بھینس کی قربانی پر اختلافات اور دلائل کا تجزیہ
تحریر: عنایت اللہ مدنی حفظہ اللہ

عدم جواز کے بعض استدلالات کا سرسری جائزہ

یوں تو اشکالات اور شبہات کے ازالہ کے ضمن میں عدم جواز سے متعلق بہت کچھ باتیں آگئی ہیں ، لیکن اہمیت کے پیش نظر یہاں مزید چند باتیں عرض خدمت ہیں:
(1) قرآن مجید میں بہیمۃ الانعام کی چار قسمیں بیان کی گئی ہیں ، دنبہ ، بحری اونٹ ، گائے ۔ بھینس ان چار میں نہیں ، اور قربانی کے متعلق حکم ہے بہیمۃ الانعام سے ہو ۔ اس بنا پر بھینس کی قربانی جائز نہیں ، ہاں زکاۃ کے مسئلہ میں بھینس کا حکم گائے والا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ یاد رہے بعض مسائل احتیاط کے لحاظ سے دو جہتوں والے ہوتے ہیں اور عمل احتیاط پر کرنا پڑتا ہے ۔
ام المؤمنین سودہ رضی اللہ عنہا کے والد زمعہ کی لونڈی سے زمانہ جاہلیت میں عتبہ بن ابی وقاص نے زناکیا ۔ لڑکا پیدا ہواجو اپنی والدہ کے پاس پرورش پاتارہا ۔ زانی مرگیا ، اور اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص کو وصیت کر گیا کہ زمعہ کی لونڈی کا لڑکا میرا ہے اس کو اپنے قبضہ میں کر لینا ۔ فتح مکہ کے موقع پر سعد بن ابی وقاص نے اس لڑکے کو پکڑ لیا اور کہا یہ میرا بھتیجا ہے ۔ زمعہ کے بیٹے نے کہا یہ میرے باپ کا بیٹا ہے ۔ لہٰذا میرا بھائی ہے ، اس کو میں لوں گا ۔
مقدمہ دربار نبوی میں پیش ہوا تو نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
الولد للفراش وللعاهر الحجر “ (مشکوۃ باب اللعان فصل اول)
یعنی اولاد بیوی والے کی ہے اور زانی کے لئے پتھر ہے ۔ یعنی وہ ناکام ہے اور اس کا حکم سنگسار کیا جانا ہے ۔
بچہ سودہ کے بھائی کے حوالہ کر دیا جو حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کا بھی بھائی بن گیا ۔ لیکن سودہ رضی اللہ عنہا کو حکم فرمایا اس سے پردہ کرے ، کیونکہ اس کی شکل وصورت زانی سے ملتی جلتی تھی جس سے شبہ ہوتا تھا کہ یہ زانی کے نطفہ سے ہے اس مسئلہ میں شکل وصورت کے لحاظ سے تو پردہ کا حکم ہوا اور جس کے گھر میں پیدا ہوا ، اس کے لحاظ سے اس کا بیٹا بنا دیا ۔ گو یا احتیاط کی جانب کو ملحوظ رکھا ۔ ایسا ہی بھینس کا معاملہ ہے اس میں بھی دونوں جہتوں میں احتیاط پر عمل ہو گا ۔ زکاۃ ادا کرنے میں احتیاط ہے اور قربانی نہ کرنے میں احتیاط ہے ، اس بنا پر بھینسے کی قربانی جائز نہیں اور بعض نے جو یہ لکھا ہے کہ ”الجاموس نوع من البقر“ یعنی بھینس گائے کی قسم ہے یہ بھی اسی
زکوۃ کے لحاظ سے صحیح ہو سکتا ہے ، ورنہ ظاہر ہے کہ بھینس دوسری جنس ہے ۔ [فتاويٰ اهلحديث مجتهد العصر حافظ عبدالله محدث روپڑي رحمه الله 426/2 ۔ ]
عبداللہ امرتسری رو پڑی (4 / ذی الحجہ 1383ھ 17 اپریل 1964ء )
جائزه:

