بنک سے قرض لینے کا شرعی حکم اور سود کی حرمت
تحریر : فتاویٰ سعودی فتویٰ کمیٹی

بنک سے قرضہ لینے کا حکم
اگر بنک سے شری طریقے کے مطابق قرضہ لیا جائے، جیسے جتنا قرض لیا تھا اتنا ہی واپس کیا جائے اور کوئی اضافہ نہ ہو، یا بنک سے کوئی چیز معینہ مدت کے لیے ادھار خریدی جائے، چاہے اس کی قیمت نقد سے زیادہ ہی ہو، اس میں کوئی حرج نہیں۔
لیکن اگر بنک سے سودی قرضہ لیا جائے تو یہ جائز نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب مقدس اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین میں اسے حرام قرار دیا ہے، اس کے متعلق اتنی شدید وعید آئی ہے جو مردار کھانے میں بھی نہیں۔ ارشاد ربانی ہے:
«الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ» [البقرة: 275]
”وہ لوگ جو سود کھاتے ہیں، کھڑے نہیں ہوں گے مگر جیسے وہ شخص کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان نے چھو کر خبطی بنا دیا ہو۔“
علمائے تفسیر اس کا معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ سود خور روز قیامت اپنی قبر سے دیوانے کی طرح اٹھے گا۔
پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
«ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا ۗ وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ فَمَن جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَىٰ فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَنْ عَادَ فَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ‎ ﴿٢٧٥﴾ ‏ يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ» [البقرة: 275,276]
یہ اس لیے کہ انہوں نے کہا: بیع تو سود ہی کی طرح ہے، حالانکہ اللہ نے بیع کو حلال کیا اور سود کو حرام کیا۔ پھر جس کے پاس اس کے رب کی طرف سے کوئی نصیحت آئے، پس وہ باز آجائے تو جو پہلے ہو چکا وہ اسی کا ہے اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے اور جو دوبارہ ایسا کرے تو وہی آگ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے، کھلانے، لکھنے اور اس کے دو گواہوں پر لعنت فرمائی ہے، پھر فرمایا کہ وہ سب برابر ہیں۔ [صحيح مسلم 1598/106]
سود کی حر مت اور وعید کے متعلق آیات اور احادیث بہت زیادہ اور مشہور ہیں محتاج کو اگر کوئی قرض نہ دے یا اسے ادھار نہ بیچے تو وہ اس مجبور کے حکم میں نہیں جس کے لیے مردار یا سود حلال ہو جاتا ہے کیونکہ محتاج کے لیے اپنے ہاتھ سے کام کرنا ممکن ہے، لہٰذا وہ کام کر کے اپنی ضرورت پوری کر سکتا ہے یا پھر کہیں دوسری جگہ چلا جائے جہاں کوئی اسے قرض دے دے یا ادھار بیچ دے۔
مضطر اور مجبور اس کو کہتے ہیں جو بھوک کی شدت میں مبتلا ہو اور اپنی سانسیں بحال رکھنے کے لیے کچھ کمانے پر قادر نہ ہو، ایسی کیفیت میں اگر وہ مردار وغیرہ نہ کھائے تو اس کے مرنے کا خدشہ ہے۔
یہ لوگ جو بنکوں کے ساتھ سودی لین دین کرتے ہیں، ان کی حاجت اس ضرورت کے حکم میں نہیں آتی جس میں مردار وغیرہ کھانا جائز ہو جاتا ہے۔ اکثر لوگوں کے لیے سود کا معاملہ اتنا معمولی اور آسان ہے کہ وہ کھلم کھلا اس کا لین دین کرتے ہیں، اس کا فتوی بھی دیتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے شبہات ان کی نگاہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے، اس کا سبب قلت علم، ضعف ایمان اور حب مال کے سوا کچھ نہیں، اللہ تعالیٰ ایسے کاموں سے محفوظ رکھے جو اس کے غضب کو دعوت دیتے ہیں۔ تاہم جس قدر ممکن ہو بنک کے ساتھ لین دین کرنے اور اس سے قرضہ لینے سے احتراز برتنا چاہے، خواہ یہ شرعی طریقہ کے مطابق ہی کیوں نہ ہو جس کا ذکر ہوا ہے۔ یہی محتاط اور بہتر رویہ ہے، کیونکہ بنکوں کے مال عموماً حرام سے خالی نہیں ہوتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
”جو شبہات سے بچ گیا اس نے اپنا دین اور عزت بچالی۔“ [سنن ابي داود، رقم الحديث 3330]
[ابن باز: مجموع الفتاوي و المقالات: 302/19]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1