بہن بھائی کی شادی اور ملحدین کا دوہرا معیار
ملحدین ہر بات میں ہم سے عقلی دلیل طلب کرتے ہیں، لیکن جب ان سے صرف ایک عقلی سوال کیا جاتا ہے کہ اگر بہن بھائی کی شادی کے اتنے فائدے ہیں، تو اس کی ممانعت کے عقلی دلائل پیش کریں، تو وہ فوراً اخلاقیات کا سہارا لیتے ہیں۔ دوسری طرف، یہی لوگ قرآن کے اخلاقی بنیادوں پر بنائے گئے قوانین کے لئے عقلی دلائل کا تقاضا کرتے ہیں۔ یہ دوہرا معیار اس بات کا عکاس ہے کہ ان کے پاس دو مختلف طریقے (kits) ہیں، ایک عقلی اور دوسری اخلاقی۔ جب بات پھنس جاتی ہے تو وہ اخلاقی دلیل کا سوئچ آن کر لیتے ہیں، ورنہ عقلی دلائل پر زور دیتے ہیں۔ لیکن اصولی طور پر انہیں اسی شدت سے بہن بھائی کی شادی کی ممانعت کا عقلی جواز پیش کرنا چاہیے، جیسے وہ خدا کے انکار کا جواز دیتے ہیں۔

ملاحدہ کے دلائل کا جائزہ:

معذور بچوں کا خدشہ:

ملحد حضرات اکثر یہ دلیل دیتے ہیں کہ بہن یا ماں کے ساتھ جنسی تعلق سے پیدا ہونے والے بچوں میں معذوری کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے، اس لئے یہ عمل عقلی طور پر قبیح ہے۔ لیکن اس دلیل میں مسئلہ یہ ہے کہ یہاں یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ معذور بچوں کا نہ ہونا ایک اچھا امر ہے (اور اس فرض کی خود دلیل چاہیے)۔ اگر مانع حمل تدابیر اختیار کر لی جائیں تو پھر اس دلیل کے مطابق ایسی بدکاری میں کوئی قباحت باقی نہیں رہتی۔ یوں دیکھا جائے تو عقل سے حسن و قبح کا حتمی تعین کرنا ممکن نہیں۔

معاشرتی ناراضگی کا حوالہ:

ایک اور دلیل یہ دی جاتی ہے کہ والدین اور معاشرتی لوگ ایسے تعلقات پر ناراض ہوتے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ احساس صرف اس لئے پیدا ہوتا ہے کیونکہ ایسے معاشرے کا تصور پہلے سے موجود ہے جہاں بہن بھائی کی بدکاری کو برا سمجھا جاتا ہے۔ اگر ایک ایسے معاشرے کا تصور کیا جائے جہاں یہ عمل عام ہو اور لوگ اسے نارمل سمجھیں، تو پھر والدین کے ناراض ہونے کی کوئی وجہ نہیں رہتی۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے ہمارے معاشرے میں باپ اپنی بیٹی کے بوائے فرینڈ کے ساتھ گھومنے پر پریشان ہوتا ہے، لیکن مغربی معاشروں میں ایسا نہیں ہوتا۔ جو لوگ خدا سے نہیں ڈرتے، انہیں معاشرے سے ڈرتے دیکھنا عجیب لگتا ہے، یہ تو سیدھی منافقت ہے! دوسروں کو اللہ کے خلاف بغاوت پر اکسانا اور خود معاشرتی دباؤ کے تحت ایسی شادیاں نہ کرنا؟

آدم و حوا کی اولاد کا حوالہ:

بعض اوقات یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہم بہن بھائی کی شادی کو جائز نہیں مانتے، جبکہ مذہبی لوگ کہتے ہیں کہ آدم و حوا کی اولاد آپس میں شادیاں کرتی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ باتیں اصل سوال کو گول کرنے کے لئے کی جاتی ہیں، اور بہن بھائی کی شادی کے حرام ہونے کی کوئی عقلی دلیل پیش نہیں کرتیں۔

مذہبی نقطہ نظر:

ہمارے (اہل مذہب) نزدیک خیر و شر کی تعریف یہ ہے کہ خیر و شر وہ ہے جسے خدا خیر و شر قرار دیتا ہے۔ اگر خدا نے آدم و حوا کے بچوں کی شادی کو اس وقت جائز قرار دیا تو وہ جائز ہوگئی، اور اگر بعد میں اسے حرام قرار دیا تو وہ حرام ہوگئی۔ ہم اللہ کے ہر حکم پر "آمنا و صدقنا” اور "سمعنا و اطعنا” کے قائل ہیں۔ ہماری عقل خدا کی بیان کردہ اقداری ترتیب کو قبول کرتی ہے، اس لئے ہمیں اپنی بیٹی اور بیٹے کے اس تعلق میں قباحت محسوس ہوتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جن کی عقل اس اقداری ترتیب کو قبول نہیں کرتی، ان کے پاس شادی نہ کرنے کی خالص عقلی دلیل کیا ہے؟ "ھاتو برھانکم ان کنتم صدقین۔”

عقل کی حدود:

کسی چیز کو عقل کی بنیاد پر جائز یا ناجائز قرار دینے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ پہلے سے کوئی اقداری ترتیب فرض کی جائے۔ عقل کی یہ ایک حد ہے جسے سمجھنا ضروری ہے۔ ملحدین کی چال یہ ہے کہ وہ اپنی اس ماقبل عقل اقداری ترتیب کو عقل کے ہم معنی بنا کر پیش کرتے ہیں اور یوں اہل مذہب کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ تم تو ایمان لاتے ہو، ہم نہیں۔

الہامی اخلاقیات کی ضرورت:

حقیقت یہ ہے کہ جب اخلاقیات کے لئے الہامی بنیاد ختم کر دی جائے تو انسان ایک ایسی حالت میں پہنچ جاتا ہے جہاں عقل اسے کوئی راستہ دکھانے سے قاصر رہتی ہے، اور ہر سمت اسے یکساں لگتی ہے۔ نبی ہی خدا کی طرف سے دی گئی وہ رسی ہے جسے پکڑ کر انسان صحیح سمت کا تعین کرتا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے