بلی کی تجارت اور گھر میں پالنا

سوال:

کیا بلی کی تجارت جائز ہے؟ نیز اگر مغرب کی نقالی و تقلید کی نیت نہ ہو تو بلی کو گھر میں پالنا جائز ہے؟

جواب از فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ، فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلی اور بلے کی قیمت کے لین دین سے منع فرمایا ہے۔ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

“أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ، وَالسِّنَّوْرِ”.
"بے شک نبی کریم ﷺ نے کتے اور بلی کی قیمت لینے سے منع فرمایا۔”
(سنن ابی داؤد: 3479)

بلی کی تجارت:

اس حدیث کی روشنی میں یہ واضح ہے کہ بلی کا خرید و فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق بلی کی قیمت لینے یا دینے سے منع کیا گیا ہے، اور یہ عمل حرام قرار دیا گیا ہے۔

بلی کو گھر میں پالنا:

بلی کو گھر میں پالنے کے حوالے سے یہ بات واضح ہے کہ اگر بلی خود سے آ جائے یا راستے میں مل جائے اور آپ اسے گھر لے آ کر پال لیں، تو یہ جائز ہے۔ بلی کو پالنے میں کوئی ممانعت نہیں ہے، بلکہ یہ عمل جائز اور درست ہے۔

تاریخی مثال:

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بلی کو اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ ان کا اصل نام عبدالرحمٰن بن صخر تھا، لیکن بلی کے ساتھ ان کی محبت اور لگاؤ کی وجہ سے ان کی کنیت "ابو ہریرہ” مشہور ہوئی۔

مغرب کی نقالی:

مغرب کی تقلید خواہ کسی بھی نیت سے ہو، ویسے ہی غلط اور غیر مناسب عمل ہے۔ بلی کو گھر میں پالنے کا عمل مغرب کی نقالی کے تحت نہیں آنا چاہیے، بلکہ اگر یہ شوق اور فطری محبت کی بنیاد پر ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

نتیجہ:

  • بلی کی تجارت: شرعی نصوص کی بنیاد پر حرام ہے۔
  • بلی کو پالنا: اگر بلی خود آجائے یا راستے میں مل جائے، تو اسے پالنا جائز ہے۔
  • مغرب کی تقلید: خواہ نیت کچھ بھی ہو، مغرب کی اندھی تقلید غیر شرعی اور غیر مناسب ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے