ماخوذ: فتاویٰ علمائے حدیث، کتاب الصلاۃ، جلد 1، صفحہ 174
سوال
زید کا کہنا ہے کہ بغیر مؤذن کی اجازت کے اذان دینا درست نہیں، چاہے وقت میں تاخیر ہو جائے۔ کیا یہ بات صحیح ہے؟
الجواب
زید کا یہ کہنا درست نہیں، کیونکہ اس بات کے لیے اس کے پاس کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے۔ اصل حکم یہ ہے کہ:
- اگر امام موجود ہو تو کوئی دوسرا شخص امامت نہ کرائے۔
- اسی طرح، اگر مؤذن مقرر ہو تو بغیر اس کی اجازت کے اذان نہ کہی جائے۔
- لیکن اگر وقت پر کوئی مؤذن موجود نہ ہو اور اذان میں تاخیر ہو رہی ہو، تو کوئی دوسرا شخص اذان دے سکتا ہے۔
حدیث شریف سے استدلال
حدیث شریف میں ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی کام کی وجہ سے تاخیر سے پہنچے تو ایک صحابی نے جماعت کرائی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آ کر ان کے پیچھے دوسری رکعت پڑھی۔
تشریح
یہ واقعہ سفر کا ہے اور صبح کی نماز کا ذکر ہے۔ عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے جماعت کرائی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پیچھے ایک رکعت ادا فرمائی۔
حوالہ
صحیح مسلم شریف، مشکوٰۃ نمبر 53، 54 (ابو سعید شرف الدین دہلوی)
فتاویٰ ثنائیہ، جلد اول، صفحہ 371