بھینس کی قربانی اور حلت کے شرعی احکام کا جائزہ
یہ اقتباس عنایت اللہ مدنی حفظہ اللہ کی کتاب بھینس کی قربانی ایک علمی و تحقیقی جائزہ سے ماخوذ ہے۔

بھینس کی حلت اور قربانی کا حکم

بھینس کی عمومی حلت کے سلسلہ میں تو اختلاف نہیں پایا جاتا [فناویٰ اصحاب الحديث ، از فضیلتہ الشيخ ابو محمد عبدالستار الحماد ، ص 462 ، وفتاویٰ علمائے حدیث ، 73/13 ، وفتاویٰ ثنائيہ 1/ 809] ، البتہ اس کی قربانی کے سلسلہ میں اہل علم کے حسب ذیل تین اقوال ہیں:
عدم جواز: بھینس کی قربانی جائز نہیں ۔ کیونکہ قربانی کے لئے جانور کا ”بہیمتہ الانعام“ میں سے ہونا شرط ہے ، اور وہ ”ثمانیۃ ازواج“ یعنی اونٹ ، بیل ، بکرا ، مینڈھا اور ان کے ماندہ ، آٹھ ہیں ، اور بھینسں ان میں سے نہیں ہے ، لہٰذا بھینس قربانی کا جانور نہیں ، اس لئے اس کی قربانی جائز و درست نہیں ۔ [عدم جواز كے قائلين ميں چند علماء كے نام يہ هيں: مجتهد العصرحافظ عبدالله رو پڑی رحمہ اللہ ، اہلحدیث 426/2 ۔ وشيخ الحديث مفتي فيض الرحمن فيض رحمه الله ، فتاوائے فيض ، ص 47 ، 158 ، 162 ، ورسالہ آئینہ تحقیق ۔ ومولانا عبد الستارالحماد ، ہفت روزه اہل حديث ، شمارہ 15، 48 – 21 دسمبر 2007ء- وفتاویٰ اصحاب الحديث ، 3 / 404 ۔ وباقي عمران ايوب لاہوری فقہ الحديث 475/2 ، مسئله 764 ۔ ومحمد رفیق طاہر]

احتیاط: احتیاط یہ ہے کہ بھینس کی قربانی نہ کی جائے ۔ کیونکہ قربانی کے لئے جانور کا ”بہیمۃ الانعام“ میں سے ہونا شرط ہے ، اور بھینسں ان میں سے نہیں ہے ، جبکہ بعض اہل لغت نے بھینس کو گائے کی نوع قرار دیا ہے ، اور بعض اہل علم نے اس پر ا جماع کی نقل فرمایا ہے ،
لیکن چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےصحابہ کرام رضی اللہ عنہما نے عملاً اس کی قربانی نہیں کی ہے ، اس لئے احتیاطا بھینس کی قربانی نہ کی جائے۔ [يہ صاحب مرعاة المفاتيح شيخ الحديث عبيدالله رحماني مبار كپوري اور حافظ زبير على زئي رحمهما الله كي رائے هے۔
نوٹ: واضح رہے كہ شيخ الحديث رحمه الله نے مرعاة المفاتيخ ميں احتياط كے ساتھ جواز كي بات لكهي هے ، جبكہ اپنے مجموع فتاوي ميں گاؤ ميش كي قرباني كے ليے مطلق جواز كا فتوي ديا هے ۔ فتاويٰ شيخ الحديث عبيد الله رحماني مبار كپوري رحمه الله جمع وترتيب: فواز عبد العزيز عبيد الله مبار كپوري ۔ 400/2 -402 ، دار الابلاغ لاهور

جواز: بھینس کی قربانی جائز ہے ، کیونکہ وہ گائے ہی کی ایک نوع ہے جو فارس وغیرہ عجمی علاقوں میں پائی جاتی تھی ، لہٰذا وہ بہيمته الانعام میں داخل ہے ، البتہ عہد رسالت میں یہ نسل عرب بالخصوص حجاز میں موجود و متعارف نہ تھی ، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ سے اس نوع کی قربانی کا ثبوت نہیں ملتا ، جبکہ بعد میں عرب گائے کی اس نوع نسل سے متعارف ہوئے اور علماج لغت عرب ، مفسرین محدثین و شارحین حدیث اور فقہاء امت بالخصوص ائمہ اربعہ اور ان کے مسالک کے علماء نے اسے متفقہ طور پر گائے کی نوع قرار دیا ، اور بعینہ گائے کے حکم کے مطابق اس کی قربانی کی ، اس میں ز کاۃ فرض رکھا اور تاریخ کے ہر دور میں اسے بڑی تعداد میں پالا ، بھینس کے گائے کی نو ع ہونے اور دونوں کے حکم کی یکسانیت پرعلماء امت کا ا جماع منقول ہے ، لہٰذا بھینس کی قربانی جائز ہے ۔ [يہ جمہور علماء امت سلف تا خلف ، تابعين تبع تابعين ، ائمہ اربعہ ، مفسرين ، محدثين ، فقہاء ، وغير ہم ، بطور مثال: امام نووی ، اسي طرح معاصرين ميں علامہ ابن عثیمين ، استاذ و محترم علامہ عبد المحسن بن حمد العباد ، شيخ عبد العزيز بن محمد السلمان ، اور علماء اہل حدیث برصغير ميں علامہ ثناء اللہ امرتسري ، محقق العصر علامہ عبد القادر عارف حصاري ساہيوال ، علامہ شیخ الحدیث عبید اللہ رحمانی مبار کپوری ، میاں نذیر حسین محدث دہلوي ، علامه نواب صديق حسن خان بهوپالي ، محدث كبير عبدالجليل سامر و دي ، علامه حافظ محمد گوندلوی مولانا امین اللہ پشاوري ، حافظ نعیم الحق ملتانی اور حافظ صلاح الدین یوسف حفظہم اللہ ورحمہم كا موقف هے۔ ]

راجح: تینوں اقوال میں راجح قول یہ ہے بھینس کی قربانی جائز ہے ، جبکہ نتیجہ کے اعتبار سے احتیاط کے قول کا مدعا بھی جواز ہے ، ورنہ اگر عدم جواز پر اطمینان اور شرح صدر ہو تو عدم جواز کی تصریح سے کوئی چیز مانع نہیں ہے ۔
سابقہ فصلوں کی تفصیلات سے یہ بات رو شن ہے کہ بھینس فارسی النسل یا عجمی النوع ، گائے ہی کی ایک قسم ہے تو بد یہی طور پر بھینس کا ”بہیمۃ الانعام“ میں ہونا ثابت ہو گیا ، اور قرآن کریم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عملًا گائے کی قربانی ثابت ہے ، جیسا کہ مائی عائشہ ی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
ضحی رسول الله صلى الله عليه وسلم عن نسائه بالبقر [صحيح البخاري ، كتاب الحيض ، باب كيف كا بدء الحيض ۔ ۔ ۔ 66/1 ، حديث 294 ، و 5548 ، و 5559، صحيح مسلم ، كتاب الحج ، باب بيان و جوہ الاحرام ۔ ۔ ۔ ، حديث 1211]
رسول اللہ نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی ۔
تو بھینس کی حلت کے ساتھ اس کی قربانی کے جواز میں کوئی شک باقی نہیں رہ گیا ، کیونکہ شریعت اسلامیہ نے ”بہیمۃ الانعام“ کے اجناس کے نام لئے ہیں:[علامه ابن منظور رحمه الله كے جنس كی مثال ديتے ہوئے فرماتے ہيں: فالناس جنس والإبل جنس والبقر جنس والشاء جنس السان العرب 43/6 (لوگ جنس ہيں ، اونٹ جنس ہے ، گائے جنس ہے اور بکریاں جنس ہیں)]
1۔ ”ابل“ (اونٹ نر و مادہ خواہ عرب و عجم کے کسی بھی نسل سے ہوں) ۔
2 ۔ ”البقر“ (گائے نر و مادہ ، خواہ عرب و عجم کے کسی بھی نسل سے ہوں) ۔
3 ۔ ”الضان“ (مینڈھا نر و مادہ ، خواہ عرب و عجم کے کسی بھی نسل سے ہوں) ۔
4 ۔ ”المعز“ (بکرا نر و مادہ ، خواہ عرب و عجم کے کسی بھی نسل سے ہوں) ۔
اب اگر ایک مسلمان ان میں سے کسی بھی چو پائے کی قربانی کرے خواہ وہ کسی بھی نسل ونوع اور علاقہ و خطے کا ہو ، تو اس کی قربانی کی مشروعیت اور جواز کا حکم متاثر نہ ہو گا ۔ اس بات کی ایک نہایت واضح دلیل موسی علیہ السلام کی قوم کا واقعہ ہے ۔ ارشاد باری ہے:
﴿وَاِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٓ ٖ اِنَّ اللّـٰهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَةً ۖ قَالُوٓا اَتَتَّخِذُنَا هُزُوًا ۖ قَالَ اَعُوْذُ بِاللّـٰهِ اَنْ اَكُـوْنَ مِنَ الْجَاهِلِيْنَ ● قَالُوْا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّن لَّنَا مَا هِىَ ۚ قَالَ اِنَّهٝ يَقُوْلُ اِنَّـهَا بَقَرَةٌ لَّا فَارِضٌ وَّّلَا بِكْـرٌ عَوَانٌ بَيْنَ ذٰلِكَ ۖ فَافْعَلُوْا مَا تُؤْمَرُوْنَ ● قَالُوْا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَّنَا مَا لَوْنُهَا ۚ قَالَ اِنَّهٝ يَقُوْلُ اِنَّـهَا بَقَرَةٌ صَفْرَآءُ فَاقِـعٌ لَّوْنُهَا تَسُرُّ النَّاظِرِيْنَ ● قَالُوْا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَّنَا مَا هِىَ اِنَّ الْبَقَرَ تَشَابَهَ عَلَيْنَا وَاِنَّـآ اِنْ شَآءَ اللّـٰهُ لَمُهْتَدُوْنَ ● قَالَ اِنَّهٝ يَقُوْلُ اِنَّـهَا بَقَرَةٌ لَّا ذَلُوْلٌ تُثِيْـرُ الْاَرْضَ وَلَا تَسْقِى الْحَرْثَ ۚ مُسَلَّمَةٌ لَّا شِيَةَ فِيْـهَا ۚ قَالُوا الْاٰنَ جِئْتَ بِالْحَقِّ ۚ فَذَبَحُوْهَا وَمَا كَادُوْا يَفْعَلُوْنَ ● وَاِذْ قَتَلْتُـمْ نَفْسًا فَادَّارَاْتُـمْ فِيْـهَا ۖ وَاللّـٰهُ مُخْرِجٌ مَّا كُنْتُـمْ تَكْـتُمُوْنَ ● فَقُلْنَا اضْرِبُوْهُ بِبَعْضِهَا ۚ كَذٰلِكَ يُحْىِ اللّـٰهُ الْمَوْتٰى وَيُرِيْكُمْ اٰيَاتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ ●﴾ [سورة البقره: 67 – 73]
اور موسیٰ علیہ السلام نے جب اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے تو انہوں نے کہا: ہم سے مذاق کیوں کرتے ہیں؟ آپ نے جواب دیا کہ میں ایسا جاہل ہونے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ پکڑتا ہوں ۔ انہوں نے کہا اے موسیٰ ! دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے لئے اس کی ماہیت بیان کر دے ، آپ نے فرمایاسنو ! وہ گائے تو بالکل بڑھیا ہو ، نہ بچہ ، بلکہ درمیانی عمر کی نوجوان ہو ، اب جو تمہیں حکم دیا گیا ہے بجا لاؤ ۔ وہ پھر کہنے لگے کہ دعاکیجیے کہ اللہ تعالیٰ بیان کرے کہ اس کا رنگ کیا ہے؟ فرمایا وہ کہتا ہے کہ وہ گائے زرد رنگ کی ہے ، چمکیلا اور دیکھنے والوں کو بھلا لگنے والا اس کا رنگ ہے ۔ وہ کہنے لگے کہ اپنے رب سے اور دعاکیجئے کہ ہمیں اس کی مزید ماہیت بتلائے ، اس قسم کی گائے تو بہت ہیں پتہ نہیں چلتا ، اگر اللہ نے چاہا تو ہم ہدایت والے ہو جائیں گے ۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ کا فرمان ہے کہ وہ گائے کام کرنے والی زمین میں ہل جوتنے والی اور کھیتوں کو پانی پلانے والی نہیں ، وہ تندرست اور بے داغ ہے ۔ انہوں نے کہا ، اب آپ نے حق واضح کر دیا گو وہ حکم برداری کے قریب نہ تھے ، لیکن اسے مانا اور وہ گائے ذبح کر دی ۔ جب تم نے ایک شخص کو قتل کر ڈالا ، پھر اس میں اختلاف کرنے لگے اور تمہاری پو شیدگی کو اللہ تعالیٰ اہر کرنے والا تھا ۔ ہم نے کہا کہ اس گائے کا ایک ٹکڑا مقتول کے جسم پر لگا دو ، (وہ جی اٹھے گا ) اسی طرح اللہ مردوں کو زندہ کر کے تمہیں تمہاری عقل مندی کے لئے اپنی نشانیاں دکھاتا ہے ۔
یعنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قوم موسیٰ کو ایک قتل کے قضیے میں قاتل کی شناخت کے لئے ایک ”بقرۃ“ (گائے) ذبح کرنے اور پھر اس کے کسی حصہ سے مقتول کو مارنے کا حکم دیا کہ اس سے مقتول زندہ ہو جائے گا اور اپنے قاتل کی شناخت کر دے گا ۔
قوم بنی اسرائیل نے اس گائے کی رنگ و نسل ، ہئیت و کیفیت اور عمر وغیرہ کے بارے میں نبی موسیٰ علیہ السلام کے واسطے سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے بے جاسوالات کرنا شروع کر دیا ، جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے سختیوں میں گرفتار ہو گئے ۔ حالانکہ اگر انہوں نے کوئی بھی گائے جس پر گائے کا اطلاق ہوتا ہو ، خواہ وہ کسی بھی نوع و جنس اور نسل و رنگ کی ہو ذبح کر لیتے تو تعمیل حکم ہو جاتا ، کیونکہ اللہ سبحان و تعالیٰ نے محض ”بقرۃ“ یعنی گائے کی جنس کانام لیا تھا ، نوع و نسل کی کوئی تعیین نہ تھی ۔ چنانچہ امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ اس سلسلہ میں رقمطراز ہیں:
أنهم كانوا فى مسالتهم رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم موسى ذلك مخطین ، وأنهم لو كانوا استعرضوا أدنى بقرة من البقر إذ أمروا بذبحھا بقوله: ﴿اِنَّ اللّـٰهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَةً﴾ [البقرة: 67] فذبحوها کانوا للواجب عليهم من أمر الله فى زلک مؤدين وللحق مطيعين ، إذ لم يكن القوم حصروا على نوع من البقر دون نوع ، وسن دون سن . . . وأن اللازم كان لهم فى الحالة الأولى استعمال ظاهر الأمر وذبح أى بھیمۃ شاءوا مما وقع عليها اسم بقره [تفسير الطبري 101/2 ثمار القلوب فى المضاف والمنسوب ص: 374 ، والحيوان 292/4]
بنی اسرائیل اللہ کے رسول موسی علیہ السلام سے بے جا سوالات کرنے میں خطا کار تھے ، کیونکہ اگر وہ کوئی ادنی سی گائے بھی ڈھونڈ کر ذبح کر لیتے ، جیسا کہ انہیں فرمان باری: {اِنَّ اللّـٰهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَةً} (بیشک اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ ایک گائے ذبح کرو ) میں اسی بات کا حکم دیا گیا تھا ، تو وہ اپنے اوپر واجب کردہ حکم الہی کے ادا کرنے والے اور حق کے فرمانبردار ٹھہرتے ، کیونکہ قوم کے لوگوں کو گائے کی کسی خاص نوع یا عمر کا پابند نہیں کیا گیا تھا ۔ ۔ ۔ اور پہلی ہی حالت میں ان پر لازم ہی تھا کہ وہ ظاہری حکم پر عمل کرتے ہوئے حسب خواہش کوئ
بھی چو پایہ ذبح کر دیتے ، جس پر ”گائے“ کے نام کا اطلاق ہوتا ہو ۔

یہی وجہ ہے کہ گائے کی کسی بھی نوع نسل کے بچے کو ”عجل“ (بچھڑا) کہتے ہیں خواہ وہ عربی النوع والنسل ہوں یا غیر عربی ، لوگوں میں متعارف عام گائیں ہوں یا جوامیس (بھینسیں) جیسا کہ علمائے تفسیر نے قرآن میں وار دلفظ عجل کی تفسیر میں لکھا ہے ۔ [تفسیر المنار 173/9 ، وتفسیر المراغی 67/9 ، وتفسیر حدائق الروح والریحان فى روابی علوم القرآن 155/10]
بھیمۃ الانعام: اونٹ ، گائے اور بکری کی انواع اور نسلیں:
واقع حال اور اہل عمل کی توضیحات سے معلوم ہوتا ہے کہ ملکی اور علاقائی اعتبار سے اونٹ ، گائے اور بکری کی متعدد انواع اور نسلیں ہیں اور ان کی اپنی شکلیں ، ہیئتیں ، طبیعتیں اور خصوصیات و کیفیات ہیں ، اور بھینس بھی جنس ”بقر“ (گائے) کی ایک نہایت عمدہ قسم ہے ، جس کی اپنی خاص صورت و ہیئت ، مزاج و طبیعت اور خصوصیات ہیں ۔ ذیل میں ”بہیمۃ الانعام“ اونٹ ، گائے اور بکری کی مختلف انواع ملاحظہ فرمائیں:

اولا: اونٹ کی قسمیں:

علامہ بطال بن احمد رکبی فرماتے ہیں:
والبخاتي من الإبل: معروف أيضا ، وهو معرب ، و بعضهم يقول: عربي الواحد: بختي والأنثي: بختية ، وجمعه: بخاتي (غير مصروف) وأما العراب من الإبل ، فان الجوهري قال: هي خلاف البخاتي ، كالعراب من الخيل خلاف البراذين . وقال فى الشامل: العراب: جرد ملس حسان الألوان كريمة [النظم المستعذب فى تفسير غريب آلفاظ المهذب 1/ 146 ، كتاب الام از امام شافعي 2/ 20 ، و الموسوعة الفقهيته الكويتيته 259/23]
اونٹ کی کئی قسمیں ہیں:
1 ۔ ”بخاتی“ : یہ معروف ہیں ، یہ لفظ معرب ہے ، البتہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ عربی ہے ، اس کی واحد ”بختی“ مونث ”بختیۃ“ او جمع ”بخاتی“ (غیر منصرف ) آتی ہے ۔
اور معروف لغوی علامہ خلیل فراہیدی لکھتے ہیں:
البخت والبختی ، أعجمیان دخیلانی: الإبل الخراسانیۃ تنتج من إبل عربیۃ و فالج ۔ [كتاب العين ۔ 241/4]
بخت او بختی عجمی دخیل الفاظ ہیں ، یہ خراسانی اونٹوں کو کہا جاتا ہے جو عربی اونٹنیوں اور ”فالج“ نامی سندھی اونٹوں سے پیدا ہوتے تھے ۔

2 ۔ ”عراب“ : عراب کے بارے میں علامہ جوہری فرماتے ہیں کہ یہ بخاتی کے برخلاف ہیں ، جیسے عراب گھوڑے ”براذین“ (ایک مضبوط ، ٹھوس اور بھاری بھرکم قسم کا گھوڑا جسے حمل و نقل کے لئے استعمال کیا جاتا تھا) کے خلاف ہوتے ہیں ، اور الشامل میں فرماتے ہیں کہ: عراب بغیر بالوں والے ، چکنے ، خوبصورت رنگ والے اور بڑے پیارے ہوتے ہیں ۔

اسی طرح علامہ ابومنصورا ز ہری لکھتے ہے:
والمهاري من الإبل منسوية إلى مهرة بن حيدان وهم قوم من أهل اليمن و بلادهم الشحر بين عمان وعدن وابين ، وإبلهم المهرية وفيهانجائب تسبق
الخيل والأرحبية من إبل اليمن ايضا وكذلك المجيدية . وأما العقيلية فهي نجدية صلاب كرام و نجائبها نفيسة ثمينة تبلغ الواحدة ثمانين دينارا إلى مائة دينار ، والوانها الصهب والأدم والعيس ، والقرملية إبل الترك ، والفوالج فحول سندية ترسل فى الابل العراب فتنتح البخت الواحد بختي والانثى بختية
[الزاہر فى غريب الفاظ الشافعی ص: 101 ۔ بحر المذہب للرویانی 44/3]

مھاری: یہ مہرہ بن حیدان کی طرف منسو ب ہیں ، یہ یمن کی ایک قوم ہے ، ان کا علاقہ عمان اور عدن کے درمیان ”شحر“ نامی مقام ہے ، ان کے اونٹ ”مھریتہ“ کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔ اور ان میں کچھ ”نجائب“ (یعنی ٹھوس ، چھریرے ، ہلکے ، تیز رفتار اور عمدہ ) ہوتے ہیں جوگھوڑوں سے تیز دوڑتے ہیں ۔

ارجبیہ یہ بھی اونٹوں کی ایک قسم ہے جو یمن میں پائی جاتی ہے ۔

مجیدیہ نامی ایک قسم کا اونٹ اور بھی پایا جاتا ہے ۔
مجید یہ کے بارے میں دو باتیں کہی گئی ہیں:
ایک یہ کہ یہ اونٹ بھی یمن میں پائے جاتے ہیں ۔ دوسرا یہ کہ یہ مجید نامی فحل (نر) یامجید نام کے کسی آدمی کی طرف منسو ب ہے ۔ [تاج العروس 9/ 152 ، والمصباح المنير فى غريب الشرح الكبير 2 /564]

عقیلیہ نجدی اونٹوں کی ایک قسم ہے ، جو بڑے ٹھوس اور عمدہ ہوتے ہیں ، اور ان میں جونجائب یعنی عمدہ اور چھریرے ہوتے ہیں وہ بڑے نفیس مانے جاتے ہیں، ان میں ایک کی قیمت اسی سے سو دینار کے درمیان ہوتی ہے ، اور ان کے رنگ سرخ سیاہی مائل ، چتکبرے اور سفید سرخی مائل ہوتے ہیں ۔

”قرملیہ“ ترکی اونٹوں کو کہا جاتا ہے ۔
8 ۔ فوالج سندھی نر اونٹوں کو کہا جاتا ہے جنہیں عربی اونٹوں میں بھیجا جاتا ہے جس سے بختی اونٹ پیدا ہوتے ہیں ، جس کے واحد کو ”بختی“ اور ماندہ کو ”بختیہ“ کہا جاتا ہے ۔

علامہ محمد بن عبد الحق یفرنی فرماتے ہیں:
و ”الإبل العراب“ : هي العربية . و ”البخت“ : إبل بجهة خراسان ، يزعمون أنها تولدت بين الإبل العراب و ”الفوالج“ ، و ”الفوالج“ : إبل لكل واحد منها سنامان ، واحدها: فالج ، وواحد البخت: بختي [الاقتصاب فى غریب الموطہ و اعرابہ علی الابواب 1 /295]
”عراب“ عربی اونٹ ہیں ، اور ”بخت“ خراسان کے علاقہ کا اونٹ ہے ، جس کے بارے میں لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ عربی اور فوالج اونٹوں سے پیدا ہوتے ہیں ، اور ”فوالج“ (سندھی) اونٹ ہیں ، ان میں سے ہر ایک کو دو بانیں ہوتی ہیں ، اس کا واحد فالج اور بخت کا واحد بختی آتا ہے ۔

اسی طرح علامہ احمد بن محمد معروف بہ ابن الرفعہ فرماتے ہیں:
البخاتي بتشديد الياء وتخفيفها والعراب: نوعان للإبل كما أن المهرية ، والأرحبية ، والمحيدية ، والعقيلية ، والقرملية أنواع لها [كفايتہ النبیہ فى شرح التنبیہ 326/5 ، بحر المذہب للروياني 44/3]
بخاتی – یاء پرتشدید اور بغیر تشدید کے ۔ اور عراب اونٹ کی دو قسمیں ہیں ، اسی طرح مہریہ ، ارحبیہ ، مجیدیہ ، عقیلیہ اورقرملیہ بھی اونٹ کی قسمیں ہیں ۔
اسی طرح علاقائی طور پر اونٹوں کی مختلف قسمیں ہیں: جیسے عربی ، خراسانی ، سندھی ، ترکی ، یمنی ، نجدی وغیرہ اور ان کے نام بھی الگ الگ ہیں ۔

ثانیا: گائے کی قسمیں:

علامہ عبدالرحمن بن محمد بن قاسم العاصمی النجدی الحنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
جواميس: واحدها جاموس فارسي معرب ، قال الأزهري: أنواع البقر منها الجواميس وهى أنبل البقر وأكثرها ألبانا وأعظمها أجساما قال ومنها العراب وهى جرد ملس حسان الألوان كريمة ومنها الدربان بدال مهملة مفتوحة ثم راء سا كنة ثم بلموحدہ ثم ألف ثم نون وهى التى تنقل عليها الأحمال وقال ابن فارس: الدربانية ترق أظلافها وجلودها ولها أسنمة [حاشیتہ الروض المربع ۔ 187/3 ، تحرير الفاظ التنبیہ ، ص: 106 ۔ بحر المذہب للروياني 3/ 44 ۔ ومقاییس الغتہ 274/2 والقاموس المحیط ص: 83 ، والمعجم الوسيط 277/1]
جوامیس: کی واحد جاموس فارسی معرب ہے ، علامہ از ہری کہتے ہیں: گائے کی کئی قسمیں ہیں:
1۔ ”الجوامیس“ (بھینسیں): یہ نہایت عمدہ گائیں ہوتی ہیں ، بہت زیادہ دودھ دینے والی اور سب سے بھاری جسم والی ہوتی ہیں ۔
2۔ ”العراب“ : یہ نہایت صاف ستھری بغیر بالوں والی خوب رنگ اور بڑی پیاری ہوتی ہیں ۔
3۔ ”الدر بان“ : یہ انتہائی مضبوط ہوتی ہیں ، جس پر بوجھ لاد اور منتقل کیا جاتا ہے ۔

علامہ ابن فارس فرماتے ہیں:
”دربانیتہ“ کا کھر اور کھال پتلی ہوتی ہے ، اور انہیں کوہان
ہوتی ہے ۔ معلوم ہوا کہ بھینس گائے کی قسم ہی نہیں ، بلکہ سب سے عمدہ قسم ہے ) ۔
علامہ احمد ابن الرفعہ نے بھی یہ قسمیں ذکر کی ہیں اور اسی بات کی وضاحت فرمائی ہے ۔ [كفايته النبيه فى شرح التنبيه 5 / 326]

علامہ محمد بن عبدالحق یفرنی فرماتے ہیں:
وأما ”الجواميس“ فإنها نوع من البقر فى ناحية مصر تعوم فى النيل ، وتخرج إلى البر ، ولكل بقرة منها قرن واحد ، والواحد منها: جاموس [الاقتصاب فى غريب الموطا و إعرابه على الابواب 1 /295]
رہا ”جوامیس“ (بھینسیں) تو وہ گائے کی ایک قسم ہیں ، جو مصر کے علاقوں میں پائی جاتی ہیں ، نیل میں تیری گھومتی رہتی ہیں ، اور باہر خشکی میں بھی نکلتی ہیں ، اور ان میں سے ہر گائے کو ایک سینگ (کوہان ) ہوتی ہے اور اس کا واحد جاموس کہلاتا ہے ۔

اسی طرح معجم الغنی الزاھر کے مولف ڈاکٹر عبداغنی ابو العزم لکھتے ہیں:
جاموسة ج: جواميس: . . . من كبار البقر ، وهو أنواع: داجن ووحشی ، يوجد بإفريقيا واسيا [معجم الغني الزهر ، ڈاكٹر عبدالغني ابوالعزم ، ناشر مؤسسة الغني للنشر ، ماده نمبر 9119]
جاموسہ جس کی جمع جوامیس آتی ہے ۔ ۔ ۔ یہ بڑی گایوں میں سے ہیں ، اور اس کی کئی قسمیں ہیں: گھریلو اور وحشی ، یہ افریقہ اور ایشیا میں پائی جاتی ہیں ۔

اسی طرح علامہ ابن عاشور فرماتے ہیں:
ومن البقر صنف له سنام فهو أشبه بالإبل ويوجد فى بلاد فارس ودخل بلاد العرب وهو الجاوس ، والبقر العربي لا سنام له وثورھا یسمی
الفريش
[التحریر والتنوير 8-1/ 129 ، مباہج الفکر و مناہج العبر للو طواط ص: 59]
اور گائے کی ایک قسم ہے جسے کوہان ہوتی ہے ، لہٰذا وہ اونٹ سے زیادہ مشابہت رکھتی ہے ، اور وہ فارس کے علاقہ میں پائی جاتی ہے ، عرب کے علاقوں میں داخل ہوئی ہے ، اور وہ ”جاموس“ بھینس ہے ، عربی گائے کو کوہان نہیں ہوتی اور اس کے بیل کو فریش کہا جاتا ہے ۔
اس طرح علاقائی طور پر گایوں کی بھی مختلف انواع ہیں ، مثلاًً ایشیائی ، افریقی ، مصری ، ہندوستانی ، فارسی وغیرہ ، اور ان کے نام بھی مختلف ہیں ۔

ثالثا: بکری کی قسمیں:

اونٹ اور گائے کی طرح بکری کی بھی متعدد انواع ہیں ، چنانچہ علامہ احمد بن محمد ابن الرفعہ فرماتے ہیں:
‘والضأن والمعز: نوعان للغنم ، وكذا العربية والملكية والبلدية أنواعها [كفايتہ النبيه فى شرح التنبيه 326/5]
”غنم“ یعنی بکری کی دو قسمیں ہیں:
1۔ مینڈھا (اون والا)
2۔ بکرا (بال و ال)
3۔ عربیہ
4۔ ملکیہ
5۔ بلدیہ
6۔ مکیہ
7۔ لازیہ ۔ بھی بکری کی انواع ہیں جو طبرستان کے علاقوں میں پائی جاتی ہیں ۔
جیسا کہ شافعی العصر امام ابو المحاسن عبد الرحمن بن اسماعیل رویانی فرماتے ہیں:
ولو كانت له أنواع مختلفة من الإبل والبقر والغنم بعضها أجود من بعض كالأغنام العربية والمكية واللأزية والبلدية فى ناحية طبرستان . . [بحر المذهب للروياني 44/3]
اور اگر آدمی کے پاس اونٹ ، گائے اور بکری کی مختلت انواع اور قسمیں ہوں ، جن میں سے بعض بعض سے عمدہ ہوں ، جیسے عربی ، مکی ، لازی اور بلدی بکریاں جو طبرستان کے علاقوں میں پائی جاتی ہیں ۔
اسی طرح علاقائی طور پر بکری کی بھی متعدد انواع ہیں ، عربی ایشیائی اور طبرستانی وغیرہ اور ان کے نام بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔
الحاصل یہ کہ بہیمۃ الانعام کی مختلف انواع ، نسلیں اور شکلیں دنیا کے مختلف ممالک اور شہروں ، علاقوں میں پائی جاتی ہیں ۔ ظاہر ہے کہ رنگ و نسل اور علاقائی انواع کے اختلاف کی بنا پر بشرطیکہ انعام کی جنسیں متحد ہوں ، قربانی کی مشروعیت اور جواز پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ، اسی طرح بہیمۃ الأنعام کی مختلف انواع اور ان کی ذیلی علاقائی انواع میں زکاۃ کی مشروعیت وفرضیت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اجناس کا ذکر فرمایا ہے ۔

اونٹ ، گائے اور بکری کی بلا تفریق تمام انواع میں زکاۃ کا وجو ب اور قربانی کا جواز و اجزاء :
اولاً : زکاۃ :
شافعی العصر امام ابوالمحاسن عبد الرحمن بن اسماعیل رویانی کسی اشکال کے بغیر اونٹ ، گائے اور بکری کی تمام انواع میں زکاۃ کی فرضیت کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :
ولو كانت له أنواع مختلفة من الإبل والبقر والغنم بعضها أجود من بعض كالأغنام العربية والمكية واللازية والبلدية فى ناحية طبرستان والإبل المهرية والأرحبية والمجيدية وهى المنسو بة إلى بلدان اليمن – وقيل النجدية بدل المجيدية – والعقيلية ، ويقال نجابتها تعيسة بحيث يبلغ عن الواحد ثلاثين دينارًا
إلى مائة دينار والقر ملية وهى إبل الترك وقيل المهرية منسو بة إلى قوم يقال هم مهرة والبقر الجواميس والعراب والدربانية فالجاموس أكثرها ألباناً وأعظمها أجسامًا ، والدربانية هي التى تنقل الأحمال عليها ، والعرابية جرد ملس حسان الألوان كرام؛ فيضم بعضها إلى بعض بلا إشكال
[بحر المذهب للروياني 3/ 44 نيز ديكهئے : المقدمات المبدات 1 / 328 ]
اور اگر آدمی کے پاس اونٹ ، گائے اور بکری کی مختلف انواع اور قسمیں ہوں جن میں سے بعض بعض سے عمدہ ہوں ، جیسے عربی مکی ، لازی اور بلدی بکریاں جو طبرستان کے علاقوں میں پائی جاتی ہیں ، اور مہریہ ، ارحبیہ ، مجید یہ اونٹ ہوں ، جو میں کے شہروں کی طرف منسو ب ہیں
اور مجید یہ کے بجائے نجدیہ بھی کہا گیا ہے ۔ اور عقیلیہ ، اور ان میں سے عمدہ اور چھریرے اونٹوں کو تعیسہ کہا جاتا ہے ، اس طور پر کہ ایک کی قیمت تیس سے سو دینار تک پہنچ جاتی ہے ، اور قرملیہ ہوں ، جو ترکی کے اونٹ ہیں ، اور کہا گیا ہے کہ مہر یہ مھرہ نامی ایک قوم کی طرف منسو ب ہیں ۔ اور گائیں بھینسیں ، عراب اور دربانیہ ہوں ، چنانچہ ”بھینس“ ان میں زیادہ دودھ دینے والی اور سب سے بھاری جسم والی ہوتی ہیں ، اور ”دربانیہ“ وہ ہے جس پر بوجھ ڈھویا جاتا ہے ، اور ”عراب “ نہایت صاف ستھری بغیر بالوں والی خوب رنگ اور بڑی پیاری ہوتی ہیں ، تو کسی اشکال کے بغیر (زکاہ میں ) ان میں سے بعض کو بعض کے ساتھ ملایا جائے گا ۔

ثانیاً : قربانی :
امام نووی رحمہ اللہ نے اونٹ کی تمام انواع اسی طرح گائے کی تمام انواع ۔ جس میں جومیس کی نوع بھی ہے ۔ نیز بکری کی تمام انواع اور ان کے انواع کو بہیمۃ الانعام قرار دیا ہے ۔ اور ان تمام انواع کی قربانی کے جواز و اجزاء کی وضاحت کرتے ہوئے بڑی صراحت سے فرماتے ہیں :
أما الأحكام فشرط المجزي فى الأضحية أن يكون من الأنعام وهى الإبل واليمر والعنم سواء فى ذلك جميع أنواع الإبل من البحاتي والعراب وجميع أنواع البقر من الخواميس والعراب والدربانية وجميع أنواع الغنم من الضأن والمعر وأنواعهما ولا يجزئ غير الأنعام من بقر الوحش وحميره والصبا وغيرها بلا خلاف [المجموع شرح المهذب 393/8 ]
رہا مسئلہ احکام کا تو قربانی ادا ہونے کی شرط یہ ہے کہ جانور بہیمتہ الانعام میں سے ہو یعنی : اونٹ ، گائے اور بکرا ، اور اس میں بخاتی اور عراب وغیرہ اونٹ کی تمام قسمیں برابر ہیں ، اور بھینس ، دربانیہ اور عراب وغیرہ گائے کی تمام قسمیں برابر ہیں ، اسی طرح مینڈھا اور بکر ا وغیرہ بکرے کی تمام قسمیں اور ان کی قسمیں برابر ہیں ، اور انعام کے علاوہ جیسے وحشی گائے اور وحشی گدھے اور ہرن وغیرہ کی قربانی بلا اختلاف کافی نہ ہوگی ۔
آئندہ فصلوں میں بھینس کے گائے ہی کی ایک نوع ہونے کے سلسلہ میں علماء لغت ، ائمہ وعلماء مذاہب اربعہ اور دیگر علماء ، فقہ حدیث اور تفسیر رحمہم اللہ کی تو ضیحات و تصریحات اور فتاوی جات ملاحظہ فرمائیں ۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1