بھینس کی قربانی پر شبہات اور دلائل کی وضاحت
یہ اقتباس عنایت اللہ مدنی حفظہ اللہ کی کتاب بھینس کی قربانی ایک علمی و تحقیقی جائزہ سے ماخوذ ہے۔

بھینس کی قربانی متعلق بعض اشکالات اور شبہات کا ازالہ

بھینس کی قربانی کے مطلق عدم جواز کے قائلین کے یہاں بعض اشکالات و شبہات ہیں جس کی بنا پر انہیں بھینس کی قربانی کے جواز پر اطمینان نہیں ہے ، ان شبہات و اشکالات میں کچھ علمی ہیں اور کچھ عوامی ، ذیل میں ان میں سے چند اہم اشکالات و شبہات کا ازالہ کیا جار ہا ہے، تاکہ مسئلہ کی بابت کسی قسم کی الجھن باقی رہ جائے و باللہ التوفیق ۔

اولاً علمی اشکالات

پہلا اشکال: (عدم وجود نص):

بھینس کی قربانی جائز نہیں کیونکہ بھینس کے سلسلہ میں کتاب وسنت میں کوئی نص موجود نہیں ، اور متنازع ومختلف فیہ امر کو اللہ عز وجل اور اس کے رسول کی صلى الله عليه وسلم کی طرف لوٹانے کا حکم دیا گیا ہے ، اور لوٹانے پر بھینس کا نہیں کوئی ذکر نہیں ملتا ! !
ازاله:
(1) کتاب و سنت کی طرف لوٹانے پر اس میں باللا ”الجاموس“ یعنی بھینس کا ذکر نہیں ملتا ، لیکن ”البقر“ کی جنس کا ذکر بصراحت موجود ہے ، اور امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ بھینس گائے کی غیر عربی نسل و نوع ہے لہٰذا الفظ نہیں بلکہ باعتبار جنس اس کا ذکر موجود ہے اور اسی لئے دونوں کا حکم قربانی و زکاۃ میں یکساں ہے ، جیسا کہ سابقہ فصلوں میں اس کی تفصیلات ذکر کی جا چکی ہیں ۔
(2) کتاب و سنت کی فہم کے لئے زبان کتاب وسنت (عربی ) اور اس میں وارد الفاظ و کلمات کا صحیح معنی او مدلول جانناحد درجہ ضروری ہے ، اور قرآن و سنت میں وارد لفظ ”البقر“ کا معنیٰ و مدلول ماہرین لغت عرب اور علماء تفسیر ، حدیث وفقہ نے بخوبی واضح کیا ہے کہ ”الابل البقر المعز الضان“ یہ اجناس میں، ان کی جو بھی انواع و اصناف دنیا میں پائی جاتی ہیں سب اس میں شامل ہیں ، اور جاموس (بھینس) بھی جنس ”البقر“ کی ایک غیر عربی نسل و نوع ہے لہٰذا اس میں بھی زکاۃ فرض اور اس کی قربانی جائز ہے ، جیسا کہ تفصیلات گزر چکی ہیں ۔
(3) کتاب و سنت کی فہم کے لئے سلف امت کی فہم ناگزیر ہے ، جیسا کہ مخفی نہیں ، اور امت کے سلف کا فہم یہ ہے کہ بھینس گائے ہی کی ایک نوع ونسل ہے ، اور دونوں کا حکم اجتماعی طور پر یکساں ہے ۔ صحیح ہے کہ گائے کی یہ نوع عہد رسالت اور عہد صحابہ میں متعارف تھی لیکن اس کے بعد جب سے متعارف ہوئی اور سلف امت کی نگاہوں کے سامنے آئی ، انہوں نے اسے گائے ہی کی ایک نوع سمجھا ، اور زکاۃ قربانی میں اس کا حکم گائے کا رکھا ۔
(4) کتاب و سنت کے نصوص میں باللفظ تمام اشیاء کا ذکر ہو نا ضروری نہیں نہ ہی اثبات و نفی اور حلال و حرام کا حکم کسی چیز کے منصوص ہونے ہی پر موقوف ہے ۔ ظاہر ہے کہ قرآن کریم اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں تمام تر اشیاء اور ان کے انواع و اقسام کا نام ذکر نہیں کیا گیا ہے ، بلکہ شریعت اسلامیہ جامع ، کامل ، شامل اور ثابت شریعت ہے ، اس میں کلیات ، مبا دی اور اصول میں خواہ ان کا حکم حلت کا ہو یا حرمت کا ۔ اسی طرح بہیمۃ الانعام میں شامل لفظ ”البقر“ میں گائے کی جو بھی نسلیں اور قسمیں دنیا میں پائی جاتی ہیں سب شامل ہیں ۔

دوسر اشکال: (لغت عرب سے استدلال):

کتاب وسنت میں بھینس کا ذکر نہیں ہے ، اس کے بارے میں کوئی نص نہیں ہے صرف لغت عرب سے استدلال کر کے اس کی قربانی کو جائز کہنا درست نہیں ، لغت عرب شرعی مسئلہ میں دلیل نہیں بن سکتی ! !
ازاله:
(1) محض عربی زبان سے استدلال کر کے بھینس کی قربانی کو جائز نہیں قرار دیا گیا ہے ، بلکہ لغت عرب سے لفظ ”البقرہ“ اور ”الجاموس“ کے معنی و مدلول کی تعین کی گئی ہے ، اور ظاہر ہے کہ کسی بھی زبان کے الفاظ کے معنی و مدلول کو اس زبان کے ماہرین ہی جانتے ہیں لہذ ا لغت عرب سے معلوم ہوا کہ جاموس بقر کی جنس سے ایک نوع ہے ، اور یہ کسی شاذ و نادر کا قول نہیں ہے بلکہ اس پر تمام علماء لغت کا اجماع ہے کسی نے بھی اس کے خلاف نہیں لکھا ہے ۔
(2) لغت عرب سے جاموس کے معنی و مدلول کے بعد علماء شریعت مفسرین ، محدثین ، فقہاء ، شارحیں حدیث اور علماء فتاوی کی توضیحات دیکھی گئیں تو معلوم ہوا کہ علماء شریعت نے بھی ، بھینس کو گائے ہی کی جنس مانا ہے ، بلکہ دونوں کے حکم کی یکسانیت پر اجماع امت ہے یعنی لغت عرب اور مدلول شرع میں کوئی تعارض نہیں ہے لہٰذا اس میں گائے کے مثل زکاة فرض اور قربانی کو جائز قرار دیا ہے ۔
(3) شریعت اسلامیہ قرآن کریم اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم عربی زبان میں ہیں ، لہٰذا شریعت میں عربی زبان کی اہم مسلم ہے ، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مراد و مقصود کا فہم زبان عرب کی معرفت پر موقوف ہے ، اس کے بغیر شریعت کے الفاظ کے معانی و مدلولات کو نہیں سمجھا جاسکتا ، اور کتاب وسنت کے معانی بالعموم کلام عرب کے معانی کے موافق ہیں مثال کے طور پر ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فإن التهجد: ما كان بعد نوم . قاله علقمة ، والأسود وإبراهيم النخعي ، وغير واحد وهو المعروف وغير فى لغة العرب . وكذلك ثبتت الأحاديث عن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم: أنه كان يتهجد بعد نومه ، عن ابن عباس ، وعائشة ، وغير واحد من الصحابة رضي الله عنهم
کیونکہ تہجد ہونے کے بعد اٹھنے کو کہتے ہیں ، جیسا کہ علقمہ ، اسود ، ابراہیم مخفی اور دیگر مفسرین نے کہا ہے ، اور لغت عرب میں یہی معروف ہے ۔ اسی طرح ابن عباس ، عائشہ اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کے واسطے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں بھی ثابت ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سونے کے بعد اٹھتے تھے ۔ [تفسير ابن كثير 5/ 103 نيز ديكهئے: معالم اصول الفقه عند أهل السنة والجماعة محمد بن حسين جيزاني ص 378 ، جمعه احياء التراث الاسلامي]
چنانچہ اہل علم سے مخفی نہیں کہ علماء اسلام سلف تا خلف اپنی کتابوں میں الفاظ شریعت کی لغوی تشریح کرتے رہے ہیں (اس کی مثالوں سے تفسیر ، شروح احادیث اور فقہ و فتاوی کی کتابیں بھری پڑی ہیں ، شمار سے خارج ہیں )
تاکہ لفظ کا اصل وضع اور معنی و مدلول معلوم ہو سکے ، اور اگر ایسا نہ ہوتا تو جو چاہتا کسی بھی لفظ کا کوئی بھی معنی نکال لیتا ، جیسا کہ اہل بدعت کا شیوہ اور وطیرہ رہا ہے ، اہل علم کی چند تصریحات ملاحظہ فرمائیں:
امامہ شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وإنما بدأت بما وصفت ، من أن القران نزل بلسان العرب دون غيره: لأنه لا يعلم من إيضاح جمل علم الكتاب أحد جهل سعة لسان العرب ، وكثرة وجوهه ، وجماع معانيه وتفرقها . ومن علمه انتفت عنه الشبه التى دخلت على من جهل لسانها [الرسالۃ لشافعي 50/1]
اور میں نے یہ بات اس لئے شروع کی ہے کہ قرآن کریم عرب کی زبان میں اترا ہے کسی اور کی نہیں ؛ کیونکہ کوئی بھی شخص جو زبان عرب کی وسعت ، اس کے پہلووں کی کثرت اور اس کے معانی کے اتحاد و افتراق سے نا واقف ہوگا ، کتاب اللہ کی عبارتوں کی وضاحت سے لا علم ہوگا ۔
اسی طرح امام ابن کثیر رحمہ اللہ کی تفسیر کے بارے میں فرماتے ہیں:
فإن اختلفوا فلا يكون بعضهم حجة على بعض ، ولا على من بعدهم ، ويرجع فى ذلك إلى لغة القرآن أو السنة أو عموم لغة العرب ، أو أقوال الصحابة فى ذلك [تفسير ابن كثيرت سلامة 10/1]
اگر تفسیر میں تابعین مختلف ہوں تو کوئی کسی کے خلاف حجت نہیں ہوگا ، نہ ہی اپنے بعد والوں پر ، اور اس سلسلہ میں قرآن یا سنت کی زبان کی طرف یا عموم زبان عرب کی طرف یا اس بارے میں اقوال صحابہ کی طرف رجوع کیا جائے گا ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
والمعرفة لمعاني كتاب الله إنما تؤخذ من هذين الطريقين من أهل التفسير المولوق بهم من السلف ومن اللغة التى نزل القران بما وهى العرب [مجموع الفتاوي 587/6]
کتاب اللہ کے معانی کی معرفت دراصل ان دو طریقوں سے لی جاتی ہے: سلف کے قابل اعتماد علماء تفسیر سے اور اس زبان سے جس میں قرآن کریم اترا ہے ، یعنی زبان عرب سے ۔
نیز فرماتے ہیں:
فمعرفة العربية التى خوطبنا بھا مما يعين على أن نفقه مراد الله ورسوله بكلامه ، وكذلك معرفة دلالة الألفاظ على المعاني ، فإن عامة ضلال أهل البدع كان بهذا السبب ، فإنهم صاروا يحملون كلام الله ورسوله على ما يدعون أنه دال عليه ولا يكون الأمر كذلك [مجموع الفتاوي 116/7]
چنانچہ عربی زبان کی معرفت جس کے ذریعہ میں مخاطب کیا گیا ہے ، ان چیزوں میں سے ہے جس سے ہمیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام سے ان کا مراد و مقصود سمجھنے اور اسی طرح معانی پر الفاظ کی دلالت کی معرفت میں مدد ملتی ہے ؛ کیونکہ بدعتیوں کی عام طور پر گمراہی کا سبب یہی تھا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو اس چیز پر محمول کرتے تھے جو ان کا دعوی ہوتا تھا کہ وہ اسی چیز پر دلالت کرتا ہے ، جبکہ معاملہ ویسا نہیں ہوتا تھا ۔
اور یہی وجہ ہے کہ شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے زبان عرب کے ذریعہ اہل بدعت و انحراف کی بہت سی گمراہیوں کا پردا فاش کیا ہے ، اس بارے میں چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
(1)کلام الہی کے آواز ہونے پر قرآن (لفظ نداء ) سے استدلال ، اور لغت عرب سے اس کا معنی و مدلول واضح کر کے مخالفین کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
هذه الصفة: دل عليها القرآن فإن الله أخبر بمناداته لعباده فى غير آية كقوله تعالى: ﴿وناديناه من جانب الطور الأمن﴾ و ”النداء“ فى لغة العرب هو صوت رفيع ، لا يطلق النداء على ما ليس بصوت لا حقيقة ولا تجارا [مجموع الفتاوي 531/6-530]
اس صفت ”کلام“ پر قرآن کریم دلالت کرتا ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کئی آیتوں میں اپنے بندوں کو پکارنے کی خبر دی ہے ، جیسا کہ ارشاد ہے:
(اور ہم نے انہیں طور کے دائیں جانب سے پکارا ) اور ”نداء“ عربی زبان میں بلند آواز کو کہتے ہیں حقیقی یا مجازی کسی بھی طرح جس میں آواز نہ ہو اسے ”نداء“ نہیں کہا جاتا ۔

