بیوہ اس گھر میں ٹھہرے جس میں اپنے خاوند کی وفات کے وقت تھی
تحریر: عمران ایوب لاہوری

بیوہ اس گھر میں ٹھہرے جس میں اپنے خاوند کی وفات کے وقت تھی یا جہاں اسے وفات کی اطلاع پہنچی
حضرت فریعہ بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اس کا شوہر اپنے بھاگے ہوئے غلاموں کی تلاش میں نکلا۔ انہوں نے اسے قتل کر دیا۔ فریعہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے میکے لوٹ جانے کے متعلق دریافت کیا کیونکہ میرے شوہر نے اپنی ملکیت میں کوئی گھر نہیں چھوڑا اور نہ ہی نفقہ چھوڑا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں (تم اپنے میکے جا سکتی ہو ) جب میں حجرے میں پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے آواز دی اور فرمایا:
امكثي فى بيتك حتى يبلغ الكتاب أجله
”تم اپنے پہلے مکان میں ہی رہو جب تک کہ تمہاری عدت پوری نہ ہو جائے۔“
فریحہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ پھر میں نے عدت کی مدت چار ماہ اور دس دن اس سابقہ مکان میں پوری کی۔ مزید فرماتی ہیں کہ :
فقضي به بعد ذلك عثمان
”حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی اس کے بعد اسی کے مطابق فیصلہ کیا ۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 2016 ، كتاب الطلاق: باب فى المتوفى عنها تنتقل ، ابو داود: 2300 ، ترمذي: 1204 ، نسائي: 199/6 ، موطا: 591/2 ، حاكم: 208/2 ، امام حاكمؒ اور امام ذهبيؒ نے اسے صحيح كها هے۔]
یہ حدیث اس بات کا ثبوت ہے کہ جس عورت کا شوہر فوت ہو جائے تو وہ اسی مکان میں عدت پوری کرے گی جہاں وہ شوہر کے ساتھ مقیم تھی یا جہاں اسے خاوند کی وفات کی اطلاع موصول ہوئی۔
(امیر صنعانیؒ ) اسی کے قائل ہیں۔
[سبل السلام: 1505/3]
(ابن قیمؒ) اسی کو ترجیح دیتے ہیں۔
[زاد المعاد: 309/4]
(ترمذیؒ) صحابہ میں سے اکثر اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے اور یہی قول زیادہ صحیح ہے۔
[ترمذي: بعد الحديث / 1204 ، كتاب الطلاق واللعان]
(احمدؒ ، شافعیؒ ، ابو حنیفہؒ) اسی کے قائل ہیں۔
[نيل الأوطار: 400/4 ، سبل السلام: 1505/3]
(ابن عبد البرؒ ) حجاز ، شام ، مصر اور عراق وغیرہ میں فقہائے امصار کی ایک جماعت نے اس کے مطابق فتوی دیا ہے۔
[الاستذكار: 185/18]
اس مسئلے کی تصدیق میں
➊ حضرت عمر رضی اللہ عنہ
➋ حضرت عثمان رضی الله عنہ
➌ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ
➍ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما
➎ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا ، حضرت زید بن ثابت رضی الله عنہ ، قاسم بن محمدؒ ، عروہ بن زبیرؒ اور ابن شہاب سے بھی مختلف صحیح آثار و روایات مروی ہیں ۔
[ مؤطا: 591/2 ، بيهقي: 453/7 ، عبد الرزاق: 33/7 ، موطا: 591/2 ، عبد الرزاق: 32/7 ، المحلى: 286/10 ، عبد الرزاق: 316/6 ، بيهقى: 417/7 ، المحلى: 259/10 ، موطا: 592/2 ، عبد الرزاق: 31/7 ، بيهقي: 435/7 ، ذكره ابن عبد البر فى الاستذكار: 181/18]
تاہم بعض صحابہ مثلاً حضرت علی رضی اللہ عنہ ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا وغیرہ سے اس کی مطلقا اجازت بھی مروی ہے اور بعض صحابہ مثلا حضرت عمران رضی اللہ عنہ ، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ وغیرہ سے کسی عذر کی بنا پر نکلنے کی اجازت مروی ہے لیکن یہ آثار و روایات گذشته صحیح مرفوع روایت کے مقابلے میں قابل احتجاج نہیں ۔
[تحفة الأحوزى: 442/4 ، نيل الأوطار: 401/4 ، ابن أبى شيبة: 155/4 ، عبد الرزاق: 12064]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1