سوال
کیا بارات کی رسم کا کوئی شرعی حکم ہے؟
جواب از فضیلۃ العالم سید کلیم حسین بخاری حفظہ اللہ
بارات کی رسم کا ذکر نہ نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں ملتا ہے، نہ صحابہ کرام اور تابعین کے ادوار میں۔
شیخ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ کا قول
📖 شیخ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "بارات اور جہیز کا تصور، مفاسد اور حل” میں لکھا ہے:
"یہ بات تو واضح ہے کہ عہدِ رسالت، عہدِ صحابہ اور تابعین کے ادوار یعنی خیر القرون میں بارات کی کوئی مثال نہیں ملتی۔”
📖 (صفحہ نمبر 3)
نتیجہ
لہٰذا، بارات کوئی شرعی سنت یا لازم رسم نہیں ہے، بلکہ یہ ایک معاشرتی روایت ہے جو وقت کے ساتھ وجود میں آئی ہے۔
اگر اس میں اسراف، غیر شرعی رسومات، فضول خرچی، یا فخر و ریا شامل ہو، تو یہ ناپسندیدہ اور قابلِ ترک ہے۔