بیماری کے لیے دم اور معاوضے کا شرعی حکم
تحریر : فتاویٰ سعودی فتویٰ کمیٹی

بیماروں پر پڑھائی کر کے اجرت لینے کا حکم
بیمار کو دم کر کے اجرت لینے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ صحیحین میں ثابت ہے کہ چند صحابہ کرام عرب کے ایک قبیلے کے پاس حاضر ہوئے، انہوں نے ان کی مہمان نوازی نہ کی، اس دوران میں ان کے سردار کو کوئی زہریلی چیز نے ڈس لیا، انہوں نے ہر کوشش کی لیکن بے سود، آخر کار ان میں چند لوگ ان صحابہ کرام کے پاس آئے اور کہنے لگے: تم میں کوئی دم کرنے والا ہے؟ ہمارے سردار کو کسی چیز نے ڈس لیا ہے۔ انہوں نے کہا: ہاں، لیکن تم نے ہماری مہمان نوازی نہیں کی، اس لیے ہم اجرت کے بغیر دم نہیں کریں گے، انہوں نے بکریوں کے ایک ریوڑ پر اتفاق کر لیا، ایک صحابی نے سورت فاتحہ پڑھ کر اسے دم کیا تو وہ تندرست ہو گیا اور انہوں نے وہ ریوڑ ان کو دے دیا۔
کچھ صحابہ کرام کہنے لگے: جب تک ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس معاملے کی خبر نہ دے لیں تب تک ہم کچھ نہیں کریں گے، جب وہ مدینہ طیبہ پہنچے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انہوں نے اس معاملے کی خبر دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے درست کیا۔ [صحيح البخاري، رقم الحديث 2276]
لہٰذا مریض، جادو زدہ یا کسی پاگل کو پانی اور تیل پر دم کر کے علاج کرنے اور اس کی اجرت لینے میں کوئی حرج نہیں، لیکن مریض پر پڑھ کر اس کو پھونک مارنا زیادہ مناسب اور افضل ہے۔
سنن ابو داود میں صحیح سند کے ساتھ مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس بن شماس کے لیے پانی پر دم کیا اور وہ ان پر بہا دیا۔ [ضعيف۔ الضعيفة، رقم الحديث 1005]
نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
”دم میں اگر کوئی شرکیہ چیز نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔“ [صحيح مسلم 2200/64]
یہ صحیح حدیث مریض پر دم کرنے اور پانی اور تیل وغیرہ پر دم کرنے میں عام اور سب کو شامل ہے۔
[ابن باز: مجموع الفتاوي و المقالات: 339/19]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1