مغربی افکار سے مرعوبیت اور اسلام میں تحریف کی کوشش
برصغیر پر مغربی اقوام کے سیاسی و نظریاتی تسلط کے بعد مسلمانوں کے اندر ایک ایسا طبقہ پیدا ہوا جو مغربی تہذیب اور افکار سے گہرا مرعوب تھا۔ ان کے نزدیک ترقی مغربی اقدار اور تصورات کی تقلید کے بغیر ممکن نہیں تھی۔ تاہم، اسلام کے بہت سے احکام ان کے راستے میں رکاوٹ تھے۔ چنانچہ، اس طبقے نے اسلام کو مغربی نظریات کے مطابق ڈھالنے کے لیے اس میں تحریف کا راستہ اختیار کیا۔ حدیث کا انکار اس منصوبے کا ایک لازمی حصہ تھا، کیونکہ حدیث کے بغیر اسلامی تعلیمات کو اپنی مرضی کے مطابق توڑ مروڑ کر پیش کرنا آسان ہو جاتا تھا۔
سر سید احمد خان: تجدیدِ دین یا مغرب سے مرعوبیت؟
سر سید احمد خان مغربی افکار سے شدید متاثر تھے اور انہیں قرآنی تعلیمات کو جدید سائنسی اور مادی نظریات سے ہم آہنگ کرنے کی فکر لاحق تھی۔
-
- انہوں نے اجماع، قیاس، اور حدیث کو اسلامی اصولوں سے خارج کر دیا۔
- ان کی تفسیر القرآن میں، انہوں نے ملائکہ، معجزات، جنات، جنت اور دوزخ جیسے موضوعات کو یا تو سرے سے رد کر دیا یا ان کی ایسی تعبیر کی جو اسلام کے روایتی نظریات سے مکمل طور پر متصادم تھی۔
(حیات جاوید، مولانا الطاف حسین حالی، حصہ اول، ص 231)
سر سید نے مروجہ اسلامی تعلیمات کو جدید سائنسی و مغربی نظریات کے مطابق ڈھالنے کی ناکام کوشش کی۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی نے ان پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ سر سید کی قرآن کی تفسیر نہ صرف دینی و علمی حلقوں میں سخت ردعمل کا سبب بنی، بلکہ یہ اجماعِ امت اور عربی لغت کے مسلّمہ اصولوں کے بھی خلاف تھی۔
(مسلم ممالک میں اسلامیت و مغربیت کی کشمکش، مولانا ابوالحسن علی ندوی، ص 99)
سر سید کے پیروکار: مولوی چراغ علی، سید امیر علی اور دیگر
مولوی چراغ علی:
-
- ان کے نزدیک قرآن صرف اخلاقی تعلیمات پر مبنی ہے اور اس کا کوئی سیاسی یا سماجی نظام نہیں۔
- انہوں نے شریعت کو محض رواجی قوانین قرار دیا اور احادیث کو جعلی اور ناقابل اعتماد ٹھہرایا۔
(Proposed political, legal and social reforms in the Ottoman Empire, Bombay, 1883, pp. 10-12)
سید امیر علی:
-
- انہوں نے معجزات، فرشتے، جنت، اور جہنم کو یا تو شاعرانہ تخیل قرار دیا یا زرتشتی، تلمودی، اور صابی تصورات کی باقیات۔
- ان کی مشہور تصنیف "The Spirit of Islam” نے مغربی اور مسلم حلقوں میں خاصا اثر ڈالا۔
(روحِ اسلام، سید امیر علی، ادارہ ثقافتِ اسلامیہ، ص 152)
غلام احمد پرویز: انکارِ حدیث کی منظم تحریک
غلام احمد پرویز نے سر سید کے خیالات کو مزید وسعت دی اور حدیث کی حجیت کو رد کرنے کے لیے منظم لٹریچر پیش کیا۔ ان کی تفسیر "مفہوم القرآن” اور دیگر تصانیف میں حدیث کو مکمل طور پر ناقابل اعتبار قرار دیا گیا۔
-
- پرویز کے مطابق، اسلام صرف قرآن پر مبنی ہے، اور حدیث کو قبول کرنا "دین میں اضافے” کے مترادف ہے۔
(مقام حدیث، جلد 1، ص 421)
-
- ان کے خیالات کی بنیاد پر قرآن کے بہت سے بنیادی تصورات جیسے نماز، روزہ، اور عبادات کی تشریح بھی مکمل طور پر تبدیل کر دی گئی۔
(قرآنی فیصلے، ص 424)
دیگر نمایاں شخصیات اور انکارِ حدیث کی تحریک
عبداللہ چکڑالوی:
برصغیر میں انکارِ حدیث کی بنیاد رکھنے والے پہلے شخص تھے۔ انہوں نے "اہلِ قرآن” نامی فرقے کی بنیاد ڈالی۔
(حجیت حدیث اور اتباع رسول ﷺ، مولانا ثناء اللہ امرتسری، ص 1)
اسلم جیراجپوری:
سر سید کی یونیورسٹی کے پروفیسر اور حدیث کے شدید ناقد تھے۔ انہوں نے اسلامی تاریخ اور تفسیر قرآن پر بھی لکھا، لیکن ان کے خیالات انکارِ حدیث کی بنیاد پر تھے۔
نیاز فتح پوری:
ایک ممتاز ادبی شخصیت، لیکن انکارِ حدیث کے سبب انہوں نے مسلمانوں کی تمام خرابیوں کا ذمہ دار حدیث کو ٹھہرایا اور آخرکار قرآن کے الہامی ہونے سے بھی انکار کر دیا۔
(من یزدان، جلد 1، ص 405)
ڈاکٹر غلام جیلانی برق:
انکارِ حدیث میں ابتدا میں خاصے نمایاں تھے، لیکن بعد میں انہوں نے توبہ کر کے حدیث کی اہمیت کو تسلیم کیا اور اس پر معافی مانگی۔
انکارِ حدیث کے اثرات
- انکارِ حدیث کے نتیجے میں دین اسلام اپنی اصل شکل سے محروم ہو جاتا ہے، کیونکہ قرآن اور حدیث ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں۔
- انکارِ حدیث کے بعد، یہ افراد قرآنی آیات کے معانی کو بھی نئے سرے سے توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔
انجام: انکارِ حدیث سے الحاد تک
انکار حدیث کے علَم بردار اکثر دین کی ایسی شکل پیش کرتے رہے جو عملی، معقول، اور قابل عمل نہ تھی۔
کئی افراد جیسے غلام احمد پرویز اپنی پوری زندگی دین کو اپنی عقل کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے رہے لیکن اس کے نتیجے میں ان کے پیروکار زیادہ تر الحاد کی طرف مائل ہو گئے۔
خلاصہ
انکارِ حدیث کی تحریک برصغیر میں مغربی افکار سے مرعوبیت کا نتیجہ تھی، جو اسلام کے بنیادی عقائد کو جدید نظریات کے مطابق ڈھالنے کی ناکام کوشش تھی۔ اس تحریک نے اسلام کو ناقابل عمل بنا دیا، اور اس کے علَم بردار یا تو الحاد کی طرف مائل ہو گئے یا اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے اسلام کی حقیقی شکل کی طرف لوٹ آئے۔