بدبودار چیز کھا کر مسجد میں جانے کی ممانعت صحیح احادیث کی روشنی میں
یہ اقتباس الشیخ محمد منیر قمر کی کتاب احکام مساجد سے ماخوذ ہے۔

بد بودار چیز کھا کر مسجد میں جانا

آداب مسجد میں سے ہی یہ بھی ہے کہ کوئی بد بودار چیز کھا کر مسجد میں اس وقت تک نہ جائے جب تک منہ سے اس کی بد بو زائل نہ ہو جائے۔ کیونکہ اس سے دوسروں کو تکلیف پہنچتی ہے۔ جیسے کچا پیاز یا لہسن اور مولی وغیرہ۔ تو ان کے بارے میں صحیح بخاری و مسلم، ابوداؤد، ابوعوانہ، ابن السنی اور مسند احمد میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من أكل ثوما أو بصلا فليعتزلنا أو ليعتزل مسجدنا وليقعد فى بيته
بخاری 855 – مسلم مع نووی 5015/30 – صحیح ابی داؤد 3238 – ابن خزیمہ 83/3 – تحقیق الاحسان 334/2 – صحیح الجامع 255/5/3
جس نے لہسن یا پیاز کھایا، وہ ہم سے دور ہی رہے، یا وہ ہماری مسجد سے دور رہے۔ اور اسے چاہئے کہ وہ اپنے گھر میں بیٹھا رہے۔
ایسے ہی صحیح بخاری و مسلم، ترمذی و نسائی، ابن حبان، ابوعوانہ، بیہقی، ابن خزیمہ، مصنف عبدالرزاق و ابن ابی شیبہ، بغوی، طحاوی اور طبرانی صغیر میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من أكل هذه البقلة الثوم والبصلة والكراث فلا يقربنا فى مساجدنا فإن الملائكة تتأذى مما يتأذى منه بنو آدم
مسلم مع نووی 49/5/3 – صحیح نسائی 683 – صحیح ترمذی 1475 – صحیح الجامع 256/5/3 – الارواء 334/2 – شرح السنہ 387/2، 389 – للتفصیل الاحسان 5230522/4 – تخریج حدیث 1634
جس نے لہسن، پیاز اور گندنا میں سے کچھ کھایا وہ ہماری مساجد میں ہمارے قریب نہ آئے۔ کیونکہ فرشتوں کو بھی ان چیزوں سے اذیت پہنچتی ہے جن چیزوں سے انسانوں کو اذیت پہنچتی ہے۔
ایسے ہی ابوداؤد اور بیہقی، ابن ابی شیبہ، ابن حبان اور ابن خزیمہ میں حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من أكل هذه الشجرة الخبيثة فلا يقربن مسجدنا ثلاثا
صحیح ابی داؤد 3239 – بیہقی 76/3 – صحیح ابن خزیمہ 83/3 – الموارد 317 – الاحسان 522،521/4
جس نے اس خبیث پودے میں سے (یعنی لہسن میں سے) کچھ کھایا وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے۔ یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ دہرا کر فرمائی۔
امام ابن حبان نے اسحاق سے نقل کیا ہے۔ جو اس حدیث کی سند کے ایک راوی ہیں۔ کہ اس درخت سے مراد لہسن ہے۔ ایسے ہی صحیح مسلم اور ابن ماجہ، صحیح ابن حبان، سنن کبری، بیہقی و شرح السنہ، مسند ابی عوانہ و مسند احمد، موطا امام مالک میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
من أكل من هذه الشجرة فلا يؤذينا فى مجالسنا يعني الثوم
مسلم مع نووی 49/5/3 – موطا مع زرقانی 40/1 – دار المعرف – صحیح الجامع 2581513 – الاحسان 524،523/4
جس نے اس خبیث پودے (یعنی لہسن) سے کچھ کھایا وہ ہماری مجلسوں میں آکر ہمیں اذیت و تکلیف ہرگز نہ پہنچائے۔
اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بخاری و مسلم میں مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من أكل هذه الشجرة يعني الثوم فلا يقربن مصلانا
بخاری مع الفتح 853 – مسلم مع نووی 48/5/3 – صحیح الجامع 258/5/3
جس نے اس خبیث پودے یعنی لہسن میں سے کچھ کھایا وہ ہماری جانماز کے قریب بھی نہ پھٹکے۔
جبکہ صحیح مسلم و ابوداؤد، ابن ماجہ، ابن حبان، ابن خزیمہ اور بیہقی میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ارشاد نبوی ہے:
من أكل من هذه الشجرة فلا يقربن المساجد
مسلم مع نووی 48/5/3 – صحیح ابی داؤد 3240 – ابن ماجہ 1016 – ابن خزیمہ 82/3 – صحیح الجامع 257/5/3 – تحقیق الاحسان 522/4
جس نے اس لہسن کے پودے میں سے کچھ کھایا وہ مساجد کے قریب نہ آئے۔
اور صحیح مسلم و بخاری، ابی عوانہ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ارشاد نبوی ہے:
من أكل من هذه الشجرة فلا يقربن ولا يصلين معنا
بخاری مع الفتح 856 – مسلم مع نووی 49/5/2 – صحیح الجامع 258/5/3
جس نے اس لہسن کے پودے میں سے کچھ کھایا وہ ہمارے قریب نہ آئے، اور نہ ہی ہمارے ساتھ نماز پڑھے۔
اور صحیح مسلم و ابوداؤد، ابن خزیمہ اور مسند احمد میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ارشاد نبوی ہے:
من أكل من هذه الشجرة الخبيثة شيئا فلا يقربنا فى المسجد. يا أيها الناس إنه ليس لي تحريم ما أحل الله ولكنها شجرة أكره ريحها
مسلم مع نووی 51050/5/3 – ابن خزیمہ 84/3 – صحیح الجامع 257/5/3 – سنن ابی داؤد 3823
جس نے اس خبیث پودے میں سے کچھ کھایا، وہ ہماری مسجد میں ہمارے قریب نہ آئے۔ اے لوگو! مجھے حق نہیں کہ میں اللہ کی حلال کردہ چیز کو حرام کروں لیکن ہمیں اس پودے کی بو ناگوار ہے۔
اور ابوداؤد وابن حبان، بیہقی و مسند احمد میں حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
من أكل هذه الشجرة الخبيثة فلا يقربن مصلانا حتى يذهب ريحها
صحیح ابی داؤد 3241 – ابن حبان الموارد 319 – صحیح الجامع 257/5/3
جس نے اس خبیث پودے میں سے کچھ کھایا، وہ تب تک ہماری جانماز کے قریب نہ آئے جب تک اس کی بو زائل نہ ہو جائے۔
لہسن، پیاز اور گندنا وغیرہ بد بودار چیزیں کھاتے ہی مسجد میں نہیں جانا چاہئے۔ بلکہ یہ چیزیں اگر کھانا ہی ہوں، تو اتنی دیر پہلے کھائیں کہ مسجد میں جانے تک ان کی بد بو زائل ہو چکی ہو۔ یا پھر ایسی چیز یا کھانا استعمال کریں جو ان کی بد بو کو ختم کر دے. تاکہ مسجد میں آس پاس کے نمازیوں کو اذیت نہ ہو۔ اگر کوئی دوسرا نہ ہو تو، کم از کم اللہ تعالیٰ کے فرشتے تو ہوتے ہی ہیں. انہیں اس بد بو سے تکلیف نہ ہو۔

مذکورہ ترکاریوں کو پکا لینے کے بعد ان کا حکم:

اور یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ ان ترکاریوں کو کھانے کے بعد مسجد میں جانے کی ممانعت صرف اس شکل میں ہے جبکہ انہیں کچا کھایا جائے اور منہ سے ان کی بو پھوٹتی رہے۔ اگر تاخیر یا کسی چیز کے استعمال سے ان کی بو زائل ہو جائے تو پھر ممانعت نہیں ہوگی. کیونکہ ممانعت کا اصل سبب بد بو ہے نہ کہ یہ ترکاریاں۔ اور اس بات کی صراحت بعض طرق سے حدیث میں بھی وارد ہوئی ہے کہ یہ حکم صرف ان ترکاریوں کے کچا کھائے جانے کی صورت میں ہے یا ان کی بد بو کے وجود کی صورت میں ہے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں ذکر کی گئی احادیث میں سے پہلی حدیث جو بخاری و مسلم، ابوداؤد، ابوعوانہ، بیہقی اور مسند احمد کے حوالہ سے ذکر کی گئی ہے، اس حدیث کے آخر میں ہے:
قلت ما يعني به
میں نے پوچھا کہ اس سے (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی) کیا مراد ہے؟
تو انہوں نے بتایا:
ما أراه إلا نيئا
میرے خیال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد کچے لہسن سے تھی۔
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں لکھا ہے، یہ سوال کس کی طرف سے ہے، اور جواب کس نے دیا ہے۔ اس کا ٹھیک ٹھیک پتہ تو نہیں چل سکا، البتہ میرا خیال ہے کہ سوال ابن جریج نے کیا ہے۔ اور یہ جواب امام عطاء کی طرف سے ہے۔ اور مصنف عبدالرزاق میں وارد اثر سے اس بات کا ہی اشارہ ملتا ہے۔ البتہ کرمانی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ سوال امام عطاء کی طرف سے ہے اور جواب حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے دیا ہے۔ تو اس شکل میں اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی لہسن سے مراد کچے کا استعمال ہے۔
فتح الباری 341/2
اور اسی حدیث کے آخر میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ مخلد بن یزید نے ابن جریج سے روایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے مراد اس کی بد بو ہے۔
اور مصنف عبدالرزاق میں ہے:
أراه يعني النيئة التى لم تطبخ
ایضا
میرا خیال ہے کہ اس سے مراد کچا لہسن ہے، جو پکایا نہ گیا ہو۔
اور مستخرج ابونعیم میں بھی یہی الفاظ ہیں:
يريد النيئة التى لم تطبخ
بحوالہ فتح الباری ایضا
کہ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد کچا لہسن ہے جو پکایا نہ گیا ہو۔
اور کچے لہسن کو پکا لینے سے اس کا حکم ہی بدل جاتا ہے، پھر اس کے استعمال میں کراہت نہیں رہتی۔ کیونکہ اس طرح اس کی بد بو ختم ہو جاتی ہے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں صحیح مسلم، نسائی، ابن ماجہ، ابن خزیمہ اور مسند احمد میں ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک خطبے میں فرمایا:
إنكم أيها الناس تأكلون من شجرتين ما أراهما إلا خبيثتين هذا البصل والثوم ولقد رأيت نبي الله صلى الله عليه وسلم إذا وجد ريحها من الرجل أمر به فأخرج إلى البقيع فمن أكلها فليمتها طبخا
مسلم مع نووی 53,54/5/3۔ صحیح نسائی 684۔ ابن ماجہ 3363 ۔ ابن خزیمہ 84/3 ۔ الارواء 156/8
اے لوگو! تم یہ پودے لہسن اور پیاز کھاتے ہو، جبکہ میں انہیں خبیث سمجھتا ہوں۔ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو بقیع کی طرف نکال دیا تھا۔ کیونکہ اس سے ان کی بو آ رہی تھی۔ اور جو شخص یہ کھانا چاہے اسے چاہئے کہ انہیں (ہنڈیا میں) پکا کر ان کی بو کو مارے۔
اس حدیث پر امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے یوں تبویب کی ہے:
باب الدليل على أن النهي عن إتيان المسجد لا يكون إلا لمن أكلها نيئا غير مطبوخ
ابن خزیمہ 83/3
اس بات کی دلیل کا بیان کہ مساجد میں آنے کی ممانعت ان لوگوں کے لئے ہے، جو اسے پکائے بغیر کچا ہی کھائیں۔
اور یہی بات حضرت علی رضی اللہ عنہ سے موقوفاً اور مرفوعاً دونوں طرح مروی ہے۔
چنانچہ ابوداؤد اور ترمذی میں شریک بن حنبل بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا:
نهى عن أكل الثوم إلا مطبوخا
صحیح ابی داود 3243۔ صحیح ترمذی 1277. ارواء الغلیل 155/8
انہوں نے لہسن کھانے سے منع فرمایا الا یہ کہ اسے ہنڈیا میں پکا لیا جائے۔
اور دوسری روایت میں ہے:
لا يصلح أكل الثوم إلا مطبوخا
پکائے بغیر لہسن کھانا ٹھیک نہیں ہے۔
امام ترمذی نے اس حدیث کی سند پر کلام کیا ہے۔ لیکن یہ حدیث اپنی دوسری شاہد و مؤید حدیث کی بنا پر محدثین کرام کے نزدیک صحیح ہے۔ چنانچہ ابوداؤد اور مسند احمد میں حضرت مرہ المزنی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:
نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن هاتين الشجرتين وقال لمن أكلها فلا يقربن مسجدنا وقال إن كنتم لا بد آكليها فأميتوها طبخا قال يعني البصل والثوم
صحیح ابی داود 3242, 726/2۔ ارواء الغلیل 155/8
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو پودوں یا ترکاریوں یعنی لہسن اور پیاز سے منع فرمایا، اور فرمایا جو شخص ان میں سے کچھ کھائے وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے، اور فرمایا اگر تم ضرور ہی یہ کھانا چاہو، تو انہیں پکا کر ان کی بو کو مار لیا کرو۔
اور یہی بات حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے، جو ابھی گزری ہے، اور وہ بھی اس حدیث کا موید و شاہد ہے۔
اس ساری تفصیل سے معلوم ہوا کہ لہسن، پیاز وغیرہ کو جب سالن میں پکا کر کھایا جائے۔ جبکہ مرچ مصالحہ اور کبھی کبھی روسٹ ہو جانے سے اس کی بو زائل ہو چکی ہو تو پھر اس کے کھانے میں حرج نہیں ہے۔
انظر اعلام المساجد ص 330,329

