتنی بڑی ہے کہ اس کا کفارہ نہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے