ایک سحری سے ایک سے زائد روزے رکھنا
تحریر : حافظ فیض اللہ ناصر

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے ملانے
سے منع فرمایا ہے ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو ملا لیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمھاری طرح کا تو نہیں ہوں ناں، مجھے تو کھلایا اور پلایا جاتا ہے۔ اسے ابوہریرہ، عائشہ اور انس بن مالک رضی اللہ عنہم نے بھی روایت کیا ہے ۔
(195) صحيح البخارى، كتاب الصوم، باب الوصال ومن قال ليس فى الليل صيام ، ح: 1964۔ صحیح مسلم ، کتاب الصيام، باب النهي عن الوصال في الصوم ، ح: 2618 .
شرح المفردات:
الوصال: ایک سحری سے ایک سے زائد روزے رکھنا، یعنی افطاری اور سحری کیے بغیر ہی اگلے دن کا روزہ رکھ لینا۔
شرح الحديث:
اس بات میں اختلاف نہیں ہے کہ وصال روزے کو باطل نہیں کرتا، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وصال کرنے والوں کو قضا کا حکم نہیں دیا۔ [الفروع لابن المفلح: 86/3]
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال سے منع کرنا اس کی تحریم پر دلالت نہیں کرتا، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کرنے کے بعد بھی اپنے صحابہ کے ساتھ وصال کیا ہے، جیسا کہ صحیحین میں مذکور ہے۔ چنانچہ اگر اس سے مراد تحریم ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے برقرار نہ رکھتے ۔ اس لیے اس نہی سے مراد صحابہ کے لیے تخفیف اور آسانی و نرمی کا حکم دینا ہے، جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کی صراحت فرمائی ہے۔ [فتح الباري لابن حجر: 2٠2/4، ارشاد الساري للقسطلاني: 397/3]
البتہ اس وصال کے لیے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شرط عائد فرما دی ہے جو آئندہ حدیث میں مذکور ہے۔

——————
مسلم میں سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: تم میں سے جو بھی وصال کرنا چاہے تو اسے سحری تک ہی وصال کرنا چاہیے ۔
(196) صحيح البخاري، كتاب الصوم، باب الوصال الى السحر ، ح: 1967 .
شرح المفردات:
إلى السَّحَر: یعنی اگلے دن کی سحری تک صرف ۔
شرح الحدیث:
سحری تک وصال کرنے سے مراد یہ ہے کہ ایک دن سحری کرنے کے بعد اگلے دن سحری کے وقت ہی کھانا کھانا، یعنی درمیان میں افطاری کے لیے کچھ نہ کھانا پینا۔ اتنے سے وصال کی رخصت دی گئی ہے، لیکن اگر کئی کئی دن تک سحری و افطاری نہ کی جائے اور وصال ہی کیا جائے تو یہ عمل شرعاً قطعی طور پر ناجائز ہے، بلکہ از روئے حدیث اتنی تکالیف و مشقت اور بھوک و پیاس برداشت کرنے کے باوجود بھی وہ روزے باطل قرار پاتے ہیں۔
اسی طرح نفلی روزوں میں فصل ضروری ہے، یعنی بغیر وقفے کے روزانہ روزہ رکھنا بھی جائز نہیں ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: لا صَوْمَ مَنْ صَامَ الدَّهْرَ ”عمر بھر روزہ رکھنے والے کا روزہ نہیں ہوتا ۔“ [صحيح البخاري: 1878]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اگر روزہ رکھنے سے کسی کا حق ادا نہ ہوتا ہو یا کوئی واجب چھوٹتا ہو تو اس صورت میں صوم الدھر (یعنی بغیر ناغے کے روزانہ روزہ رکھنا حرام ہے، اگر کوئی ایسا مندوب عمل رہتا ہو جونفلی روزے سے اولیٰ ہو تو مکروہ ہے اور اگر روزہ اس عمل کے قائم مقام ہو تو مکروہ نہیں ہے، لیکن جو صورت افضل ہے، وہ یہ ہے کہ ایک دن روزہ رکھا جائے اور ایک دن چھوڑا جائے۔ [مجموع الفتاوي: 302/22]
بَابُ أَفْضَلِ الصِّيَامِ وَغَيْرِ
افضل روزوں کا بیان
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ میں کہتا ہوں کہ جب تک میں زندہ رہوں گا تب تک دن کو روزہ رکھا کروں گا اور رات کو قیام کیا کروں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مجھ سے) فرمایا: تم نے یہ کہا ہے؟ میں نے جواب دیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ، میں نے ہی کہا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقیناً تو اس کی طاقت نہیں رکھ سکتا تو (ایسے کیا کر کہ ) روزہ رکھ بھی لیا کر اور چھوڑ بھی دیا کر، نماز بھی پڑھا کر اور سو بھی لیا کر اور ایک مہینے میں (صرف) تین دن روزے رکھا کر، کیونکہ نیکی اس کے دس گنا ملتی ہے اور یہ ساری زندگی روزے رکھنے کے برابر ہے۔ میں نے کہا: میں اس سے بھی افضل کی طاقت رکھتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر ایک دن روزہ رکھا کر اور دو دن چھوڑا کر ، میں نے کہا: میں اس سے بھی افضل کی طاقت رکھتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر ایک دن روزہ رکھا کر اور ایک دن چھوڑا کر ۔ یہ داؤد علیہ السلام کے روزوں کے مثل ہے اور یہی افضل روزے ہیں۔ میں نے کہا: میں اس سے بھی افضل کی طاقت رکھتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس سے افضل کچھ نہیں ہے۔
ایک روایت میں ہے: میرے بھائی داؤر علیہ السلام کے روزے سے اوپر کوئی روزہ نہیں ہے۔ پوری زندگی کا نصف۔ ایک دن روزہ رکھ لے اورایک دن چھوڑ دے۔
(197) صحيح البخاری ، کتاب الصوم، باب صوم الدهر ، ح: 1976 – صحیح مسلم ، کتاب الصيام، باب النهي عن صوم الدهر ، ح: 1159
شرح المفردات:
مَا عِشْتُ: جب تک میں زندہ رہوں گا، جب تک میری زندگی ہے۔ /واحد مذکر و مؤنث متکلم فعل ماضی معلوم، باب ضَرَبَ يَضْرِبُ ۔
أطيق: میں طاقت رکھتا ہوں، میں قدرت رکھتا ہوں ۔ /واحد مذکر و مؤنث متکلم فعل مضارع معلوم، باب افعال۔
شَطْرُ الدَّهر: آدھی زندگی ۔
شرح الحديث:
صوم الدهر (یعنی پوری زندگی روزے رکھنا ) ممنوع ہے، اور طاقت ہونے کے باوجود بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت نہیں دی، کیونکہ شریعت کا مطلوب صرف حقوق اللہ کی ادائیگی ہی نہیں ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی بجا آوری بھی مطلوب ہے، جو ہر وقت روزے کی حالت میں رہنے کی وجہ سے ادا نہیں ہو سکتی۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!