سوال
کیا بدعتی عالم کے پیچھے نماز پڑھنا اور اس کی وعظ و نصیحت سننا درست ہے؟ اگر سامعین اس کے خلاف قرآن و سنت باتوں کو نظر انداز کر دیں اور باقی نصیحتوں پر عمل کریں تو کیا اس میں کوئی مضائقہ ہے؟
جواب
اس مسئلے میں علماء دین کی رائے حدیث شریف کی روشنی میں یہ ہے کہ جان بوجھ کر بدعتی کو امام نہیں بنانا چاہیے، بلکہ ایسے شخص کو امام مقرر کیا جائے جو دین میں بہتر ہو۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"اپنے بہترین لوگوں کو امام بناؤ کیونکہ وہ تمہارے اور تمہارے رب کے درمیان سفیر ہیں۔”
(رواہ دارقطنی)
ضرورت کے وقت بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنا
اگر حالات کی مجبوری ہو، مثلاً بدعتی شخص کوئی حکمران یا رئیس ہو، اور اس کے خلاف عمل کرنے سے فتنہ و فساد کا اندیشہ ہو، تو بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے۔ اس کی مثال صحیح بخاری میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے واقعہ سے ملتی ہے، جب لوگوں نے آپ سے کہا کہ امام فتنہ کے پیچھے نماز پڑھانے میں ہم گناہ محسوس کرتے ہیں۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"لوگوں کے سب اعمال میں سب سے بہتر عمل نماز ہے، جب لوگ نماز پڑھیں تو تم بھی ان کے ساتھ نماز پڑھ لو۔”
ضرورت کے وقت کا حکم
اسی تناظر میں یہ حدیث بھی ہے:
"فرض نماز ہر مسلمان کے پیچھے واجب ہے، چاہے وہ نیک ہو یا فاسق۔”
بدعتی واعظ کا وعظ سننے کا مسئلہ
بدعتی واعظ کا وعظ سننے میں گمراہی کا خطرہ ہوتا ہے کیونکہ ایسے واعظین کی تقاریر میں اکثر قرآن و سنت کے خلاف باتیں ہوتی ہیں، جن سے لوگ گمراہ ہو سکتے ہیں۔ بدعتی واعظین کے کلمات سے شرک، بدعت اور معاصی پھیلتی ہیں، اور سامعین اکثر ان باتوں کو سمجھ نہیں پاتے جو قرآن و حدیث کے مخالف ہیں۔ اس لیے بدعتی واعظ کا وعظ سننا نہیں چاہیے، کیونکہ ہر سننے والا یہ نہیں سمجھ سکتا کہ کون سی بات صحیح ہے اور کون سی غلط۔
رسول اللہ ﷺ کی حدیث کے مطابق، جب کسی بدعتی کی ناحق بات سنی جائے، تو اسے ہاتھ سے، زبان سے یا دل سے رد کرنا چاہیے۔ اگر بدعتی کو ہاتھ یا زبان سے روکا نہ جا سکے، تو کم از کم اس کے وعظ میں شریک نہ ہوا جائے۔
نتیجہ
بدعتی عالم کے پیچھے مجبوری کے بغیر نماز نہیں پڑھنی چاہیے اور بدعتی واعظ کا وعظ سننا بھی مناسب نہیں ہے۔ اگر فتنہ و فساد کے خوف سے اس کے پیچھے نماز پڑھ لی جائے، تو وہ جائز ہو سکتی ہے، لیکن ایسے واعظین کی گمراہ کن باتوں سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
واللہ اعلم بالصواب۔ (سید محمد نذیر حسین)