(1) بھینس میں زکاۃ کے وجو ب اور اس کی قربانی کے جواز کا پور ا مسئلہ صرف اسی نکتہ پر موقوف ہے کہ آیا وہ گائے کی جنس سے ہے یانہیں؟ اور زکاۃ اور قربانی دونوں ہی مسائل عبادت کے ہیں ، اب اگر جنس سے ہے تو اس کا حکم گائے جیسا ہے ، خواہ مسئلہ زکاۃ کا ہو یا قربانی کا ، اور اگر بھینس گائے کی جنس سے نہیں ہے ، تو اس کا حکم گائے جیسا نہیں ہے ، خواہ مسئلہ زکاۃ کا ہو یا قربانی کا ۔ اس لئے زکاۃ اور قربانی میں تفریح یعنی زکاۃ میں بھینس کو گائے کی جنس سے ماننا اور قربانی میں نفی کرنا ، محتاج دلیل اور نا قابل تسلیم ہے ، تا آنکہ دلیل آ جائے ۔ [فتاوي حصار يه 5 / 456-457 فتوي محدث كبير علامه عبد الجليل سامرودي ص 152]

(2)بھینس گائے کی جنس سے اس کی نوع ہے ، جیسا کہ علماء لغت اور فقہ وفتاوی کا اجماع نقل کیا جا چکا ہے لہٰذا اسے گائے کی جنس سے خارج کرنا مستند دلیل کا متقاضی ہے ۔ [فتاوي الدين الخالص ، از ابو محمد امين الله پشاور ي 394/6]

(3) بھینس اگر گائے کی قسم نہیں بلکہ دوسری جنس ہے ، تو زکاۃ کے لحاظ سے اس کا گائے کی بنس سے ہونا کیونکر صحیح ہے؟ بالفاظ دیگر ”نوع من البقر“ کی صحت کو عبادات ہی کے دو ابواب زکاۃ اور قربانی میں سے صرف زکاۃ کے باب میں محدود کرنا مستقل دلیل کا متقاضی ہے ، کیونکہ بھینس کے گائے کی نوع ہونے کے ساتھ ساتھ دونوں کے حکم کی یکسانیت پر اجماع ثابت ہو چکا ہے ۔

(4) اس دو جہتی احتیاط کے پہلو میں قربانی کے عدم جواز میں بظاہر یہ اندیشہ ملحوظ ہے کہ اگر بھینس بہیمۃ الانعام میں سے نہ ہوئی تو قربانی ہی نہ ہوگی ، اور زکاۃ کے وجوب میں یہ نظریہ ملحوظ ہے کہ اگر بھینس بہیمۃ الانعام میں سے بھی ہوئی تو اللہ کی راہ میں بطور مال صرف ہوگی اور اس پر بھی اجر مرتب ہوگا ۔
لیکن گائے اور بھینس کے متحد الجنس و الحکم ہونے کے ساتھ ساتھ یہاں یہ پہلو بھی اوجھل نہ ہونے پائے کہ مذکورہ احتیاط میں قربانی کا مسئلہ علی الراجح زیادہ سے زیادہ سنت موکدہ ہے ، جبکہ زکاۃ بلا اختلاف فرض ہے ، لہٰذا قربانی کے عدم جواز واجزاء سے کہیں زیادہ اس بات کی فکر مندی کی ضرورت ہے کہ انسان کہیں ایک غیر واجب کو بلا دلیل واجب قرار دینے کا مرتکب نہ ہو کہ یہ شارع کا حق ہے ۔ واللہ اعلم

(5) زمعہ کی لونڈی سے زنا والے واقعہ میں جس احتیاط کا پہلو ذکر کیا گیا ہے ، وہ بظاہر زیر بحث موضوع کی نوعیت سے مطابقت نہیں رکھتا ، کیونکہ گائے اور بھینس کا ہم جنس ہونا اور دونوں کا حکم یکساں ہونا علماء امت یہاں نہایت واضح اور یقینی ہے ، جبکہ زمعہ کی لونڈی کے واقعہ کی نوعیت مختلف ہے ، اسی طرح یہاں معاملہ سراپا عبادت کا ہے اور وہاں دیگر ۔

(6) بالفرض اگر اسے دو جہتی احتیاط کی مثال کے طور پر تسلیم بھی کیا جائے ، تو زمعہ کی لونڈی کے فیصلہ میں بھائی ثابت قرار دینے کے باوجود مائی سودہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پردہ کرنے کا حکم دیا تھا ، اس کا زانی کے بھائی سعد کی مشابہت کی بنا پر احتیاطی ہونا حتمی اور یقینی
نہیں بلکہ محتمل ہے ، کیونکہ سمنن نسائی کی صحیح روایت میں واقعہ اس طرح مروی ہے:
عن عبد الله بن الزبير ، قال: كانت لزمعة جارية يطؤها هو ، وكان يظن باخر يقع عليها ، فجاءت بولد شبه الذى كان يظن به ، فمات زمعة وهى حبلى ، فذكرت ذلك سودة لرسول الله صلى الله عليه وسلم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الولد للفراش ، واحتجبي منه يا سودة فليس لك بأخ [سنن النسائي کتاب الطلاق ، باب الحاق الولد بالفراش إذا لم ينفه صاحب الفراش 6 / 180 ، حديث 3485 ۔ نيز ديكهئے: السنن الكبرى اللنسائي 5/ 288 حديث 5649 ۔ حافظ ابن حجر رحمه الله نے اسے حسن قرار ديا ہے ، فتح الباري لابن حجر 12 / 37 اور علامه الباني رحمه الله نے اسے صحيح سنن النسائي 3484 ميں صحيح قرار ديا ہے ۔ نيز ديكهئے: جامع الأصول 732/10 وجمع الفوائد من جامع الأصول ومجمع الزوائد 172/2 حديث 4451]
عبد الله بن زبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ زمعہ کی ایک لونڈی تھی جس سے وہ خود مباشرت کرتے تھے ، اور کسی دوسرے کے بارے میں بھی گمان تھا کہ وہ اس سے صحبت کرتا ہے ، جب بچہ پیدا ہوا تو اسی شخص کے مشابہ تھا جس کے بارے میں گمان کیا جار ہا تھا ، اور لونڈی ابھی حالت حمل میں ہی تھی کہ زمعہ کی وفات ہو گئی ، بالآخر مسئلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یار کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بچہ تو بستر والے کا ہے ، اور سود وہ تم اس سے پردہ کرو ، کیونکہ یہ تمہارا بھائی نہیں ہے ۔“
چنانچہ اس روایت میں صراحت ہے کہ بچہ سودہ کا بھائی نہیں ہے ، اور ایسی صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سودہ کو پردہ کا حکم دینا بطور احتیاط نہیں بلکہ بطور وجو ب ہوگا ۔
اس بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وعلى هذا فيتعين تأويله وإذا ثبتت هذه الزيادة تعين تأويل نفي الأخوة عن سودة [فتح الباري لابن حجر 37/12]
اور اس بنیاد پر اس کی توجیہ کرنا طے ہے ، اور جب یہ اضافہ ثابت ہو گیا تو سودہ سے بھائی ہونے کی نفلی یقینی ہو گئی ۔
اس کے علاوہ محدثین نے اور بھی توجیہات کی ہیں ۔ خلاصہ کلام اینکہ مسئلہ میں احتمالات ہیں احتیاط کی بات حتمی نہیں ۔ واللہ اعلم

(7) بعض نے جو یہ لکھا ہے کہ ”الجاموس نوع من البقر“ یعنی بھینس گائے کی قسم ہے یہ بھی اسی زکوة کے لحاظ سے صحیح ہو سکتا ہے ۔ یہ تعبیر اس بات کی غماز ہے کہ بھینس کو نوع من البقر کہنے والا کوئی شاذ و نادر یا اکاد کا لوگ ہیں ! جبکہ معاملہ ایسا نہیں بلکہ اس پر تمام علماء لغت کا اجماع ہے ، اسی طرح مسالک اربعہ کے علماء وفقہاء اور دیگر علماء امت نے بھی اسی بات کی صراحت کی ہے کہ بھینس گائے کی نوع ہے ۔ واللہ اعلم