حرام نہیں:

اور یہاں اس بات کی وضاحت بھی کرتے جائیں کہ یہ ترکاریاں بذات خود حرام تو کیا مکروہ بھی نہیں۔ ان کا کھانا مباح ہے۔ بس صرف یہ شرط ہے کہ انہیں پکا کر کھایا جائے، یا پھر کھاتے ہی مسجد وغیرہ میں نہ جایا جائے۔ اور اس کے حرام نہ ہونے کی دلیل کے طور پر ایک حدیث ذکر کی جا چکی ہے۔ جس میں صحیح مسلم، ابوداؤد، ابن خزیمہ اور مسند احمد کے مطابق حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنه ليس لي تحريم ما أحل الله ولكنها شجرة أكره ريحها
مسلم مع نووی 51050/5/3
مجھے حق نہیں کہ میں اللہ کی حلال کردہ اشیاء کو حرام کر دوں، لیکن اس پودے کی بو مجھے ناگوار ہے۔
اس حدیث پر امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے یوں تبویب کی ہے:
باب الدليل على أن النهي عن ذلك لتأذي الناس بريحه لا تحريما لأكله
ابن خزیمہ 84/3
اس بات کی دلیل کا بیان کہ لہسن کھا کر مسجد جانے کی ممانعت اس کی بو سے لوگوں کے اذیت پانے کی وجہ ہے۔ اسے کھانے کی حرمت نہیں۔
لہسن، پیاز حرام نہیں ہیں۔ اور انہیں کچا کھا کر مسجد میں جانے کی ممانعت محض ان کی بو کی وجہ سے ہے۔ پکے لہسن کو کھانے کے بعد چاہے فوراً ہی کیوں نہ مسجد میں چلے جائیں، کوئی ممانعت نہیں ہے۔ کیونکہ یہ حلال ہیں حرام نہیں ہیں۔ چنانچہ صحیح مسلم اور مسند احمد میں حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کے طریق سے اور ابن خزیمہ میں سفیان بن وہب کے طریق سے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔جبکہ یہی حدیث ترمذی و ابن حبان اور مسند ابوداؤد اور طیالسی میں خود حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا أتي بطعام أكل منه وبعث بفضله إلى وأنه بعث إلى يوما بفضله لم يأكل منه لأن فيها ثوما فسألته أحرام هو قال: لا ولكني أكرهه من أجل ريحه
صحیح ترمذی 1476 ۔ ابن حبان الموارد 320۔ ابن خزیمہ 86/5/3۔ مسلم مع نووی 9/14/8
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جب کھانا بھیجا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھانا کھا چکنے کے بعد فاضل کھانا میری طرف بھیج دیتے۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاضل کھانا میری طرف بھیجا تو پتہ چلا کہ اس میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لہسن ہونے کی وجہ سے کچھ نہیں کھایا۔ میں نے پوچھا کیا یہ لہسن حرام ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، لیکن مجھے اس کی بو ناگوار ہے۔
اور ابن خزیمہ میں ہے:
أستحيي من ملائكة الله وليس بمحرم
صحیح ابن خریمہ 85,86/3۔ ارواء الغلیل 154/8
یہ حرام تو نہیں، لیکن میں اللہ کے فرشتوں سے حیا کرتے ہوئے نہیں کھاتا۔
امام ابن خزیمہ نے اس حدیث پر یوں تبویب کی ہے:
باب ذكر ما خص الله نبيه صلى الله عليه وسلم من ترك أكل الثوم والبصل والكراث مطبوخا
اس بات کا بیان کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے یہ بات بھی رکھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پکا ہوا لہسن، پیاز اور گندنا بھی نہیں کھاتے تھے۔
اور ابن خزیمہ میں حضرت ام ایوب رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث میں ہے:
نزل علينا النبى صلى الله عليه وسلم فتكلفنا له طعاما فيه بعض البقول فلما وضع بين يديه قال لأصحابه كلوا فإني لست كأحد منكم إني أخاف أن أوذي صاحبي
صحیح ابن خزیمہ 86/3
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنی میزبانی کے شرف عظیم سے نوازا تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے پرتکلف کھانا تیار کیا۔ جس میں بعض سبزیاں (لہسن وغیرہ) تھیں۔ جب کھانا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا تم لوگ کھا لو، میرا معاملہ تم جیسا نہیں ہے۔ مجھے خدشہ ہے کہ اس کے کھانے سے کہیں میرے صاحب (جبرائیل) کو تکلیف نہ پہنچے۔
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اس حدیث پر یوں تبویب کی ہے:
باب الدليل على أن النبى صلى الله عليه وسلم حص بترك أكلهن لمناجاة الملائكة
اس بات کی دلیل کا بیان کہ فرشتوں سے مناجات کے شرف کی وجہ سے لہسن وغیرہ کو ترک کرنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ تھا۔
ان احادیث سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ یہ ترکاریاں حلال ہیں حرام نہیں۔ اور یہ بھی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا انہیں ترک کرنا حضرت جبرائیل سے ہمکلامی کے شرف کی وجہ سے تھا۔ نہ کہ حرمت کی وجہ سے۔ اب اگر کوئی شخص پکے ہوئے لہسن کو بھی ترک کر دے تو وہ اس کی مرضی ہے۔ اور نہ امت کے لئے کراہت والی کوئی بات نہیں۔ جیسا کہ پہلے ذکر کردہ احادیث میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بو کی وجہ سے کھانا نہیں کھایا تو سبب پوچھا، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ یہ حرام تو نہیں، البتہ میں اسے اس کی بو کی وجہ سے نا پسند کرتا ہوں۔ تو اس حدیث میں آگے یہ الفاظ بھی ہیں کہ حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے بھی وہ کھانا کھانے سے انکار کر دیا، اور فرمایا:
فإني أكره ما كرهت
مسلم مع نووی 1109/14/7 ۔ ارواء العلیل ایضا
میں بھی اسے پسند نہیں کرتا جو چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناگوار ہے۔
یہ میزبان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا اپنا اختیار تھا، ورنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس کے کھانے سے منع فرمایا تھا۔ لہذا اگر کوئی شخص نظافت و طہارت و پاکیزگی اور منہ کی ہوا کو عمدہ سے عمدہ تر رکھنے کی غرض سے پکا ہوا لہسن بھی نہ کھائے تو وہ اس کی مرضی ہے۔ البتہ اس کے کھانے کی ممانعت نہیں ہے۔

عذر کی حالت میں:

اور اس بو کی موجودگی میں اس کا کچا کھانا ٹھیک نہیں۔ اور یہ حکم بھی خاص ان کے لئے ہے جو محض منہ کے ذائقہ کے لئے اسے استعمال کریں۔ اور اگر کوئی شخص کسی عذر کی وجہ سے اسے استعمال کرتا ہے تو اسے اس کی اجازت دی گئی ہے۔
جیسا کہ مجبوری کی حالت میں ایک صحابی نے اسے استعمال کیا۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا عذر قبول فرمایا۔ چنانچہ ابوداؤد، صحیح ابن حبان، ابن خزیمہ، مسند احمد اور بیہقی میں حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:
أكلت ثوما، ثم أتيت النبى صلى الله عليه وسلم فوجدته قد سبقني بركعة فلما صلى قمت أقضي فوجد ريح الثوم فقال من أكل هذه البقلة، فلا يقربن مسجدنا حتى يذهب ريحها
میں نے ایک دن لہسن کھایا اور مسجد نبوی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ میرے پہنچنے تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کی ایک رکعت پڑھ چکے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ چکے تو میں اپنی بقیہ رکعت پڑھنے لگا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لہسن کی بو محسوس کی، اور فرمایا جو شخص یہ ترکاری کھائے وہ اس کی بو زائل ہو جانے تک ہماری مسجد کے قریب نہ آئے۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب میں نے اپنی نماز مکمل کر لی تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اور عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم:
إن لي عذرا
میں نے عذر و مجبوری کی وجہ سے لہسن کھایا ہے۔
فقلت ناولني يدك فوجدته سهلا فناولني يده فأدخلتها من كمي إلى صدري فوجده معصوبا
مجھے اپنا دست مبارک پکڑائیں تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت آسان پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک مجھے پکڑا دیا جسے میں نے گریبان کے راستے اپنے سینے پر جا رکھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینے کو اس حال میں پایا کہ اس پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔
تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إن لك عذرا
صحیح ابی داؤد 3241 – صحیح ابن خزیمہ 87،86/3 – الموارد 319 – اصلاح المساجد 124
تم معذور ہو۔
تو گویا کسی بیماری وغیرہ میں اسے کچا یا نیم پختہ کھالیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔

تمام مساجد کے لئے ایک عام حکم:

لہسن، پیاز اور گندنا کو بلا عذر کچا کھا کر مسجد جانے کی ممانعت کے سلسلے میں جو احادیث ہم نے ذکر کی ہیں۔ ان میں سے بعض احادیث میں آپ نے دیکھا ہے کہ ارشاد نبوی ہے:
أو ليعتزل مسجدنا
وہ ہماری مسجد سے الگ رہے۔
فلا يقربن مسجدنا
وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے۔
فلا يقربنا فى المسجد
وہ مسجد میں ہمارے قریب نہ آئے۔
ان الفاظ کو پیش نظر رکھتے ہوئے بعض نے کہہ دیا ہے کہ لہسن وغیرہ کھا کر مسجد نہ جانے کا حکم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد (مسجد نبوی) کے ساتھ خاص ہے۔ دوسری مساجد کے لئے یہ حکم نہیں ہے۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ حکم تمام مساجد کے لئے یکساں ہے۔ کیونکہ دوسری کئی احادیث میں خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عام مساجد کے لئے مطلقاً یہی حکم صادر فرمایا۔ جیسا کہ بعض احادیث میں گزرا ہے:
فلا يقربنا فى مساجدنا

وہ ہماری مسجدوں میں ہمارے قریب نہ آئے۔
بلکہ ایک حدیث میں تو یہ الفاظ بھی گزرے ہیں:
فلا يؤذينا فى مجالسنا
وہ ہماری مجلسوں میں آکر ہمیں اذیت نہ پہنچائے۔
ان احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ یہ حکم تمام مساجد کے لئے عام ہے۔ مسجد نبوی کے لئے خاص نہیں ہے۔ اور ویسے بھی ان احادیث میں سے بعض میں اس کا جو سبب بتایا گیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ اس کی بو سے ہمیں تکلیف ہوتی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ ہر مسجد کے نمازیوں کے لئے باعث تکلیف ہے۔ اور پھر اسی پر بس نہیں بلکہ فرمایا کہ جس چیز سے بنی آدم کو تکلیف ہوتی ہے اسی سے فرشتوں کو بھی تکلیف ہوتی ہے۔ اور فرشتے بھی ظاہر بات ہے کہ ہر مسجد میں ہوتے ہیں۔ لہذا یہ واضح ہو گیا کہ اس حکم کو کسی کا مسجد نبوی کے ساتھ خاص ماننا صحیح نہیں ہے۔ آئمہ حدیث کی تبویب بھی یہی پتہ دیتی ہے۔
دیکھئے صحیح ابن خزیمہ 85،82/2 اور دیگر کتب حدیث، ایسے ہی فتح الباری 340/2
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں ابن جریج رحمہ اللہ کے حوالے سے مصنف عبد الرزاق میں مروی ایک اثر نقل کیا ہے، جس میں ابن جریج رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے (معروف تابعی اور معتبر امام) عطاء رحمہ اللہ سے پوچھا:
هل النهي للمسجد الحرام خاصة أو فى المساجد
کیا یہ ممانعت مسجد حرام کے لئے خاص ہے یا عام مساجد کے لئے بھی؟
تو انہوں نے جواب دیا:
لا بل فى المساجد
فتح الباری 340/2 بحوالہ الاصناف
نہیں بلکہ اس کا حکم تمام مساجد کے لئے عام ہے۔
ایسے ہی شارح بخاری ابن بطال نے بھی تخصیص والے قول کو ضعیف قرار دیا ہے۔ علامہ زرکشی نے اعلام المساجد باحكام المساجد میں اس تخصیص کی طرف اشارہ کر کے لکھا ہے:
والمشهور خلاف ذلك
اعلام المساجد ص 330
لیکن مشہور عدم تخصیص ہی ہے۔
اور امام شوکانی نے نیل الاوطار میں امام نووی اور ابن دقیق العید سے بھی عدم تخصیص کی تائید ہی نقل کی ہے۔
نیل الاوطار 154/2/1

مساجد کے علاوہ بعض دیگر مقامات:

اور یہاں یہ بات بھی ذکر کرتے جائیں کہ یہ حکم نہ صرف مسجد نبوی یا مسجد حرام کے ساتھ خاص نہیں۔ بلکہ تمام مساجد کے لئے عام ہے۔ اور مساجد میں ان کے صحن بھی شامل ہیں۔ بلکہ مسجد کے حال سے منسلکہ جو جو جگہ ہیں، جہاں نماز پڑھی جاتی ہے چاہے وہ کبھی کبھار بوقت ضرورت ہی زیر استعمال کیوں نہ آتے ہوں۔ ان سب کا حکم بھی مسجد کا ہی ہے۔ جیسا کہ حافظ ابن حجر نے صحیح مسلم کی اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے لکھا ہے۔ جس میں لہسن کی بو والے شخص کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بقیع کی طرف نکال دینے کا حکم فرمایا۔
فتح الباری 344/2
اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہ ان ترکاریوں کو کچی اور بد بودار کیفیت میں کھا کر مساجد تو ایک طرف، ایسی مجالس و مقامات پر بھی نہیں جانا چاہئے جہاں لوگ قرآن و حدیث کا درس سننے کے لئے جمع ہوئے بیٹھے ہوں۔ کیونکہ یہ آداب مجلس کے خلاف ہے۔ ایسی مجالس کے بارے میں بھی اس حکم کا ذکر امام قرطبی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر الجامع لاحکام القرآن (268/12) میں، امام زرقانی نے موطا کی شرح (41/1) میں کیا ہے۔
انظر تحقیق الاحسان 524/4 – تحقیق شرح السنہ 386/2
اور اس معاملے میں عیدگاہ اور جنازہ گاہ کا مسجد سے الحاق تو بڑا معقول ہے۔ جبکہ بعض اہل علم نے تو کچا لہسن اور پیاز کھا کر ولیمہ و عقیقہ جیسی دعوت اور ایسی ہی دیگر تقریبات میں بھی جانے سے منع کیا ہے۔
بحوالہ جات بالا و نیل الاوطار 154/2/1
اور یہ سب محض اس لئے ضروری ہے کہ آدمی تمام اجتماعی جگہوں پر خصوصاً مقامات عبادت و ذکر الہی پر حاضری کے وقت نظافت و پاکیزگی کی عمدہ ترین حالت میں ہو۔

مولی کا حکم:

لہسن، پیاز اور گندنا کا یہ حکم تو صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ جبکہ بو کو اصل علت یا باعث ممانعت مانتے ہوئے بعض اہل علم نے مولی کو بھی لہسن وغیرہ کے حکم میں شمار کیا ہے۔ چنانچہ ابن التسین نے نقل کیا ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا:
الفجل إن كان يظهر ريحه فهو كالثوم
فتح الباری 344/2 – شرح زرقانی 41/1
اگر مولی کی بو بھی ظاہر ہو رہی ہو، تو اس کا حکم بھی لہسن کا ہی ہے۔
اور قاضی عیاض نے مولی کھا کر مسجد میں آنے کی ممانعت کو اس قید کے ساتھ مشروط کیا ہے کہ مولی کھانے والا آدمی بار بار ڈکاریں مار رہا ہو تو ممنوع ہے کہ وہ مسجد میں آئے، ورنہ نہیں۔
بحوالہ جات بالا و نیل الاوطار ایضاً
اور اس سلسلہ میں معجم طبرانی صغیر میں ایک حدیث ہے۔ جس میں باقاعدہ مولی کا نام وارد ہوا ہے۔ چنانچہ ابو الزبیر رضی اللہ عنہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کرتے ہیں، جس میں مولی بھی شامل نص ہے، لیکن اس روایت کی سند میں ضعف پایا جاتا ہے۔
فتح الباری ایضاً
لہذا اس سے استدلال تو صحیح نہیں، البتہ اس کی بو والی علت معقول ہے۔ اس لئے احتیاط میں ہی بہتری ہے۔

بعض دیگر اشیاء:

اور بعض لوگوں نے بو والی علت کو بنیاد بنا کر کئی دیگر امور کو بھی مسجد میں داخل ہونے کے موانع میں شمار کیا ہے۔ جیسے کسی کے منہ یا بغلوں سے ناگوار بو مسلسل آتی ہو، یا بعض لوگوں کو کوئی ایسا زخم ہوتا ہے جس سے سخت قسم کی بو پھوٹتی رہتی ہے۔ اور بعض نے صنعت ماہی گیری والوں کو بھی شمار کر لیا ہے ۔
کہ مسلسل مچھلیوں میں رہتے رہتے مچھلی کی بو ان میں رس بچ گئی ہوتی ہے، جو محض وضو کرنے سے زائل نہیں ہوتی۔ اس قسم کے امور کی طرف اشارہ کرنے کے بعد امام ابن دقیق العید نے لکھا ہے کہ:
یہ توسع کہ ان سب امور کو لہسن وغیرہ والی احادیث کے تحت داخل کر لیا جائے، یہ کوئی ٹھیک بات نہیں (یعنی اس پر انہوں نے رضا مندی کا اظہار نہیں کیا)۔
بحوالہ فتح الباری 344/2۔ اعلام المسجد ص330
حتیٰ کہ البدر ابن المنیر نے حاشیہ بخاری میں اور امام قرطبی نے اپنی تفسیر میں یہاں تک نقل کیا ہے۔
کہ موذی مریض جیسے جذام یا کوڑہ وغیرہ کے مرض کے لوگ ہیں انہیں بھی مساجد میں نہیں جانا چاہئے جب تک کہ بیماری ختم نہ ہو جائے۔
تفسير التفسيري 268/12 – بحوالہ تحقیق اعلام الساجد ص 330
لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس بات کو محل نظر قرار دیتے ہوئے فتح الباری میں لکھا ہے :
کوڑھی کی بیماری و علت آسمانی امر ہے۔ اس کے بس سے باہر ہے، جبکہ لہسن یا پیاز کھانے والا اس معاملے میں خود مختار ہوتا ہے۔ لہذا اس پر کوڑھی کو قیاس کرنا صحیح نہیں۔
فتح الباری 240/12

لمحہ فکریہ:

امام ابن دقیق العید اور حافظ ابن حجر رحمها اللہ کے دلائل بڑے مضبوط ہیں۔ البتہ ہم یہاں اس بات کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتے ہیں کہ امام ابن دقیق العید کی عدم رضا مندی اگر کسی حد تک اپنی جگہ بجا ہے۔ تو منہ اور بغلوں کی بد بو کی بیماری والے لوگوں، بد بودار زخم والے مریضوں اور صنعت ماہی گیری میں کام کرنے والوں کو کچا لہسن کھانے والے پر قیاس کرنے والے علما کی بات بھی سراسر پھینک دینی والی نہیں۔ بلکہ اگر ان لوگوں کو کچا لہسن کھانے والوں کے حکم میں شمار کرنے کی کوئی نص صریح والی دلیل نہیں تو کم از کم یہ بات ان لوگوں کے لئے لمحہ فکریہ تو ضرور مہیا کرتی ہے کہ وہ مختلف تدابیر تیار کر کے مسجد میں آیا کریں، اور صفائی ستھرائی کا اس قدر خیال رکھیں کہ ان پر اس حکم کے اطلاق کا کسی کو شبہ بھی نہ ہو۔

چند تدابیر:

➊ جن کو منہ یا بغلوں سے بدبو پھوٹنے کا مرض ہو وہ ایک تو ہر ممکن طریقے سے بغلوں کو صاف رکھا کریں۔ ان میں بال نہ بڑھنے دیں، جو غلاظت و بدبو کا باعث بنیں۔ اور یہ تو عام حالت میں ہے جب کہ
➋ بوقتِ نماز مسجد میں جاتے ہوئے کسی اچھی سی خوشبو کا استعمال کر لیا کریں۔
➌ دانتوں کو برش وغیرہ کر لیا کریں۔ پانچوں وقت کے اس عمل سے بعید نہیں کہ یہ مرض بھی جاتا رہے۔ اور برش کرنے کے لئے بہتر ہے کہ پیلو کی مسواک استعمال کیا کریں. جو کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مرغوب و پسندیدہ مسواک بھی ہے۔ اور طبی لحاظ سے مفید بھی۔ اور پیلو کی مسواک میسر نہ ہونے کی صورت میں کریم یا منجن سے بھی کام چلایا جا سکتا ہے، جب کہ اصل غرض صفائی ہے۔
➍ اور رہا وہ شخص جسے کوئی ایسا زخم یا پھوڑا ہے، جو بدبو چھوڑتا رہتا ہے. یا جس سے خون اور پیپ کے مسلسل رستے رہنے سے بدبو پیدا ہو جاتی ہو۔ ایسے شخص کو چاہیے کہ وہ اس زخم کے سلسلہ میں لاپرواہی نہ کرے جو نتیجۃ بدبو کا سبب بنے۔ بلکہ اس کو خوب اچھی طرح سے ڈریسنگ اور مرہم کروائے رکھے، تاکہ بدبو کا سدِباب ہو سکے، اور اس پر کچا لہسن کھانے والے کے حکم کے اطلاق کی نوبت ہی نہ آنے پائے۔ یہی جذام یا کوڑھ والے کے لئے بھی ضروری ہے۔
➎ اب رہے وہ لوگ جو ماہی گیری یا مچھلی کے شکار کے پیشے سے منسلک ہیں۔ ان کے بارے میں یہ تو واضح امر ہے کہ ماہی گیری یا مچھلی کا شکار ایک مباح و جائز پیشہ ہے۔ اس کی کسی طرح کوئی ممانعت و کراہت ہرگز نہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی تو نہیں کہ وہ مچھلیاں پکڑتے پکڑتے اور انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے کرتے انہی کپڑوں میں سیدھے مسجد میں آنکلیں۔ اور وضو کر کے مسجد کے ہال میں داخل ہو جائیں۔ اور دوسرے لوگوں کو مچھلی کی بو سے پریشان کریں۔
مچھلی بلا شبہ پاک و حلال ہے، اس کے کسی کپڑے کو لگ جانے سے وہ نجس نہیں ہو جاتا۔ لیکن اس پیشہ سے منسلک لوگوں کو اپنے دوسرے بھائیوں کی خاطر ہی سہی، مسجد میں ذرا ڈھنگ سے آنا چاہیے۔ اگر بار بار وہ نہا نہیں سکتے تو جسم کے مچھلی لگنے والے اعضاء کو تو دھو سکتے ہیں۔
➏ ایسے ہی کپڑوں کو بار بار دھونا ممکن نہ ہو تو کپڑوں کا ایک جوڑا نماز کے لئے خاص تو کیا ہی جا سکتا ہے۔ کہ جب نماز کا ارادہ ہو تو ضروری اعضاء جسم دھو کر نماز والے کپڑے پہن لیں۔ اور وضو کر کے خوشبو وغیرہ لگا کر مسجد میں چلے جائیں۔ تاکہ اگر کلی طور پر نہیں تو کم از کم خاصی حد تک تو بو زائل ہو جائے اور لوگ اذیت سے بچ جائیں۔
اگر اس قسم کی معمولی معمولی تدابیر اختیار کی جائیں تو یقیناً بو کا سدِباب ہو سکتا ہے۔ اور کسی کو ضرورت ہی نہیں رہتی کہ ان کے بارے میں لہسن کھانے والوں کا حکم سوچتا پھرے۔ اور اگر لاپرواہی ہی کرنا ہو تو وہ صرف عام حالات میں ہو تو ہو، مسجد میں داخل ہونے کے معاملہ میں نہیں ہونی چاہیے۔

پسینے سے عدم احتراز:

اور یہ امور ایسے ہی ہیں کہ جن میں کسی نہ کسی حد تک آدمی کو معذور تصور کرنا پڑتا ہے۔ مثلاً کوڑھی کا مرض قدرتی امر ہے، ماہی گیری کا پیشہ اس کی مجبوری ہے، بدبودار زخم اور منہ یا بغلوں کی بو والے امراض میں مبتلا لوگ بھی اس سلسلہ میں لاچار ہیں۔ صرف لاپرواہی ترک کر کے کچھ اہتمام کرتے رہیں۔ تو وہ دوسروں کو تکلیف پہنچانے سے بچ سکتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بھی وہ کسی درجہ تک معذور مانے جا سکتے ہیں۔ جب کہ ہمارے ہی بھائیوں میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں۔ جو کسی بھی درجہ میں مجبور و لاچار نہیں ہوتے۔ انہیں کسی قسم کا کوئی شرعی عذر نہیں ہوتا، اس کے باوجود وہ لاپرواہی و لاابالی پن میں یا پھر اپنی عادت سے مجبور ہو کر مساجد میں دوسروں کے لئے اذیت کا باعث بنتے ہیں۔
ہماری مراد ان لوگوں سے وہ لوگ ہیں جو اپنے جسموں سے پسینے کی بدبو زائل کرنے کی کوئی تدبیر اختیار نہیں کرتے۔ یہ تو مانا جا سکتا ہے کہ وہ محنت کش ہوتے ہیں، محنت و مشقت کرنے سے انہیں پسینہ آتا ہے، اس حد تک تو کوئی حرج نہیں۔ محنت و حرکت تو باعثِ برکت ہے۔ لیکن یہ کہاں ضروری ہے کہ محنت والے کپڑوں کو آٹھ آٹھ دن بدلا ہی نہ جائے۔ اور بدبو کو ان میں خوب اچھی طرح پاؤں جمانے دیے جائیں۔
ایسے لوگوں کو چاہیے کہ اول تو محنت کے وقت والے کپڑے الگ رکھیں اور فارغ ہوتے ہی دوسرے پہن لیا کریں۔ جن سے وہ مسجد میں نماز پڑھا کریں۔ اور بوقتِ کام اتار لیا کریں، اور کام والے کپڑے پہن لیا کریں۔ جیسا کہ عموماً ہوتا بھی ہے کہ کام کے کپڑے الگ، اور معمولِ عام کے کپڑے الگ۔ اس طرح وہ لوگوں کو پسینے کی بو سے بچا سکتے ہیں۔ اور اس پر کوئی بڑا سا خرچہ بھی نہیں آتا، محض تھوڑا سا اہتمام ہی مطلوب ہے۔
اور انہی لوگوں میں ایک دوسری عام عادت یہ بھی پائی جاتی ہے کہ وہ بنیان وغیرہ داخلی لباس استعمال نہیں کرتے۔ اور یہ شاید رواج کسی حد تک عادت ہے۔ اسے اگرچہ فرض و واجب کا درجہ تو حاصل نہیں، لیکن پسینے کی بدبو سے خود کو اور لوگوں کو محفوظ رکھنے کا ایک طریقہ یا تدبیر یہ بھی ہے۔ اور وہ یوں کہ بنیان خالص کاٹن یا سوتی دھاگے سے تیار کی گئی ہو۔ اور وہ پسینہ جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ اس طرح پسینہ کا بچاؤ ہو جاتا ہے۔ اور بو کم سے کم پیدا ہوتی ہے۔ لیکن پسینہ جب سیدھا کپڑے کو لگے گا جو عموماً پولیسٹر اور نائیلون وغیرہ کی آمیزش سے تیار کردہ ہوتا ہے۔ اور اپنے انہی اجزاء کی وجہ سے جذب کرنے کی بہت تھوڑی صلاحیت رکھتا ہے۔ اور پولیسٹر یا نائیلون سے مل کر پسینہ بدبو پیدا کرنے لگتا ہے۔ لہذا فیشن یا رسم و رواج سے قطع نظر پسینے کی بدبو سے بچنے کے لئے بنیان کا استعمال انتہائی مناسب ہے۔ اور ایک بہترین تدبیر بھی ہے۔ تاکہ مسجد میں نماز کے دوران لوگ اذیت سے محفوظ رہیں۔
اور اگر ایسے لوگ ہماری ذکر کردہ تدابیر و تجاویز پر عمل کرنے لگیں تو یقیناً وہ کچا لہسن کھانے والوں کے حکم سے بھی بچ جائیں گے۔ اور اس طرح وہ صاف ستھرے بھی رہیں گے، جو کہ خود انہی کی صحت و تندرستی کے لئے مفید ہے۔ نہ لوگوں کو ان سے گھن آئے گی، نہ ان کی بو زخم اور قمیض کی پشت پر لگے، نہ پسینے کے ساتھ جسم سے خارج ہونے والے نمکیات وغیرہ دیکھ کر ذہنی کوفت و اذیت پہنچے گی۔

تمباکو نوشی:

اسی قسم کے لوگوں میں سے خاصہ بڑا طبقہ ان لوگوں پر مشتمل ہے، جو ایک دوسری عادت میں مبتلا ہوتے ہیں،۔ اور مساجد میں دوسروں کے لئے اذیت و پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔ اور وہ ہیں تمباکو نوشی کرنے والے لوگ۔
اور یہ عام مشاہدہ کی بات ہے کہ بکثرت سگریٹ نوشی کرنے والے کے نہ صرف منہ سے، بلکہ ہاتھوں کی انگلیوں کے پوروں سے، بلکہ ان کے کپڑوں سے بھی تمباکو کی مکروہ ترین بدبو آتی رہتی ہے۔ اور کپڑوں یا ہاتھوں سے آنے والی بو تو کسی حد تک کم ہوتی ہے۔ جو شاید اتنی تکلیف دہ نہ ہو جتنی تکلیف دہ اور اذیت رساں وہ بدبو ہوتی ہے، جو ان کے منہ سے نکلتی ہے۔ اور نماز کے دوران تمباکو نوشی کرنے والے کے دائیں یا بائیں ایک ایک اور بعض دفعہ حساس قسم کے دو دو اور تین تین نمازیوں کو تکلیف دہ بدبو پہنچتی اور انہیں پریشان کرتی رہتی ہے۔
اور یقین مانیں کہ بعض دفعہ مسجد میں کسی ایسی جگہ پر نماز پڑھنے کی نوبت آجاتی ہے۔ جہاں کوئی تمباکو نوش نماز پڑھ کر گیا ہوتا ہے۔ تو جہاں وہ سجدہ کر کے گیا تھا وہاں سجدہ ریز ہونے پر اختناق کی حد تک تکلیف اس بو سے ہوتی ہے۔ جو اس جگہ سے آرہی ہوتی ہے۔ اس جگہ پر چند لمحات کے سجدہ میں اس تمباکو نوش کی مہربانی سے دم گھٹنے لگتا ہے۔ آپ خود ہی اندازہ فرمائیں کہ ایسے میں خشوع و خضوع کیسے حاصل ہو گا۔ اور جب یہ حاصل نہ ہو گا تو اس کی تباہی کا ذمہ دار کون ہو گا۔ یقیناً تمباکو نوش ہے۔ لہذا اس کے ممکنہ عقاب کا سزا وار بھی وہی ہو گا۔ تو گویا یہ کتنے خسارے اور گھاٹے کا سودا ہے۔
اور پھر اگر یہ حقہ، سگریٹ، بیڑی، سگار اور نسوار جیسی اشیاء مادی و طبی اعتبار سے ہی کچھ مفید یا کوئی معمولی ضرر رساں ہوتیں تو شاید زیادہ کچھ کہنے کی ضرورت نہ رہتی۔ لیکن یہ اشیاء تو ہر اعتبار سے ہی انتہائی نقصان دہ بھی ہیں۔ جسے مسلمان تو کجا غیر مسلم حکومتوں، اداروں اور صحافت نے بھی خاص موضوع بنایا۔ اور اس کے نقصانات واضح کیے ہیں۔
اور یہاں ہم صرف تمباکو کی مختلف شکلوں کا ہی نام لے رہے ہیں۔ کیونکہ نمازیوں اور مساجد میں جانے والوں کا عمومی شوق اسی حد تک ہی رہتا ہے۔ ہاں اگر کسی کی شقاوت و بدبختی اس سے بھی آگے حشیش یا چرس و افیون اور شراب وغیرہ تک بھی لے جاتی ہے۔ تو یہ اس کی کم نصیبی ہے۔ ورنہ عموماً ایسا نہیں ہوتا۔ اور چرس و گانجا کا بدبودار ہونا کس سے مخفی ہے۔ لیکن ہم فی الحال اس بات کو صرف تمباکو نوشی تک ہی محدود رکھ رہے ہیں۔ چنانچہ غیر مسلم انجمنوں نے انسدادِ تمباکو نوشی کی باقاعدہ مہمیں چلائیں۔ اور غیر مسلم مفکرین نے تمباکو کے خلاف بیانات نشر کیے۔ اور تمباکو کی خرابیوں کو بیان کیا۔
عقل سلیم میں تو یہ چیز بری ہے۔ طبی تحقیقات نے بھی اس کے اضرار و مضرات ثابت کر دیے ہیں کہ تمباکو سخت مضرِ صحت ہے، اس سے کئی خطرناک بیماریاں پیدا ہوتی ہیں، جن میں سے ایک کینسر بھی ہے۔ اور آج میڈیکل نے ثابت کر دیا ہے کہ سگریٹ نوشی کرنے والی عورتوں کو چھاتی (پستان) کا کینسر اکثر صرف اس تمباکو نوشی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اور کئی سروے رپورٹس سے ایسی عورتوں کی کثیر تعداد کا پتہ چلایا گیا ہے، جو سگریٹ نوشی کی وجہ سے چھاتی کے کینسر میں مبتلا ہیں۔ ان سب نقصانات اور منہ کی بدبو کے باوجود خواتین کا اپنے شوہروں کی سگریٹ نوشی پر صبر و اثبات اور خصوصاً مردوں کا اپنی بیویوں کی سگریٹ نوشی پر خاموش تماشائی بنے رہنا قابلِ داد ہی کہا جا سکتا ہے۔ اللہ ان کے حال پر رحم فرمائے۔ آمین
اور اس کے نفسیاتی اور اجتماعی اور مالی یا مادی نقصانات اس کینسر وغیرہ پر مستزاد ہیں۔ اور اس کے یہ سارے نقصانات صرف ایک تمباکو نوش شخص تک ہی محدود نہیں رہتے، بلکہ اس کے بیوی بچے اور اعزہ و اقارب بھی اس کی زد میں آ جاتے ہیں۔ اور شریعت اسلامیہ کا تمباکو کے بارے میں حرمت یا کم از کم کراہتِ تحریمہ کا حکم اپنی جگہ ہے۔ اور یہاں ان سب امور کی طرف محض اشارہ کر دینے پر ہی ہم اکتفاء کر رہے ہیں۔ کیونکہ شراب نوشی اور دیگر منشیات کے بارے میں ہم دو ماہ پر مشتمل 57 قسطوں کا طویل پروگرام پیش کر چکے ہیں۔ جن میں سے آخر میں تیرہ چودہ دنوں کی قسطوں کا موضوع ہی صرف تمباکو نوشی کی تاریخ، نقصانات اور شرعی حکم پر مشتمل تھا۔ لہذا تفصیل کے لئے ان کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔ اور آج تک کے نشر شدہ دیگر تمام موضوعات کی طرح اس کے آڈیو کیسٹ بھی متحدہ عرب امارات کے تقریباً ہر شہر کے علاوہ بحرین، مسقط، عمان اور دوحہ، قطر حتیٰ کہ پاک و ہند میں بھی کئی جگہوں پر دستیاب ہیں۔
( ان پروگراموں کو کتابی شکل دے دی گئی ہے، جن کو ہمارے فاضل دوست مولانا غلام مصطفیٰ فاروق صاحب (خطیب جامع مسجد توحید ڈسکہ) نے ترتیب دیا ہے۔ اور چھپ چکی ہے۔)
لہذا تمباکو نوشی کے مالی، اخلاقی، اجتماعی، مادی اور طبی نقصانات کے پیشِ نظر اسے فوری طور پر ترک کر دینا چاہیے۔ اور اگر کسی کو طب وغیرہ پر اعتماد نہ ہو اور وہ طویل تمباکو نوشی کے باوجود اس کے برے اثرات سے کسی حد تک بچا رہا ہو تو وہ اللہ کا شکر بجا لائے۔ اور ماضی کو بھول کر آئندہ کے لئے فوراً تائب ہو جائے۔ کیونکہ سائنس و طب سے نہ سہی، شریعت سے فرار تو ممکن نہیں۔ اور شریعت نے اس کے نقصانات کے پیشِ نظر ہی اس کی ممانعت کر رکھی ہے۔ اور تمام دیگر امور سے قطع نظر تمباکو نوشی کرنے والے کے منہ سے جو بدبو کے بھیوکے نکلتے ہیں۔ اور مساجد کی صفوں، دریوں اور قالینوں کو بدبودار کرتے ہیں حتیٰ کہ دوسروں کے لئے ان کے بعد ان کی جائے سجدہ پر سجدہ ریز ہونا مشکل ہو جاتا ہے۔ محض اسی بات کو ہی سامنے رکھا جائے، تب بھی نمازی آدمی کے لئے اس کا جواز باقی نہیں رہتا۔
اور یہ سب امور غور و فکر اور سوچ و بچار کرنے والوں کے لئے ہیں۔ ورنہ ضد اور ہٹ دھرمی کا تو کوئی علاج ہی نہیں۔ انہیں تو آپ قرآن کریم کی آیات اور صحیح احادیث سے ثابت شدہ حرام چیز شراب کے بارے میں کہیں تو وہ پھر بھی کوئی نہ کوئی راستہ نکالنے کے لئے ہاتھ پاؤں ماریں گے۔ اللہ تعالیٰ تمباکو نوشی کرنے والوں اور خصوصاً نمازیوں کو اسے ترک کرنے کی توفیق سے نوازے۔ آمین یا رب العالمین

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے