سوال : میں بیمار ہوں اور کبھی کبھی اپنی المناک حالت پر غیر ارادی طور پر رونے لگتی ہوں۔ تو کیا اس طرح رونے کا مطلب اللہ تعالیٰ پر اعتراض اور اس کے فیصلے پر عدم رضا کا اظہار ہے ؟ نیز کیا بیاری کے بارے میں رشتے داروں سے بات کرنا بھی اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر راضی نہ ہونے میں داخل ہے ؟
جواب : اگر رونا آہ فغاں (چیخ و پکار) کے بغیر صرف آنسوؤں کی صورت میں ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لخت جگر ابراہیم کا انتقال ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
العين تدمع والقلب يخزن، ولا نقول إن شاء الله إلأ ما يرضى ربنا، وإنا بفراقك يا إبراهيم المحزونون [کنز العمال 42483/15]
”آنکھیں آنسو بہا رہی ہیں اور دل غمگین ہے لیکن ہم وہی کچھ کہیں گے ان شاء اللہ جو ہمارے رب کو راضی کرے۔ ابراہیم ! ہم تیری جدائی پر غمگین ہیں۔“
اس مفہوم کی کئی اور احادیث بھی وارد ہیں۔ اسی طرح اگر آپ بیماری سے متعلق اپنے عزیزوں سے بات کرتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کرتی اور اس کا شکریہ ادا کرتی ہیں اس سے صحت و عافیت کا سوال کرتی اور جائز اسباب اپناتی ہیں تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ ہم آپ کو صبر و ثابت قدری کی وصیت کرتے ہیں۔ آپ کو خیر کی خوشخبری دینا چاہے ہیں، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ [39-الزمر:10]
”ثابت قدم رہنے والوں کو ان کا اجر بے شمار ملے گا۔“
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا :
لا يصيب المرء المؤمن من وصب، ولا نصب ولا هم ولا حزن ولا غم ولا اذي، حتي الشوكة ليشاكها، الا كفر الله عنه بها خطاياهٔ [کنز العمال 6848/3]
”بندہ مسلم کو کوئی غم و اندوہ، تھکاوٹ اور بیماری لاحق نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی تکلیف، حتی کہ کانٹا تک نہیں چبھتا مگر اللہ تعالیٰ ان سب کے بدلے میں اس کے گناہ مٹا دیتا ہے۔“
نیز فرمایا :
من يرد الله به خيرا يصب منه [صحيح البخاري 199/7]
”اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے تکلیف سے دوچار کر دیتا ہے۔
ہم اللہ تعالیٰ کے حضور دعاگو ہیں کہ وہ آپ کو صحت و عافیت سے نوازے، قلب و عمل کی اصلاح فرمائے تحقیق وہ سننے اور قبول کرنے والا ہے۔