(2) عقل کی حقیقت و ماہیت کے سلسلہ میں لغت عرب کے ذریعہ فلاسفہ کی گمرہی بے نقاب کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ويراد بالعقل الغريزة التى جعلها الله تعالى فى الإنسان يعقل بھا . وأما أولئك ف العقل عندهم جوهر قائم بنفسه كالعاقل وليس هذا مطابقا للغة الرسل والقران [مجموع الفتاوي 231/11]
عقل سے مراد وہ طبعی و فطری صلاحیت ہے جسے اللہ نے انسان میں رکھا ہے جس سے وہ سمجھتا ہے لیکن فلاسفہ کے یہاں عقل ایک قائم بالذات جو ہر ہے جیسے عقلمند ، اور یہ بات رسولوں اور قرآن کریم کی زبان (عربی) کے مطابق نہیں ہے ! !

(3)زبان عربی کے ذریعہ صوفیوں اور وحدۃ الوجودیوں کی تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وأما قوله (وهو معكم) فلفظ (مع) لا تقتضي فى لغة العرب أن يكون أحد الشيقين مختلطا بالآخر كقوله تعالى ﴿اتقوا الله وكونوا مع الصادقين﴾ [مجموع الفتاوي 249/11]
رہا فرمان باری ”اور وہ تمہارے ساتھ ہے“ سے استدلال ، تو لفظ مع عربی زبان میں اس بات کا متقاضی نہیں ہے کہ دو چیزوں میں سے ایک دوسرے سے خلط ملط اور ملی ہوئی ہو ، جیسا کہ ارشاد ہے: (اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ )

(4) اسی طرح امامت علی رضی اللہ عنہ کی بابت رافضی ابن المطہر (یہ منہاج الکرامۃ فی معرفۃ الامامۃ ”کا مصنف حسین بن یوسف ابن المطہر جمال الذین الاسدی الحلی رافضی معتزلی ہے ۔ جس کی اور عمومی طور پر تمام روافض کی تردید میں شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے نو جلدوں پر مشتمل اپنی مایہ ناز بے مثال موسوعی كتاب ”منهاج السنة النبوية في نقض كلام الشيعة القدرية“ لکھی شیخ الاسلام رحمہ اللہ اس بد باطن کو ابن المنجس کہتے تھے ، اسی طرح اس کی کتاب ”منہاج الکرامۃ“ کے بارے میں کہتے تھے کہ وہ منہاج الندامتہ کہے جانے کی مستحق ہے ۔ [منهاج السنه النبوية 21/1 ، والوافي بالوفيات 13/7 ، و54/13] ) کی قرآنی دلیلوں میں سے تیسویں دلیل ﴿مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ ‎١٩‏ بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَّا يَبْغِيَانِ ‎٢٠‏ فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ‎٢١‏ يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ﴾ [الرحمن: 19۔ 22]
بحرین سے مراد: فاطمہ وعلی ، برزخ سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، اور لو لو اور مرجان سے مراد: حسن اور حسین رضی اللہ عنہم کو مراد لینے کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
أن تسمية هذين بحرين ، وهذا لؤلوا ، وهذا مرجانا ، وجعل النكاح مرجا أمر لا تحتمله لغة العرب بوجه ، لا حقيقة ولا مجازا ، بل كما أنه كذب على الله وعلى القرآن ، فهو كذب على اللغة [منهاج السنة النبوية 247/7]
ان دونوں (علی و فاطمہ ) کو سمندر ، اور حسن کو موتی اور حسین کو مرجان کا نام دینا اور نکاح کو مرج قرار دینا ، ایسی بات ہے کہ زبان عرب کسی بھی طرح اس کی متحمل نہیں ، حقیقی طور پر نہ ہی مجازی طور پر ، بلکہ یہ بات جس طرح اللہ اور اس کے رسول پر جھوٹ ہے اسی طرح زبان عرب پر بھی جھوٹ ہے ۔
اس لئے اعتراض بجا اور برمحل تو اس وقت ہوتا جب کسی بات کو زبان عرب کی موافقت کے بغیر ثابت کیا جاتا ، مثلاً یہ کہا جاتا کہ ”جاموس“ کو ”بقر“ کے حکم میں مانا درست نہیں ہے ، کیونکہ زبان عرب سے اس کی موافقت و تائید نہیں ہوتی ہے ! جبکہ یہاں مسئلہ اس کے برعکس ہے ، فلینڈ پر ۔
خلاصہ کلام اینکه زبان عرب سے استدلال نصوص شریعت کے فہم کی بنیاد اور اساس ہے جو ایک امر مطلوب ہے نہ کہ باعث عیب ۔ واللہ اعلم

تیسرا اشکال: (گائے اور بھینس میں مغایرت قسم نہ ٹوٹنے کا مسئلہ ):

ایک فقہی فرعی مسئلہ فقہاء حنفیہ نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے ، وہ یہ ہے کہ:
من حلف أن لا يأكل لحم البقر فأكل لحم الجاموس لا يكون حانثا ، وإن حلف بالطلاق لم تطلق زوجته بأكل لحم الجاموس [مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابیح 81/5 والبحر الرائق شرح كنز الدقائق 2/ 232 ، وآءينه تحقيق از مفتي فيض ص 35 ، وفتاوائے فيض ص 161]
جو یہ قسم کھائے کہ گائے کا گوشت نہیں کھائے گا ، پھر بھینس کا گوشت کھا لے تو اس کی قسم نہیں ٹوٹے گی ، اسی طرح اگر گائے کا گوشت کھانے پر بیوی کی طلاق موقوف کر دے تو بھینس کا گوشت کھانے سے بیوی کو طلاق نہیں ہوگی ۔
ازاله:
(1) پہلی بات یہ ہے کہ یہ مسلہ متفق علیہ نہیں ہے ، بلکہ فقہاء کی ایک جماعت نے اس کے بر خلاف قسم کی مذکورہ صورتوں میں حانث ہونے یعنی قسم ٹوٹ جانے کی صراحت فرمائی ہے ، بطور مثال ملاحظہ فرمائیں:
الف: علامہ ابن النجیم حنفی فرماتے ہیں:
ولو حلف لا يأكل لحم بقرة فأكل لحم الجاموس يحنث لا فى عكسه لأنه نوع لا يتناول الأعم [النهر الفائق شرح كنز الدقائق 3/ 79]
اگر کوئی قسم کھائے کہ گائے کا گوشت نہیں کھائے گا ، اور بھینس کا گوشت کھا لے تو حانث ہو جائے گا لیکن اس کے برعکس میں نہیں ، کیونکہ بھینس نوع ہے اعم کو شامل نہیں ہوگا ۔

ب: علامه داماد افندی حنفی مزید وضاحت سے فرماتے ہیں:
وفي الخانية: لو حلف أن لا يأكل لحم البقر فأكل لحم الجاموس أو بالعكس حيث ، قال بعضهم: لا يكون حانثا ، وقال بعضهم: إن حلف أن لا يأكل لحم
البقر فأكل لحم الجاموس حنث ، وبالعكس لا يحنث ، وهذا أصح
[مجمع الأنہرفی فى شرح ملتقى الأبحر 1 / 559]
خانیہ میں ہے کہ: اگر قسم کھائے کہ گائے کا گوشت نہیں کھائے گا ، اور بھینس کا گوشت کھا لے ، یا اس کے برعکس (یعنی بھینس نہ کھانے کی قسم کھا کر گائے کا گوشت کھا لے ) تو دونوں صورتوں میں حانث ہو جائے گا ، اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ حانث نہیں ہوگا ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ: اگر قسم کھائے کہ گائے کا گوشت نہیں کھائے گا ، اور بھینس کا گوشت کھالے تو حانث ہو جائے گا لیکن اس کے برعکس میں حانث نہیں ہوگا ، اور صحیح ترین بات یہی ہے ۔

ج: امام ابو محمد بغوی شافعی فرماتے ہیں:
ولو حلف لا يأكل لحم البقر ، فأكل لحم الجاموس يحنث [التہذيب فى فقه الامام الشافعي 127/8]
اگر قسم کھائے کہ گائے کا گوشت نہیں کھائے گا ، اور بھینس کا گوشت کھالے تو حانث ہو جائے گا ۔

د: امام احمد ابن الرفعہ فرماتے ہیں:
لو حلف لا يأكل لحم البقر ، فأكل لحم الجاموس ، حنث [كفايۃ التنبیہ فى شرح التنبيه 461/14]
اگر قسم کھائے کہ گائے کا گوشت نہیں کھائے گا ، اور بھینس کا گوشت کھالے تو حانث ہو جائے گا ۔

ھ: علامہ عبد الرحمن جزیری فرماتے ہیں:
وإذا حلف لا يأكل لحم بقر فإنه يحنث إذا أكله أو أكل لحم الجاموس [الفقه على المذاهب الأربعة 97/2]
اگر گائے کا گوشت نہ کھانے کی قسم کھائے تو گائے یا بھینس کا گوشت کھانے سے حانث ہو جائے گا ۔

(2) دوسری بات یہ ہے کہ جن علماء وفقہاء نے عدم حنث یعنی قسم نہ ٹوٹنے کی بات کہی ہے انہوں نے گائے اور بھینس میں مغایرت نہیں بلکہ مجانست ثابت کرتے ہوئے محض قسم کے باب میں عرف وعادت کے اعتبار سے کہی ہے ، چنانچہ بطور مثال اہل علم کی صراحت ملاحظہ فرمائیں:
الف: علامہ مرغینانی فرماتے ہیں:
والجواميس والبقر سواء ، لأن اسم البقر يتناولهما ، إذ هو نوع منه إلا أن أوهام الناس لا تسبق إليه فى ديارنا لقلته ، فلذلك لا يحنث به فى يمينه: لا يأكل لحم بقر ، والله أعلم [الہداية فى شرح بداية المبتدي 98/1]
بھینسیں اور گائیں برابر ہیں ، کیونکہ گائے کا نام دونوں کو شامل ہے ، اس لئے کہ بھینس اس کی نوع ہے ، البتہ ہمارے علاقہ میں بھینس کی قلت کے سبب لوگوں کے ذہن اس طرف نہیں جاتے ، اور اسی لئے گائے کا گوشت نہ کھانے کی قسم کھانے والا بھینس کا گوشت کھانے سے حانث نہیں ہوگا ، واللہ اعلم ۔

ب: علامہ ابن نجیم مصری حنفی فرماتے ہیں:
ولو حلف لا يأكل لحم بقرة لم يحنث بأكل لحم الجاموس لأنه ، وإن كان بقرا حتى يعد فى نصاب البقر ، ولكن خرج من اليمين يتعارف الناس [البحر الرائق شرح كنز الدقائق مع مخته الخالق وتكملة الطوري 348/4]
اگر قسم کھائے کہ گائے کا گوشت نہیں کھائے گا تو بھینس کا گوشت کھانے سے حانث نہیں ہوگا؟
کیونکہ گرچہ بھینس گائے ہے حتی کہ اسے گائے کے نصاب میں شمار کیا جاتا ہے لیکن لوگوں کے تعارف کے سبب وہ قسم سے خارج ہے ۔

ج: اسی طرح گائے اور بھینس کے حکم کی یکسانیت کے خلاف قسم کے باب میں حانث ہونے کا اعتراض رفع کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ولا يرد عليه ما إذا حلف لا يأكل لحم البقر فأكله فإنه لا يحنث كما فى الهداية لأن أوهام الناس لا تسبق إليه فى ديارنا لقلته ولهذا لو حلف لا يشتري بقرا فاشترى جاموسا يحنث بخلاف البقر الوحشي [البحر الرائق شرح كنز الدقائق 2/ 232 نيز ديكهئے: در احكام شرح غرر الأحكام 1 / 176]
اور اس پر یہ اعتراض وارد نہیں ہوتا کہ اگر کوئی قسم کھائے کہ گائے کا گوشت نہیں کھائے گا ، اور بھینس کھالے تو حانث نہیں ہوگا ، جیسا کہ ہدایہ میں ہے ، کیونکہ ہمارے ملک میں اس کی قلت کے سبب لوگوں کے خیالات اس طرف نہیں جاتے ۔ آگے لکھتے ہیں: اسی لئے اگر کوئی قسم کھائے کہ گائے نہیں خریدے گا اور بھینس خرید لے تو حانث ہو جائے گا ، بر خلاف وحشی گائے کے ۔

د: علامہ بدر الدین عینی حنفی لکھتے ہیں:
والجواميس والبقر سواء لأنها نوع منه ، فتتناولهما النصوص الواردة باسم البقر ، بخلاف ما إذا حلف لا يأكل لحم البقر ، حيث لا يحنث بأكل الجاموس ، لأن مبنى الأيمان على العرف وفي العادة أوهام الناس لا يسبق إليه [منحته السلوك فى شرح تحفة الملوك ص: 227 ، وتبيين الحقائق شرح كنز الدقائق 263/1 ، والبناية شرح الهداية 329/3]
بھینسیں اور گائیں برابر ہیں ، کیونکہ بھینس اس کی نوع ہے ، لہٰذا گائے کے نام سے وارد نصوص دونوں کو شامل ہیں ، برخلاف اس مسئلہ کے کہ اگر کوئی گائے کا گوشت نہ کھانے کی قسم کھالے تو بھینس کا گوشت کھانے سے حانث نہیں ہوتا ، کیونکہ قسمیں عرف پر مبنی ہوتی ہیں ، اور عام طور پر لوگوں کے ذہن بھینس کی طرف نہیں جاتے ۔

ھ: علامہ عبد الغنی ومشقی فرماتے ہیں:
والجواميس والبقر سواء لاتحاد الجنسية إذ هو نوع منه ، وإنما لم يحنث بأكل الجاموس إذا حلف لا يأكل لحم البقر لعدم العرف [اللباب فى شرح الكتاب 142/1]
جنس کی یکسانیت کی وجہ سے بھینسیں اور گائیں برابر ہیں ، کیونکہ بھینس اس کی ایک قسم ہے ، البتہ گائے کا گوشت نہ کھانے کی قسم کھا کر بھینس کے گوشت کھانے سے حانث اس لئے نہیں ہوا کہ عرف نہیں ہے ۔

(3) قسم کا باب دیگر ابواب مثلاًً عبادات وغیرہ کے ابواب سے مختلف ہوتا ہے ، یہی وجہ ہے اہل علم نے گائے اور بھینس کے حکم کی یکسانیت کے باوجود قسم کے باب میں اس مسئلہ کی علیحدہ خصوصی وضاحت فرمائی ہے کہ:
لأن مبنى الأيمان على العرف [منحته السلوك فى شرح تحفة الملوک ص: 227 ، والاختيار لتعليل المختار 67/4 وتبیين الحقائق شرح كنز الدقائق و ماشية الشلبی 263/1 ، والبناية شرح الہداية 3 / 329 ، و شرح السير الكبير ص: 814]
کیونکہ قسموں کی بنیاد (دارومدار ) عرف پر ہے ۔
چنانچہ علامہ ابو بکر زبیدی یمینی بڑی صراحت سے فرماتے ہیں:
(والجواميس والبقر سواء يعني فى الزكاة والأضحية واعتبار الربا أما فى الأيمان إذا حلف لا يأكل لحم البقر لم يحنث بالجاموس لعدم العرف وقلته فى بلادنا فلم يتناوله اليمين حتى لو كثر فى موضع ينبغي أن يحنث [الجوهرة النيرة على مختصر القدوري 118/1]
بھینسیں اور گائیں برابر ہیں ۔ یعنی زکاۃ قربانی اور سود کے اعتبار میں ، رہا مسئلہ قسموں کا کہ اگر: قسم کھائے کہ گائے کا گوشت نہیں کھائے گا ، تو بھینس کا گوشت کھانے سے حانث نہیں ہوگا ، تو یہ عرف نہ ہونے اور ہمارے ملک میں بھینس کی قلت کی وجہ سے ہے ، اس لئے قسم بھینسوں کو شامل نہ ہوا ، ہاں اگر کسی جگہ کثرت سے پائی جائیں تو حانث ہونا ہی مناسب ہے ۔

(4) اصول و ضوابط کی روشنی میں صرف صحیح کا شریعت میں اعتبار ہے ، چنانچہ استاذ دکتور محمد مصطفی الزحیلی ، عرف کی حجیت و حیثیت کے سلسلہ میں لکھتے ہیں:
يتفق الأئمة عمليا على اعتبار العرف الصحيح حجة ودليلا شرعيا . . . العرف الصحيح يعتبر دليلا شرعيا وحجة للأحكام عند فقد النص والإجماع ، وقد يقدم على القياس وإن الأحكام المبنية على العرف تتغير بتغير الأعراف [الوجيز فى أصول الفقه الاسلامي 1/ 266-269]
ائمہ عملی طور پر صحیح عرف کو حجت اور شرعی دلیل ماننے پر متفق ہیں ۔ نص اور اجماع کے فقدان کی صورت میں صحیح عرف احکام کے لئے شرعی دلیل اور حجت مانا جاتا ہے ، اور بسا اوقات اسے قیاس پر مقدم کیا جاتا ہے ۔ اور عرف پر مبنی احکام اعراف کے تبدیل ہونے سے تبدیل ہو جاتے ہیں ۔ واللہ اعلم

چوتھا اشکال: (اجماع سے استدلال):

محض اجماع کی بنیاد پر بھینس کو گائے کے جنس کی نوع قرار دینا درست نہیں ! اور بھینس کی قربانی پر اجماع کا دعوی محل نظر بلکہ قطعی غلط ہے تحقیقی بات یہ ہے کہ اس کی قربانی ناجائز ہے ! !
ازاله:
(1)محض اجماع کی بنیاد پر نہ تو بھینس کو گائے کی نوع قرار دیا گیا ہے ، نہ ہی قربانی ثابت کی گئی ہے ، بلکہ در حقیقت بھینس کے گائے کی نوع ہونے پر علما لغت ، علماء فقہ علماء حدیث اور علماء ، فتاوی کی واضح تصریحات موجود ہیں ، جیسا کہ گزر چکا ہے ، اور انہی بنیادوں پر گائے اور بھینس کے حکم کی یکسانیت پر علماء کا اجماع قرار پایا ہے ، اور تاریخ کے ادوار میں یکساں طور پر دونوں میں زکاۃ کا وجوب اور قربانی کا جواز رہا ہے ۔

(2)بھینس کی قربانی پر نہیں ، بلکہ بھینس اور گائے دونوں کے شرعی حکم کی یکسانیت پر انہی معتبر علماء کا اجماع ثابت ہے شریعت کے دیگر مسائل میں جن کے اجتماعات پر امت کا اعتماد و اعتبار رہا ہے ، جیسا کہ گذر چکا ہے ، اور زکاۃ و قربانی کے حکم میں تفریق کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔

(3)اجماع کوئی غیر مستند یا نا قابل اعتبار اور معمولی امر نہیں ہے ، بلکہ اجماع امت حق اور حجت شرعیہ ہے ، شریعت کے متفق علیہ مصادر میں سے ایک مصدر ہے ، اس کی اتباع کرنا اور اسے اپنانا واجب ہے ، اور اس کی حجیت عقل و منطق سے نہیں بلکہ خود دلائل شرعیہ سے ثابت ہے ، جیسا کہ اہل تحقیق نے تصریح فرمائی ہے ۔ [بطور مثال ديكهئے: معالم اصول الفقه عند اهل السنه والجماعه ، از محمد بن حسين جيزاني ، ص 182-184 ، نيز ديكهئے: الوجيز فى اصول الفقه الاسلامي از دكتور محمد مصطفي الزحيلي 1 / 227-236]

چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اجماع کی جیت کے سلسلہ میں فرماتے ہیں: جو ان علماء محققین میں سے ہے جنہوں نے گائے اور بھینس کا حکم یکساں بتلایا ہے اور اس سلسلہ میں امام ابن المنذر رحمہ اللہ کا اجماع بھی نقل فرمایا ہے ۔ [مجموع الفتاوي 37/25]
وأما إجماع الأمة فهو فى نفسه حق لا تجتمع الأمة على ضلالة [مجموع الفتاوی 176/19 ، و267/19 و 270/19]
رہا امت کا اجماع تو وہ بذات خود حق ہے ، امت گمراہی پر اکٹھا نہیں ہو سکتی ۔
نیز فرماتے ہیں:
معنى الإجماع: أن تجتمع علماء المسلمين على حكم من الأحكام ، وإذا ثبت إجماع الأمة على حكم من الأحكام لم يكن لأحد أن يخرج عن إجماعهم فإن الأمة لا تجتمع على ضلالة [مجموع الفتاوي 10/20]
اجماع کا معنی یہ ہے کہ مسلمانوں کے علماء احکام میں سے کسی حکم پر اکٹھا اور متفق ہو جائیں ۔ اور جب احکام میں سے کسی حکم پر امت کا اجماع ثابت ہو جائے تو کسی کے لئے ان کے اجماع سے نکلنے کا اختیار نہیں کیونکہ امت گمراہی پر اتفاق نہیں کرسکتی ۔
اسی طرح اجماع کی حجیت بیان کرتے ہوئے مزید فرماتے ہیں:
فعصم الله أمته أن تجتمع على ضلالة ، وجعل فيها من تقوم به الحجة إلى یوم القيامة ، ولهذا كان إجماعهم حجة كما كان الكتاب والسنة حجة [مجموع الفتاوي 368/3]
اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو ضلالت و گمرہی پر اکٹھا ہونے سے محفوظ رکھا ہے ، اور امت میں ایسے لوگوں کو رکھا ہے جن سے قیامت تک حجت قائم ہوتی رہے گی ، اور اسی لئے اُن کا اجماع اسی طرح حجت ہے جس طرح کتاب وسنت حجت ہیں ۔ اسی طرح غیر منازع اجماع کی مخالفت کی سنگینی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وهذه الآية أى ﴿ومن يشاقق الرسول . . .﴾ تدل على أن إجماع المؤمنين حجة من جهة أن مخالفتهم مستلزمة لمخالفة الرسول وأن كل ما أجمعوا عليه فلا بد أن يكون فيه نص عن الرسول ، فكل مسألة يقطع فيها بالإجماع وبالتقاء المنازع من المؤمنين فإنها مما بين الله فيه الهدى ، ومخالف مثل هذا الإجماع يكفر كما يكفر خالف النص البين [مجموع الفتاوي 38/7]
یہ آیت کریم (ومن یشاقق الرسول ۔ ۔ ۔ ) اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مومنوں کا اجماع اس حیثیت سے حجت ہے کہ ان کی مخالفت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کو مستلزم ہے ، اور یہ کہ ہر مسئلہ جس میں ان کا اجماع ہے ، اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی نص ہونا ناگزیر ہے ، لہٰذا ہر مسئلہ جس میں قطعی طور پر اجماع ہو اور مومنوں میں سے کوئی منازع نہ ہو ، وہ ان مسائل میں سے ہے جن میں اللہ نے ہدایت ظاہر فرمادی ہے ، اور اس جیسے اجماع کا مخالف ویسے ہی کافر ہو جائے گا جیسے واضح اور بین نص کا مخالف کافر ہو جائے گا !
اس لئے بھینس کے گائے کی نوع ہونے اور دونوں کے حکم کی یکسانیت پر امت کے علماء لغت عرب اور علماء شریعت مفسرین محدثین اور فقہاء و مجتہدین کا اجماع نا قابل تردید ہے اس کا رد و انکار ممکن نہیں ۔

(4) بھینس اور گائے کے اتحاد جنس اور حکم کی یکسانیت پر نقل کردہ علماء امت کے اجماع کے سلسلہ میں امام اہل السنتہ امام احمد رحمہ اللہ وغیرہ کے قول:
من ادعى الإجماع فهو كاذب (جو اجماع کا دعوی کرے وہ جھوٹا ہے ) [مسائل الامام احمد بروايت عبدالله بن احمد بن حنبل ص: 439 فقره: 1587]
سے بھی کوئی تشویش نہیں ہونی چاہئے ، کیونکہ امام موصوف رحمہ اللہ خود اجتماع کی حجیت اور اس کے ایک مصدر شریعت ہونے کے قائل تھے ، اور متعدد مسائل میں انہوں نے اجماع نقل بھی کیا ہے ، لہٰذا اس قول کا مقصود اجماع کی عدم حجیت ، یا استبعاد وجود نہیں ہے ، بلکہ اہل علم کی توضیحات کی روشنی میں اس قول کے حسب ذیل کئی محمل ہیں:
(1) یہ بات امام احمد رحمہ اللہ نے تورعاً و احتیاطاً کہی ہے ، یعنی اجماع کے سلسلہ میں محتاط ہونا چاہئے کیونکہ ہو سکتا ہے کوئی اختلاف ہو جس سے مدعی کو واقفیت نہ ہو ۔
(2) یہ بات ان لوگوں کے حق میں کہی ہے جنہیں مسائل میں سلف کے اختلافات کا صحیح اور وسیع علم نہ ہو ، لہٰذا اجماع نقل کرنے میں احتیاط و تثبت درکار ہے ، جیسا کہ اگلے جملے سے معلوم ہوتا ہے ، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لعل الناس اختلفوا ما يدريه ، ولم ينته إليه؟ فليقل: لا نعلم الناس اختلفوا
شاید لوگوں نے اختلاف کیا ہو ، اسے علم نہ ہو ، اسے وہاں تک رسائی نہ ہو سکی ہو؟ لہٰذا یہ کہنا چاہئے: کہ ہمیں معلوم نہیں کہ اس میں لوگوں کا اختلاف ہے ۔ [إعلام الموقعين عن رب العالمين 24/1 ، و 175/2 ومختصر الصواعق المرسلۃ على الجہمية والمعطلية ص: 611 نيز ديكهئے: مجموع الفتاوي 271/19 ، و 136/33 ، وامنح الثافيات بشرح مفردات الامام أحمد 24/1]
(3) امام احمد اور دیگر علماء حدیث رحمہم اللہ کا سابقہ بشر ، ابن حلیہ اور ان جیسے دیگر اہل کلام اور عقلانیوں سے تھا جو احادیث کے خلاف لوگوں کے اجماع بیان کر کے احادیث کو رد کیا کرتے تھے لہٰذا انہوں نے واضح کیا کہ یہ دعوی جھوٹا ہے ، اور اس قسم کی باتوں سے سنتیں رد نہیں کی جاسکتیں ۔ اس کا مقصد اجماع کے وجود کا استبعاد نہیں ہے ، واللہ اعلم ۔ [مختصر الصواعق المرسلية على الجہمية والمعطلة ص: 612 ، والفتاوي الكبري لابن تيمية 6/ 286 ، نيز ديكهئے: معالم اصول الفقه عند اهل السنة والجماعۃ ، ازمحمد حسین جيزاني ص 169-170]

پانچواں اشکال: (بھینس کی عجمیت اور لغت عرب کا تعارض ):

بھینس کے لئے ”الجاموس“ کا لفظ عربی نہیں ہے اور بھینس عرب کا جانور بھی نہیں ہے لہٰذا اس کی حقیقت و ماہیت کے لئے لغت عرب سے استدلال درست نہیں ، عربوں کو عجمی جانور (بھینس) کے بارے میں کیا معلوم ہو سکتا ہے؟
ازاله:
(1) بلاشبه لفظ ”الجاموس“ عربی لفظ نہیں بلکہ فارسی معرب ہے ، اور قرآن کو سنت میں کہیں وارد نہیں ہوا ہے لیکن اس کے علاوہ دیگر متعدد الفاظ جو اصلا غیر عربی ہیں لیکن قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں ۔ چنانچہ امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے سلف سے نقل کیا ہے کہ قرآن کریم میں متعدد زبانوں کے غیر عربی الاصل الفاظ بھی ہیں ، اور یہی بات واقع کے مطابق بھی ہے ، چنانچہ فرماتے ہیں:
عن أبى ميسرة ، قال: فى القرآن من كل لسان [تفسير الطبري 14/1]
ابو میسرہ کہتے ہیں: کہ قرآن میں ہر زبان کے الفاظ ہیں ۔
ان الفاظ کے معانی و مفاہیم کے لئے لغت عرب ہی استدلال کیا جاتا ہے ، تو لفظ ”الجاموس“ ہی سے آخر کیا بیر ہے کہ اس کی ماہیت کے لئے لغت عرب سے احتجاج درست نہیں ہے؟
اختصار کے پیش نظر صرف ایک مثال پر اکتفا کرتا ہوں:
معرب فارسی لفظ ”الجاموس“ کی طرح قرآن کریم میں وارد لفظ ”سجیل“ بھی فارسی زبان کا لفظ ہے اور ”گاؤ میش“ کی طرح دو فارسی الفاظ کا ایک معرب لفظ ہے ، جیسا کہ مفسرین نے علماء لغت عرب سے نقل کیا ہے ، چنانچہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سجيل وهى بالفارسية حجارة من طين ، قاله ابن عباس وغيره . وقال بعضهم: أى من سنك وهو الحجر ، وكل وهو الطين [تفسير ابن كثير 340/4 ، وتفسیر الطبري 14/1 نيز ديكهئے: جامع فيروز اللغات ص: 1100 ۔ 813]
”سجیل“ فارسی لفظ ہے جس کے معنی گارے کے پتھر کے ہیں ، یہ بات ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ نے کہی ہے ، اور بعض نے کہا ہے کہ یہ فارسی لفظ ”سنگ وکل“ یعنی ”سنگ وگل“ (پتھر اور گیلی مٹی ، گارا) سے معرب ہے ۔

اور ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:
أنهما كلمتان بالفارسية ، جعلتهما العرب كلمة واحدة ، وإنما هو سنج وحل يعني بالسنج: الحجر ، والحل الطين [تفسير ابن كثير تحقيق سامي سلامتة 487/8]
یہ دونوں فارسی الفاظ ہیں جنہیں عربوں نے ایک لفظ بنا دیا ہے ، دراصل یہ ”سنگ اور گل“ ہے ، سنگ کے معنی پتھر اور گل کے معنی گارا اور گیلی مٹی ہے ۔
اور ”سجیل“ کے بارے میں یہ ساری باتیں تمام علماء لغت کے یہاں موجود ہیں ، جہاں سے علماء مفسرین نے اخذ فرمایا ہے ، چنانچہ ابن منظور دمشقی لکھتے ہیں:
معرب دخيل ، وهو سنك وكل أى حجارة وطين . . . وقال أهل اللغة: هذا فارسي والعرب لا تعرف هذا . . . ومن كلام الفرس ما لا يحصى مما قد أعربته العرب نحو جاموس وديباج [لسان العرب 327/11 نيز ديكهئے تهذيب اللغه 10 / 309 والمنتخب من كلام العرب ص: 600 ، ومجمل اللغۃ بن فارس ص: 487 ، والحكم والمحيط الأعظم 274/7 والكلمات ص: 520 ص: 959 ، وتاج العروس 29/ 179 ، والابائنۃ اللغة العربية 1 / 102]
”سجیل“ غیر عربی لفظ ہے ، جسے عربی زبان میں ڈھالا گیا ، اور وہ ہے سنگ اور گل ، یعنی پتھر اور گارا ۔ ۔ ۔ اور اہل لغت نے کہا ہے کہ یہ فارسی لفظ ہے ، عرب اسے نہیں جانتے ہیں ۔ اور فارسیوں کے بے شمار الفاظ ہیں جنہیں عربوں نے عربی زبان میں ڈھالا ہے ، جیسے ”جاموس“ بھینس اور ”دیباج“ (ریشم)۔
اسی طرح ”مقالید“ بھی فارسی لفظ ہے جس کے معنی کنجی کے ہیں ۔ [تفسير ابن كثير 112/7]
نیز ”المرجان“ بھی فارسی لفظ ہے ، جس کے معنی سرخ منکے کے ہیں ۔ [تفسير ابن كثير 493/7]
اسی طرح قرآن کریم میں دیگر زبانوں کے متعدد معرب الفاظ مستعمل ہیں ، مثلا مشكاة ، الیم ، الطور ، أباريق ، استبرق ، القسطاس ، الغساق وغیره ۔ [في التعريب والمعرب معروف بحاشيه ابن بري ص: 20 نيز ديكهئے: دراسات فى فقه الغته ص: 316: اور عجمي زبانوں كے الفاظ كي تعريب اور اس كي مزيد مثالوں كي وضاحت كے لئے ملاحظه فرمائيں: ال، خصص 221/4 -224]

(2) رہا مسئلہ یہ کہ عربوں کو عجمی جانور (بھینس) کے بارے میں کیا معلوم ہوگا؟ تو واضح رہے کہ عرب یا عربی ہونا الگ بات ہے اور ماہر لغت عرب ہونا الگ بات ہے ، چنانچہ علم لغت عرب کی مہارت اور اصول لغت میں گیرائی ایک غیر عربی یعنی عجمی کو بھی ہوسکتی ہے ، ضروری نہیں کہ لغت عرب کا ماہر عربی الاصل والنسل ہی ہو ، اور الحمد اللہ علماء لغت کی ایک تعداد ایسی بھی ہے جو اصل ونسل کے اعتبار سے عجمی ہونے کے باوصف زبان عرب میں ماہر فن ہی نہیں بلکہ امامت کا درجہ رکھتی ہے ، لہٰذا ایک طرف وہ عجمی ہونے کے سبب ”گاؤ میش“ (بھینس) کی اصلیت و ماہیت سے بھی اچھی طرح واقف ہیں اور دوسری طرف لغت عرب میں امامت کے سب ”گاؤ میش“ کی تعریب ”الجاموس“ اور اس کے جنس ”بقر“ (گائے ) کی نوع اور نسل ہونے سے بھی آگاہ ہیں ، بطور مثال بعض ائمہ لغت عرب کے اسماء گرامی ملاحظہ فرمائیں ، جو عجمی الاصل والنسل ہیں ، اور عرب و عجم سے خوب واقف ہیں:
(1) ادیب لغوی علامہ ابو منصور محمد بن احمد بن الازہر بن طلحہ بن نوح بن الا زہر بن نوح بن حاتم الازہری الہروی الشافعی رحمہ اللہ [282-370 هـ مطابق 895-980] ان کی ولادت خراسان کے علاقہ ہرات میں ہوئی ، آغاز میں فقہ کی طرف توجہ تھی ، پھر عربی زبان و ادب کے علم کا شوق غالب ہوا ، چنانچہ اس کے حصول میں کئی سفر کئے ، قبائل اور ان کے احوال کے سلسلہ میں وسیع علم حاصل کیا ، بیع الآخر میں ہرات ہی میں ان کی وفات ہوئی ۔
ان کی مشہور تصانیف میں تہذیب اللغۃ ہے جو دس زیادہ جلدوں پر محیط ہے ، اسی طرح التقريب فى التفسير ، الزاہر فى غرائب الالفاظ ، علل القراءات ، وكتاب فى اخبار يزيد بن معاویہ وغیرہ بکتابیں ہیں ۔ [معجم المولقين از عمر رضا كحاله 230/8]

(2) نحو ، لغت ، اشعار ، عرب کے حادثات و وقائع اور ان سے متعلقہ امور کے عالم ، علامہ ابو الحسن علی بن اسماعیل اندلسی ، مرسی معروف ہه ابن سیده (نابینا) رحمہ الله [398 – 458 مطابق 1007-1066]
آپ کی ولادت (اسپین کے شہر ) مرسیہ میں ہوئی ، اور چھبیس ربیع الاآخر کو دانیہ میں وفات پائے ۔
آپ کی مشہور تصانیف میں ”المحکم والمحیط الاعظم في الغة العرب“ جو حروف معجم کی ترتیب سے بارہ جلدوں پر محیط ہے ، اسی طرح الانیق فی شرح الحماسة ، الوافی فی علم القوافی ، شرح الطلاق المنطق ، وكتاب العالم فی اللغۃ ، وغیرہ ہیں ۔ [معجم المؤافين 7/ 36]

(3) معروف لغوی اور دیگر علوم کے ماہر علامہ ابو الطاہر مجد الدین محمد بن یعقوب بن محمد بن ابراهیم فیروز آبادی شیرازی شافعی رحمہ اللہ [729 – 817 ھ 1329 -1414]
آپ کی ولادت (ایران کے شہر) کازرون میں ہوئی اور وہیں پرورش پائے ، پھر شیراز (ایران کے صوبہ فارس کا ایک شہر) منتقل ہوئے اور وہاں اپنے والد اور شیراز کے دیگر علماء سے عربی زبان و ادب کا علم حاصل کیا ، اور پھر عراق جاکر وہاں کے علماء سے علم حاصل کیا ، پھر قاہرہ تشریف لے گئے اور وہاں کے علماء سے علم حاصل کیا ، اسی طرح روم ، ہندوستان و غیر بھی تشریف لے گئے ، پھر زبید گئے اور وہاں بیس سال گزار دیا ، اور بیس شوال کی شب میں وہیں آپ کی وفات ہوئی ۔
آپ کی مشہور تصانیف میں القاموس المحیط والقابوس الوسیط اور البلاغتہ فی ترجمۃ ائتہ النحاة واللغۃ وغیرہ ہیں ۔ [معجم المؤلفين 118/12]

(4) معروب ادیب ، لغوی ، خوشخط علامہ ابو نصر اسماعیل بن حمد جو ہری فارابی رحمہ اللہ [وفات 393ھ مطابق 1003]
یه اصلا ملک ترک کے علاقہ فاراب (موجودہ کزاخستان کا ایک شہر) کے ہیں ، پھر عراق کا سفر کیا اور وہاں ابو علی فارسی اور ابو سعید سیرافی سے عربی پڑھا ، پھر حجاز کا سفر کیا ، وہاں ربیعہ اور مضر وغیرہ کے علاقوں کی سیر کی ، اور حصول علم میں سخت جانفشانی کا ثبوت دیا ، اور خراسان واپس لوٹ آئے ، پھر وہاں سے نیسابور چلے گئے ، اور عمر کے آخری مرحلہ تک وہیں تدریس ، تصنیف اور کتابت وغیرہ میں مشغول رہے ، یہاں تک کہ وہیں وفات پائے ۔
آپ کی مشہور تصانیف میں: ستاج اللغۃ وصحاح العربية ، کتاب المقدمة فی النحو ، اور کتاب فی العروض ، وغیرہ ہیں ۔ [معجم المؤلفین 2/ 267]
الحاصل اینکہ یہ لغت عرب کے ماہرین میں جو غیر عرب ہیں ، اور ان علاقوں کے ہیں جہاں بھینس پائی جاتی تھیں ، لہٰذا انہیں جاموس اور بقر میں یکسانیت اور اتحاد جنس کا بخوبی علم ہے اور ان کی تصریحات بلاشبہ معتبر ہیں بالخصوص جب کہ اس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ۔ واللہ اعلم

چھٹا اشکال: (تعارض بین اللغة والشرع ):

علماء لغت نے بھینس کو گائے کی جنس کی ایک نوع کہا ہے لیکن شریعت میں بھینس کا ذکر نہیں ہے ، لہٰذا لغت اور شریعت میں تعارض ہے ، اور ایسی صورت میں شریعت کو مقدم کیا جائے گا اور لغت کے مدلول کو رد کر دیا جائے گا ! !
ازاله:

(1) شریعت میں بھینس کے لفظ کا ذکر نہیں ہے ، البتہ البقر یعنی گائے کا ذکر موجود ہے اور اس میں کسی بھی نوع ونسل ، رنگ و شکل اور نام ولقب کی تحدید نہیں ہے ، بلکہ بقر عام ہے ، اب باعتبار لغت و شرع جس پر بھی بقر کا اطلاق ہو وہ اس حکم میں داخل ہے ۔

(2) ”لغت و شرع کے مابین اختلاف و تعارض اور ترجیح وتقدیم“ کا مذکور د قائد مسلم ہے ، اس سے ادنی اختلاف نہیں لیکن زیر بحث مسئلہ میں صورت حال بالکل بر عکس ہے ، یعنی لغت و شرع میں اختلاف و تعارض نہیں ، بلکہ بالکلیہ مطابقت اور یکسانیت ہے ، اور الحمدللہ بھینس کے گائے کی نوع ہونے کے سلسلہ میں جو تصریحات بلا اختلاف علماء لغت نے کی ہیں ، بعینہ وہی تصریحات علماء شرع مفسرین محدثمین ، فقہاء امت اور ائمہ اجتہاد و فتاوی نے کی ہیں ، اور سلف امت کی تاریخ کے ادوار میں بھینس اور گائے کا حکم شرعی مسائل زکاة و قربانی میں یکساں رہا ہے ۔ اگر واقعی کہیں لغت و شرع کا تعارض ہوتا تو امناء شریعت سے کہیں نہ کہیں ضرور نقل کیا جاتا اور کتابوں میں مندرج و مسبحوت ہوتا ۔ واللہ اعلم

ساتواں اشکال: (بقر کا اطلاق و تقیید ):

بھینس کی قربانی جائز نہیں ، کیونکہ بھینس مطلق گائے نہیں ہے ، بلکہ اسے عربی میں ”ضان البقر“ اور فارسی میں گاؤ میش کہتے ہیں ، جس کی تعریب ”جاموس“ سے کی گئی ہے جبکہ قربانی کے لئے بلا قید مطلق گائے ہونا ضروری ہے ! !
ازاله:

(1) شرعی احکام میں الفاظ و مبانی سے زیادہ مدلولات و معانی کا اعتبار ہے ، گائے کی نوع بھینس کا انکشاف ہونے کے بعد اسے دیکھ کر عربوں نے ظاہری شباہت کے اعتبار سے جو نام دیا وہ مطلق ہے یا مقید ، شریعت کو اس سے بحث نہیں ہے ، یہ تو تسمیہ و تلقیب سے تعلق رکھتا ہے ،
اصل مطلو ب تو مسمٰی بہ ، اس کی حقیقت اور حکم ہے ، بحث اس امر سے ہے کہ اس جانور پر علماء شریعت نے جو حکم منطبق کیا وہ کیا ہے؟ اور تصریحات گزر چکی ہیں کہ علماء امت نے مطلق اور مقید دونوں ناموں کی گایوں کا حکم یکساں رکھا ہے ۔

(2) نام کے اطلاق و تقیید کا یہ نکتہ سلف امت کے سامنے بھی تھاکیونکہ انہوں نے اس مقید نام کی خود صراحت کی ہے اور ساتھ ہی گائے اور بھینس کا حکم یکساں قرار دیا ہے ، کما تقدم لٰہذا نام کے مطلق و مقید ہونے کا اعتبار نہیں ، اس سے حکم متاثر نہیں ہوتا ۔

(3) جس طرح گائے کی نوع بھینس کو عربوں نے ”ضان البقر“ کا مقید نام دیا ہے ، اسی طرح اونٹ وغیرہ دیگر انواع کو بھی انہوں نے ”ضان“ سے مقید نام دیا ہے ، مثلاًً بختی اونٹ کو ”ضان الابل“ کہتا کرتے تھے ، جیسا اہل علم نے صراحت کی ہے ، حیوانات کی حقیقت و ماہیت اور ان کے انواع و اقسام اور نسلوں کے ماہر علامہ جاحظ بصری فرماتے ہیں:
والجواميس عندهم ضأن البقر ، والبخت عندهم ضأن الابل، والبراذين عندهم ضأن الخيل [الحيوان 100/1 و 244/5]
بھینسیں ان کے یہاں گائے مینڈھا بختی ان کے یہاں اونٹ مینڈھا اور ٹٹوان کے یہاں گھوڑ امینڈھائیں ۔
اسی طرح علامہ عبد اللہ بن قتیبہ دینوری عیون الاخبار میں لکھتے ہیں:
ويقال: الجواميس ضأن البقر ، والبحث ضأن الإبل ، والبراذين ضأن الخيل … [عيون الأخبار 2/ 87]
بھیسوں کو گائے مینڈھا بختی (خراسانی) اونٹوں کو اونٹ مینڈھا اور ٹٹوؤں کو گھوڑا مینڈھا کہا جاتا ہے ۔ ۔ ۔
بعینہ یہی بات ”العقد الفرید“ میں علامہ محمد احمد المعروف بابن عبدربہ نے بھی کہی ہے ۔ [العقد الفريد 263/7]
علامہ ابو الفضل احمد بن محمد میدانی نیسا بوری فرماتے ہیں:
والأفراس عند العرب معز الخيل ، والبراذين ضأنها ، كما أن البُحْتَ ضأن الإبل والجواميس ضأن البقر [مجمع الأمثال 2/ 48]
عربوں کے یہاں فرس ”گھوڑا بکری“ اور ٹٹو ”گھوڑا مینڈھا“ ہیں ، جس طرح بختی اونٹ
”اونٹ مینڈھا“ اور بھینسیں ”گائے مینڈھا“ ہیں ۔