بھینس نہ بقر میں داخل ہے دضان میں بلکہ اطلاقا و عرفا ہر طرح سے مطلق بقر اور مطلق ضان سے متضاد ہے ، ماہر اصول فقہ صاحب نور الانوار ملاجیون رحمہ اللہ اپنی مایہ ناز کتاب تفسیر احمدی (ص 402,401) میں لکھتے ہیں:
لا ینبغى أن أن يتوهم أنه (الجاموس) داخل فى البقر ، لأنه حينئذ لا يظهر وجه إدخال الجاموس فى البقر وذكر المعز على حدة من الضأن على أن البقر مغاير للجاموس إطلاقا كما أن الضأن مغاير للمعز كذلك . وإنما لم يذكر لفظ الغنم مع أنه كان عاما لهما وكان أخصر فى البيان زيادة رد على الكفار المعتقدين حرمتهما ، وأما أصناف الإبل من البخت والعراب فإنما هي داخلة تحت الإبل المطلقة لأنها من أصنافها فلا احتياج إلى ذكرها على حدة فتأمل [التفسيرات الاحمديه ص: 276 277 طبع مكتبة الشركة 1904ء]
فاضل مفسر اپنی اس تفسیر سے ان تمام لوگوں کے وہم کا ازالہ کر رہے ہیں جو بھینس کو گائے کی نوع کہہ کر گائے میں داخل کر رہے ہیں اور یہ وہم بھی دور کر رہے ہیں کہ بخت اور عراب کو اونٹ میں داخل کرتے ہیں تو کیوں بھینس کو گائے میں داخل نہیں مانتے ہیں ۔ اس تفسیر میں فاضل اصولی ملاجیون رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قربانی اور ہدی کے لئے صرف آٹھ بہیمۃ الانعام کو شمار کیا ہے ، دو اونٹ ، دو گائے ، دو بھیڑ ، دو بکری (کیونکہ ) انعام کی انواع صرف یہی چار ہیں ۔ پھر اس کے بعد لوگوں کے وہم کی وجہ سے اگر بھینس کو گائے کی نوع کہہ کر قربانی کا جانور شمار کریں تو کل نر اور ماندہ دس جانور ہوں گے ، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے کل آٹھ ہی جانور شمار کرایا ہے ، معلوم ہوا کہ یہ وہم بالکل غلط اور باطل ہے ، اور اس وہم کے بطلان کی دوسری وجہ یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے غنم کی دو نوع (بھیڑ ، بکری ) کو علحدہ بیان فرما کر دونوں کو قربانی کا جانور شمار کرایا ہے ، اگر بھینس بھی گائے کی نوع ہوتی تو اس کی بھی علاحدہ صراحت کر کے قربانی کے جانور کو دس جوڑا شمار کرایا جاتا ، اور اللہ تعالیٰ نے اس کو شمار نہیں کیا تو معلوم ہوا کہ اس کو قربانی کا جانور شمار کرنا کتاب اللہ پر زیادتی کرنا ہے ، جو سراسر باطل اور غلط ہے ۔ [آئينه تحقیق ص: 2423]

جائزه:
(1) ملاجیون رحمہ اللہ (1130ھ مطابق 1718ء) کی یہ تفسیر سلف کی تغییر کے خلاف ہے ، کیونکہ ان کی اس تفسیر سے پیشتر ماثور تفاسیریں یہ تفسیر کسی نے نہیں کی ہے ، اس لئے یہ قابل اعتبار نہیں ہوسکتی ۔

(2)اس کے برخلاف مفسرین سلف میں سے امام ابن ابی حاتم نے لیث بن ابی سلیم سے نقل کیا ہے کہ بھینس ازواج ثمانیہ میں سے ہے ۔ [تفسير ابن ابي حاتم 1403/5 نمبر 7990]
اور اس بات کو ابن ابی حاتم سے امام سیوطی نے بھی نقل کیا ہے ۔ [الدر المنثور فى التفسير بالمأثور 371/3]
اسی طرح علامہ نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ نے بھی اپنی تفسیر میں نقل فرمایا ہے ۔ [فتح البيان فى مقاصد القرآن 260/4]

(3) ملاجیون کی تفسیر سے معلوم ہوتا ہے کہ بھینس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نزول قرآن کے وقت حجاز میں موجود ومتعارف تھی ، جبکہ بات ایسی نہیں ہے ۔

(4) ملاجیون نے جو کچھ لکھا ہے اس بارے میں سلف سے کوئی مستند ذکر نہیں کیا ہے ۔

(5) سابقہ صفحات میں ائمہ تفسیر کے حوالہ سے یہ بات نقل کی جاچکی ہے کہ آیات کا سیاق مذکورہ جانوروں میں قربانی کے احکام بتانے کا نہیں ہے ، بلکہ مشرکین کی بد عقیدگی کی تردید کرنے کا ہے لہٰذا مذکورہ جانوروں کا تعلق ان کے باطل عقیدہ سے ہے ، اور چونکہ بھینس موجود ہی نہ تھی اس لئے اس کا نام لینے نہ لینے کا کوئی محل ہی نہیں ہے ۔

(6) اس تفسیر سے سلف امت تابعین ، تبع تابعین ، ائمہ اربعہ اور عمومی طور پر دیگر اعیان اسلام کی تعلیط لازم آتی ہے ، جبکہ بات دلیل و برہان سے عاری ہے ۔

(7) علماء لغت عرب علما ، تفسیر ، اور علماء حدیث وفقہ کی روشنی میں بھینس اور گائے میں مغایرت نہیں بلکہ جنس کا اتحاد ہے اور بھینس گائے کی ایک نوع ہے ، جیسا کہ تصریحات بالتفصیل گزر چکی ہیں ۔

(8) مینڈھا بھی بکری کی نوع ہے اور اس میں داخل ہے ۔

(9) جس طرح بخاتی اور عراب اونٹ کے اصناف ہیں ، اسی طرح بھینس بھی گائے کی نوع ہے ، دونوں کی دلیل علماء ، لغت ، تفسیر ، حدیث اور فقہ کی تصریحات اور امت کا اجماع ہے ۔ کتاب و سنت کے نصوص میں جاموس سمیت بخاتی اور عراب وغیر کسی کا ذکر نہیں ہے ، اس لئے بھینس اور بختی وغیرہ میں تفریق بے دلیل ہے ۔

(10)تفسیرات احمدیہ میں ملاجیون امیٹھوی حنفی کے اساسی مراجع: تفسیر بیضاوی (انوار التنزيل وأسرار التاديل) تفسیر نسفى (مدارک التنزيل وحقائق التاویل) تفسیر ابو السعود (ارشاد العقل السليم إلى مزايا الكتاب الكريم ) ، تغییر زمخشری (الکشاف عن حقائق غوامض التنزيل ) تفسیر غوری تفسیر کاشفی اور تفسیر زاہد وغیرہ ہیں ۔ جیسا کہ انہوں نے مقدمہ میں اس کی وضاحت کی ہے ۔ [التفسيرات الاحمديه ص 5,4]
انکے علاوہ معتبر و متداول ماثور تفاسیر سلف مثلاًً تفسیر طبری (جامع البیان عن تاویل آی القرآن ) تفسیر ابن ابی حاتم (تفسیر القرآن العظیم ) تفسیر ابن کثیر رحمہ اللہ (تفسیر القرآن العظیم) ، تفسیر بغوی (معالم التنذیل فی تفسیر القرآن ) اور آیات احکام کی جامع کتاب تفسیر قرطبی (الجامع لأحكام القرآن ) وغیرہ سے استفادہ نہیں کیا گیا ہے؟ ؟ ! !

(11)ملاجیون کون ہیں؟ ان کے عقائد و نظریات کیا تھے؟
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں التفسیرات الاحمدیہ کے مولف ملاجیون رحمہ اللہ کی سیرت اور عقیدہ و منہج پر مختصر روشنی ڈالی جائے ، جس سے ان کی تفسیر کا منہج سمجھنے میں مدد ملے گی:
یہ فقیہ ، اصولی مفسر علامہ احمد بن ابو سعید بن عبد الله بن عبد الرزاق ابن خاصة خدا حنفی صالحی امیٹھوی رحمہ اللہ ہیں ، شیخ جیون ، یا ملاجیون سے مشہور تھے ، ان کی پیدائش 25 شعبان 1047 هـ مطابق 1637 کو امیٹھی میں ہوئی ۔ انہوں نے امیٹھی کے علاوہ ، اجمیر دہلی وغیرہ میں تدریسی خدمات انجام دی کئی سال تک سلطان عالمگیر بن شاہ جہاں کے معسکر میں دکن میں بھی رہے ، اسی طرح ایک طویل عرصہ لاہور میں قیام کیا کئی بار حجاز مقدس مکہ مکرمہ و مدینہ کا سفر کیا اور حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی ، آپ کا حافظہ غضب کا تھا ۔

آپ کی مشہور تصنیفات میں: التغيرات الاحمدیة في بيان الآيات الشرعية ، نور الأنوار في شرح المنار ، أشراق الأبصار فی تخریج احادیث نور الأنوار ، مناقب الأولياء في أخبار المشايخ اور آداب احمدی وغیرہ ہیں ۔
آپ کی وفات 9 / ذی القعدہ 1637 ھ مطابق 1718ء کو دہلی میں ہوئی ، اور میر محمد شفیع دہلوی کے پہلو میں دفنایا گیا ، پھر پچاس دنوں کے بعد آپ کے جسم کو امیٹھی منتقل کر کے آپ کے مدرسہ میں دفن کیا گیا ۔ [نزہۃ الخواطر و بہجۃ المسامع والنواظر 6 / 691 ، والأعلام للزرکلی 1/ 108 ، ومعجم المؤلفين 233/1 و معجم المفسرين من صدر الاسلام حتى العصر الحاضر 1 / 39 ، والموسوعة الميسرة فى تراجم أئمته التفسير والاقراء والنحو واللغة ص 205 نمبر 334]

عقیدہ و منہج: احمد ملاجیون کی کتابوں میں ان کی تحریروں اور ان کی سیرت سے پتہ چلتا ہے کہ وہ عقیدہ و منہج کے اعتبار سے متعصب حنفی ، صوفی جہمی ، ماتریدی ، قبوری ، چشتی ، خرافی تھے ۔
چنانچہ نزہۃ الخواطر کے محمود صفحات پر ان کی سیرت میں ان کی کتاب مناقب الأولیاء کے حوالہ سے لکھا ہے:
وقرأت فاتحة الفراغ لما بلغت اثنتين وعشرين سنة ، ثم تصديت للدرس والإفادة ، وأخذت الطريقة الجشتية عن الشيخ الأستاذ محمد صادق الستركهي ، ولما بلغت الأربعين رحلت إلى دهلي ، وأجمير ، واعتراني العشق فى هذا الزمان فأنشأت فى تلك الحالة مزدوجة على نهج المثنوي المعنوي يحمل خمسة وعشرين ألفا من الأبيات ، وأنشأت ديوان شعر كديوان الحافظ فيه خمسة الاف بيت ، ولما سافرت إلى الحجاز أنشأت قصيدة على نهج البردة فيها مائتان وعشرون بيتا بالعربية ، ولما وصلت إلى بندر سورت شرحت تلك القصيدة واعتراني العشق مرة ثانية فأنشأت تسعا وعشرين قصيدة بالعربية [نزہۃ الخواطر و بہجۃ المسامع والنواظر 691/6]
جب میں بائیس سال کا ہوا تو فراغت کا فاتحہ پڑھا ، پھر درس و تدریس کا آغاز کیا اور شیخ محمد صادق سترکھی سے چشتی سلسلہ لیا ، اور چالیس سال کا ہوا تو دہلی اور اجمیر کا سفر کیا ، اور اس زمانے میں مجھ پر عشق چھایا تو عشق کی حالت میں میں نے مثنوی کے نہج پر پچیس ہزار اشعار پر مشتمل ایک مجموعہ لکھا ، اور پانچ ہزار اشعار کا ایک دوسرا دیوان بھی لکھا ، اور جب حجاز گیا تو بردہ (بوصیری) کے نہج پر عربی میں 220 / اشعار کا ایک قصیدہ ، لکھا ، اور بندر سورت پہنچ کر اس قصیدہ کی شرح کیا ، پھر دوسری مرتبہ مجھ پر عشق سوار ہوا تو 29 قصیدے عربی میں لکھا ! ! ! ! !
اسی طرح ان کی سیرت میں ہے:
وصلت إليه الخرقة من الشيخ ليس بن عبد الرزاق القادري صحبة السيد قادري بن ضياء الله البلكرامي [نزہۃ الخواطر و بہجۃ المسامع والنواظر 691/6]
سید قادری بن ضیاء اللہ بلگرامی کی صحبت میں شیخ لیس بن عبد الرزاق قادری کا خرقہ (پھٹے ہوئے کپڑے کا ٹکڑا ، چیتھڑا جسے صوفی پیر اپنے مرید کو ایک طویل مدت کے بعد دیتا ہے ) ان کے پاس پہنچا ۔
اسی طرح اپنی تفسیر کے مقدمہ میں لکھا ہے:
طفقت اتفحص تلك الايات واتجسسها فى القعدة والقيامات ، فلم أجد عليها ظفرا ولم أقف منها أثرا ، فأمرت بلسان الالهام ، لا كوهم من الأوهام ، أن استنبطها بعون الله تعالى وتوفيقه ، واستخرجها بهداية طريقه [التفسيرات الاحمديه ص: 4]
میں ان آیات کو تلاش کرتار ہا اور قعدہ و قیام میں اس کی جستجو میں رہا لیکن کوئی کامیابی ملی ، نہ اس کا کوئی سراغ لگ سکا ، چنانچہ الہام کی زبان سے مجھے حکم دیا گیا ، جو کوئی وہم و گمان نہ تھا ، کہ میں اللہ کی مدد اور توفیق اور اس کی رہنمائی سے ان کا استنباط و استخراج کروں ! !
انہی بنیادوں پر اور دیگر تحریروں کی روشنی میں علامہ شمس الدین افغانی رحمہ اللہ ”جہود علماء الحنفیة فی ابطال عقائد القبوریہ“ میں لکھتے ہیں:
وقال الملاجيون الهندي الحنفي الجهمي الصوفي الخرافي (1130):
ومن ههنا علم أن البقرة المنذورة للأولياء كما هو الرسم فى زماننا ، حلال طيب ، لأنه لم يذكر اسم غير الله عليها وقت الذبح ، وإن كانوا ينذرونها له ﴿ [أي لغير الله] . . . .
[التفسيرات الاحمديه ص 36] [جہود علماء الحنفية فى إبطال مقائد القبورية 3/ 1546 نيز ديكهئے: 1560/3]
ملاجیون ہندی حنفی جہمی صوفی خرافی (1130 ھ) نے کہا:
اس سے معلوم ہوا کہ اولیاء کے لئے نذر مانی گئی گائے جیسا کہ ہمارے دور کی رسم ہے ، حلال اور اچھی چیز ہے ، کیونکہ ذبح کرتے وقت اس پر غیر اللہ کا نام نہیں لیا گیا ہے ، گرچہ کہ وہ لوگ وہ نذر غیر اللہ ہی کے لئے مانتے تھے ۔
اور حاشیہ میں خلاصہ لکھتے ہیں:
قلت: كان مع علمه حنفيا متعصبا ، وجهميا جلدا ماتريديا صلبا صوفيا قبوريا خرافيا قحا [جمہود علماء الحنفية فى ابطال عقائد القبورية 3 / 1546 ، حاشيه 1]
میں کہتا ہوں: ملاجیون اپنے علم کے باوجود متعصب حنفی متشد جہمی سخت ما تریدی ، پکے صوفی ، قبوری اور خرافی تھے ۔

(12) یہ ہے تفسیرات احمدیہ اور نور الانوار وغیرہ کے مصنف احمد ملاجیون حنفی کی حقیقت ۔ تو بھلا جمہور علماء الغت کی تصریح ، جمہور مفسرین سلف کی تعمیر اور فقہاء امت کی فقہ وفہم کے خلاف ملاجیون حنفی صاحب کی بلا دلیل و مستند تفسیر اور قول کیونکہ قابل اعتبار ہو سکتا ہے؟

(13) امت کے مفسرین قرآن اور مختلف فنون کے علماء کی متفقہ تفسیر و تشریح کو نظر انداز کر کے اس کے خلاف صرف ملاجیون کے بے برہان قول سے استدلال محل نظر ہے ۔

(14) یہ پہلو بھی حیرت و استعجاب کی انتہاء کا ہے کہ جامعہ دار الحدیث الاثریہ مئو کے سابق شیخ الجامعہ اور مفتی مولانا فیض الرحمن فیض رحمہ اللہ نے بھینس کی قربانی کے اس مسئلہ میں اپنے رسالہ ”آئینہ تحقیق“ اور ”فقاوائے فیض“ میں معتبر علماء لغت ، سلف کی ماثور تفاسیر ، شروح احادیث اور فقہ و اجتہاد اور فتاوی وغیرہ کے سیکڑوں معتبر مصادر و مراجع کو یکسر نظر انداز کر کے محض ملاجیون جیسے بد عقیدہ اور غیر متشخص کے قول سے استدلال کیوں کیا؟
اس سلسلہ میں ایک مجتہد کے لئے جو متوقع اعزار ہو سکتے ہیں ان میں: مراجع کی عدم فراہمی اور وقت کی تنگ دامانی وغیرہ ہیں اور نہ یہ بذات خود مولانا موصوف رحمہ اللہ کی ایک اجتہادی خطا ہے ، جس پر وہ وعدہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق بہر حال ایک اجر کے مستحق ہوں گے ۔ واللہ اعلم

بھینس میں زکاۃ کا وجوب قیاسی فتوی اور اجتہادی خطا:
بھینس میں زکاۃ اور نصاب زکاۃ قرآن اور حدیث میں کہیں مذکور نہیں ہے ، بلکہ امام مالک رحمتہ اللہ علیہ نے بھینس کو گائے پر قیاس کر کے یہ فتوی دیا ہے ، اور سچ تو یہ ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ کا یہ قیاسی فتوی صحیح نہیں ہے ، بلکہ امام مالک کے بعض قیاسی فتاوی کی طرح اس مسئلہ میں بھی ان سے چوک ہو گئی ہے ۔ کیونکہ بھینس ایک الگ چوپایہ ہے ، اس کا کوئی لگاؤ اور تعلق گائے سے نہیں ہے ، اس لئے گائے کی زکاۃ اور نصاب زکاۃ پر قیاس کر کے بھینس میں زکاۃ اور نصاب مقرر کرنا صحیح نہیں ہے ۔ [آئینہ تحقيق ص: 31]
جائزه:
(1) بار ہا یہ بات ذکر کی جاچکی ہے کہ بھینس گائے پر قیاس نہیں ہے ۔ بلکہ گائے کی جنس سے ایک عجمی نسل و نوع ہے ، اور امام مالک رحمہ اللہ نے بھینس میں زکاۃ کا فتوی قیاس کی بنیاد پر نہیں دیا ہے ، بلکہ اس لئے کہ بھینس بھی گائے ہے ، ملاحظہ فرمائیں:
قال مالك: وكذلك البقر والجواميس ، تجمع فى الصدقة على ربهما وقال: إنما هي يقر كلها [موطا امام مالك تحقيق الاعظمي 2/ 366 نمبر 895]
امام مالک فرماتے ہیں: اسی طرح زکاۃ میں گایوں اور بھینسوں کو ان کے مالکان کے یہاں جمع کیا جائے گا اور فرماتے ہیں: یہ سب گائیں ہی ہیں ۔
اس لئے ”بھینس گائے پر قیاس ہے“ کہنا درست نہیں علامہ ابن قیم رحمہ للہ بھینسوں میں زکاۃ کی فرضیت کا سبب ”قیاس“ قرار دینے والوں کی تردید میں فرماتے ہیں:
واحتجوا أيضا بإيجاب الزكاة فى الجواميس وأنه إنما وجب ذلك قياسا على البقر ، . . . وهذا شغب فاسد لأن الجواميس نوع من أنواع البقر ، وقد جاء النص بإيجاب الزكاة فى البقر [الاحكام فى أصول الأحكام لابن حزم ، 7/ 132]
اور بھینسوں میں زکاۃ کی دلیل یہ پیش کیا کہ گائے پر قیاس کی بنا پر ہے یہ بہت بری بات ہے کیونکہ بھینسیں گائے کی قسموں میں سے ایک قسم ہیں ، اور گائے میں زکاۃ کے وجوب پر نص موجود ہے ۔

(2) بھینسوں میں زکاة کا مسئلہ صرف امام مالک رحمہ اللہ کا نہیں ہے ، بلکہ ان سے پہلے امام حسن بصری خلیفہ عمر بن عبد العزیز اور ان کے بعد شافعی ، احمد بن حنبل سمیت تمام علماء امت کا ہے ۔ جیسا کہ سابقہ صفحات میں ان کی تصریحات گزر چکی ہیں ، بلکہ گائے اور بھینس کے حکم کی یکسانیت پر امت کا اجماع ہے ۔

(3) اسے امام مالک رحمہ اللہ کی اجتہادی خطا اور چوک کہنا درست نہیں ، کیونکہ یہ صرف امام مالک کی رائے اور ان کا فتوی نہیں ہے بلکہ علماء کا اجماعی مسئلہ ہے جیسا کہ متقین سے منقول ہے ۔ اور امت کے اجماع کو اللہ کی عصمت و حفاظت حاصل ہے ۔
لہٰذا اسے امام مالک رحمہ اللہ کا قیاسی فتویٰ اور ان کی اجتہادی چوک قرار دینا دراصل خود علامہ فیض الرحمن فیض رحمہ اللہ کی اجتہادی خطا اور چوک ہے ، اور اس پر بھی وہ من عند اللہ ایک اجر کے مستحق ہوں گے ، ان شاء اللہ واللہ اعلم
هذا ما عندی واللہ اعلم ، وصلی اللہ وسلم على نبينا محمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین
ابو عبد الله عنایت اللہ حفیظ اللہ سنابلی مدنی

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے