بعد از نماز عصر دو رکعتوں کی ادائیگی
جس روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے اور اس کے الفاظ یہ ہیں :
ما ترك النبى صلى الله عليه وسلم السجدتين بعد العصر عندي قط
[بخاري 592 ، 591 ، كتاب مواقيت الصلاة: باب ما يصلى بعد العصر من الفوائت]
”میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد دو رکعتیں کبھی نہیں چھوڑیں ۔“
لیکن حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی روایت میں ہے کہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے گھر میں بعد از نماز عصر صرف ایک مرتبہ دو رکعتیں پڑھیں ۔“ اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ : لم أر يصليهما قبل ولا بعد ”میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دو رکعتیں پڑھتے (کبھی) نہیں دیکھا، نہ اس سے پہلے نہ بعد میں ۔“
[صحيح: صحيح نسائى 566 ، كتاب المواقيت: باب الرخصة فى الصلاة قبل غروب الشمس ، نسائي 582]
ان احادیث کے درمیان تطبیق اس طرح دی گئی ہے کہ نافی کو راوی کے عدم علم پر محمول کیا جائے گا کہ اسے اس کی اطلاع نہیں ہوگی اور مثبت کو نافی پر ترجیح دی جائے گی (جیسا کہ اصول میں یہ بات ثابت ہے) ۔ [تحفة الأحوذى 569/1]
یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بعد از عصر دو رکعتیں پڑھنا تو ثابت ہو گیا لیکن گذشتہ روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود عصر کے بعد کوئی بھی نماز پڑھنا ممنوع قرار دیا ہے۔
(ابن حزمؒ) ممانعت کی احادیث منسوخ ہو چکی ہیں۔
[تحفة الأحوذي 568/1]
ہمارے علم کے مطابق اس مسئلہ میں راجح بات یہ ہے کہ ممانعت کی احادیث منسوخ نہیں ہو ئیں بلکہ وہ محکم ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد دو رکعت نماز اس لیے ادا کی تھی کہ وفد عبد القیس کے ساتھ مصروفیت کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی دو سنتیں نہیں پڑھ سکے تھے لہذا آپ صلى الله عليه وسلم نے وہ دو سنتیں عصر کے بعد ادا کرلیں جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
شغلـنـي نـاس مـن عبـدالـقيـس عـن الـركعتين بعد الظهر فهما هاتان
[بخاري 1233 ، كتاب السهو: باب إذا كلم وهو يصلى فأشار بيده]
”قبیلہ عبد القیس کے لوگوں نے مجھے ظہر کے بعد کی دو رکعتوں سے مشغول کر دیا پس یہ وہی دور کعتیں ہیں ۔“
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ جب بھی کوئی عمل کرتے بعد میں اس پر مداومت اختیار فرماتے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی روایت میں ہے کہ :
و كان إذا صلى صلاة أثبتها يعنى داوم عليها
[مسلم 835 ، كتاب صلاة المسافرين و قصرها: باب معرفة الركعتين اللتين كان يصليهما النبى بعد ، نساني 281/1 ، ابن خزيمة 1278 ، ابن حبان 1577]
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کوئی نماز ادا فرماتے تو اس پر مداومت اختیار فرماتے ۔“
لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بعد میں بھی نماز عصر کے بعد یہ رکعتیں پڑھتے رہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ عمل صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی خاص تھا اسی لیے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ : افنقضيهما إذا فاتنا ”اگر یہ دو رکعتیں فوت ہو جائیں تو کیا ہم بھی ان کی قضائی دیں۔؟ “ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لا ”نہیں ۔“
[ضعيف: التعليقات الرضية على الروضة الندية 242/1 ، أحمد 315/6 ، شرح معاني الآثار 306/1]
اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
كان يـصـلـي بـعـد الـعـصـر وينهى عنهما ويواصـل وينهى عن الوصال
[ضعيف: ضعيف أبو داود 278 ، ضعيف الجامع 4564 ، إرواء الغليل 441 ، أبو داود 1280]
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود عصر کے بعد نماز پڑھتے تھے لیکن (دوسروں کو ) اس سے منع فرماتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود (روزہ میں ) وصال فرماتے لیکن دوسروں کو منع کرتے ۔“
ان روایات سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ کسی اور کے لیے ان اوقات میں نوافل ادا کرنا جائز نہیں ۔
[تحفة الأحوذى 568/1 ، سبل السلام 246/1 ، نيل الأوطار 319/1]
(راجح) عصر کے بعد جب تک سورج بلند اور روشن ہو (یعنی ابھی زرد نہ ہوا ہو ) کوئی بھی نماز ادا کرنا جائز ہے خواہ فوت شدہ فرض نماز ہو، یا سنت ہو، یا نفل ہو یا نماز جنازہ ہو۔
[عون المعبود 109/2]
اس کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
ان النبى نهى عن الصلاة بعد العصر إلا والشمس مرتفعة
[صحيح: صحيح أبو داود 1135 ، كتاب الصلاة: باب من رخص فيهما إذا كانت الشمس مرتفعة ، أبو داود 1274]
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد نماز پڑھنے سے منع کیا ہے : إلا کہ اس صورت میں (جائز ہے کہ ) سورج ابھی بلند ہو۔“
➋ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے عصر کے بعد سورج زرد ہونے تک نفل پڑھنے کی اجازت ثابت ہے ۔
[مجمع الزوائد 223/2]
➌ حافظ ابن حجرؒ نے بھی اسی کی طرف اشارہ کیا ہے۔
[تلخيص الحبير 185/1 ، فتح الباري 257/2]
➍ علاوہ ازیں صحابہ وتابعین کی ایک جماعت سے عصر کے بعد نماز پڑھنا ثابت ہے۔
[المحلى لابن حزم 42/2 – 47 ، ابن أبى شيبة 351/2 ، شرح معاني الآثار 210/1]