وعن ابي هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: إياكم والظن فإن الظن اكذب الحديث . [متفق عليه]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”گمان سے بچو کیونکہ گمان سب سے جھوٹی بات ہے۔“ [متفق عليه ]
تخریج : [بخاري 6066] ، [مسلم، البر والصلة / 38]
وغیرھما دیکھئے تحفۃ الاشراف [172/10]
صحیح بخاری میں پوری حدیث اس طرح ہے :
ولا تحسسوا ولا تجسسوا ولا تناجشوا ولا تحاسدوا ولا تباغضوا ولا تدابروا وكونوا عباد الله إخوانا
”اور نہ ٹوہ لگاؤ، نہ جاسوسی کرو، نہ دھوکے سے (خرید و فروخت میں) بولی بڑھاؤ، نہ ایک دوسرے پر حسد کرو، نہ ایک دوسرے سے دل میں کینہ رکھو اور نہ ایک دوسرے سے قطع تعلق کرو اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ۔“
فوائد :
➊ قرطبی نے فرمایا کہ اس جگہ ظن سے مراد ایسی تہمت ہے جس کا کوئی سبب نہ ہو مثلا ایک آدمی کے بدکار یا شرابی ہونے کا خیال دل میں جما لینا حالانکہ اس سے ایسی کوئی بات سرزد نہیں ہوئی کہ اسے ایسا سمجھا جائے۔ اس لئے اس کے ساتھ ہی فرمایا ولا تجسسوا جاسوسی مت کرو۔ کیونکہ جب کسی شخص کے برے ہونے کا خیال دل میں جگہ پکڑ لیتا ہے حالانکہ اس کی کوئی دلیل نہیں ہوتی تو آدمی وہ بات ثابت کرنے کے لئے جاسوسی کرتا ہے ٹوہ لگاتا ہے کان لگاتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرما دیا۔ یہ حدیث اس آیت سے بہت ملتی جلتی ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا [49-الحجرات:12]
” اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو بہت گمان سے بچو کیونکہ بعض گمان گناہ ہیں اور نہ جاسوسی کرو اور نہ تم میں سے بعض دوسرے کی غیبت کرے۔ “
آیت میں مسلمان کی عزت کو محفوظ رکھنے کی بہت ہی زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ چنانچہ پہلے تو کسی بھی مسلم بھائی کے معاملے میں خواہ مخواہ کے گمان سے منع فرمایا جس کا کوئی باعث اور کوئی سبب نہ ہو اگر گمان کرنے والا کہے کہ میں اس گمان کی تحقیق کے لئے جستجو کرتا ہوں تو اسے کہا گیا وَلَا تَجَسَّسُوا جاسوسی مت کرو۔ اگر وہ کہے جاسوسی کے بغیر ہی مجھے یہ بات ثابت ہو گئی ہے تو کہا: گیا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ایک دوسرے کی غیبت (دوسرے بھائی کی عدم موجودگی میں وہ بات جو اسے ناپسند ہو خواہ اس میں وہ موجود ہی ہو) مت کرو۔ [فتح الباري]
➋ ظن کی دو حالتیں ہیں۔ ایک ظن غالب جو کسی دلیل یا مضبوط علامت کے ساتھ قوی ہو جائے اس پر عمل کرنا درست ہے شریعت کے اکثر احکام اسی پر مبنی ہیں اور دنیا کے تقریبا تمام کام اسی پر چلتے ہیں۔ مثلا عدالتوں کے فیصلے گواہوں کی گواہی باہمی تجارت، ٹیلی فون اور خطوط کے ذریعے اطلاعات اور خبر واحد کے راویوں کی روایت وغیرہ ان سب چیزوں میں غور و فکر جانچ پڑتال اور پوری کوشش سے حاصل ہونے والا علم بھی ظن غالب ہے اور اس پر عمل واجب ہے اسے ظن اس لئے کہتے ہیں کہ اس کی جانب مخالف کا ادنیٰ سا امکان رہتا ہے مثلاً ہو سکتا ہے گواہ کی گواہی درست نہ ہو، اطلاع دینے والا جھوٹ بول رہا ہو۔ راوی کو غلطی لگی ہو وغیرہ لیکن اس امکان کا کوئی اعتبار نہیں کیونکہ اگر اس امکان پر جائیں تو دنیا کا کوئی کام ہو ہی نہ سکے۔ اس لئے اپنی پوری کوشش کے بعد دلائل سے جو علم حاصل ہو ظن غالب ہونے کے باوجود اس پر عمل واجب ہے۔
دوسرا ظن وہ ہے جو دل میں آ جاتا ہے مگر اس کی کوئی دلیل نہیں ہوتی، دلیل نہ ہونے کی وجہ سے دل میں اس کے ہونے یا نہ ہونے کی بات برابر ہوتی ہے اسے شک بھی کہتے ہیں یا اس کے ہونے کا امکان اس کے نہ ہونے سے بھی کم ہوتا ہے۔ یہ وہم کہلاتا ہے۔ ان کی یہ صورتیں مذموم ہیں اور ان سے اجتناب واجب ہے۔ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ”بے شک بعض گمان گناه ہیں“ سے یہی مراد ہے اور إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا [يونس : 36] ”بے شک گمان حق کے مقابلہ میں کچھ فائدہ نہیں دیتا“ اور وَمَا تَهْوَى الْأَنفُسُ [النجم : 23] ”یہ لوگ صرف اپنے گمان کی اور اپنی خواہشات کی پیروی کر رہے ہیں“ میں اسی ظن کا ذکر ہے۔
➌ جیسا کہ اوپر گزرا حدیث میں ایسے ظن (گمان ) سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے جو بے دلیل ہو مثلاٍ ایک آدمی جو ظاہر میں صالح ہے اس کے عیوب پر اللہ کی طرف سے پردہ پڑا ہوا ہے عام مشاہدہ میں وہ عفیف اور امانتدار ہے اس کی بد دیانتی یا گناہ گار ہونے کی کوئی دلیل یا علامت نہیں اس کے متعلق بدگمانی کرنا حرام ہے۔ ہاں اگر گمان کرنے کی کوئی واقعی دلیل یا علامت موجود ہو تو اس وقت گمان منع نہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہر گمان سے منع نہیں فرمایا۔ بلکہ فرمایا : اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ) ”زیادہ گمان سے بچو کیونکہ بعض گمان گناہ ہیں۔ “
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں فرمایا : ما يجوز من الظن جو گمان جائز ہیں۔ اور اس میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ حدیث ذکر کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ما اظن فلانا وفلانا يعرفان من ديننا شيئا ”میں فلاں اور فلاں کے متعلق گمان نہیں کرتا کہ وہ ہمارے دین میں سے کچھ بھی جانتے ہیں۔“ لیث نے فرمایا : یہ دونوں آدمی منافق تھے۔ انتھی۔ اس جائز گمان سے وہ گمان مراد ہے جس کی علامات اور دلیلیں واضح ہوں۔
➍ اگر دل میں کسی شخص کے برا ہونے کا خیال آئے مگر آدمی اسے اپنے دل میں جگہ نہ دے نہ ہی اس کا پیچھا کرے نہ اس کی غیبت کرے تو اس میں کوئی گناہ نہیں۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ان الله تجاوز لامتي عما حدثت به انفسها ما لم تعمل او تكلم به [مسلم/ الإيمان 332]
”اللہ تعالیٰ نے میری امت کو وہ باتیں معاف کر دی ہیں جو وہ اپنے دل سے کریں جب تک ان پر عمل نہ کریں یا زبان پر لائیں۔“
➎ بدگمانی سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے کیونکہ جب کوئی شخص کسی کے متعلق بدگمانی کرتا ہے تو وہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ وہ شخص ایسا ایسا ہے چونکہ حقیقت میں وہ شخص ایسا نہیں ہوتا اس لئے اس کے اس فیصلے کو جھوٹ کہا گیا اور بدترین اس لئے کہ اس نے بغیر کسی قرینے یا سب کے محض نفس اور شیطان کے کہنے پر اسے برا قرار دے لیا۔ جب کہ اس کے برے ہونے کی سرے سے کوئی بنیاد ہی نہیں۔