بکری کے کاغذ کھانے والی روایت کا تحقیقی جائزہ

عیسائی مستشرقین کا اعتراض

بعض عیسائی مستشرقین سنن ابن ماجہ کی ایک روایت کو بنیاد بنا کر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ قرآن کی کچھ آیات ضائع ہوگئی تھیں کیونکہ ایک بکری نے انہیں کھا لیا تھا۔ آئیے اس روایت کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں اور اس دعوے کی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

روایت کا متن

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: "آیت رجم اور دس بار دودھ پلانے کی آیات (قرآن مجید میں) نازل ہوئیں۔ یہ دونوں آیتیں ایک کاغذ پر لکھی ہوئی میرے بستر پر رکھی تھیں۔ رسول اللہ کی وفات کے وقت ہم آپ کی تجہیز و تکفین میں مصروف تھے کہ ایک بکری آئی اور اس کاغذ کو کھا گئی۔” (سنن ابن ماجہ، حدیث: ۱۹۴۴؛ مسند احمد: ۶/۲۲۹؛ مسند ابی یعلیٰ: ۴۵۸۷)

روایت کی سند اور صحت

روایت کی جانچ کرتے ہوئے سب سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس کی سند کتنی معتبر ہے۔ مذکورہ روایت میں چند کمزوریاں ہیں:

➊ محمد بن اسحاق کا تدلیس کا مسئلہ:

اس روایت کے ایک راوی محمد بن اسحاق ہیں، جو اپنی روایات کو "عن” کے ذریعے بیان کرتے ہیں۔ یہ طرز بیان تب مشکوک سمجھا جاتا ہے جب راوی تدلیس کے لیے مشہور ہو۔ محمد بن اسحاق کی یہی شہرت ہے، لہذا ان کی یہ روایت ضعیف سمجھی جاتی ہے جب تک وہ اپنے اوپر کی سماعت کی تصریح نہ کریں​۔

➋ تنقیدی جائزہ:

مسند احمد کی اسی سند سے روایت میں محمد بن اسحاق کے علاوہ دیگر معتبر راویوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے رضاعت کی روایت بیان کی ہے، لیکن ان میں بکری کے کاغذ کھانے کا ذکر نہیں ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اضافی الفاظ صرف محمد بن اسحاق کی روایت میں ہیں، جو ان کے تفرد اور بعض معتبر راویوں کی مخالفت کی وجہ سے مستند نہیں سمجھے جاتے​۔

روایت کے ماننے کی صورت میں بھی حقائق

اگر اس روایت کو درست بھی مان لیا جائے، تب بھی یہ قرآن کی حفاظت پر کوئی اثر نہیں ڈالتی۔ اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:

➊ رجم کی آیات کا معاملہ:

مختلف روایات سے ثابت ہے کہ رجم کی آیات کو آپ نے قرآن میں شامل کرنے سے منع فرمایا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آیات قرآن کا حصہ نہیں تھیں۔

زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رجم کی آیت کو قرآن میں لکھنے کی اجازت طلب کی، جسے آپ نے ناپسند فرمایا​۔

➋ رضاعت کی آیت کی منسوخی:

رضاعت کبیر کی آیت کا ذکر صحیح مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے کہ یہ آیت بعد میں منسوخ ہوگئی تھی۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: "اللہ نے پہلے یہ نازل کیا تھا کہ دس رضعات سے حرمت ثابت ہوتی ہے، پھر اسے پانچ رضعات سے منسوخ کر دیا گیا۔” (صحیح مسلم: 2634)

قرآنی حفاظت کی دلیل

اگر بکری کے کاغذ کھانے کا واقعہ درست بھی مانا جائے، تو اس سے قرآن کے کسی حصہ کے ضائع ہونے کا دعویٰ ثابت نہیں ہوتا:

➊ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا موقف:

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں قرآن کی تدوین کے دوران زندہ تھیں۔ اگر ان کے پاس کسی آیت کے ضائع ہونے کا علم ہوتا، تو وہ صحابہ کرام کو ضرور مطلع کرتیں۔

➋ قرآن کی تدوین کا عمل:

قرآن کو مختلف ادوار میں جمع کیا گیا اور اس دوران حفاظ کی بڑی تعداد موجود تھی۔ اگر بکری کے کھانے سے کوئی آیت ضائع بھی ہوئی ہوتی، تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ آیت کسی اور صحابی کو یاد ہوتی اور محفوظ ہوتی۔

خلاصہ

مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں سنن ابن ماجہ کی یہ روایت سند کے لحاظ سے ضعیف ہے اور اس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ اگر اسے صحیح مان بھی لیا جائے، تب بھی قرآن کی حفاظت اور اس کی تکمیل پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ قرآن کا کوئی حصہ ضائع نہیں ہوا اور یہ اللہ کی حفاظت میں مکمل اور محفوظ ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!