علامہ شہاب الدین احمد بن عبد الوہاب النویری فرماتے ہیں:
والبحتى كالبغل ، ويقال: البحث ضأن الإبل ، وهى متولدة عن فساد منى العراب [نهاية الارب فى فنون الأدب 10/ 109 نيز ديكهئے: الاحكام فى اصول الاحكام لابن حر م 7/ 133]
بختی اونٹ خچر کی طرح ہوتے ہیں ، اور بختی اونٹوں کو اونٹ مینڈھا کہا جاتا ہے ، جو عربی النسل اونٹ کی فاسد منی سے پیدا ہوتے ہیں ۔
ان تصریحات سے معلوم ہوا کہ بختی اونٹ بھی نام کے اعتبار سے مطلق اہل (اونٹ) نہیں ہیں ، بلکہ مقید اونٹ ہیں جنہیں عرب ”ضان الابل“ کہتے ہیں ۔ اور بختی کی زکاۃ اور قربانی میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں تو بھینس بھی ضان البقر ہے ، اس میں بھی زکاۃ اور قربانی میں کسی طرح کا کوئی اشکال نہیں ہونا چاہئے ! !
جس طرح ناموں کی تقیید اونٹ کی انواع میں زکاۃ اور قربانی کے حکم کو متاثر نہیں کرتی اسی
طرح بھینس کا مقید نام بھی زکاۃ قربانی کی مشروعیت پر اثر انداز نہ ہو گا ۔ واللہ اعلم

آٹھواں اشکال: (نبی صلى الله عليه وسلم اور صحابہ سے بھینس کی قربانی کا عدم ثبوت ):

بھینس کی قربانی جائز نہیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھینس کی قربانی نہیں کی ہے ۔
ازاله:

(1) کیا بھینس کی قربانی کے جواز کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسے عملاً انجام دینا ضروری ہے ، خواہ اس کے اسباب میسر ہوں یانہ ہوں؟ کیا شریعت کے نصوص اور ان کے بارے میں شرعی اصولوں کی رو شنی میں سلف امت کا فہم اور عمل کافی نہیں؟ اگر کافی ہے تو اشکال زائل ہو جاتا ہے ، اور اگر کافی نہیں ، تو کیا بھینس کا گو شت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ سے کھانا ثابت ہے؟ یا اس کی زکاۃ لینا ثابت ہے؟ کیا قربانی کے جانوروں کی دنیا میں پائی جانے والی تمام قسموں اور نسلوں کی قربانی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ سے ثابت ہے؟ یا اونٹ ، گائے اور بکریوں کی تمام انواع کی زکاۃ لینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ سے ثابت ہے؟ یا ان کا گو شت کھانا ثابت ہے؟ ظاہر ہے کہ ان سوالات کے جوابات نفی میں ہیں ۔
اور یہی وجہ ہے کہ ہم بھینس کی قربانی کو جائز کہتے ہیں ، مسنون نہیں کہتے ، اور دونوں باتوں میں نمایاں فرق ہے ، جیسا کہ پو شیدہ نہیں ۔
(2) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے بھینس کی قربانی نہ کرنے یا زکاۃ لینے یا اس کا گو شت نہ کھانے کے عدم ثبوت کا سبب یہ نہیں ہے کہ وہ ان کے یہاں موجود اور فراہم تھی لیکن ناجائز ہونے کے سبب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ نے اس کی قربانی نہیں کی ، بلکہ معاملہ یہ تھا کہ وہ نسل ہی ان کے یہاں موجود و متعارف تھی ، اور جب موجود ہوئی تو ہمارے سلف جو موجود تھے انہوں نے اسے گائے ہی سمجھا کسی کا اختلاف بھی منقول نہیں جس کا اس بات سے اتفاق نہ ہو بلکہ اجماعی طور پر گائے اور بھینس دونوں سے یکساں واجب ذکاۃ لی گئی اور قربانی کی گئی ۔
یہی وجہ ہے کہ جب علامہ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے بھینس کی قربانی کے بارے میں پوچھا: گیا تو انہوں نے فرمایا:
”بھینس گائے ہی کی ایک قسم ہے ، اور اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں صرف ان چیزوں کو بیان کیا ہے جو عربوں کے یہاں معروف تھیں ، ۔ ۔ ۔ اور بھینس اہل عرب کے یہاں معروف نہ تھی ۔ “ [مجموع فتاوي در سائل ابن يمين 34/25] واللہ اعلم ۔

نواں اشکال: (بھینس کی قربانی عبادات میں اضافہ ہے ):

قربانی عبادت ہے ، اس کے جانور متعین میں اس میں بھینس کانام نہیں ہے لہٰذا بھینس کا اضافہ کرنا عبادت میں اضافہ کرتا ہے ، اور یہ جائز نہیں ، اس کی مثال ویسی ہی ہے جیسے کوئی نماز کی متعینہ رکعات میں اضافہ کر دے وغیر ہ ، جس کی گنجائش نہیں ۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
باب القربات يقتصر فيه على النصوص ، ولا يتصرف فيه بأنواع الأقبسة والآزاء [تفسير ابن كثير 465/7]
قربتوں (عبادات) کے باب میں نصوص پر اکتفاکیا جائے گا مختلف قیاسات اور آراء کے ذریعہ اس میں تصرف نہیں کیا جائے گا ۔
نیز اس بات کو حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ سے علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی نقل فرمایا ہے ۔ [موسوعه الاکباني فى العقيده 42/9 نيز ديكهئے: احكام الجنائز ص: 173-174]
ازاله:

(1) قربانی بلاشبہہ عبادت ہے اور اس کے جانور طے شدہ ہیں جو آٹھ ازواج میں ، اونٹ ، گائے ، بکرا ، اور مینڈھا (مذکر و مونث) اور بھینس بھی گائے ہے جو عرب کے علاوہ دوسرے علاقوں میں پائی جاتی تھی ، اور گائے منصوص ہے ، اسی طرح بختی اور دیگر قسمیں بھی اونٹ میں داخل ہیں ، نیز بکریوں کی دیگر نسلیں بھی بکری میں شامل ہیں ۔ یہ قربانی کے جانور میں اضافہ نہیں ، بلکہ دنیا میں پائی جانے والی انہی جانوروں کی نسلیں ہیں ، انہیں اضافہ کہنا زیادتی اور بے جا شدت ہے ، کیونکہ اس کا معنی یہ ہے کہ صرف حجاز مقدس مکہ و مدینہ ہی کی نسلوں کی قربانی جائز ہے ، دیگر علاقوں کی نہیں شریعت اسلامیہ میں اس تحدید اور پابندی کی کوئی دلیل نہیں ! !
قربانی کے جانوروں میں اضافہ اس وقت ہوتا اور کہا جاتا جب مذکورہ چاراجناس کے علاوہ کسی پانچویں جنس کے جانور کو قربانی میں شامل کیا جاتا ! !

(2) قربانی کے سلسلہ میں بہیمتہ الانعام کی تفسیر میں مفسرین ، شارحین حدیث ، اور فقہاء و مجتہدین نے آٹھ ازواج کی وضاحت فرمائی ہے اور اس کے سواد دیگر جانوروں کی قربانی کے عدم جواز و اجزاء کی تصریح فرمائی ہے اور دیگر جانوروں کی مثال میں انہوں نے وحشی گائے ، گدھے اور ہرن وغیر ہ کانام بتلایا ہے ، ہمارے محدود علم کے مطابق کسی نے بھی مثال میں بھینس کو پیش نہیں کیا ہے ، اسی طرح گائے کی دیگر قسموں اور اونٹ کے دیگر انواع بخاتی وغیرہ کو پیش نہیں کیا ہے ، کہ یہ ثمانیہ ازواج پر اضافہ ہیں اور قربانی عبادت ہے ، اس میں اضافہ کرناجائز نہیں ، لہٰذا بھینس اور بخاتی وغیرہ کی قربانی نا جائز ہے ! !
یہ اس بات کی دوٹوک دلیل ہے کہ ان چاروں کے علاوہ کسی پانچویں جنس کا اضافہ قربانی جیسی عبادت میں رائے پرستی اور من مانی اضافہ ہو گا ، ر میں ان کی قسمیں اور نسلیں تو وہ بدیہی طور پر ان میں داخل ہیں ، الا یہ کہ استثناء کی کوئی مستند دلیل ہو ۔ واللہ اعلم

(3) جنس و نوع کا حکم یکساں ہے ، بھینس کو گائے کی جنس سے مانا عبادت میں من مانی اضافہ نہیں ، چنانچہ علامہ البانی رحمہ اللہ تعالیٰ جنہوں نے حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کا قول باب القربات يقتصر الخ نقل فرمایا ہے ، انہوں نے خود بھینسوں میں زکاۃ کا فتوی دیا ہے ، چنانچہ علامہ رحمہ اللہ کے شاگرد شیخ حسین بن عودۃ العوایشہ نقل فرماتے ہیں:
وسئل شيخنا – رحمه الله -: هل فى الجاموس زكاة؟ فأجاب: نعم فى الجاموس زكاة لأنه نوع من أنواع البقر [الموسوعة الفقہية المیسرۃ فى الكتاب والسنة المطهرة بمبين وايه 76/3]
ہمارے شیخ – علامہ البانی رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا: کیا بھینس میں زکا ت ہے؟ تو آپ نے جواب دیا: جی ہاں بھینس میں زکاۃ ہے ، کیونکہ وہ گائے کی قسموں میں سے ایک قسم ہے ۔
مولف کتاب شاگرد رشید شیخ حسین عوایشہ نے مقدمہ میں وضاحت کیا ہے کہ ”شیخنا“ (ہمارے شیخ) سے مراد علامہ البانی رحمہ اللہ ہیں لکھتے ہیں:
وقد رجعت لشيخنا الألباني – شفاه الله تعالى وعافاه – فى كثير من المسائل ، فاستفدت منه ، وأنسْتُ برأيه ، فجزاه الله عني وعن المسلمين خيراً [الموسوعة الفقہية الميسرة فى فقه الكتاب والسنة المطهرة 6/1]
میں نے شیخ البانی – اللہ انہیں شفا اور عافیت دے ۔ سے بکثرت مسائل میں رجوع کیا ، آپ سے استفادہ کیا اور آپ کی رائے سے خوش ہوا اللہ تعالیٰ آپ کو میری اور مسلمانوں کی طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے ۔

دسواں اشکال: (بعض اہل علم کے احتیاطی فتاوے ):

بھینس کی قربانی جائز نہیں ، یہی وجہ ہے کہ علماء اہل حدیث نے اس سلسلہ میں احتیاط کا فتوی دیا ہے ۔
ازاله:

(1) جمہور علماء امت نے بھینس کو گائے کی نوع قرار دیا ہے ، بلکہ دونوں کے اتحاد حکم پر امت کا اجماع منقول ہے ، اور گائے کی طرح بھینس میں بھی زکاۃ واجب اور قربانی جائز ہے ، احتیاط کی بات ہمارے علم کے مطابق سب سے پہلے شیخ الحدیث علامہ عبید اللہ الرحمانی مبارکپوری رحمہ اللہ نے ”مرعاۃ المفاتیح“ میں کہی ہے ، اور پھر اسی بنیاد محقق کبیر حافظ زبیر علیزئی اور دیگر لوگوں نے احتیاط کے فتوے صادر کئے ہیں ۔
لیکن واضح رہے کہ شیخ الحدیث رحمہ اللہ کے ”احتیاط“ کا معنی عدم جواز نہیں ، بلکہ جواز ہے ،
جیسا کہ آپ نے آگے قربانی کرنے والوں پر عدم ملامت کی صراحت فرمائی ہے ۔ نیز جواز کی وضاحت اور تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ علامہ رحمہ اللہ نے دوسری جگہ گاؤ میش بھینس کی قربانی کے مطلق جواز کا فتوی دیا ہے ۔ [جيسا كه دسويں فصل ميں ذكر كيا جا چكا هے ، ديكهئے: فتاوي شيخ الحديث مباركپوري رحمه الله ، جمع و ترتيب: فواز عبد العزيز عبيد الله مباركپوري ، 2 / 400-402 ، دار الا بلاغ لاهور نيز ديكهئے: فتويٰ حافظ صلاح الدين يوسف ص: 161]
(2) احتیاط کا فتویٰ قدرے محل نظر ہے ، کیونکہ نقطہ بحث یہی ہے کہ بھینس گائے کی جنس سے ہے یا نہیں؟ اب اگر ہے تو جائز ہے ، ورنہ ناجائز ، درمیان میں احتیاط کا کوئی محل نہیں ہے ۔

چنانچہ حافظ ابویحییٰ نور پوری لکھتے ہیں:
پھر یہ احتیاط والی اس لئے بھی عجیب سی ہے کہ اگر بھینس گائے نہیں تو اس کی قربانی سرے جائز ہی نہیں ، اور اگر یہ گائے ہے تو اس کی قربانی بالکل جائز ہے ، اس میں کوئی درمیانی راستہ تو ہے ہی نہیں ۔ [بهينس كي قرباني ، از فضيلة الشيخ حافظ ابويحيي نور پوري ، نائب مدير ماهنامه السنته جهلم ص: 7]

(3) احتیاط کہنا بذات خود عدم جواز سے عدم اطمینان کا غماز ہے ، ورنہ اطمینان ہو تو عدم جواز کی صراحت سے کوئی چیز مانع نہیں ہے ۔ واللہ اعلم

ثانیاً: عوامی شبہات

پہلا شبہہ: (قربانی کے جانور آٹھ ازواج میں دس نہیں ):
بھینس کی قربانی جائز نہیں ، کیوں قربانی کے مشروع جانور آٹھ ازواج میں ، اگر بھینس کو شامل کیا جائے گا تو یہ تعداد دس ہو جائے گی ، لٰہذا بھینس کو قربانی کا جانور شمار کرنا کتاب اللہ پر زیادتی کرتا ہے جو سراسر باطل اور غلط ہے ۔
ازاله:

(1) ان آٹھ ازواج سے ان کی جنسیں مراد ہیں ، جیسا کہ ائمہ لغت ، مفسرین قرآن ، شارحیں حدیث اور فقہ و اجتہاد اور فتاوی کے علماء کی تصریحات کی رو شنی میں یہ بات گزر چکی ہے ، لہٰذا ان اجناس کی قسمیں اور نسلیں اس میں شامل ہیں ، ان سے تعداد میں اضافہ نہیں ہو گا بلکہ وہ انہی آٹھ ازواج میں شامل ہوں گی جیسا کہ اونٹ کی بختی اور عراب وغیرہ قسموں اور اسی طرح گائے کی عراب جوامیس اور دربانیہ وغیر قسموں اور نسلوں میں سلف امت کا طریقہ رہا ہے ، کہ بلاتفریق تمام انواع اور نسلوں میں زکاۃ اور قربانی کرتے رہے ہیں ، کسی نے اسے اضافہ نہیں سمجھا ۔
(2) ہاں اگر ان چار جنس کے جانوروں (مونث سمیت آٹھ ازواج) کے علاوہ کوئی پانچویں جنس کی قربانی کی جائے گی تو تعداد آٹھ کے بجائے دس ہو جائے گی ، جو ناجائز ہو گی ، مثلاً ہرن ، جنگلی گائے ، اور گدھے وغیرو ، جیسا کہ علماء مفسرین ومحمدثین نے مثالوں سے واضح کیا ہے ۔

دوسر اشبہه: (جفتی کا مسئلہ ):

بھینس کی قربانی جائز نہیں ، اور بھینس گائے کی جنس سے بھی نہیں ، کیونکہ گائے بیل کی جفتی سے بھینس پیدا نہیں ہوتی ! !
ازاله:

(1) بار بایہ بات ذکر کی جاچکی ہے کہ بھینس گائے کی ایک قسم اور ایک عجمی نسل ہے جو فارس اور افریقہ وغیرہ میں پائی جاتی تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا ظاہری حلیہ بھی عام گایوں سے مختلف ہے ، تو ظاہر ہے کہ جس نوع کے نر و ماندہ میں جفتی کرائی جائے گی اسی نوع کا بچہ پیدا ہوگا ، اسی لئے عام گائے بیل کی جفتی سے عام گائے بیل پیدا ہوں گے ، اور بھینس بھینسے کی جفتی سے کٹے پیدا ہوں گے ، نہ اس جفتی سے کٹے پیدا ہوں گے ، نہ ہی اس جنتی سے عام گائے کا بچہ پیدا ہوگا ۔ ہاں اگر دونوں کی مختلط جفتی کرائی جائے تو بختی اونٹوں کی طرح ایک تیسری نسل مخلوط پیدا ہوگی ۔ اس کی واضح مثال نوع انسان ہے کہ انسان ہونے میں ساری دنیا کے انسان مشترک ہیں ، لیکن علاقائی اور نسلی طور پر قد و قامت حلیہ اور رنگت وغیر مختلف ہے ، اب ظاہر ہے کہ عربی النسل یاسفید فام مرد و عورت سے افریقی حلیہ و ہیکل ، شکل وصورت ، قد و قامت اور رنگت کے سیاہ فام بچے پیدا نہیں ہوں گے ، بلکہ عربی شکل و حلیہ ہی کے پیدا ہوں گے ، اسی طرح اس کے بر عکس۔ [الايه كه نزع عرق كا كوئي معامله هو ، جيسا كه حديث آگے آ رهي هے] لیکن اس اختلاف کے باوصف سب نوع انسانی کا حصہ ہیں ، کسی کو انسانی نوع سے خارج نہیں کیا جا سکتا ! !
(2) جفتی کے اس مسئلہ سے شرعی حکم پر کوئی اثر نہیں پڑتا ، جب تک کہ جانور آٹھ ازواج سے خارج نہ ہو ، اس کی عمدہ وضاحت کے لئے امام شافعی رحمہ اللہ کا یہ قول بغور ملاحظہ فرمائیں: ولو نزا كبش ماعزة ، أو تيس ضائنة فتتحت كان فى نتاجها الصدقة لأنها عتم كلها وهكذا لو نزا جاموس بقرة ، أو ثور حاموسة ، أو يخني عربية ، أو عربي بختية كانت الصدقات فى نتاجها كلها؛ لأنها بقر كلها ، ألا ترى أنا نصدق البحت مع العراب وأصناف الإبل كلها ، وهى مختلفة الخلق ونصدق الجواميس مع البقر والدربانية . مع العراب وأصناف البقر كلها وهى مختلفة ، والصان ينتج المعز وأصناف المعز ، والضأن كلها؛ لأن كلها غنم وبقر وإبل [الأم الشافعي 20/2]
اگر مینڈھا بکری کو جفتی کرے ، یا بکرا مینڈھی کو ، اور بچے پیدا ہوں تو اس میں زکاۃ ہو گی ، کیونکہ یہ سب بکرے ہیں ، اسی طرح اگر بھینسا گائے کو جفتی کرے یا بیل بھینس کو یا بختی عربیہ کو ، یا عربی بختیہ کو ، تو ان تمام کی پیداوار میں زکاۃ ہو گی ؛ کیونکہ یہ سب گائیں میں ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ ہم عربی اونٹوں اور اونٹ کی تمام انواع کے ساتھ بختی اونٹوں کی بھی زکاۃ ادا کرتے ہیں ، حالانکہ وہ ساخت اور حلیہ و ہیکل میں مختلف ہوتے ہیں ، اور عربی ، در بانیہ اور گائے کی دیگر تمام قسموں کے ساتھ بھینسوں کی بھی زکاۃ دیتے ہیں ، حالانکہ وہ مختلف ہوتے ہیں ، اور مینڈھا جس سے بکری اور بکریوں کی بہت سی قسمیں پیدا ہوتی ہیں ، سارے مینڈھوں کی زکاۃ نکالتے ہیں ، کیونکہ یہ سب کے سب بکریاں ، گائیں اور اونٹ ہی ہیں ۔
اس لئے جفتی کے پہلو سے مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ واللہ اعلم

تیسراشبہہ: (بھینس کی قربانی اور مقلدین کی مشابہت ):

بھینس کی قربانی جائز نہیں ، مقلدین احناف کے یہاں بھینس کی قربانی جائز ہے ، اسے جائز قرار دینے سے ان مقلدین کی موافقت لازم آتی ہے ۔
ازاله:

(1) بھینس کی قربانی کا مسئلہ صرف مقلدین احناف کانہیں بلکہ مسالک اربعہ کے علماء وائمہ سمیت سلفاً وخلفاً تمام ائمہ مجتهدین ، وعلما فقه و فتاوی اور جمہور امت کا ہے ، جنہوں نے متفقہ طور پر بھینس کو گانے کی جنس سے مانا ہے ، اور ہر دور میں گائے کے نصاب اور شرائط کے مطابق اس کی زکاۃ لی جاتی رہی ہے ، اور قربانی ہوتی رہی ہے ، اور یہی بات دلائل ، اقوال اور تعلیمات کی رو شنی راجح اور درست ہے ، اس مسئلہ میں اختلاف محض کم و بیش ایک دوصدی پیشتر سے رونما ہوا ہے ۔
(2) رہا مسئلہ احناف یا دیگر مقلدین کی موافقت یا مشابہت کا ، تو ظاہر ہے کہ یہ منہج اہل حدیث کے سراسر خلاف ہے ، ہمارا منہج یہ ہے کہ ہم دلیل کے ساتھ رہیں ، اور حق کے سوا کسی کے لئے تعصب نہ کریں ، اور الحمداللہ سلفیت و اہل حدیثیت محض حنفیت یا مقلدین مخالفت کانام نہیں ہے ۔ چنانچہ محدث العصر علامہ البانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
ندور مع الدليل حيث دار ولانتعصب للرجال ، ولاننحاز لأحد إلا للحق كمانراه ونعتقده [التوسل أنواعه وأحكامه ص: 43 ، وموسوعة الألباني فى العقيد: 3/ 606]
ہم دلیل کے ساتھ چلتے ہیں ، وہ جہاں بھی جائے ، ہم لوگوں کے لئے تعصب نہیں کرتے ، نہ ہی کسی کے لئے ادھر ادھر مائل ہوتے ہیں ، سوائے حق کے ، جیسا ہم اسے دیکھتے یا اس کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔
اسی طرح سماحتہ الشیخ علامہ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أما مسائل الخلاف فمنهجي فيها هو ترجيح ما يقتضي الدليل ترجيحه والفتوى بذلك سواء وافق ذلك مذهب الحنابلة أم خالفه لأن الحق أحق بالاتباع [مجموع فتاوي ابن باز 166/4]
اختلافی مسائل میں میرا منہج یہ ہے کہ بتقاضائے دلیل جو بات ترجیح کی مستحق ہو ، اسے ترجیح دوں ، اور اسی کا فتویٰ دوں ؛ خواہ وہ حنابلہ کے مسلک کے موافق ہو یا مخالف ؛ کیونکہ حق اپنی پیروی کا زیادہ سزاوار ہے ۔ واللہ اعلم

چوتھا شبہہ: (بھینس اور گائے کی شکل وصورت اور مزاج میں فرق):
بھینس کی قربانی جائز نہیں ، اور وہ گائے کی جنس سے نہیں ہو سکتی ، کیونکہ دونوں میں ظاہری و معنوی طور پر کئی فروق ہیں ، مثلاً اس کا رنگ شکل و صورت ، مزاج و طبیعت وغیرہ ، کہ گائے پانی سے بھاگتی ہے ، جبکہ بھینس پانی اور کیچڑ میں رہنا پسند کرتی ہے ۔
ازاله:

(1) جب لغوی و شرعی طور پر بھینس کا گائے کی جنس سے ہونا ، اور شرعی مسائل میں پوری امت کے اجماع سے دونوں کے حکم کی یکسانیت متحقق ہے ، تو ان ظاہری و معنوی فروقی سے اس کے حکم پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ، کیونکہ اصل مسئلہ اجناس بہیمۃ الانعام میں سے
ہونے نہ ہونے کا ہے ۔

(2) سلف امت کے تمام علوم وفنون کے علماء جنہوں نے دونوں کے اتحاد جنس اور شرعی حکم میں یکسانیت کا فیصلہ کیا ہے ، وہ دونوں کے ظاہری طبعی فروق سے بخوبی واقف ہیں ، اور اس کے باوجود انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہے ، جیسا کہ ان کی کتابیں اور تحریر میں دلالت کناں ہیں ، اور اس فیصلہ میں کسی کا اختلاف و اعتراض منقول نہیں ہے ۔ لہٰذا ان تمام پہلوؤں کے واضح ہونے کے بعد ظاہری فروق کا مسئلہ باعث تشویش نہیں رہ جاتا ۔

(3) اتحاد جنس متحقق ہو جانے کے بعد ظاہری فروق قربانی سے مانع نہیں ، ورنہ بکری کی جنس کے تحت بھیڑ ، دنبہ وغیرہ بھی ہیں اور ان کی شکلوں میں نمایاں فرق ہے ، اسی طرح خود گایوں اور بیلوں کے بکثرت رنگ اور شکلیں ہیں جو حصر سے باہر ہیں ، [ملخص 2/ 266 ۔ وتاج العروس 58/13 ، ولسان العرب 4/ 575] چنانچہ علامہ ابن حزم
رحمہ اللہ اس شبہہ کا ازالہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وقد قال بعض الناس البحت ضأن الإبل والجواميس ضأن البقر ، وقد رأينا الحمر المريسية وحمر الفجالين وحمر الأعراب المصامدة نوعا واحدا و بينها
من الاختلاف أكثر مما بين الجواميس وسائر البقر وكذلك جميع الأنواع
[الاحكام فى أصول الأحكام لابن حزم 7 / 132]
بعض لوگوں نے کہا ہے کہ بختی ”اونٹ مینڈھا“ ہیں اور بھینسیں ”گائے مینڈھا“ ہیں ، حالانکہ ہم نے مریسی گدھوں ، فجالیوں کے گدھوں اور مصمدی (بربری ) قبائل کے دیہاتیوں کے گدھوں کو ایک ہی نوع شمار کیا ہے ، جبکہ ان کے درمیان جو اختلاف ہے وہ بھینسوں اور بقیہ گایوں کے مابین اختلاف اور اسی طرح تمام قسموں سے کہیں زیادہ ہے ۔
نیز محدث العصر علامہ عبد القادر حصاروی شیخ الحدیث مبارکپوری رحمہما اللہ کی تحریر پر تبصرہ
کرتے ہوئے رکھتے ہیں:
”۔ ۔ ۔ رہا مولانا کا یہ فرمان کہ جائے اور بھینس کے حلیہ اور شکل میں تفاوت ہے ہو یہ شبہ اہل حدیث کو بھی ہو سکتا ہے کہ بکری ، بکرا اور بھیڑ ، دنبہ ، چھتر اسب کو کھڑا کر کے انصاف کر لیں کہ ان کے حلیہ اور شکل میں زمین آسمان کا فرق ہے اور شرعاًً بھی فرق ہے کہ قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ: الإجماع على أنه يجزئ الجذع من الضأن وأنه لا يجزئ جزع من المعز یعنی اس بات پر علماء کا اجماع ہے کہ قربانی میں بھیڑ کا جذعہ کفایت کر جائے گا اور بکری کا جذعہ کفایت نہ کرے گا ۔“
جب ان کی شکل اور حلیہ اور حکم شرعی میں تفاوت ہے تو پھر زکوۃ اور قربانی میں ان کو برابر
اور ایک جنس کیوں قرار دیا گیا ہے ۔ [فاوي حصار يه ومقالات علميه ، از محقق العصر عبد القادر حصاروق 457/5] واللہ اعلم

(4) اگر بالفرض گائے بیل کی جفتی سے بھینس کی شکل و ہیکل اور رنگت کا بچہ پیدا ہو جائے تو کیا اس کی قربانی بھی محض اس لئے جائز نہیں ہوگی کہ اس کی شکل و صورت گائے بیل بیسی نہیں ہے بلکہ کٹے (بھینس کے بچے) کی ہے؟ ؟
ظاہر ہے کہ جواب نفی میں ہو گا ، کیونکہ ظاہری فرق سے حکم نہیں بدلے گا ، اس لئے کہ وہ گائے
بیل ہی کا بچہ ہے ، اگر چہ شکل وصورت مختلف ہے ۔ اس بات کو بلا تبصرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حسب
ذیل ایک حدیث سے سمجھیں:
عن أبى هريرة ، قال: جاء رجل من بني فزارة إلى النبى صلى الله عليه وسلم فقال: إن امرأتي ولدت غلاما أسود ، فقال النبى صلى الله عليه وسلم: ”هل لك من إبل؟ قال: نعم ، قال: ”فما ألوانها؟ قال: حمر ، قال: ”هل فيها من أورق؟ قال: إن فيها لورقا ، قال: فأنى أتاها ذلك؟ قال: عسى أن يكون نزعه عرق ، قال: وهذا عسى أن يكون نزعه عرق [صحيح البخاري ، كتاب الطلاق ، باب إذا مرض بهي الولد 7 / 53 ، مديث 5305 ، صحيح مسلم كتاب اطلاق ، باب انقضاء عدة المتوفى عنهباز و جهاد غير با بوضع اعمل 2/ 1137 حديث 1500 الفاظ مسلم كے ہيں]
حضرت ابوہریر ورضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ قبیلہ بنو فزارہ کا ایک شخص نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا کہنے لگا: میری بیوی نے سیاہ فام بچہ جنا ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟ “ اس نے کہا: ہاں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”ان کے رنگ کیا ہیں؟“ کہا: سرخ ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا اس میں کوئی اونٹ مٹیالا سیاہ بھی ہے؟ “ اس نے جواب دیا: اس میں بہت سے سیاہ ہیں ، آپ نے پوچھا: ”سرخ اونٹوں میں یہ سیاہ کہاں سے آگئے؟ “ ، اس نے کہا: شاید کسی رگ نے کھینچ لیا ہو گا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہو سکتا ہے اس بچے کو بھی کسی رگ نے کھینچ لیا ہو ۔“ ! !

پانچواں شبہہ: (بھینس کو گائے پر قیاس کیا گیا ہے ):

بھینس کی قربانی کے جواز کی بنیاد گائے پر قیاس ہے ، جو احناف کی دلیل ہے ، جبکہ بھینس
کو گائے پر قیاس کرنا درست نہیں ۔
ازاله:

(1) بھینس کو گائے پر قیاس نہیں کیا گیا ہے علماء احناف نے بھی قیاس نہیں کیا ہے ، بلکہ بھینس متفقہ طور پر جنس گائے کی ایک نوع ہے ، جیسا کہ تفصیلات گزر چکی ہیں اور علماء احناف نے بھی بھینس کو گائے کی جنس سے کہا ہے ، جیسا کہ کتابوں میں جابجا اس کی صراحت
موجود ہے ۔

(2) دراصل گائے اور بھینس کے سلسلہ میں اہل علم کی کتابوں میں متعد د الفاظ اور تعبیرات استعال کی گئی ہیں مثال کے طور پر:
(1) نوع من البقر (2)جنس من البقر (3) صنف من البقر (4) ضرب من البقر (5) ومن البقر الجاموس (6) ومنه الجاموس (7) کالبقر (8) الحق بالبقر
(9) بمنزلة البقر (10) قیاسا على البقر ، يا بالقياس على البقر وغیرہ
لیکن سب سے زیادہ جو تعبیر استعمال کی گئی ہے وہ نوع ، اور اس کے ہم معنی الفاظ جنس ، صنف ، ضرب ، وغیرہ ہیں ، اس کے برخلاف الحاق ، بمنزلہ اور قیاس کا لفظ نادر ہی استعمال کیا گیا ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل تعبیر کے مطابق بھینس گائے کی نوع ہے ، البتہ تساہل یا تعبیر کا اختلاف ان سے ہوا ہے جنہوں نے ”قیاس“ کا لفظ استعمال کیا ہے ، اور یہی بات قابل اعتماد ہے ۔ چنانچہ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ بھینس میں زکاۃ کی فرضیت کا سبب ”قیاس“ قرار دینے والوں کی تردید فرماتے ہوئے اور گائے کی نوع ثابت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وهذا شغب فاسد؛ لأن الجواميس نوع من أنواع البقر ، وقد جاء النص بإيجاب الزكاة فى البقر ، والزكاة فى الجواميس لأنها بقر؛ واسم البقر يقع عليها ولولا ذلك ما وجدت فيها زكاة [الاحكام فى اصول الاحكام لابن حوم 7 / 132]
یہ بہت بری بات ہے ؛ کیونکہ بھینسیں گائے کی قسموں میں سے ایک قسم ہیں ، اور گائے میں زکاۃ کے وجو ب پر نص موجود ہے ، اور بھینسوں میں زکاۃ اس لئے ہے کہ وہ گائیں ہیں ؛ اور ان پر گائے کا نام واقع ہے ، اگر ایسانہ ہوتا تو بھینسوں میں زکاۃ نہ ہوتی ۔
اسی طرح محدث العصر عبد القادر حصاری فرماتے ہیں:
بھینس کو بہیمۃ الانعام میں شمار کرنا قیاس نہیں ہے ، قرآنی نص بہیمۃ الانعام کا لفظ عام ہے جس کے لئے بھی افراد ہیں ِ گائے بکری وغیرہ تو بھینسں بھی بہیمتہ الانعام کا ایک فرد ہے ، بہیمتہ الانعام کی قربانی منصوص ہے تو بھینس کی قربانی بھی نص قرآنی سے ثابت ہو گئی ۔ [فتا دي حصاريه و مقالات علميه ، تصنيف محقق العصر حضرت مولانا عبد القادر حصاري رحمه الله 446/5 ، ناشر مكتبه اصحاب الحديث لا ہوں] واللہ اعلم ۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1