بنو قریظہ کی غداری اور تورات کے مطابق سزا

بنو قریظہ کے خلاف فیصلے پر اعتراض اور اس کی وضاحت

اسلام کے مخالفین بنو قریظہ کے خلاف کیے گئے فیصلے پر ظلم اور بے رحمی کا الزام عائد کرتے ہیں۔ لیکن اگر ہم اس معاملے کی مکمل تفصیلات پر نظر ڈالیں تو یہ فیصلہ کسی بھی طور بے جا یا غیر منصفانہ نہیں تھا۔ ذیل میں اس واقعے کی وجوہات اور حالات کی وضاحت کی گئی ہے:

1. مدینہ میں معاہدہ اور بنو قریظہ کا مقام

  • جب حضور اکرم ﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے مدینہ کے یہودی قبائل سے دوستانہ معاہدہ کیا۔ بنو قریظہ بھی اس معاہدے میں شریک تھے۔
  • معاہدے کے مطابق یہودیوں کو مکمل مذہبی آزادی دی گئی اور ان کے جان و مال کی حفاظت کا وعدہ کیا گیا۔
  • بنو قریظہ کے ساتھ خاص عزت و برابری کا سلوک کیا گیا، حالانکہ پہلے وہ دوسرے یہودی قبائل (خصوصاً بنو نضیر) کے مقابلے میں کمتر حیثیت رکھتے تھے۔ معاہدے کے بعد وہ برابر کے حلیف سمجھے گئے۔

2. بنو قریظہ کی بے وفائی

معاہدے کے بعد بھی بنو قریظہ نے کئی بار معاہدہ شکنی کی:

  • بنو نضیر کے ساتھ تعاون: بنو نضیر کو جلا وطن کیا گیا، لیکن بنو قریظہ نے معاہدے کی تجدید کر کے امان حاصل کی۔
  • غزوہ خندق میں غداری: عین اس وقت جب مسلمان کفار کے حملے کا سامنا کر رہے تھے، بنو قریظہ نے معاہدہ توڑ دیا اور کفار کے ساتھ شامل ہو گئے۔
  • دشمن کے ساتھ سازباز: بنو قریظہ نے کفار کو مدینہ پر حملے کے لیے اندرونی مدد فراہم کرنے کی تیاری کی، حالانکہ وہ مسلمانوں کے حلیف تھے۔

3. بنو قریظہ کا کردار غزوہ احزاب میں

  • جنگ احزاب میں کفار اور یہودی قبائل کے حملے نے مسلمانوں کو مکمل تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا تھا۔
  • بنو قریظہ، جو مسلمانوں کے حلیف تھے، نے کفار کے ساتھ اتحاد کیا۔ اگر کفار کی جیت ہو جاتی تو مسلمانوں کا صفایا ہو جاتا۔
  • ان کے اس عمل نے مسلمانوں کو دو طرفہ جنگ کے خطرے میں ڈال دیا، جو نہایت سنگین اور ناقابل معافی جرم تھا۔

4. محاصرہ اور مطالبات

  • جنگ احزاب کے بعد، مسلمان بنو قریظہ کی طرف متوجہ ہوئے اور ان کا 25 دن تک محاصرہ کیا۔
  • بنو قریظہ نے مطالبہ کیا کہ انہیں بھی بنو نضیر کی طرح جلا وطن کر دیا جائے، لیکن یہ قبول نہ کیا گیا۔
  • پھر انہوں نے درخواست کی کہ ان کے معاملے کا فیصلہ اوس قبیلے کے سردار حضرت سعد بن معاذؓ کے سپرد کر دیا جائے، کیونکہ وہ ان کے پرانے حلیف تھے۔

5. سعد بن معاذؓ کا فیصلہ اور تورات کا قانون

حضرت سعد بن معاذؓ نے فیصلہ سنایا کہ:

  • قابلِ جنگ مردوں کو قتل کیا جائے۔
  • عورتوں اور بچوں کو غلام بنایا جائے۔

یہ فیصلہ دراصل تورات کے قانون کے مطابق تھا، جس میں یہ حکم موجود ہے:

"جب تو کسی شہر سے جنگ کرے اور وہ ہار جائے تو وہاں کے مردوں کو قتل کر دے اور عورتوں، بچوں اور مال کو اپنے لیے رکھ لے۔”
(کتاب تثنیہ، باب 20، آیت 10-14)

6. قتل شدگان کی تعداد پر اختلاف

  • مورخین کے مطابق قتل شدہ افراد کی تعداد میں اختلاف ہے:
  • کچھ روایات کے مطابق، تمام جنگی مجرموں کو سزا دی گئی، جن کی تعداد 30 سے 40 کے درمیان تھی۔
  • بعد میں بھی کچھ افراد مدینہ میں موجود رہے اور بعض نے اسلام قبول کر لیا۔ اگر تمام مردوں کو قتل کیا جاتا، تو ایسا ممکن نہ ہوتا۔

خلاصہ

بنو قریظہ کو ان کے اپنے مقرر کردہ جج حضرت سعد بن معاذؓ نے ان کے اپنے مذہبی قانون کے مطابق سزا دی۔ یہ سزا ان کی غداری اور معاہدے کی خلاف ورزی کے نتیجے میں دی گئی۔

ان کے اقدام نے مسلمانوں کی زندگی کو شدید خطرے میں ڈال دیا تھا، جس کی سزا بالکل مناسب اور انصاف پر مبنی تھی۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے