سوال :
کیا خاوند کے لئے بیوی کی رضا مندی سے اس کا مال لینا اور اسے اپنے مال میں ضم کرنا جائز ہے یا ان کی اولاد کی رضامندی بھی ضروری ہے ؟
جواب :
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ بیوی اپنے مہر اور مملوکہ مال کی حقدار ہے۔ وہ مال اس کا کمایا ہوا ہو، اس کے نام ہبہ شدہ ہو یا اسے وراثت میں ملا ہو،
بہرحال وہ اس کا مال ہے اور اس کی ملکیت ہے وہ اس میں مکمل تصرف کا حق رکھتی ہے۔ اگر عورت اپنے کل مال یا اس کے ایک حصے پر خاوند کا تصرف قبول کر لے تو اس کے لئے ایسا کرنے کی اجازت ہے۔ اس طرح وہ مال اس کے خاوند کے لئے حلال ہو گا۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَيْءٍ مِنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَرِيئًا [4-النساء:4]
”اور تم بیویوں کو ان کے مہر خوش دلی سے دے دیا کرو اور اگر وہ خوش دلی سے تمہارے لئے اس کا کوئی حصہ چھوڑ دیں تو اسے مزے دار اور خوشگوار سمجھ کر کھاؤ۔ “
اس میں شرط یہ ہے کہ عورت خوش دلی سے ایسا کرے۔ اگر عورت عاقلہ اور رشیدہ ہے تو اس کی اجازت کے بعد اولاد یا کسی اور سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔ لیکن بیوی کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اس کو ناز و نخرہ اور مدح سرائی کا سبب بنائے یا خاوند پر احسان جتلائے، اسی طرح خاوند کو بھی نہیں چاہیے کہ وہ عورت کے انکار کی صورت میں اس سے بدسلوکی کرے، اسے تنگ کرے یا کسی طرح کا کوئی نقصان پہنچائے کیونکہ وہ اپنے حق کی زیادہ حقدار ہے۔ واللہ اعلم