تشیع کی ابتدا اور محدثین کے اصول
تاریخی طور پر دیکھا جائے تو تشیع ابتدائی طور پر ایک سیاسی رجحان تھا، جو اہل بیت سے محبت کے تحت بنو امیہ کے مقابلے میں بعض مسلمانوں کے گروہوں میں پایا جاتا تھا۔ بعد میں یہ رجحان غلو کی شکل اختیار کرکے رافضیت میں بدل گیا۔ شارح بخاری علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اس موضوع پر فرماتے ہیں:
"التشيع في عرف المتقدمين هو اعتقاد تفضيل علي على عثمان…”
"قدیم علماء کے نزدیک تشیع کا مطلب یہ تھا کہ حضرت علی کو حضرت عثمان پر فضیلت دینا…”
(تهذيب التهذيب 1/81)
متقدمین کے نزدیک شیعہ اور روافض میں فرق
- متقدمین کے ہاں "شیعہ” سے مراد وہ لوگ تھے جو صرف تفضیل علی رضی اللہ عنہ کے قائل تھے یعنی وہ علی رضی اللہ عنہ کو عثمان رضی اللہ عنہ سے افضل سمجھتے تھے، لیکن عثمان رضی اللہ عنہ کو برحق امام اور صحابی تسلیم کرتے تھے۔
- یہ نظریہ کسی بڑی گمراہی کے زمرے میں نہیں آتا تھا، بلکہ زیادہ سے زیادہ بدعت کے درجے میں شمار ہوتا تھا۔
- بعض لوگ شیخین (ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما) کے مقابلے میں علی رضی اللہ عنہ کو افضل سمجھتے تھے، مگر ان کی امامت اور صحابیت پر یقین رکھتے تھے۔
- روافض کے برعکس، یہ لوگ نیک، دین دار اور بدعت صغریٰ میں مبتلا ہوتے تھے، اس لیے ان کی روایت قبول کی جاتی تھی اگر وہ غیر داعی ہوں۔
بدعتی راوی اور ان کی روایت کا معیار
➊ روایت قبول کرنے کی بنیادی شرائط
حدیث کے راوی کو قبول کرنے کے لیے دو اہم شرائط ہیں:
- قابل اعتماد حافظہ: راوی کا حافظہ مضبوط اور درست ہونا چاہیے۔
- عدالت: راوی نیک، دیانتدار اور گناہوں سے بچنے والا ہو۔
➋ بدعتی راوی اور روایت کا معاملہ
بدعت، جیسا کہ تشیع یا رفض، راوی کی عدالت پر اثر ڈالتی ہے۔ لیکن محدثین نے بدعتی راویوں کی روایات کے قبول یا رد کے لیے درج ذیل اصول وضع کیے:
- راوی صدوق ہو اور جھوٹا نہ ہو۔
- وہ بدعت مکفرہ میں مبتلا نہ ہو (ایسی بدعت جو کفر تک لے جائے)۔
- وہ اپنی بدعت کی دعوت نہ دیتا ہو۔
- اس کی روایت میں ایسی کوئی بات نہ ہو جو اس کے بدعتی نظریے کی تائید کرے۔
➌ محدثین کے اصولوں میں نرمی و سختی
ان اصولوں پر محدثین نے مختلف حالات میں نرمی یا سختی کی ہے۔ یہ اختلاف دلائل اور قرائن پر مبنی ہوتا تھا، نہ کہ ذاتی خواہشات پر۔ مزید تفصیلات کے لیے ابن صلاح کی "علوم الحدیث” اور اس کے شروحات کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔
صحیح بخاری اور شیعہ راویوں کا ذکر
➊ امام بخاری کا معیار
صحیح بخاری میں کچھ شیعہ اور بدعتی راویوں کی روایات موجود ہیں، لیکن ان کے بارے میں امام بخاری کے معیار کو محدثین نے درج ذیل نکات میں بیان کیا:
- بدعت مکفرہ والا کوئی راوی موجود نہیں۔
- اکثر شیعہ راوی غیر داعی تھے، اور بعض نے توبہ کر لی تھی۔
- ان کی روایات زیادہ تر متابعات و شواہد میں ہیں۔
- بعض راویوں کے بدعتی ہونے کا کوئی قطعی ثبوت نہیں۔
➋ بخاری کے مشہور "شیعہ” راوی اور حقیقت
- ابن جریج ابوخالد المکی: امام ذہبی نے "میزان الاعتدال” میں لکھا کہ یہ متعہ کو جائز سمجھتے تھے اور ستر عورتوں سے متعہ کیا۔ تاہم، رجوع کا ذکر بھی موجود ہے۔
- عباد بن یعقوب: امام ابن حبان کے مطابق یہ رافضی داعی تھے، مگر بخاری میں ان سے صرف ایک حدیث لی گئی، وہ بھی مقرون ہے (یعنی دوسری سند سے بھی موجود ہے)۔
- عبدالملک بن اعین: یہ رافضی کہلائے گئے، لیکن بخاری میں ان سے بھی صرف ایک روایت ہے اور وہ بھی مقرون ہے۔
➌ مخالفین کے اعتراضات کا جواب
- مخالفین کی جانب سے امام بخاری کے شیعہ راویوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا مبالغہ آرائی ہے۔
- یہ کہنا کہ یہ سب امام بخاری کے "اساتذہ” تھے، سراسر غلط ہے۔
- ان میں سے زیادہ تر سے صرف متابعت یا شواہد کے طور پر روایت لی گئی ہے۔
خلاصہ
- صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں کسی ایسے شیعہ راوی کی روایت موجود نہیں جو رافضی ہو، یا شیخین اور ازواج مطہرات پر لعن طعن کرتا ہو۔
- محدثین نے شیعہ اور بدعتی راویوں کی روایات کے قبول کرنے کے لیے واضح اصول وضع کیے ہیں، اور ان پر سختی سے عمل کیا ہے۔
مطالعہ کے لیے مزید کتب
- محمد خلیفہ الشرع کی کتاب: "منهج الإمامين البخاري ومسلم في الرواية عن رجال الشيعة في صحيحيهما”
- کریمہ سودانی کی کتاب: "منهج الإمام البخاري في الرواية عن المبتدعة من خلال الجامع الصحيح : الشيعة أنموذجا”