بدعات اور خرافات کا رد قرآن حدیث اور اجماع صحابہ کی روشنی میں
تحریر: انیلہ عتیق صاحبہ

دینِ اسلام کی بنیاد خالص توحید، اتباعِ سنت اور شریعت کے احکام پر ہے۔ اس میں بدعات اور خرافات کی کوئی گنجائش نہیں، کیونکہ یہ غیر شرعی اضافے اور دین میں تحریف کا سبب بنتے ہیں۔ قرآن، حدیث اور اجماعِ صحابہؓ کی روشنی میں بدعات کی سختی سے مذمت کی گئی ہے، اور دین میں کسی بھی نئی چیز کی شمولیت کو گمراہی قرار دیا گیا ہے۔

قرآن کی روشنی میں بدعات کا رد

(1) دین مکمل ہو چکا

اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا کہ دین اسلام مکمل ہے اور اس میں کسی بھی قسم کے اضافے یا کمی کی ضرورت نہیں:

اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا
(المائدہ: 3)

’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا۔‘‘

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ دین میں کسی نئی چیز کی ضرورت نہیں، کیونکہ اسلام مکمل ہو چکا ہے۔

(2) غیر شرعی اعمال کی مذمت

اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی سختی سے مذمت کی ہے جو دین میں غیر شرعی چیزیں شامل کرتے ہیں:

أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُم مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ اللَّهُ
(الشوریٰ: 21)

’’کیا ان کے ایسے شریک ہیں جنہوں نے ان کے لیے وہ دین مقرر کر دیا ہے جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی؟‘‘

یہ آیت ان تمام افراد کے بارے میں ہے جو اپنی طرف سے دین میں نئی رسومات اور عبادات ایجاد کرتے ہیں، جو کہ سراسر گمراہی ہے۔

 حدیث کی روشنی میں بدعات کا رد

رسول اللہﷺ نے ہر قسم کی بدعت کو گمراہی قرار دیا ہے اور سختی سے منع فرمایا ہے۔

(1) ہر بدعت گمراہی ہے

نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ، فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ
(ابو داؤد: 4607، ترمذی: 2676)

’’(دین میں) نئی پیدا کی گئی باتوں سے بچو، کیونکہ ہر نئی چیز بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘

یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ دین میں کسی بھی قسم کی نئی ایجاد قابلِ قبول نہیں، بلکہ وہ سراسر گمراہی ہے۔

(2) دین میں اضافہ کرنے والوں کا رد

رسول اللہﷺ نے دین میں نئی چیزیں داخل کرنے والوں کے بارے میں ارشاد فرمایا:

مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ
(بخاری: 2697، مسلم: 1718)

’’جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جو اس میں نہیں تھی، تو وہ (عمل) مردود ہے۔‘‘

یہ حدیث اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ دین میں کوئی بھی نیا اضافہ ناقابلِ قبول اور مسترد شدہ ہے۔

 اجماعِ صحابہ کی روشنی میں بدعات کا رد

صحابہ کرامؓ بھی بدعات کی سختی سے مخالفت کرتے تھے اور انہوں نے دین میں کسی بھی نئی چیز کی اجازت نہیں دی۔

(1) سیدنا عمرؓ کا قول

سیدنا عمر بن خطابؓ نے فرمایا:

كُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَإِنْ رَآهَا النَّاسُ حَسَنَةً
(دارمی: 96)

’’ہر بدعت گمراہی ہے، چاہے لوگ اسے اچھا سمجھیں۔‘‘

یہ قول واضح کرتا ہے کہ بدعت چاہے بظاہر اچھی لگے، لیکن وہ گمراہی ہی رہے گی۔

(2) سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کا قول

سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا:

اتَّبِعُوا وَلَا تَبْتَدِعُوا، فَقَدْ كُفِيتُمْ
(دارمی: 211)

’’اتباع کرو، بدعات نہ گھڑو، کیونکہ تمہیں مکمل دین دیا جا چکا ہے۔‘‘

یہ قول اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ دین اسلام میں کسی بھی نئی چیز کی کوئی ضرورت نہیں، کیونکہ اللہ اور اس کے رسولﷺ نے مکمل دین ہمیں عطا کر دیا ہے۔

نتیجہ

قرآن، حدیث اور اجماعِ صحابہ کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ بدعات کی دین میں کوئی گنجائش نہیں۔ ہر نئی ایجاد گمراہی ہے، چاہے وہ بظاہر کتنی ہی اچھی کیوں نہ لگے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ صرف قرآن و سنت کی پیروی کریں اور صحابہ کرامؓ کے طریقے پر چلیں، کیونکہ یہی نجات کا واحد راستہ ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1