بڑھتی ہوئی آبادی: مسئلہ یا نظام کا نتیجہ؟

بڑھتی ہوئی آبادی کا مسئلہ اور اس کی وجوہات

"بڑھتی ہوئی آبادی” کا مسئلہ ایک سنجیدہ اور پیچیدہ مسئلہ ہے جس پر مختلف نظریات اور فکری مکاتبِ فکر کے حاملین نے اپنی اپنی آراء پیش کی ہیں۔ ایک حالیہ کانفرنس میں فیملی پلاننگ پر بحث کرتے ہوئے ایک عالم دین نے عزل سے متعلق احادیث کی بنیاد پر فیملی پلاننگ کے شرعی جواز کو بیان کیا۔ جبکہ دوسرے فکری حلقے نے جدید افکار کے تناظر میں اس مسئلے پر روشنی ڈالی اور کہا کہ ہمیں اپنی عقل اور اختیار کا استعمال کرتے ہوئے بڑھتی آبادی کے مسئلے پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔

آبادی کے مسئلے پر ایسی رائے عام طور پر بڑھتے جرائم اور سماجی مسائل کا سبب بڑھتی ہوئی آبادی کو ٹھہراتی ہے، اور اس وجہ سے آبادی کو کم کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔ مگر یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا واقعی "آبادی کا مسئلہ” محض زیادہ بچوں کے پیدا ہونے کی وجہ سے ہے، یا یہ کسی دوسرے، زیادہ گہرے مسئلے کا نتیجہ ہے؟ اس کا جائزہ لینے کے لیے چند اہم نکات پر غور کرنا ضروری ہے:

➊ جدید معاشرتی نظم اور انسانی خود غرضی

مارکیٹ اور جمہوری نظام کے ذریعے تشکیل پانے والا جدید معاشرہ انسان کو خودغرضی اور ذاتی مفادات کے گرد گھومنے والا بنا دیتا ہے۔ اس نظام میں انسان کی توجہ اپنی خواہشات اور مادی ضروریات پر مرکوز ہو جاتی ہے۔ ان خواہشات میں عیش و عشرت، تفریح، اور غیر ضروری سرگرمیاں (جیسے فنون لطیفہ، ناچ گانا، اور دیگر) شامل ہوتی ہیں۔ نتیجتاً، بچوں کی پرورش اور ذمہ داری کو ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے، کیونکہ یہ نظام فرد کی ذاتی خوشیوں اور مادی خواہشات کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔

➋ قومی ریاستوں اور معاشی نظام کا کردار

دوسری اہم وجہ دنیا کا قومی ریاستوں میں بٹ جانا ہے، جو انسانوں کو وسائل کی کمیابی اور سرحدوں کی قید میں مبتلا کر دیتی ہے۔ انسانیت کو ایک دوسرے سے دور کر دیا گیا ہے اور قومی ریاستوں کے قوانین اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ کون کہاں جا سکتا ہے اور کس کو کہاں رہنے کی اجازت ہے۔ اس نظام میں سرمایہ ہی یہ فیصلہ کرتا ہے کہ وسائل کس کے لیے دستیاب ہوں گے، اور باقی لوگ ان سے محروم رہ جاتے ہیں۔

➌ بچوں کو بوجھ سمجھنے کا رجحان

ان عوامل کے نتیجے میں، جدید انسان اپنے پیدا ہونے والے بچوں کو ایک بوجھ سمجھتا ہے جو اس کے رزق میں شریک اور حریف ہوتا ہے۔ یہ نقطہ نظر انسانی تاریخ میں منفرد ہے، جہاں پہلے کبھی انسان نے اپنی اولاد کو مادی نفع و نقصان کی کسوٹی پر نہیں پرکھا۔

مسئلے کا حل: اسلامی نقطہ نظر

اسلامی نقطہ نظر سے مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے ہمیں جدید معاشرتی نظام کے پس منظر کو سمجھنا ہوگا۔ علماء اور مفکرین کو یہ سوال خود سے پوچھنا چاہیے کہ آیا اسلام کا مقصد ایک ظالمانہ نظام کی پیدا کردہ مشکلات کو اسی کے اندر حل کرنے کا طریقہ بتانا ہے، یا پھر اسلام ایک بالکل مختلف، منصفانہ اور عادلانہ نظام کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔

جدید ذہنیت کا مطالبہ یہ ہے کہ تمام مسائل کا حل ایک "ماورائے اسلام” علمی ڈسکورس کے تحت تلاش کیا جائے، اور اسلام سے امید کی جاتی ہے کہ وہ ان مسائل کو جدید تناظر میں حل کرے یا کم از کم اس ڈسکورس سے نکلنے والے حل کو شرعی جواز فراہم کرے۔ تاہم، ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا اس طرح کے اجتہادی حل اسلامی فکر کو فروغ دیتے ہیں یا وہ محض جدید نظام کی خدمت کر رہے ہیں۔

مولانا مودودی نے اپنی کتاب "اسلام اور ضبطِ ولادت” میں اسی مسئلے پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے، اور اس کتاب میں اس مسئلے کو اس کے وسیع تر تناظر میں دیکھا گیا ہے۔ ان کا نقطہ نظر ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق آبادی اور وسائل کے مسائل کو کس طرح سمجھا اور حل کیا جا سکتا ہے۔

خلاصہ

➊ بڑھتی ہوئی آبادی کا مسئلہ دراصل جدید معاشرتی نظام کی خود غرضی اور مادیت پرستی سے جڑا ہوا ہے۔

➋ قومی ریاستوں اور سرمایہ دارانہ نظام نے انسان کو وسائل کی کمی اور مقابلے کی فضا میں مبتلا کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں بچے ایک بوجھ سمجھے جاتے ہیں۔

➌ اسلام کا کام ایک ظالمانہ نظام کے پیدا کردہ مسائل کا حل فراہم کرنا نہیں بلکہ ایک منصفانہ اور عادلانہ معاشرتی نظام کی طرف رہنمائی کرنا ہے۔

➍ علماء کو جدید مسائل کا حل اسلامی اصولوں کے مطابق پیش کرنا چاہیے، نہ کہ موجودہ نظام کے اندر رہتے ہوئے اس کے پیدا کردہ مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرنا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1