بیوی نے اچھا بھی کیا اور برا بھی
یہ تحریر علمائے حرمین کے فتووں پر مشتمل کتاب 500 سوال و جواب برائے خواتین سے ماخوذ ہے جس کا ترجمہ حافظ عبداللہ سلیم نے کیا ہے۔

سوال :

ایک بیوی نے گھریلو اخراجات سے بچ جانے والے خاوند کے مال سے اس کے علم کے بغیر دو ہزار ریال سے زیادہ پس انداز کر لئے اس سے اس کا مقصد یہ تھا کہ اس کے خاوند کے ذمہ اس کے بھائی کا جو قرض ہے اس طرح وہ ادا ہو جائے گا۔ جب عورت نے اچانک خاوند کو اس بات سے آگاہ کیا تو وہ وقتی طور پر اس عمل سے خوش ہوا پھر معلوم ہوا کہ خاوند کچھ کبیدہ خاطر ہو رہا ہے۔ وہ بیوی پر شک بھی کرنے لگا اور اس پر اس کا اعتماد بھی ختم ہو گیا۔ حالانکہ وہ انتہائی دیندار اور مومنہ عورت ہے۔ اس کی نیت بھی اچھی تھی، لیکن بعض کینہ پرور لوگوں نے بیوی کے اس عمل کو خاوند کے سامنے غلط رنگ میں پیش کیا۔ اب عورت یہ معلوم کرنا چاہتی ہے کہ کیا وہ اس عمل پر گناہ گار ٹھرے گی یا نہیں ؟

جواب :

اس عورت نے ایک اعتبار سے اچھا بھی کیا اور ایک اعتبار سے برا بھی۔ اچھا تو یوں کہ اس نے چاہا کہ کسی طرح اس کے خاوند کا دامن قرض سے پاک ہو جائے۔ وہ کسی شخص کے زیر بار تھا اس کی بیوی اس سے یہ بوجھ اتارنا چاہتی تھی۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ وہ اپنے بھائی کو فائدہ پہنچانا چاہتی ہو اس لئے کہ اس کا خاوند دوسروں کے حقوق کی ادائیگی میں ٹال مٹول سے کام لیتا ہے اور قدرت کے باوجود انہیں ادا نہیں کرنا چاہتا۔ اس نے چاہا کہ اس کے بھائی کو اس کا حق مل جائے کہ اسے اس کی ضرورت ہے اس کے لئے عورت نے یہ حیلہ اپنایا۔ دوسری طرف اس کا یہ عمل ایک طرح سے غلط بھی ہے وہ یوں کہ یہ عمل خیانت کے مترادف ہے۔ اس نے خفیہ طریقے سے خاوند سے کچھ مال حاصل کیا جسے وہ روز مرہ کی ضروریات کی تکمیل کے لئے وصول کیا کرتی تھی۔ ہم خاوند کو نصیحت کریں گے کہ وہ بیوی کو معذور مجھے اور اس کے متعلق حسن ظن سے کام لے، اس پھر سے امانت دار اور قابل اعتماد سمجھے۔
[شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے