بیوی پر شوہر کی فرمانبرداری لازم ہے
➊ ارشاد باری تعالی ہے کہ :
فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا [النساء: 34]
”اگر وہ تمہاری فرمانبرداری کریں تو ان کے خلاف کوئی راستہ تلاش نہ کرو۔ “
➋ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی مرد اپنی بیوی کو بستر کی طرف بلائے اور وہ آنے سے انکار کر دے پھر وہ مرد ساری رات اس سے ناراض رہے تو صبح تک فرشتے اس عورت پر لعنت کرتے رہتے ہیں ۔“
[بخاري: 3237 ، كتاب بدء الخلق: باب إذا قال أحدكم آمين ، مسلم: 1436]
➌ حضرت طلق بن علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدمی اپنی بیوی کو اپنی حاجت (یعنی مباشرت) کے لیے بلائے تو اسے چاہیے کہ وہ آئے خواہ تنور پر (روٹی پکا رہی) ہو۔“
[صحيح: الصحيحة: 1202 ، صحيح ترمذي: 927 ، كتاب النكاح: باب ما جاء فى حق الزوج على المرأة ، ترمذي: 1160 ، أحمد: 22/4]
➍ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میں کسی کو حکم دیتا کہ وہ کسی کو سجدہ کرے تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے ۔“
[احسن صحيح: صحيح ترمذي: 926 أيضا ، ترمذي: 1159 ، بيهقي: 291/7]
➎ حضرت عمر و بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلاشبہ تمہارے لیے تمہاری بیویوں پر حق ہے اور تمہاری بیویوں کے لیے تم پر بھی حق ہے۔ تمہاری بیویوں پر جو تمہاراحق ہے (وہ یہ ہے کہ ) وہ ان لوگوں کو تمہارے بستر پر مت بیٹھنے دیں جنہیں تم نا پسند کرتے ہو اور نہ ہی ایسے اشخاص کو تمہارے گھروں میں داخلے کی اجازت دیں جن سے تم کراہت رکھتے ہو اور خبردار ! عورتوں کے حقوق تم پر یہ ہیں کہ تم ان کے لباس و طعام میں ان کی طرف احسان کرو ۔“
[حسن: صحيح ترمذي: 929 أيضا ، ترمذى: 1163 ، ابن ماجة: 1751]
مذکورہ دلائل اس بات کے متقاضی ہیں کہ عورت پر اپنے شوہر کی اطاعت واجب ہے۔ علاوہ ازیں گھریلو کام کاج بھی عورت کے ذمہ ہی ہے مثلا صفائی ستھرائی اور کھانا پکانا وغیرہ۔ کیونکہ ابتدائے زمانہ سے یہ کام خواتین ہی کرتی آ رہی ہیں حتی کہ عہد رسالت میں بھی صحابہ کی عورتیں یہ تمام کام کرتی تھیں ۔ یہی نہیں بلکہ وہ گھر سے باہر پر مشقت کام بھی کیا کرتی تھیں اور کبھی ایسا نہیں سنا گیا کہ عورتوں نے کہا ہو کہ ہماری ذمہ داری نہیں جیسا کہ چکی چلانے کی وجہ سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاتھوں میں نشان پڑ چکے تھے اور اسی طرح مشکیزے بھر بھر کے لانے کی وجہ سے ان کے کندھوں پر بھی نشان نمودار ہو چکے تھے لیکن جب انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں کہا کہ یہ تو تمہاری ذمہ داری ہی نہیں ہے بلکہ یہ تمام کام اسی کے ذمہ رکھے ۔
[بخاري: 3705 ، كتاب فضائل أصحاب النبى: باب مناقب على بن أبى طالب ]
(ابن تیمیہؒ) عورت پر معروف طریقے سے خاوند کی خدمت (گھریلو کام کاج وغیرہ ) واجب ہے کیونکہ خاوند کتاب اللہ کی رو سے اس کا مالک ہے اور وہ عورت سنتِ رسول کی رو سے اس کے پاس قیدی کی مانند ہے۔ یقیناََ قیدی یا غلام پر (اپنے مالک کی ) خدمت کرنا لازم ہوتا ہے۔
[فتاوى النساء: ص/ 265]