برتن میں سانس لینا اور اس میں پھونکنا اور مشکیزے کو منہ لگا کر پانی پینا مکروہ ہے
➊ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ :
أن النبى صلى الله عليه وسلم نهي أن يتنفس فى الإناء أو ينفخ فيه
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے برتن میں سانس لینے اور اس میں پھونکنے سے منع فرمایا ہے ۔“
[صحيح: إرواء الغيل: 1977 ، 36/7 ، ابو داود: 3728 ، كتاب الأشربة: باب فى النفخ فى الشراب والتنفس فيه ، ابن ماجة: 3429 ، ترمذي: 1888 ، أحمد: 220/1]
➋ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
إذا شرب أحـدكـم فـلا يتنفس فى الإناء
”جب تم میں سے کوئی پیے تو برتن میں سانس مت لے ۔“
[بخاري: 5630 ، كتاب الاشربة: باب النهي عن التنفس فى الإناء ، مسلم: 267 ، ترمذي: 1889، نسائي: 43/1]
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
نهي رسول الله عن اختناث الأسقية أن يشرب من أفواهها
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشکیزے کھول کر ان کے مونہوں سے پینے سے منع فرمایا ہے ۔“
[بخارى: 5625 ، كتاب الأشربة: باب اختناث الأسقية ، مسلم: 2023 ، ابو داود: 3720 ، ترمذي: 1890 ، ابن ماجة: 3418]
➋ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ :
نهى النبى صلى الله عليه وسلم عن الشرب من فى السقاء
”نبي صلی اللہ علیہ وسلم نے مشکیزے کے منہ سے پانی پینے سے منع فرمایا ہے ۔“
[بخارى: 5629 ، كتاب الأشربة: باب الشرب من فم السقاء]
➌ ایک آدمی نے مشکیزے کو منہ لگا کر پیا تو اس سے سانپ نکل آیا ۔
[احمد: 230/2 ، 487]
درج ذیل حدیث گذشتہ احادیث کے مخالف معلوم ہوتی ہے:
حضرت کبشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے:
فشرب مـن فـي قـربة معلقة قائما فقمت إلى فيها فقطعته
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر لٹکے ہوئے مشکیزے کے منہ سے پانی پیا ، پھر میں نے اس (مشکیزے) کے منہ کو کاٹ کر محفوظ کر لیا ۔“
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 2763 ، كتاب الأشربة: باب الشرب قائما ، ابن ماجة: 3423 ، ترمذي: 1892 ، أحمد: 434/6 ، مسند حميدي: 354]
ان بظاہر متعارض احادیث میں مختلف طریقوں سے تطبیق دی گئی ہے۔
➊ (ابن حزم ) مشکیزے کو منہ لگا کے پانی پینا حرام ہے ۔
[نيل الأوطار: 281/5]
➋ (ابن حجرؒ ) جواز کی احادیث میں لٹکے ہوئے مشکیزے کا ذکر ہے مطلق نہیں اس لیے ان احادیث سے مراد ضرورت کی حالت ہے ۔ (یعنی بوقت ضرورت مشکیزے کے منہ سے بھی پیا جا سکتا ہے بصورت دیگر نہیں ) ۔
[فتح البارى: 92/10]
(راجح) ممانعت کی احادیث حرمت پر نہیں بلکہ کراہت پر دلالت کرتی ہیں ۔
[شرح مسلم للنووي: 213/7 ، نيل الأوطار: 281/5]